عید کے دوران جنگ بندی کے بدلے کچھ قیدیوں کی رہائی بارے ایک نئی تجویز سامنے آ گئی
اشاعت کی تاریخ: 29th, March 2025 GMT
غزہ: غزہ میں جنگ بندی کی خلاف ورزی کے بعد 12 دن تک محصور پٹی پر اسرائیلی حملے جاری ہیں۔ دوسری طرف حماس نے اعلان کیا ہے کہ تنظیم اور ثالثوں کے درمیان جنگ بندی کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے بات چیت حالیہ دنوں میں تیز ہوئی ہے، نئی پیش رفت سامنے آئی ہے۔
اسرائیلی براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے مطابق عید الفطر کی جنگ بندی کے بدلے میں کچھ اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کی تجویز پر تل ابیب اتفاق کر سکتا ہے۔
اسرائیلی میڈیا نے مزید کہا کہ یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ قیدیوں کی ایک چھوٹی کھیپ کے بدلے تحریک کے مطالبات کیا ہیں۔ رہا ہونے والوں کے مجوزہ ناموں میں امریکی نژاد ایڈن الیگزینڈر کو شامل کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ثالث حماس کے بعض سینئر ارکان میں رمضان کے اختتام پر عید الفطر کی چھٹیوں کے دوران جنگ بندی کے لیے یرغمالیوں کی ایک چھوٹی تعداد کو رہا کرنے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔اس تجویز کے حوالے سے امریکہ اور قطر کی شرکت کے ساتھ بھرپور کوششیں جاری ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ معاہدہ عید الفطر سے اتنا منسلک نہیں تھا جتنا کہ یہ گذشتہ چند دنوں میں حماس کے خلاف غزہ میں پھوٹنے والے مظاہروں کے بعدا ہوا ہے۔ یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ تحریک مظاہرین کو دبانا چاہتی ہے لیکن اسرائیل کی جانب سے غزہ میں دوبارہ آپریشن شروع کرنے کی وجہ سے ایسا کرنے سے قاصر ہے جہاں فوج اس کےکھلے عام پائے جانے والے ارکان کو نشانہ بناتی ہے۔
نیٹ ورک نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ جنگ بندی، چاہے یہ کئی دنوں تک جاری رہے حماس کو احتجاج پر قابو پانے کی اجازت دے گی جو تحریک کے اندر تشویش کا ایک بڑا ذریعہ تھے۔
یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی جب ایک سینئر عرب سفارت کار نے ٹائمز آف اسرائیل کو بتایا کہ قطر نے حماس کو الیگزینڈر کو رہا کرکے جنگ بندی کی بحالی کے لیے ایک نئی امریکی تجویز پیش کی تھی، جس کے بدلے میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ میں پرامن رہنے اور لڑائی کے مستقل خاتمے کے لیے مذاکرات کی بحالی کے لیے ایک بیان جاری کیا تھا۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ حماس نے پہلے ہی مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی خصوصی ایلچی اسٹیو وٹ کوف کی ایک سابقہ تجویز کو مسترد کر دیا تھا، جس میں جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں توسیع کی کوشش کی گئی تھی، حماس نے جنوری میں ہونے والے معاہدے کی شرائط پر عمل کرنے پر زور دیا گیا تھا، جو 2 مارچ کو اپنے دوسرے مرحلے میں داخل ہونے والا تھا۔
تاہم وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے حماس کی عسکری اور حکومتی صلاحیتوں کو ختم کرنے تک جنگ روکنے سے انکار کر دیا اور اس طرح عارضی جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں توسیع کی کوشش کرتے ہوئے، دوسرے مرحلے میں داخل ہونے سے انکار کر دیا۔
دو ہفتوں سے زائد تعطل کے بعد اسرائیل نے 18 مارچ کو غزہ میں اپنی شدید فوجی کارروائی دوبارہ شروع کی۔ حماس نے ابھی تک تازہ ترین امریکی تجویز کا جواب نہیں دیا ہے لیکن قطری ثالثوں نے تحریک کو مطلع کیا ہے کہ تعمیل ٹرمپ کے ساتھ خیر سگالی پیدا کرے گی۔ سفارت کار کے مطابق یہ امکان بڑھ گیا ہے کہ وہ نیتن یاہو کو مستقل جنگ بندی پر راضی کرنے کے لیے دباؤ ڈالیں گے۔
حماس پولٹ بیورو کے رکن باسم نعیم نے جمعے کی شام اس بات کی تصدیق کی کہ مذاکرات میں تیزی آ رہی ہے، اور تحریک کو امید ہے کہ آنے والے دنوں میں ثالثوں کے ساتھ تیز رابطوں کے بعد، جنگی صورت حال میں حقیقی پیش رفت دیکھنے کو ملے گی۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: جنگ بندی کے مرحلے میں کے بدلے نے والے کے لیے
پڑھیں:
حماس رہنما جنگ بندی پر راضی نہیں، وہ مرنا چاہتے ہیں اور اسکا وقت آگیا؛ ٹرمپ کی دھمکی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ حماس، غزہ میں جنگ بندی نہیں چاہتا اور اب ان کے رہنما شکار کیے جائیں گے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی صدر ٹرمپ نے کہا کہ یہ افسوسناک ہے، حماس دراصل معاہدہ کرنا ہی نہیں چاہتی تھی۔
امریکی صدر نے مزید کہا کہ مجھے لگتا ہے وہ (حماس رہنما) مرنا چاہتے ہیں اور اب وقت آ گیا ہے کہ یہ معاملہ ہمیشہ کے لیے ختم کردیا جائے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ حماس کے رہنما اب شکار کیے جائیں گے۔
ادھر اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے بھی دھمکی دی ہے کہ غزہ جنگ بندی نہ ہونے کے بعد اسرائیل اب ’’متبادل راستے‘‘ اپنائے گا تاکہ باقی مغویوں کی بازیابی اور غزہ میں حماس کی حکمرانی کا خاتمہ کیا جاسکے۔
خیال رہے کہ امریکا اور اسرائیل یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب ان دونوں نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے بالواسطہ مذاکرات سے اپنے نمائندے واپس بلالیے ہیں۔
دوسری جانب حماس کے سیاسی رہنما باسم نعیم نے امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف پر الزام لگایا کہ وہ مذاکرات کی اصل نوعیت کو مسخ کر رہے ہیں۔
حماس رہنما نے الزام عائد کیا کہ غزہ جنگ بندی پر امریکی موقف میں تبدیلی دراصل اسرائیل کی حمایت اور صیہونی ایجنڈا پورا کرنے کے لیے کی گئی ہے۔
یاد رہے کہ دوحہ میں مجوزہ غزہ جنگ بندی کے تحت 60 روزہ جنگ بندی، امداد کی بحالی اور فلسطینی قیدیوں کے بدلے اسرائیلی مغوی رہائی پر اتفاق کرنا تھا۔
تاہم اسرائیل کے فوجی انخلا اور 60 دن بعد کے مستقبل پر اختلافات ڈیل کی راہ میں رکاوٹ بنے۔