پاکستان افغانستان تعلقات کا چیلنج
اشاعت کی تاریخ: 28th, March 2025 GMT
پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات ایک پیچیدہ صورتحال اختیار کر چکے ہیں۔دونوں اطراف میں ہمیں بد اعتمادی کا ماحول دیکھنے کو ملتا ہے ۔پاکستان میں افغانستان سے تعلقات کے تناظر میں دو رائے پائی جاتی ہیں۔اول، ہمیں معاملات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے اور اگر ہمیں طاقت کا استعمال بھی کرنا پڑے تو اس سے گریز نہ کیا جائے۔
دوئم، ہمیں افغانستان سے تعلقات کی بہتری کے لیے مذاکرات ہی کا راستہ اختیار کرنا ہوگا کیونکہ اس وقت افغانستان سے تعلقات میں بگاڑ یا جنگی ماحول کا پیدا ہونا کسی بھی صورت پاکستان کے مفاد میں نہیں ہوگا۔حال ہی میں پاکستان نے الزام لگایا ہے کہ ملک میں ہونے والی دہشت گردی کے پیچھے جو خارجی عوامل ہیں ان میں افغانستان سمیت بھارت سرفہرست ہے ۔
بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ افغان حکومت کسی بھی طور پر اس نقطہ کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ اس کی سرزمین عملا پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں استعمال ہو رہی ہے یا کالعدم تحریک طالبان جو پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے اسے کسی نہ کسی شکل میں افغان حکومت کی سہولت کاری حاصل ہے۔ پاکستان تواتر کے ساتھ افغان حکومت کے ساتھ ٹی ٹی پی سے تمام جڑے مسائل کا تبادلہ کر رہا ہے لیکن افغان حکومت کی جانب سے اس تناظر میں کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہوئی اور نہ ہی پاکستان کی بات کو تسلیم کیا جا رہا ہے جو تعلقات میں مزید بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔
پاکستان افغانستان کے تعلقات کے تناظر میں دو بڑی اہم پیش رفت حالیہ دنوں میں ہوئی ہیں۔ اول، امریکی وفد کا دورہ کابل جس میں ان کے خصوصی ایلچی برائے مغوی افراد ایڈم بوہلر اور زلمے خلیل زاد جیسی شخصیت شامل تھی۔کہا جاتا ہے کہ اس دورے کا مقصد افغانستان میں قید امریکی شہریوں کی رہائی اور دیگر اہم دو طرفہ امور پر بات چیت کرنا تھا۔ایک خبر یہ بھی ہے کہ موجودہ صورتحال میں امریکا افغانستان سے براہ راست بات چیت کر رہا ہے اور اس عمل میں وہ پاکستان کی سہولت کاری لینے کے لیے تیار نہیں ہے۔
دوئم، امریکی وفد کے دورے افغانستان کے بعد محمد صادق خان کی قیادت میں پاکستانی وفد کا دورہ کابل دراصل اسی سلسلے کی کڑی ہے۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان اس امر پر اتفاق ہوا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان جو بھی مسائل ہیں ان کو بات چیت کی مدد سے حل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
یہ اطلاعات بھی ہیں کہ آنے والے دنوں میں دونوں ممالک کی طرف سے اعلیٰ وفود کا تبادلہ بھی ہوگا اور بات چیت کے عمل کو مزید آگے بڑھانے کی عملا کوشش کی جائے گی۔اچھی بات یہ ہے کہ افغان حکومت میں ایسے لوگ موجود ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان سے تعلقات میں بہتری پیدا کی جائے اور ٹی ٹی پی کے بارے میں بھی ہمیں پاکستان کے تحفظات پر توجہ دینی ہوگی۔خود پاکستان یہ چاہتا ہے کہ دوحہ مذاکرات ومعاہدے کے تحت افغان حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ اس کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں استعمال نہ ہو اور جو لوگ ٹی ٹی پی کے نام پر پاکستان میں دہشت گردی کر رہے ہیں ان کے خلاف افغان حکومت کو سخت اقدامات اٹھانے چاہیے یا پاکستان کے ساتھ مل کرباہمی حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے۔
بنیادی طور پر افغانستان اور پاکستان کے درمیان بہتر تعلقات محض دو ملکوں تک محدود نہیں بلکہ ان بہتر تعلقات کا براہ راست اثر جنوبی ایشیا اور خطہ کی سیاست پر پڑے گا۔ پاکستان میں یہ احساس بھی پایا جاتا ہے کہ بھارت افغانستان کو پاکستان کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے اور افغان حکومت کو مختلف انداز میں بھارت کی سہولت کاری بھی حاصل ہے۔سیاسی ومعاشی طور پر مستحکم افغانستان اور مستحکم پاکستان نہ صرف دونوں ملکوں بلکہ خطہ کے مفاد میں بھی ہے۔
اس لیے یہ دونوں ملکوں کی ضرورت بنتی ہے کہ وہ آپس کے معاملات میں جو بگاڑ ہے اس کا تصفیہ سیاسی حکمت عملی کے تحت کرنے کی کوشش کریں۔تنازعات،شدت پسندی ،بد اعتمادی اور جنگی ماحول کو اس انداز میں بالادست نہ کیا جائے کہ وہ دونوں ملکوں کے لیے نئے خطرات کو جنم دینے کا سبب بنے۔پاکستان کی سیکیورٹی پالیسی کا ایک اہم نقطہ یہ ہی ہے کہ وہ تنازعات اور جنگوں کے معاملات میں مزید جنگ کا حصہ بننے کی بجائے افہام و تفہیم کو بنیاد بنا کر مذاکرات کا راستہ اختیار کرے گا۔اس لیے افغانستان کے ساتھ بہتر تعلقات اور اعتماد سازی کا ماحول ہی پاکستان کے مفاد میں ہے اور یہی ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ دنوں میں بات چیت کے جو نئے امکانات پیدا ہوئے ہیں ان سے ہر صورت میں فائدہ اٹھانا ان دونوں ممالک کے مفاد میں ہے۔مذاکرات کا دروازہ کھلا رکھنا چاہیے اور جو بھی سیاسی آپشن بات چیت کے عمل کو آگے بڑھا سکتے ہیں اس کو اپنی ترجیح کا حصہ بنانا ہماری ضرورت کے زمرے میں آتا ہے۔یقینی طور پر تعلقات کی نوعیت پیچیدہ ہے اور کافی بد اعتمادی کا ماحول بھی ہے۔ لیکن اس کے باوجود تدبر ،فہم و فراست اور بردباری کے ساتھ ہمیں ان معاملات کو آگے بڑھانا ہے۔
کیونکہ اس خطرے کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ اگر پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں بہتری نہیں آتی تو افغان حکومت کا جھکاؤ بھارت کی جانب مزید بڑھ سکتا ہے، جو پاکستان کے لیے مزید نئے خطرات کو جنم دینے کا سبب بنے گا۔ایک طرف پاکستان کو افغان حکومت کے ساتھ تعلقات کی بہتری میں غیر معمولی اقدامات درکار ہیں تو دوسری طرف سفارتی اور ڈپلومیسی کے محاذ پر پاکستان کو بڑی طاقتوں سمیت دیگر ممالک کی حمایت بھی حاصل کرنی ہوگی۔
کیونکہ سفارتی اور ڈپلومیسی کی جنگ سیاسی تنہائی میں نہیں لڑی جاتی بلکہ اس کے لیے ہم جتنا زیادہ دیگر ممالک کو اپنے تحفظات اور معاملات پر اعتماد میں لے سکیں گے یہ ہمارے مفاد میں ہوگا۔ بالخصوص چین ،امریکا اور روس کا کردار اہم ہے۔ امریکا کو بھی باور کروانا ہوگا کہ وہ افغان حکومت پر دباؤ ڈالے کہ اس کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں استعمال نہ ہو۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان اور افغانستان کے درمیان پاکستان کے خلاف افغانستان سے افغان حکومت پاکستان میں کے مفاد میں تعلقات میں ان کے خلاف میں افغان سے تعلقات اختیار کر کے ساتھ بات چیت ہیں ان کے لیے رہا ہے ہے اور
پڑھیں:
جامعات میںداخلوں کی کمی ‘ایک چیلنج
پاکستان میں ہائر ایجوکیشن یا اعلی تعلیم سے جڑے معاملات میں کئی طرح کے چیلنجز ہیں ۔ اسی وجہ سے ہم اپنی اعلی تعلیم کے اہداف یا معیارات کو قائم کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔
اس کی ایک بڑی وجہ جہاں حکومت سمیت اعلی تعلیم سے جڑے پالیسی ساز ہیں وہیں جامعات کی سطح پر بھی جو علمی اور فکری کام ہونا چاہیے تھا اس کا بڑا فقدان دیکھنے کو مل رہا ہے۔ بنیادی تعلیم سے لے کر اعلی تعلیم کے معاملات حکومتی ترجیحات کا حصہ نہیں ہیں۔
اس کی ایک جھلک ہمیں ہائر ایجوکیشن سے جڑے فیصلوں ، بجٹ کو مختص کرنے اورنئی جدت کی بنیاد پر تبدیلیوں کے مطابق خود کو نہ ڈھالنے سے، دیکھنے کو ملتی ہے۔اس لیے ساری ذمے داری جامعات اور ان کی قیادت پر نہیں ڈالی جاسکتی بلکہ حکومت کی فیصلہ سازی اور کمزور پالیسیاں بھی اس ناکامی کے زمرے میں آتی ہیں۔
آج سرکاری یا نجی جامعات کی سطح پر ایک بڑا چیلنج طلبہ و طالبات کی جانب سے داخلوں کی کمی کے طور پر دیکھنے کو مل رہا ہے ۔پچھلے چند برسوں سے داخلوں کی کمی نے جامعات کو مختلف نوعیت کے چیلنجز میں ڈال دیا ہے اور یہ سوال اپنی جگہ اہمیت رکھتا اور غوروفکر کی دعوت بھی دیتا ہے کہ اعلی تعلیم میں داخلوں کی کمی کے پیچھے اصل وجوہات اور محرکات کیا ہیں ۔بالخصوص ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ سماجی علوم میں داخلوں کی کمی کا بحران شدید ہے اور اگر ان داخلوں میں اضافہ نہیں ہوتا تو اس ملک میں سماجی علوم کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ سکتے ہیں۔
بنیادی طور پر آج دنیا میں اعلی تعلیم اور صنعت کے درمیان گہرا تعلق ہے اور ان دونوں اداروں کے درمیان ہم مضبوط رابطہ کاری اور ایک دوسرے کے معاملات کو سمجھ کر کچھ ایسا نیا کرسکتے ہیں کہ دونوں ادارے ایک دوسرے کی ضروریات کو بھی پوراکرنے سمیت ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔لیکن بدقسمتی سے ہم جامعات یا اعلی تعلیم اور انڈسٹری کے درمیان تعلقات میں وہ کچھ نہیںدیکھ رہے جو آج کی جدید دنیا اور جامعات کے تقاضے ہیں۔
جامعات سے جڑے فیصلہ ساز افراد اور اداروں کو اب نئے حالات میں یہ سمجھنا ہوگا کہ پرانی روایات، خیالات اور پرانی حکمت عملی سے اعلی تعلیم کے معاملات کو نہیں چلایا جاسکتا۔آج کی جدید اور کاروباری دنیا ہو یا پروفیشنل ازم سے جڑے معاملات یا مارکیٹ میں آنے والے روزگار کے نئے ٹرینڈز، ان کو نظر انداز کرکے اور پرانی سوچ کے ساتھ کھڑے رہنے سے معاملات حل نہیں ہوسکیں گے ۔مسئلہ محض ڈگری کے حصول کا نہیں بلکہ اس کی اہمیت، معیار یا جدید تقاضوں اور مارکیٹ کی ضرورت کے ساتھ جڑنے سے بھی ہے ۔
ایسے لگتا ہے کہ ہماری نوجوان نسل ڈگری کو بنیاد بنا کر ایک ہی مقام پر کھڑی ہے تو دوسری طرف روزگار کے عدم مواقع، معاشی بدحالی، تربیت کا فقدان ، صنعت کا بحران نے نئی نسل کو ڈگری کی موجودگی کے باوجود نچلے مقام پر کھڑا کیا ہوا ہے۔ ایک بحران ڈگری کی مدت کا ہے اور یہ جو چار سالہ بی ایس پروگرام ہے جس میں تقریباً پانچ برس لگ جاتے ہیں وہ بھی اپنی اہمیت کھو رہا ہے۔
چارسالہ ڈگری پروگرام کی مدت بہت زیادہ ہے اور لوگ اب اتنی مدت کے لیے جامعات کے ساتھ رہنے کے لیے تیار نہیں اور ان پر جو معاشی بوجھ بڑھ رہا ہے یا جو فیسوں میں تواتر کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے اس میں ان کے لیے خود کو اس مدت اور فیس کے لیے جوڑنا سود مند نہیں لگتا۔نوجوان کم مدت میں ایسی ڈگری چاہتے ہیں جو ان کو روزگار کے ساتھ جوڑے اور یہ ڈگری پروفیشنل بھی ہو اور اس کی مدد سے روزگار کا حصول بھی ممکن ہو۔لوگ نوکریوں کے ساتھ پڑھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنی تعلیم اور روزگار دونوں کو بہتر طور مکمل کرسکیں ۔
اس لیے آج کل لمبی مدت کے ڈگری پروگراموں کے مقابلے میں کم مدت کے ڈپلومہ کی اہمیت بڑھتی جارہی ہے اور اس پر جامعات سے جڑے فیصلہ سازوں کو غوروفکر کرکے متبادل راستہ اختیار کرنا چاہیے۔بھاری بھرکم فیسوں کے ساتھ ڈگری کا حصول اور روزگار کے مواقعوں کا نہ ہونا لوگوں کو اعلی تعلیم سے دور کررہا ہے یا ان کو آن لائن پروگراموں کی طرف راغب کررہا ہے۔لیکن ایسے لگتا ہے کہ ہمارے اعلی تعلیم کے ماہرین اور فیصلہ ساز غیر معمولی تبدیلیوں کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔
اسی طرح جب ایک پالیسی کے تحت ہم نے ضلعی سطح پر جامعات کے دائرہ کار کو پھیلایا ہے تو اس سے بڑے شہروں میں تعلیم حاصل کرنے کا رجحان،فیسوں میںکمی یا معیار پر سمجھوتہ کیا یا ہم نے جو کالجوںکی سطح پر بی ایس پروگرام شروع کیے ہیں اس سے بھی بڑے شہروں کی جامعات کو داخلوں کی کمی جیسے مسائل کا سامنا ہے جو ان کی اپنی بقا کا مسئلہ بنتا جارہا ہے۔
یہ نہیں کہ نوجوان اعلی تعلیم حاصل نہیں کرنا چاہتے بلکہ وہ جدید تقاضوں کے مطابق آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور ہمیں ان نوجوانوںکے علمی اور معاشی مسائل کو سمجھ کر اپنی پالیسیوں میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں کو لانے کی ضرورت ہے۔یہ عمل مختلف فیصلہ ساز اور تعلیمی ماہرین کے درمیان ایک بڑی سنجیدہ مشاورت کا تقاضا کرتا ہے کہ ہمیں اپنے موجودہ نصاب میں ایسی کیا بنیادی نوعیت کی تبدیلیاںلانی ہیں جو ہماری ضرورت کو پورا کرسکے۔یہ جو ہم نے 18ویں ترمیم کے بعد وفاق اور صوبوں کی سطح پر ہائر ایجوکیشن کمیشن قائم کیے ہوئے ہیں یہ کس مرض کی دواہیں اور یہاں بیٹھے ہوئے لوگ کیونکر متبادل پالیسی دینے میں ناکام ہیں۔
ایسے لگتا ہے کہ یا تو ان کے پاس اختیارات نہیں ہیں یا ان کو اعلی تعلیم سے جڑے آج کے مسائل کا ادراک نہیں ہے۔صنعت سے جڑے افراد ہمیشہ یہ گلہ کرتے ہیں کہ ہمارے پاس جو نوجوانوں کی نسل اعلی تعلیم کے بعد آرہی ہے اس کے علم اور صلاحیتوں میں وہ کچھ نہیںہے جو ہماری ضرورت ہے۔اس لیے ان کے لیے روزگار کے مواقع بڑھنے کے بجائے کم ہورہے ہیں اور اعلی ڈگری کے مقابلے میںکم پڑھے لکھے نوجوان جو مختلف شارٹ کورسز کی مدد سے ہمارے پاس آرہے ہیں وہ ہماری ضرورت کو پورا کرتے ہیں،یعنی ہماری جامعات میں دی جانے والی تعلیم اعلی صلاحیتوں کو پیدا کرنے سے جڑی ہوئی نہیں ہے۔
جامعات کی سطح پر وہ شعبہ جات جہاں داخلوں کی کمی کا بحران ہے وہاںہمیں ان کے ڈسپلن کے اندر رہتے ہوئے نئے ماڈرن پروگراموں کو جاری کرنا ہوگا جو نئے تقاضوں کے مطابق ہو۔اسی طرح بدقسمتی سے ہم نے اعلی تعلیم سے جڑے معاملات اور فیصلوں کابڑا اختیار ماہرین تعلیم یا جامعات کو دینے کے بجائے بیوروکریسی کے ہاتھوں میںدے دیا ہے اور بیورورکریسی نے مسائل کو اور زیادہ بگاڑ دیا ہے۔جب تک تعلیم کے معاملات ماہرین تعلیم کے پاس نہیں ہونگے اصلاح کے امکانات محدود رہیں گے جو مزید مسائل کو پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔
اس وقت بھی حکومت کو چاہیے کہ وہ اعلی تعلیم سے جڑے مسائل کو سنجیدگی سے لے اور اس پر غوروفکر کرکے تمام متعلقہ فریقین کی مشاورت سے بہتری کا راستہ تلاش کرے ۔کیونکہ موجودہ ہائر ایجوکیشن کا نظام نہ صرف اعلی تعلیم بلکہ معیشت کی ترقی سے جڑے معاملات میں بھی خرابی پیدا کررہا ہے۔کیونکہ جب تک ہم اپنے اعلی تعلیم کے معیارات میںبہتری نہیں پیدا کریں گے یا اس کے تعلق کو مارکیٹ کی ضرورت کے ساتھ نہیں جوڑیں گے بہتری کا راستہ ممکن نہیں۔ خود جامعات کے سربراہان کو اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر ایک ایسا اعلی تعلیم کی ترقی کا روڈ میپ سامنے لانا چاہیے اور اس کو بحث کا حصہ بنا کر حکومت یا اعلی تعلیم کے بارے میں فیصلہ کرنے والوں کے سامنے رکھا جائے تاکہ ہم سب مل کر اعلی تعلیم کے بحران کو حل کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کرسکیں ۔