انسانی سماج اور آسمانی تعلیمات
اشاعت کی تاریخ: 30th, March 2025 GMT
مسلمانوں اور غیر مسلموں کے مذہبی حقوق کے حوالے سے ہم کہیں فرق کرتے ہیں تو اعتراض ہوتا ہے کہ آپ ملک میں رہنے والی کچھ آبادی کے مذہبی حقوق کو اپنے حقوق سے مختلف شمار کرتے ہیں جس سے مذہبی مساوات نہیں رہتی۔ اسی طرح غیرمسلم اقلیتوں پر کسی حوالے سے پابندی لگاتے ہیں تو کہاجاتا ہے کہ اس سے مذہبی آزادی مجروح ہو رہی ہے اور مذہبی حقوق پامال ہو رہے ہیں ۔
مذہب کے حوالے سے آج کا بنیادی سوال یہ ہے کہ مذہب کا کوئی معاشرتی کردار ہے یا نہیں؟ اجتماعی معاملات میں مذہب کی ہدایات لی جائیں گی یا نہیں؟ مغرب نے انقلابِ فرانس یعنی ۱۷۹۰ء کے بعد طے کر لیا تھا کہ مذہب کا تعلق عقیدے، اخلاقیات، عبادات اور چرچ کے ساتھ ہے، اجتماعی معاشرت کے ساتھ نہیں ہے۔ یعنی معاشرے کے جو قومی شعبے ہیں تجارت، معیشت، قانون سازی، عدالت وغیرہ ان سے مذہب کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔ انقلابِ فرانس کے بعد مغرب نے جو نئی بنیادیں نظامِ زندگی کے لیے طے کی تھیں ان میں یہ تھا کہ ہم مذہب سے رہنمائی حاصل نہیں کریں گے، مذہبی احکام کی پابندی ضروری نہیں ہے، بلکہ اجتماعیات میں ہم مذہب کی دخل اندازی قبول نہیں کریں گے کہ حکومت ایسی ہونی چاہیے، عدالت ایسی ہونی چاہیے، معیشت ایسی ہونی چاہیے، اور یہ کہ حلال حرام اور جائز ناجائز کے دائرے مذہب کی رو سے طے ہونے چاہئیں، وغیر ذالک۔ اور جس طرح مغرب نے خود کو مذہب کے معاشرتی کردار سے الگ کر لیا، ہم سے تقاضا یہ ہے کہ ہم بھی مذہب کے معاشرتی کردار سے لاتعلق ہو جائیں۔ یہ کشمکش دو سو سال سے چل رہی ہے جس میں ہمارے حکمران طبقے تو گول مول چلے آ رہے ہیں لیکن سول سوسائٹی اور عام مسلمان مذہب کے معاشرتی کردار سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہے۔
مثال کے طور پرمغربی دنیا میں خاندانی قوانین سول لاء کے تحت ہیں اور ان پر مذہبی احکامات کا اطلاق نہیں ہوتا۔ ان کا انسانی حقوق کا فلسفہ نکاح، طلاق، وراثت وغیرہ میں بائبل کے احکام قبول نہیں کرتا۔ عقلِ عامہ جسے کامن سینس کہتے ہیں، اس کی رو سے پارلیمنٹ یا سول سوسائٹی جو طے کردے اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ مغرب کے ہاں مذہب انفرادی اور اختیاری چیز ہے کہ کوئی اختیار کرناچاہے یا نہ کرناچاہے لیکن مسلم معاشروں میں ابھی تک الحمدللہ عام آدمی نکاح، طلاق، وراثت وغیرہ میں مذہب ہی سے رہنمائی حاصل کرتا ہے، کوئی مسلمان اگر امریکہ میں بھی رہتا ہے تو خاندانی معاملات میں وہ علماء سے ہی فتویٰ کے لیے رجوع کرتا ہے۔
مذہب کے معاشرتی کردار میں تجارت اور معیشت بھی ہیں کہ اس میں مذہبی احکام کا کیا دخل ہے۔ اور اس میں سیاست بھی ہے کہ حکومت مذہبی اصولوں کے مطابق قائم ہو، یا حکومت مذہبی احکام کے نفاذ کی ذمہ داری قبول کرے، یا حکومت مذہبی احکام کے نفاذ میں کوئی کردار ادا کرے۔ یہ سب باتیں مغرب کے ہاں ناقابل قبول ہے۔ خاندانی نظام میں، معیشت اور تجارت میں، عدلیہ اور قانون میں ، سیاست اور حکومت میں ، ان چاروں بڑے دائروں میں کہیں بھی مذہب، مذہبی احکام اور مذہبی روایات کی بالادستی کو مغرب تسلیم نہیں کرتا۔
آج کے مسلم معاشروں میں حکومت و سیاست اور قانون و عدالت کے معاملات میں مذہب کا کردارکسی جگہ ہے اور کسی جگہ نہیں ہے، لیکن دو دائروں میں مسلمان ابھی تک مذہب سے وابستہ ہیں اور اس سے دستبرداری کے لیے تیار نہیں ہیں: ایک حلال و حرام کا دائرہ اور دوسرا خاندانی نظام یعنی نکاح و طلاق اور وراثت وغیرہ کے معاملات۔ اگرچہ حکومتی سطح پر مذہبی احکام کو گول مول کرنے کے لیے مختلف حیلے اختیار کیے جاتے ہیں۔ مثلاً ایوب خان مرحوم کے زمانے میں ۱۹۶۲ء میں عورت کو طلاق کا حق دلوانے کے نام پر نکاح فارم میں تفویض ِطلاق کا خانہ رکھا گیا تاکہ مغرب کو مطمئن کر سکیں کہ ہمارے ہاں عورت کو بھی طلاق دینے کا حق حاصل ہے لیکن اس کا کچھ خاص نتیجہ نہیں نکلا کہ اب بھی نکاح ہوتے وقت کسی کو کوئی خبر نہیں ہوتی کہ یہ دفعہ کیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ عام معاشرے نےاسے قبول نہیں کیا۔ عام مسلمان نکاح، طلاق، وراثت اور حلال و حرام کے مسائل میں مذہب سے رہنمائی لیتے ہیں اور اس کے لیے مسجد اور مدرسہ میں ہی جاتے ہیں۔
مغرب کا کہنا ہے کہ مذہب کا ریاست سے کوئی تعلق نہیں ہے اور حکومت کی بنیاد مذہب پر نہیں ہونی چاہیے۔ آج کے مجتہدین اور دانشور بھی یہ بحث چھیڑتے ہیں کہ مذہب کا ریاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کا ایک پہلو عرض کرتا ہوں۔ مجھ سے جب دوست پوچھتے ہیں کہ ریاست کا مذہب سے کوئی تعلق ہے یا نہیں ہے؟ تو میں ان سے مختصراً یہ کہا کرتا ہوں کہ اگر تو ریاست و حکومت میں ہمارے آئیڈیل حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ ہیں تو اس کی تو بنیاد ہی مذہب پر ہے۔ ہمارے ہاں ریاست کا آغاز، جسے خلافت کہتے ہیں، حضرت صدیق اکبرؓ سے ہوتا ہے۔ جب انہوں نے حکومت سنبھالی تھی تو اس کا دائرہ جزیرۃ العرب تھا، حکومت سنبھالتے ہی آپؓ نے پہلی بات یہ کی تھی کہ میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ ’’اقودکم بکتاب اللہ وسنۃ نبیہ‘‘ میں تمہیں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق چلاؤں گا۔ اگر میں کتاب اللہ اور سنت کے مطابق نہ چلوں تو میری اطاعت تم پر فرض نہیں ہے۔ یہی بات حضرت عمرؓ نے کہی تھی جب آپؓ خلیفہ منتخب ہوئے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست و حکومت اور رعایا کے تعلق کی بنیاد قرآن و سنت ہے جبکہ مغرب اس بات کو تسلیم نہیں کرتا اور کہتا ہے کہ مذہب کا ریاست کے ساتھ کوئی تعلق نہیں بلکہ ریاست کی بنیاد سول سوسائٹی کی خواہشات پر ہے۔
ہمارے ہاں سیاسی نظام کاعنوان خلافت ہےجو تقریباً تیرہ سو سال تک قائم رہی ہے۔ خلافت دراصل نیابت ہے یعنی خلیفہ خود مستقل حکمران نہیں ہے بلکہ اصل حاکم کا نائب ہے۔ یہاں ایک مغالطہ دور کرنا چاہتا ہوں کہ خلیفہ نائب ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کا، یہ بات درست نہیں۔ الاحکام السلطانیہ میں قاضی ابویعلیٰ نے روایت نقل کی ہے کہ حضرت صدیق اکبرؓ سے ایک آدمی نے کہا تھا ’’ یا خلیفۃ اللہ!‘‘ آپؓ نے ٹوک دیا اور فرمایا ’’لست بخلیفۃ اللہ انا خلیفۃ رسول اللہ‘‘ میں اللہ کا خلیفہ نہیں ہوں، رسول اللہ کا خلیفہ ہوں۔ یہ بہت بنیادی بات ہے۔ چنانچہ اصول یہ ہے کہ ہمارے ہاں حکومت نیابتِ رسول کا نام ہے اور حکومت کی بنیاد قرآن و سنت ہے، جبکہ مغرب اور آج کا عالمی نظام یہ کہتا ہے کہ مذہب کا ریاست کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔
اس حوالے سے ایک عنوان مذہبی مساوات کا ہے۔ ایک اسلامی ریاست میں متعدد معاملات میں غیر مسلم رعیت کو وہ آزادی نہیں ہے جو مسلمانوں کو حاصل ہے۔ ویسے تو ان کو جائز حقوق حاصل ہیں لیکن کچھ معاملات میں مسلمانوں کا امتیاز ہے۔ مثلاً غیر مسلم شہریوں کو مسلمانوں کے سامنے کھلم کھلا اپنے مذہب کی تبلیغ کا حق نہیں ہے۔ مسیحی یا کوئی اور اقلیت اپنے دائرے میں تعلیم و تبلیغ تو کر سکتے ہیں لیکن مسلم اکثریت کو دعوت نہیں دے سکتے۔ یہ مذہبی مساوات کے خلاف قرار پاتا ہے کہ جو حقوق ایک مسلم ریاست میں مسلمانوں کو حاصل ہیں وہ تمام حقوق غیرمسلموں کو حاصل نہیں ہیں۔ ہمارے ہاں پاکستان کے قانون میں یہ ہے کہ ملک کا سربراہ کوئی غیر مسلم نہیں بن سکتا۔ اور جب آپ یہ کہتے ہیں کہ کلیدی آسامیوں پر یعنی ایسے مناصب جو پالیسی ساز حیثیت رکھتے ہوں، ان پر غیرمسلموں کی تقرری نہ کی جائے، تو اسے مذہبی مساوات کے خلاف سمجھا جاتا ہے کہ جب مسلمان ان عہدوں پر فائز ہو سکتا ہے تو غیر مسلم کیوں نہیں ہو سکتا۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: مذہب کے معاشرتی کردار کہ مذہب کا ریاست کوئی تعلق نہیں مذہبی مساوات ہے کہ مذہب کا مذہبی احکام معاملات میں ہونی چاہیے ہمارے ہاں حوالے سے کی بنیاد یہ ہے کہ نہیں ہو ہوتا ہے نہیں ہے مذہب کی کے ساتھ ہے اور ہیں کہ کے لیے
پڑھیں:
عمران خان شیخ مجیب کے آزار سے ہوشیار رہیں
عمران خان کے حکم کی تعمیل میں علی امین گنڈا پور بضد ہیں کہ وہ افغانستان ضرور جائیں گے اور افغان قیادت سے بات کریں گے۔ سوال مگر یہ ہے کہ برادر ہمسایہ ملک سے خالص دفاعی اور تزویراتی امور پر بات کرنے کے لیے وہ کس حیثیت سے تشریف لے جائیں گے؟ کیا آئین پاکستان کسی صوبے کے وزیر اعلیٰ کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ دفاع اور امور خارجہ پر دیگر ریاستوں کے ساتھ معاملہ کرتا پھرے؟
دلچسپ بات یہ ہے دفاع اور امور خارجہ وہ شعبے ہیں جن پر شیخ مجیب جیسے آدمی نے بھی صرف اور صرف وفاق کا اختیار تسلیم کیا تھا۔ اپنے 6 نکات میں شیخ مجیب کا کہنا تھا کہ وفاق کی عملداری صرف دفاع اور امور خارجہ تک ہو اور باقی چیزیں صوبے خود دیکھیں۔ حیرت ہے کہ عمران خان ان دو شعبوں میں بھی وفاق نام کے کسی تکلف کے قائل نہیں۔ سارے احترام اور تمام تر حسن ظن کے باوجود اس سوال سے اجتناب ممکن نہیں کہ کیا اس رویے کو شیخ مجیب پلس کا نام دیا جائے؟
عمران خان تو درویش کا تصرف ہیں، کچھ بھی کہہ سکتے ہیں، پریشانی یہ ہے کہ صوبائی حکومت کی دانشِ اجتماعی کیا ہوئی؟ کیا اس کی صفوں میں کوئی معاملہ فہم انسان بھی موجود ہے یا قافلہ انقلاب میں صاحب کمال اب وہی ہے جو ہجرِ مجنوں میں ’یا محبت‘ کہہ کر ہر وقت آبلے تھوکتا پھرے؟
ایک سیاسی جماعت کے طور پر تحریک انصاف کا حق ہے وہ اہم قومی امور پر اپنی رائے دے۔ دہشتگردی سے خیبر پختونخوا کا صوبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے اور وہاں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ یہ اس کا استحقاق ہے کہ اصلاح احوال کے لیے وہ کچھ تجویز کرے تو وفاق اسے پوری سمنجیدگی سے سنے۔ اسے وفاق کی کسی پالیسی سے اختلاف ہے تو اسے یہ اختلاف بھی بیان کر دینا چاہیے اور اس کام کے لیے سب سے اچھا فورم پارلیمان ہے۔
تحریک انصاف سینیٹ میں بھی موجود ہےاور قومی اسمبلی میں بھی۔ متعلقہ فورمز پر اسے ہر پالیسی پر اپنے تحفظات اور خدشات پیش کرنے کا حق ہے۔ لیکن یہ کیسا رویہ ہے کہ اسمبلیوں میں تو بیٹھنا گوارا نہیں، قائمہ کمیٹیوں سے استعفے دیے جا رہے ہیں، سیاسی قیادت سے مکالمہ گوارا نہیں کہ وہ تو ’سب چور ہیں‘ اور انوکھے لاڈلے کی طرح چلے ہیں سیدھے افغانستان سے بات کرنے، جیسے یہ وفاق کے اندر ایک صوبے کے حاکم نہ ہوں، کسی الگ ریاست کے خود مختار حکمران ہوں۔
امور ریاست 92 کا ورلڈ کپ نہیں ہوتے کہ کھیل ہی بنا دیے جائیں، یہ ایک سنجیدہ چیز ہے۔ ایک فیڈریشن کے اندر وفاق اور صوبوں کا دائرہ اختیار کیا ہے؟ یہ بات آئین میں طے کی جا چکی ہے۔ دفاع اور امور خارجہ وفاق کا معاملہ ہے۔ کس ریاست سے کب اور کیا بات کرنی ہے، یہ وفاق کا استحقاق ہے۔ وفاق کے پاس وزارت دفاع بھی ہے اور وزارت خارجہ بھی۔ ان اداروں کی ایک اجتماعی یادداشت ہوتی ہے جو بہت سارے فیصلوں کی شان نزول ہوتی ہے۔ وفاق یہ فیصلہ کرتا ہے کہ دفاعی معاملات میں کب اور کیا فیصلہ کرنا ہے۔ صوبے وفاق کو تجاویز تو دے سکتے ہیں، اختلاف رائے کا اظہار بھی کر سکتے ہیں لیکن کسی صوبے کو یہ حق نہیں کہ وہ دفاع اور امور خارجہ جیسے معاملات اپنے ہاتھ میں لے کر انہیں بازیچہِ اطفال بنا دے۔
جب کوئی صوبہ ہمسایہ ریاست کے ساتھ ایسے معاملات خود طے کرنا چاہے تو یہ وفاق کی نفی ہے۔ یہ رویہ ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے کے مترادف ہے۔ یہ آئین کی سکیم سے انحراف ہے۔ یہ تخریب اور انارکی کا نقش اول ہے۔ یہ سلسلہ چل نکلے تو ریاست کا وجود باقی رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔
کل کو بھارت کے ساتھ معاملہ ہو تو کیا پنجاب کا وزیر اعلیٰ وفاق کو نظر انداز کرتے ہوئے دلی پہنچ جائے کہ وفاقی حکومت کو چھوڑیے مہاشہ جی، آئیے ہم آپس میں مل بیٹھ کر فیصلہ کرتے ہیں۔
کیا بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کل ایران پہنچ جائیں کہ وفاق پاکستان کو بھول جائیے، آئیے آپ بلوچستان کے ساتھ براہِ راست معاملہ فرما لیجیے۔
کیا کل کو گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ چین جا پہنچیں کہ پاکستان کی وفاقی حکومت کیا بیچتی ہے صاحب، آئیے سی پیک کے معاملات سیدھے میرے ساتھ ہی نمٹا لیں۔
کیا کل کو سندھ کی حکومت سمندری حدود کے سلسلے میں دنیا کو خط لکھتی پھرے گی کہ وفاق کے تکلف میں کیا پڑنا، آئیے سمندری معاملات ہم آپ میں بیٹھ کر طے کر لیتے ہیں۔
ذرا تصور کیجیے کیا اس سب کے بعد فیڈریشن کے لیے اپنا وجود باقی رکھنا ممکن ہوگا؟
تحریک انصاف ایک قومی جماعت ہے۔ اس کی مقبولیت میں بھی کوئی شک نہیں، اس کے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ سیاست میں دھوپ چھاؤں آتی رہتی ہے۔ اس کا حل مگر سیاسی بصیرت سے ہی تلاش کیا جاتا ہے نہ کہ ہیجان کے عالم میں بند گلی میں داخل ہو کر۔
قومی سیاسی جماعت ہی اگر وفاق کی نفی کرنے لگے تو یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک بڑھیا، جس نے ساری عمر سوت کاٹا اور آخر میں اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آصف محمود انگریزی ادب اور قانون کے طالب علم ہیں۔ پیشے سے وکیل ہیں اور قانون پڑھاتے بھی ہیں۔ انٹر نیشنل لا، بین الاقوامی امور، سیاست اور سماج پر ان کی متعدد کتب شائع ہوچکی ہیں۔
wenews افغانستان برادر ہمسایہ ملک پی ٹی آئی دہشتگردی شیخ مجیب الرحمان علی امین گنڈاپور عمران خان وفاق وی نیوز