عیدالفطر کے موقع پر پاکستان کے سنیما گھروں میں ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی نئی فلمیں ریلیز ہونے والی ہیں، میٹھی عید کے موقع پر 5 پاکستانی فلمیں نمائش کے لیے پیش کی جائیں گی۔ آئیے جانتے ہیں کہ عیدالفطر کے موقع پر پاکستان میں ریلیز ہونے والی فلمیں کون سی ہیں۔

1:لوو گرو

سپر اسٹار‘ ماہرہ خان اور ہمایوں سعید کی رومانٹک فلم ’لو گُرو‘ اس عید پر سینما گھروں کی زینت بنے گی، ہدایتکار ندیم بیگ کی فلم ’لو گُرو‘ (Love Guru) کے ذریعے ماہرہ خان اور ہمایوں سعید ایک دہائی بعد بڑے پردے پر رومانس کرتے دکھائی دیں گے، اس سے قبل دونوں 2015 کی رومانوی فلم ’بن روئے‘ میں رومانس کرچکے ہیں اور اب شائقین 10 سال بعد انہیں دوبارہ رومانس کرتے دیکھیں گے۔

مزید پڑھیں: مولانا طارق جمیل اداکارہ وینا ملک کو کیوں ڈھونڈتے پھر رہے تھے؟

’لو گُرو‘ (Love Guru) کی شوٹنگ پاکستان سمیت برطانیہ میں بھی کی گئی ہے جبکہ اس کی کاسٹ میں دیگر بھی نامور اداکار شامل ہیں۔ معروف اداکار، ہدایتکار اور اسکرین رائٹر واسع چوہدری نے فلم ‘لو گرو’ کی کہانی لکھی ہے لوو گرو کو سلمان اقبال فلمز، اے آر وائی فلمز اور سکس سگما پلس کے بینر تلے عید الفطر پر ریلیز کیا جائے گا۔

2:قلفی

معروف اداکار شہروز سبزواری اور اداکارہ و ماڈل سعیدہ امتیاز کی فلم ’قلفی‘ عید پر ریلیز کی جائے گی۔ فلم ایکشن، کامیڈی، ڈرامہ اور سسپنس سے بھرپور ہے۔ فلم میں شہروز سبزواری، شامل خان، جاوید شیخ، معمر رانا، عدنان شاہ ٹیپو، سعیدہ امتیاز، مریم انصاری، لیلیٰ دستان، بابر علی، ولی حمید علی خان، مشہود قادری، ازمی، محمود اسلم اور فیصل نقوی جیسے سپر اسٹارز شامل ہیں۔

فلم کے پروڈیوسر مشہود قادری کا کہناہے کہ فلم قلفی صرف ایک فلم نہیں یہ ایک تجربہ ہے اور ہم شائقین کی پسند کو مد نظر رکھتے ہوئے پراسراریت، رومانس، ایکشن اور مزاح سب ایک چھت تلے اکھٹا کر کے دکھانا چاہتے ہیں۔

3: کبیر

فلم’ کبیر ‘ کی کاسٹ میں اداکار میثم علی، سکینہ خان، انعم تنویر، عدنان شاہ ٹیپو، جہانگیر جانی اور سخاوت ناز سمیت دیگر فنکار شامل ہیں۔ لالی ووڈ کی اس فلم کو نیہا لاج نے ڈائریکٹ کیا ہے اور فلم کے پرڈیوسر میثم علی ہیں، اس فلم کو عید الفطر پر سینماؤں میں ریلیز کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں: وینا ملک کا اپنے بچوں کی پیدائش سے متعلق اہم انکشاف

4:لمبی جدائی

معروف ڈائریکٹر جاوید رضا اور پروڈیوسر ملک مشتاق کی نئی پاکستانی فلم “لمبی جدائی” عید الفطر میں ریلیز کی جائے گی، اس فلم کے ہیرو طیب خان، اور ہیروئن فضا مرزا ہیں، فلم کے پروڈیوسر ملک مشتاق کا کہنا ہے کہ یہ فلم نفع کمانے کے لیے نہیں بلکہ فلم انڈسٹری کی بحالی کے لیے بنائی گئی ہے، وہ چاہتے ہیں پاکستان فلم انڈسٹری دوبارہ سے پروان چڑھے، فلم “لمبی جدائی”کے نمایاں فنکاروں میں بابر علی، نواز خان، فضا مرزا، طیب خان، اظہر رنگیلا، طلعت شاہ اور حریم فاطمہ نمایاں ہیں۔

5:مارشل آرٹسٹ

فرحان خان، شاز خان اور صنم سعید کی کھیلوں کے فروغ کو اجاگر کرتی فلم ’’مارشل آرٹسٹ‘‘ بھی سینما گھروں کی زینت بنے گی، فلم میں منفرد پیغام بھی دیا گیا ہے۔ میٹھی عید پر پاکستانی فلموں کے علاوہ شائقین دو ہالی ووڈ فلمیں بھی سلور اسکرین پر دیکھ سکیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پاکستانی سنیما سنیما فلمیں ماہرہ خان ہمایوں سعید.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پاکستانی سنیما فلمیں ماہرہ خان ہمایوں سعید پر پاکستان میں ریلیز ریلیز کی کے لیے فلم کے

پڑھیں:

سید علی گیلانیؒ… سچے اور کھرے پاکستانی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250916-03-6
متین فکری
سید علی گیلانی کی چوتھی برسی یکم ستمبر کو منائی گئی۔ اس موقع پر اسلام آباد کے قومی عجائب گھر میں سید علی گیلانی کارنر کا افتتاح کیا گیا جس میں ان کے زیر مطالعہ قرآن پاک، جائے نماز اور دیگر اشیا رکھی گئی ہیں۔ انہیں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ، مصور پاکستان علامہ اقبالؒ اور دیگر اکابرین کے ساتھ ان اہم شخصیات کی صف میں جگہ دی گئی ہے۔ جنہوں نے تاریخ میں انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ گیلانی صاحب سچے اور کھرے پاکستانی تھے۔ اتنے سچے اور کھرے کہ شاید ہماری حکمران اشرافیہ ان کے مقابلے میں خاک چاٹتی نظر آئے۔ وہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجوں کے درمیان جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے نعرہ لگاتے تھے ’’ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے‘‘ سامعین پوری قوت سے اس نعرے کو دہراتے اور مقبوضہ کشمیر کی سرزمین دیر تک اس نعرے سے گونجتی رہتی۔ یہ نعرہ گیلانی صاحب کی پہچان بن گیا تھا وہ جہاں بھی جاتے یہ نعرہ ان کے ہمرکاب ہوتا تھا۔ وہ مقبوضہ کشمیر میں پیدا ہوئے وہیں پلے بڑھے اور کم و بیش 60 سال تک اِس مقتل میں سینہ تانے کھڑے اپنے پاکستانی ہونے کا برملا اعتراف کرتے رہے لیکن کوئی طاقت انہیں ان کے موقف سے منحرف نہ کرسکی۔ بتایا جاتا ہے کہ جب گیلانی صاحب نے جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے اپنی سیاست کا آغاز کیا تو انہیں بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں نے گھیر لیا اور انہیں مالی و مادی ترغیبات کے ذریعے ٹریپ کرنے کی کوشش کی۔ ان سے کہا گیا کہ آپ بے شک بھارت کی حکومت پر تنقید کریں اس کی کشمیر پالیسی کے بخیے اُدھیڑیں، بھارتی فوج کے مظالم کو نشانہ ہیں لیکن ہمارا آپ سے صرف ایک مطالبہ ہے کہ آپ کشمیر کے بھارت سے الحاق کو متنازع نہ بنائیں۔ اس کے بدلے میں ہم آپ کی ہر طرح خدمت کو تیار ہیں، آپ کو ماہانہ وظیفہ دیں گے، اگر حکومت نے آپ کو گرفتار کرلیا تو آپ کی فیملی کی دیکھ بھال کی جائے گی اور اس کی تمام ضرورتیں پوری کی جائیں گی۔ آپ کو بیرون ملک سفر کی بھی اجازت ہوگی۔ گیلانی صاحب نے خفیہ اہلکاروں سے کہا کہ یہ پیش کش کسی اور کو کرو وہ بکائو مال نہیں ہیں۔ گیلانی صاحب نے بھارت پر یہ بھی واضح کردیا کہ وہ ریاست جموں و کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کو کسی صورت بھی جائز نہیں سمجھتے، یہ ایک غیر فطری الحاق ہے جو لازماً ختم ہو کر رہے گا اور کشمیر پاکستان کا حصہ بن کر رہے گا۔ ان کے اس واضح اور دو ٹوک موقف نے بھارت کو ان کا جانی دشمن بنادیا۔ انہیں بار بار گرفتار کیا جاتا رہا، اس طرح انہوں نے پندرہ سال سے بھی زیادہ عرصہ سلاخوں کے پیچھے گزارا جبکہ عمر کا آخری حصہ انہوں نے گھر میں نظر بندی کی حالت میں بسر کیا۔

گیلانی صاحب کی پاکستانیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں جب ایک سازش کے تحت مظفرآباد سے سرینگر تک دوستی بس کا اجرا ہوا تو بھارت اور پاکستان دونوں کی خواہش تھی کہ افتتاحی سفر میں دوسرے کشمیری لیڈروں کے ساتھ گیلانی صاحب بھی اس بس میں مظفر آباد آئیں۔ پرویز مشرف نے حزب المجاہدین اور جماعت اسلامی کے ذریعے گیلانی صاحب پر دبائو ڈالا کہ وہ دوستی بس کے ذریعے پاکستان

ضرور تشریف لائیں اس طرح نہ صرف پاکستان میں ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا بلکہ کشمیر کاز کو بھی تقویت ملے گی۔ گیلانی صاحب نے ہر طرف سے دبائو کے بعد فیصلہ حریت کانفرنس کی مجلس شوریٰ پر چھوڑ دیا جس نے ان کا موقف سننے کے بعد یہ فیصلہ دیا کہ گیلانی صاحب کو دوستی بس کے ذریعے پاکستان نہیں جانا چاہیے، حقیقت یہ ہے کہ گیلانی صاحب پاکستان آنا چاہتے تھے اور بار بار آنا چاہتے تھے، پاکستان ان کے دل کی دھڑکنوں میں بسا ہوا تھا۔ انہوں نے اپنی طالب علمانہ زندگی کے کئی قیمتی سال لاہور میں گزارے تھے اور اس کی یاد انہیں بے چین کیے رکھتی تھی۔ وہ اوّل و آخر پاکستانی تھے، لیکن ان کی پاکستانیت ان سے تقاضا کررہی تھی کہ وہ بھارتی پاسپورٹ پر پاکستان نہ جائیں اور ایک آزاد پاکستانی کی حیثیت سے پاک سرزمین پر قدم رکھیں۔ چنانچہ انہوں نے بھارتی شہری ہونے کی حیثیت سے پاکستان آنے سے انکار کردیا۔ مزید برآں ان کی دور اندیش نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ دوستی بس کے ذریعے مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈالنے کی سازش کی گئی ہے، چنانچہ انہوں نے اس سازش کا حصہ بننے سے گریز کیا۔ دوسرے کشمیری لیڈر دوستی بس کے ذریعے پاکستان آئے لیکن ان کی حیثیت دولہا کے بغیر براتیوں کی سی تھی اور پاکستانیوں نے ان کی پزیرائی سے آنکھیں چرالیں۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ یہ دوستی بس چند ماہ سے آگے نہ چل سکی۔

گیلانی صاحب اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت مسئلہ کشمیر حل کرنے کے قائل تھے۔ ان کے اس موقف میں کبھی تبدیلی نہیں آئی پاکستان بھی سرکاری سطح پر اسی موقف کا علمبردار تھا، چنانچہ جب جنرل پرویز مشرف نے اس موقف سے ہٹ کر مسئلہ کشمیر کا ’’آئوٹ آفس بکس‘‘ حل پیش کیا تو گیلانی صاحب نے اسے قبول کرنے سے گریز کیا۔ وہ اس حد تک برہم ہوئے کہ انہوں نے دہلی کے پاکستانی سفارت خانے میں صدر جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ہاتھ ملانے سے انکار کردیا۔ اس کے نتیجے میں پرویز مشرف نے ناراض ہو کر گیلانی صاحب کے خلاف کئی انتقامی کارروائیاں کیں۔ ان کی حریت کانفرنس کی جگہ میر واعظ عمر فاروق کی حریت کانفرنس کو سرکاری سطح پر تسلیم کرلیا اور اس کی سرپرستی شروع کردی۔ او آئی سی میں گیلانی صاحب کی جگہ عمر فاروق کو مبصر کا درجہ دلوا دیا۔ ان تمام ناانصافیوں کے باوجود گیلانی صاحب اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔

مقبوضہ کشمیر میں جب پرامن سیاسی جدوجہد کی ناکامی کے بعد جہاد کا غلغلہ بلند ہوا اور کشمیری نوجوانوں نے قابض بھارتی فوجوں کے خلاف بندوق اٹھالی تو گیلانی صاحب نے بلاتوقف اس کی حمایت کا اعلان کیا اور سیاسی محاذ پر اسے تقویت دینے کے لیے حریت کانفرنس کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے برملا کہا کہ بھارت کے غیر مصالحانہ رویے نے نوجوانوں کو بندوق اُٹھانے پر مجبور کیا ہے۔ جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کا موقف چونکہ اس کے برعکس تھا اس لیے انہوں نے ایک سمجھوتے کے تحت جماعت اسلامی سے علاحدگی اختیار کرلی اور خود کو نوجوانوں کی سیاسی حمایت کے لیے وقف کردیا۔ گیلانی صاحب اب ہم میں نہیں ہیں لیکن انہوں نے ایک سچے اور کھرے پاکستانی کی حیثیت سے صبر و استقامت اور عزم و ہمت کی جو مشعل فروداں کی ہے وہ اب بھی ہر طرف اُجالا کررہی ہے اور ان کی موجودگی کا احساس دلا رہی ہے۔ رہے نام اللہ کا۔

متعلقہ مضامین

  • دفاعی معاہدے پر سعودی عرب نے ترانہ ریلیز کردیا
  • 3 برس میں 30 لاکھ پاکستانی ملک چھوڑ کر چلے گئے
  • 3 برس میں 30 لاکھ پاکستانی نے ملک چھوڑ کر چلے گئے
  • 3 سال میں، 28 لاکھ 94 ہزار پاکستانی بیرون ملک چلے گئے
  • 23 پاکستانی ماہی گیر عمان کی سمندری حدود میں ڈوب گئے
  • کراچی، مختلف علاقے کے گھروں سے 2 افراد کی گلے میں پھندا لگی لاشیں برآمد
  • سیلابی ریلہ سندھ میں داخل ، گھر دریا کی بے رحم موجوں میں بہہ گئے
  • وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور شہدا کے لیے 5 منٹ نہیں نکال سکے، بیرسٹر عقیل ملک
  • سید علی گیلانیؒ… سچے اور کھرے پاکستانی
  • اسلام آباد میں ڈینگی کے مزید 25 کیسز، مجموعی تعداد 458 ہو گئی