Express News:
2025-04-25@10:36:45 GMT

بلوچستان اور حبیب جالب

اشاعت کی تاریخ: 29th, March 2025 GMT

ڈاکٹر مالک بلوچ کا تعلق بلوچستان کے پسماندہ علاقے مکران ڈویژن کے شہر تربت سے ہے، وہ بنیادی طور پر ماہر امراض چشم ہیں۔ وہ نوجوانی سے ہی طلبہ کی تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن میں متحرک رہے۔

جب ڈاکٹر مالک بولان میڈیکل کالج سے فارغ التحصیل ہوئے تو بلوچستان نیشنل موومنٹ میں شامل ہوگئے، وہ 90کی دہائی میں سابق وزیراعلیٰ علی اکبر بگٹی کی حکومت میں وزیر صحت کے عہدے پر فائز رہے۔ بی این ایم اور میر حاصل بزنجو کی جماعت نیشنل پارٹی میں ضم ہوگئی تو 2013کے انتخابات میں ڈاکٹر مالک بلوچ مخلوط حکومت کے وزیر اعلیٰ بلوچستان بن گئے۔

بلوچستان کی تاریخ میں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے یہ پہلے وزیر اعلیٰ تھے۔ ڈاکٹر مالک کے دور میں بلوچستان میں امن کے مستقل قیام کے لیے اقدامات ہوئے۔ ڈاکٹر مالک نے جلا وطن بلوچ رہنماؤں کو بلوچستان واپس لانے کے لیے مذاکرات کیے۔ ان کے مذاکرات پایہ تکمیل کو پہنچنے والے تھے، تو ان کی حکومت تحلیل کردی گئی۔ ڈاکٹر مالک کے دور میں تعلیم اور صحت کے شعبوں میں حیرت انگیز ترقی ہوئی مگر لاپتہ افراد کا مسئلہ حل نہ ہو سکا۔

ڈاکٹر مالک بلوچ کی نیشنل پارٹی کو 2018 کے انتخابات میں کوئی نشست نہیں دی گئی۔ ڈاکٹر مالک آج کل بلوچستان اسمبلی کے رکن ہیں۔ انھیں ابھی تک وزیر اعظم کی زیرِ صدارت اجلاسوں میں مدعو کیا جاتا ہے مگر ڈاکٹر مالک کی بلوچستان کے حالات کو معمول پر لانے کی تجاویز پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔

گزشتہ دنوں بولان کے علاقے میں جعفر ایکسپریس پر دہشت گردی کے واقعے کے بعد ڈاکٹر مالک نے مختلف فورمز اور میڈیا پر اپنی تقاریر کے دوران بلوچستان کے بگڑے حالات، ان کی وجوہات اور مسائل کے حل پر مشتمل تجاویز پیش کیں۔ ڈاکٹر مالک بلوچ نے بلوچستان کے حالات کا گہرائی سے تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر بلوچستان میں اسٹیبلشمنٹ کے سائے میں دوبارہ انتخابات ہوئے تو بلوچ قوم ان انتخابات میں حصہ نہیں لے گی۔

ڈاکٹر مالک نے ان حالات کو بہتر بنانے کے لیے یہ تجویز دی کہ طاقت سے مسائل حل نہیں ہونگے، بلکہ زیادہ طاقت استعمال کرنے سے حالات مزید خراب ہوجائیں گے۔ ڈاکٹر مالک نے مزید کہا کہ موجودہ حالات میں انتخابات کرانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ان انتخابات میں لوگ ووٹ ڈالنے پولنگ اسٹیشن نہیں جائیں گے۔ ڈاکٹر مالک نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ بلوچستان کے مسئلے کے حل کے لیے کوئی باضابطہ مذاکرات ہوں گے۔

وہ کہتے ہیں کہ مسلح گروہوں کے پاس بیانیہ ہے جو نوجوانوں کے ذہنوں میں سرایت کر رہا ہے مگر ریاست کے پاس ان نوجوانوں کے لیے کوئی متاثر کن بیانیہ نہیں ہے۔ ڈاکٹر مالک کا یہ خیال ہے کہ بلوچستان میں 20 سال سے حالات خراب ہیں اور اس عرصے میں دعوؤں کے باوجود حالات مزید خراب ہوئے ہیں۔ اس بناء پر قطعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ بلوچستان کے حالات کا حل صرف مذاکرات ہیں۔

جان بلیدی بنیادی طور پر انجنیئر ہیں مگر وہ طالب علمی کے زمانہ میں بلوچ طلبہ کی تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس میں فعال رہے۔ وہ 80 دہائی کے آخری عشرے میں بننے والی سیاسی جماعت بلوچستان نیشنل موومنٹ کا حصہ رہے، جب بی این ایم اور نیشنل پارٹی میں انضمام ہوا تو جان بلیدی نیشنل پارٹی کا حصہ بن گئے، وہ نیشنل پارٹی کے سیکریٹری جنرل رہے۔ بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کے رکن بھی رہے اور آج کل نیشنل پارٹی کے سینیٹر ہیں۔

جان بلیدی اور نیشنل پارٹی کے اکابرین پرامن سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔ جان بلیدی نے 2018کے انتخابات میں حصہ لیا مگر الیکشن کمیشن انھیں کامیابی کا سرٹیفکیٹ جاری نہیں کیا۔ سینیٹر بلیدی کا کہنا ہے کہ ایک سوچ یہ رہی ہے کہ بلوچستان کے مسائل سیاسی طور پر حل نہیں ہونگے۔ اس کے مقابلے میں سیاسی سوچ بھی ہے کہ ہمیں پاکستان میں رہنا ہے اور اپنے مسائل جمہوری طریقے سے حل کرسکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انتخابات کو ریگولیٹ کیا جانا تو عام سی بات ہوگئی ہے کہ سیاسی سوچ کو اہمیت نہیں دی جاتی جس کی بناء پر فاصلے بڑھ گئے ہیں۔

جان بلیدی کہتے ہیں کہ ریاست کو عوام میں اعتماد قائم کرنے کے لیے بنیادی فیصلے کرنے ہونگے مگر ریاست اپنی پسندیدہ سیاسی جماعتوں کو اقتدار میں دیکھنا چاہتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ این ایف سی ایوارڈ منصفانہ نہیں ہے ۔

اختر مینگل کے والد سردار عطاء اﷲ مینگل نیشنل پارٹی کے رہنما تھے۔ جب 1972میں نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علماء اسلام نے بلوچستان میں مخلوط حکومت قائم کی تو صدر ذوالفقار علی بھٹو نے نیپ کے رہنما میرغوث بخش بزنجوکو بلوچستان کا گورنر اور سردار عطاء اللہ مینگل کو وزیراعلیٰ مقررکیا۔ یہ بلوچستان کے منتخب نمایندوں کی پہلی حکومت تھی، مگر پیپلزپارٹی کی وفاقی حکومت نے 9 ماہ بعد اس حکومت کو برطرف کردیا اور نیشنل عوامی پارٹی کے تمام رہنماؤں کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا۔

اختر مینگل 90 کی دہائی میں بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بنے مگر ان کی حکومت بھی ختم کردی گئی۔ اختر مینگل کو سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں کئی سال تک کراچی سینٹرل جیل میں مقید رکھا گیا، وہ سابق وزیر اعظم بانی تحریک انصاف کے خلاف مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں قائم ہونے والے اتحاد پی ڈی ایم کا حصہ تھے مگر جب 2024کے انتخابات سے قبل مسلم لیگ ن نے دوبارہ صف بندی کی تو سردار اختر مینگل کی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی اور محمود خان اچکزئی کی جماعت کو نظر اندازکردیا گیا۔

اختر مینگل گزشتہ انتخابات میں خود تو کامیاب ہوئے مگر ان کی جماعت کے کچھ اراکین کو انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اختر مینگل نے بلوچستان کے بارے میں وفاق کی پالیسیوں سے مایوس ہوکر قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دیدیا۔ اگرچہ ان کا استعفیٰ قومی اسمبلی کے اسپیکر نے منظور نہیں کیا مگر انھوں نے اپنے استعفیٰ کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے حالات اتنے خراب ہیں کہ ریاست کا بلوچستان کے مختلف علاقوں کا کنٹرول ختم ہوچکا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک باقاعدہ منصوبے کے تحت منحرفین کو خاموش کیا جا رہا ہے اور حکومت وعدہ کے باوجود لاپتہ افراد کا مسئلہ حل نہیں کر پا رہی۔

 اب بلوچستان نیشنل پارٹی اور نیشنل پارٹی کے رہنماؤں نے فیصلہ کیا ہے کہ عید کے بعد آل پارٹیزکانفرنس کا انعقاد کیا جائے۔ ان جماعتوں کے رہنماؤں کی متفقہ رائے ہے کہ حالیہ گرفتاریوں اور لاپتہ افراد کا مسئلہ حل نہ ہونے سے حالات مزید خراب ہوگئے ہیں۔ جماعت اسلامی کے رہنما اور حق دو تحریک کے بانی مولانا ہدایت الرحمن نے بھی حالیہ گرفتاریوں اور لاپتہ افراد کا مسئلہ حل نہ ہونے کے خلاف احتجاج کا طریقہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

نیشنل پارٹی کے سابق سینیٹر طاہر بزنجو نے اس نکتے پر خاص طور پر زور دیا ہے کہ بلوچستان میں 20 برسوں سے بدامنی کے خلاف مسلسل آپریشن ہو رہے ہیں اور حالات مزید خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بلوچستان کے مسئلے کا حل صرف مذاکرات ہی ہیں۔ کوئٹہ سے جیکب آباد جانے والی ریلوے لائن پر ریل گاڑیوں کی آمد 15دن سے بند ہے، البتہ گزشتہ روز یہ خوش آیند خبر سامنے آئی ہے کہ جعفر ایکسپریس کو دوبارہ بحال کردیا گیا ہے، جب کہ بولان ایکسپریس اب پورا ہفتہ چلے گی جب کہ پہلے ہفتے میں صرف دو دن چلتی تھی۔

بلوچستان کو سندھ، پنجاب اور پختون خوا سے ملانے والی شاہراہ لاپتہ افراد کے لواحقین کے دھرنوں اور آپریشن کی بناء پر بند رہتی ہے۔ کوئٹہ میں بھی انٹرنیٹ سروس بند ہوئے ایک ہفتہ گزر چکا ہے۔ اب تو انتظامیہ نے باقاعدہ ہدایات جاری کی ہیں کہ کوئٹہ سے شام کے بعد دیگر شہروں کو جانے والی ٹریفک پر پابندی ہوگی۔ کوئٹہ سے آنے جانے کا واحد ہوائی راستہ ہے جس کا ٹکٹ ہنگامی ضرورت کی بناء پر 80 ہزار تک پہنچ گیا ہے اور گوادر سے کراچی آنے والی فلائٹ کا ٹکٹ بھی تقریباً 70سے 80 ہزار میں دستیاب ہے۔

ان حالات میں مزید کسی آپریشن سے صورتحال بہتر ہونے کے بجائے خراب ہوگی اور حبیب جالب کی تاریخی نظم کے یہ اشعار پھر حقیقت بن جائیں گے:

محبت گولیوں سے بو رہے ہو

وطن کا چہرہ خون سے دھو رہے ہو

گمان تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے

یقین مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بلوچستان کے حالات حالات مزید خراب بلوچستان نیشنل ہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے کہ بلوچستان کے ڈاکٹر مالک نے بلوچستان میں انتخابات میں کے انتخابات اختر مینگل جان بلیدی اور نیشنل کی جماعت بناء پر کہا کہ کے لیے ہے اور

پڑھیں:

پی ٹی آئی رہنما کا موجودہ حالات پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا مطالبہ

اسلام آباد:

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما علی محمد خان نے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی اور موجودہ صورتحال پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلا س بلانے کا مطالبہ کر دیا۔

ایکسپریس نیوز کے پروگرام سینٹر اسٹیج میں رہنما پی ٹی آئی  علی محمد خان  نے کہا ہے کہ حکومت  کو بانی پی ٹی آئی کو ساتھ لانا ہو گا، حکومت بانی پی ٹی آئی سمیت تمام جماعتوں کو انگیج کرے  میں خود بانی پی ٹی آئی سے بات کروں گا۔

انہوں نے کہا کہ کہتے ہیں کہ حکومت والے فوری طور پر سعودی عرب سمیت دوست ممالک جائے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس فوری بلانا چاہیے، مطالبہ کرتا ہوں کہ  حکومت  کو آج رات یا کل  ہی  مشترکہ اجلاس  بلا لینا چاہیے تھا، میں  سمجھتا ہوں کہ  سب کو اس اجلاس میں شرکت کرنی چاہیے، میں حکومت کو کہوں گا کہ اجلاس بلائیں اور بانی پی ٹی آئی سمیت تمام جماعتوں کو انگیج کریں۔

اُن کا کہنا تھا کہ جب پاکستان پر بات آ جائے تو ہمیں متفقہ طور پر جواب دینا چاہیے، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ قومی یکجہتی چاہیے تو حکومت  اپنی ذات سے نکلے۔ حکومت  کو بانی پی ٹی آئی کو ساتھ لانا ہوگا ، ایک تصویر آجائے  جس میں  بانی پی ٹی آئی وزیر اعظم شہباز شریف  اور  دیگر  ایک  ساتھ نظر آ جائیں، اگر یہ ایک تصویر آ جائے اور  بھارت دیکھ لے  تو بھارت کی جرات نہیں ہوگی، حکومت انگیج کرے  تو میں جا کر بانی پی ٹی آئی سے بات کرتا ہوں ۔

اُن کا کہنا تھا کہ حکومت کو قومی یکجہتی چاہیے تو سب کو انگیج کرے، یہ وقت  کھل کر مضبوط فیصلے کرنے کا ہے ،بھارتی  جارحیت کیخلاف  ہم سب ایک ہیں، اکیلے کوئی جنگ نہیں جیت سکتے ، ملک کو  تقسیم کر کے کوئی جنگ نہیں جیت سکتے، ہمیں پاکستانی بن کر جواب دینا ہے۔

انہوں  نے کہا کہ میرا لیڈر اس وقت جیل میں ہے ۔ رہنما پی ٹی آئی نے کہا کہ میرے لیڈر  نے کہا تھا کہ ہم جواب دینے کا سوچیں  گے نہیں بلکہ جواب دیں گے،پاکستان کے دفاع کے  پیچھے ہٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

ان کا کہنا تھا کہ  قوم انتظار میں ہے کہ نواز شریف کا اس پر کیا جواب آتا ہے انہیں اس وقت خاموشی اختیار نہیں کرنی چاہیے اور کھل کر بات کرنی چاہیے۔

علی محمد خان کا کہنا تھا کہ سب کو ایک پیج پر ہونا چاہیے، ہم بھائی ہیں بھائی آپس میں لڑتے بھی ہیں ،لیکن جب ماں  پر بات آ جائے تو بھائی بھائی کے ساتھ کندھا ملا کر کھڑا  ہوتا ہے۔

علی محمد خان نے کہا کہ  حکومت والے دوست ممالک جائیں اُن کو موجودہ صورت حال پر انگیج کریں، سعودی عرب ، چین  جائیں اور روس بھی جانا پڑے تو جائیں۔

رہنما پی ٹی آئی نے کہا کہ یہ تنقید کا وقت نہیں ہے ، ہم مشورہ دینے کا حق رکھتے ہیں کہ اگر ہم حکومت میں ہوتے تو کیا کرتے۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے جو کیا ہے وہ اچھا قدم ہے لیکن یہ  ردعمل ہے ، ہمیں پیشگی  اقدامات کرنے چاہیں تھے، ہمیں دشمن  کیخلاف تیار رہنا چاہیے تھا۔

علی محمد خان  نے مزید کہا کہ بھارت نے ہمارے ملک میں کئی دہشت گردی کے واقعات کیے، افغان طالبان نے کبھی پاکستان پر حملہ نہیں کیا،افغان طالبان  نہیں بلکہ ٹی ٹی پی  نے پاکستان  میں حملے کیے۔

متعلقہ مضامین

  • دین کی دعوت مرد و زن کی مشترکہ ذمہ داری ہے، ڈاکٹر حسن قادری
  • پی ٹی آئی رہنما کا موجودہ حالات پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا مطالبہ
  • وہ ڈاکٹر اور یہ ڈاکٹر
  • بھارت کے اعلانات غیر مناسب ، ترکی بہ ترکی جواب دیا جائے گا: وزیر خارجہ
  • بھارت پاکستان میں حالات خراب کرے گا، ہمیں اب چوکنا رہنا پڑے گا، عبدالباسط
  • پیپلز پارٹی 17 سال سے حکومت کر رہی ہے، کراچی کے حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے:شاہد خاقان عباسی
  • پیپلز پارٹی 17 سال سے حکومت کر رہی ہے، کراچی کے حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے، شاہد خاقان عباسی
  • کراچی کے موجودہ حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے، شاہد خاقان عباسی
  • کراچی کے موجودہ حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے: شاہد خاقان عباسی
  • فیصل بینک کے اعلیٰ سطحی وفد کا دورہ حبیب یونیورسٹی