خلوت میں تقویٰ اور ایمان کی معراج
اشاعت کی تاریخ: 30th, March 2025 GMT
زندگی کے اس دور میں جہاں ہر طرف شور و غل، مادی عیش و آرام، اور دنیا کی بے شمار مصروفیات ہیں، انسان کی روحانیت اور ایمان کا کمال تنہائی میں ہی ملتا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب انسان اپنے رب کے ساتھ رشتہ مضبوط کرتا ہے۔ اپنی ذات میں غور و فکر کرتا ہے اور اپنی روح کو سکون اور تقویٰ کی حالت میں پاتا ہے۔
اسلام میں خلوت کو ایک نہایت اہم مقام حاصل ہے کیونکہ یہی وہ وقت ہے جب انسان اپنے دل کی گہرائیوں میں اتر کر اللہ کی رضا کےلیے سوچتا ہے اور اپنی زندگی کے مقصد کو پہچانتا ہے۔
تنہائی صرف جسمانی طور پر اکیلا ہونے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک ذہنی اور روحانی کیفیت ہے جس میں انسان دنیا کی تمام رکاوٹوں سے آزاد ہو کر اپنے اندر جھانکتا ہے۔ یہاں وہ اپنے اعمال، نیتوں اور دل کی حالت کا جائزہ لیتا ہے اور پھر اللہ کی جانب رجوع کرتا ہے۔ خلوت ایک ایسا موقع فراہم کرتی ہے جب انسان ہر قسم کی دنیاوی الجھنوں سے آزاد ہو کر اپنے روحانی سفر پر غور و فکر کرتا ہے۔
تقویٰ، یعنی اللہ کا خوف۔ اس کی رضا کی کوشش اور برائیوں سے بچنا۔ ایمان کا اصل جوہر ہے۔ تقویٰ انسان کے دل کی حالت کو درست کرتا ہے اور اس کے اندر اللہ کے احکام کے بارے میں احترام اور محبت پیدا کرتا ہے۔ جب انسان تنہائی میں ہوتا ہے تو اس کے دل میں اللہ کا خوف اور اس کی محبت بڑھتی ہے کیونکہ اس وقت وہ صرف اللہ کے سامنے ہوتا ہے۔ کوئی انسان یا دنیاوی چیز اس کے درمیان نہیں آتی۔ اس وقت کی عبادت سب سے زیادہ قیمتی اور خالص ہوتی ہے۔
لہٰذا گناہ سے بچنے کےلیے ضروری ہے کہ بندہ اپنے دل میں یہ احساس پیدا کرے کہ اللہ تعالیٰ مجھے ہر وقت دیکھ رہے ہیں، خواہ میں لوگوں کے سامنے ہوں یا لوگوں سے پوشیدہ ہوں، میں کسی حال میں بھی اللہ تعالیٰ سے مخفی نہیں ہوسکتا۔
ایمان کی معراج خلوت میں ہی حاصل ہوتی ہے۔ جب انسان اپنی ذات سے جڑتا ہے اور دل کی گہرائیوں میں اللہ کی ہدایات کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔
معجم صغير للطبراني كتاب الرقاقِ میں دلوں کو نرم کرنے کے بیان میں حدیث نمبر 1011
سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ہیں، کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں اپنی امّت میں سے ایسے لوگ نہیں چاہتا جو قیامت کے دن تہامہ پہاڑ جیسی نیکیاں لے کر آئیں اور اللہ تعالیٰ ان نیکیوں کو بکھرا ہوا کوڑا کرکٹ بنا دے۔‘‘ صحابہ نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمیں بتائیے وہ کن اوصاف والے ہیں تاکہ ہم ان جیسے نہ ہوں، جب کہ ہمیں ان کا علم نہیں ہو؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ تمہارے بھائیوں میں سے ہیں، وہ ایسے لوگ ہیں کہ جب وہ خلوت اختیار کرتے ہیں تو اللہ کی حرام کردہ چیز کا ارتکاب کرتے ہیں۔‘‘
تنہائی میں انسان اپنی عبادات میں خلوص پیدا کرتا ہے۔ وہ بغیر کسی دکھاوے کے صرف اللہ کی رضا کےلیے عبادت کرتا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب انسان اپنے رب کے سامنے سر جھکاتا ہے اور دل کی گہرائیوں سے دعائیں کرتا ہے جو کہ اس کی سچی محبت اور ایمان کا اظہار ہوتا ہے۔ اس وقت انسان کی عبادت میں وہ سکون اور تسکین ہوتی ہے جو دنیا کی کسی بھی چیز سے نہیں مل سکتی۔
تنہائی میں انسان اللہ کے قریب تر ہوتا ہے وہ اپنے رب کے ساتھ ایک گہرا تعلق قائم کرتا ہے جو اس کی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی ہوتی ہے۔ جب انسان تنہائی میں اللہ کی عبادت کرتا ہے، تو اسے ایک غیر معمولی سکون اور اطمینان ملتا ہے۔
اسلام میں تقویٰ کا مفہوم صرف دنیا سے اجتناب نہیں بلکہ اللہ کے ساتھ ایک مضبوط رشتہ قائم کرنا ہے۔ جب انسان تنہائی میں ہوتا ہے تو وہ دنیا کی تمام الجھنوں سے آزاد ہو کر اپنے دل کی صفائی کرتا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب انسان کی عبادت اور دعائیں بے پناہ خلوص سے بھری ہوتی ہیں اور یہی خلوص اللہ کے ہاں مقبول ہوتا ہے۔
تنہائی کا فائدہ یہ ہے کہ انسان دنیا کے فتنوں سے بچا رہتا ہے۔ جب انسان دنیا کی مادیات اور اس کے فریب سے دور رہتا ہے تو وہ اللہ کی رضا کےلیے زندگی گزارنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس سے انسان کا ایمان مضبوط ہوتا ہے اور وہ اللہ کے احکام پر چلنے کی سچی کوشش کرتا ہے۔
ذکرِ الہی جیسے ’’سبحان اللہ‘‘، ’’الحمدللہ‘‘، ’’اللہ اکبر‘‘ وغیرہ پڑھنے سے انسان اللہ کی یاد میں رہتا ہے اور اس کا دل نرم اور پاکیزہ ہو جاتا ہے۔ صاحب علم فرماتے ہیں
’’اگر تم تقویٰ اختیار کرلو تو تمہاری دنیا بھی سنور جائے گی اور آخرت بھی۔‘‘
’’جس شخص میں تقویٰ ہو اس کی زبان ہمیشہ سچ بولتی ہے اور اس کا دل پاک ہوتا ہے۔‘‘
امام غزالیؒ نے فرمایا: ’’تقویٰ کا مقصد صرف گناہوں سے بچنا نہیں بلکہ اللہ کی رضا کے لیے ہر عمل کو بہترین بنانا ہے۔‘‘
تقویٰ انسان کو اس کی فطرت کے قریب لے آتا ہے اور زندگی کو سچے اور پائیدار راستے پر گامزن کرتا ہے۔ تنہائی میں انسان کے پاس اپنے اندر کی خواہشات اور جذبات پر قابو پانے کا بہترین موقع ہوتا ہے۔ دنیا کی تمام لذتوں سے دور رہ کر انسان اپنے نفس کو قابو میں رکھ سکتا ہے۔ جس سے تقویٰ کی روح پیدا ہوتی ہے۔ جو لوگ اپنے نفس کو قابو میں رکھتے ہیں وہی کامیاب ہوتے ہیں۔
تنہائی میں خشیت الٰہی مغفرت اور جنت کا راستہ ہے۔ بیشک جو لوگ اپنے رب سے بن دیکھے ڈرتے ہیں ان کےلیے مغفرت اور بہت بڑا اجر ہے۔
ہمیں اپنے ظاہر اور باطن کی کڑی نگرانی رکھنی چاہیے۔ اپنے باطن کو ظاہر کر دیں اور ظاہر کو باطن کرلیں۔ ظاہر اور باطن میں تضاد نہ ہو۔ تقویٰ تب ہی حاصل ہوسکتا ہے۔ تنہائی میں ایک انسان کا دل اور دماغ عبادت کے لیے کھلا ہوتا ہے۔ انسان نماز، ذکر، اور تلاوت قرآن میں وقت گزار سکتا ہے۔ ان عبادات کے ذریعے دل کی سکونت بڑھتی ہے اور تقویٰ پیدا ہوتا ہے۔ خاص طور پر رات کی تنہائی میں جب انسان اللہ کے سامنے سر جھکاتا ہے وہ روحانیت کا اعلیٰ ترین مقام حاصل کرتا ہے۔
خلوت میں تقویٰ اور ایمان کی معراج پانا ایک روحانی سفر ہے جو انسان کو اللہ کے قریب لے جاتا ہے۔ یہ وقت اللہ کی رضا کےلیے خود کو بہتر بنانے کا، اپنے دل کو صاف کرنے کا اور اپنی زندگی کے مقصد کو سمجھنے کا ہوتا ہے۔ تنہائی میں انسان اللہ کے سامنے اپنی کمزوریوں کا اعتراف کرتا ہے۔ اس کا دل اللہ کی محبت اور خوف سے معمور ہوتا ہے اور یہی وہ کیفیت ہے جو انسان کو ایمان کی معراج تک پہنچاتی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: صلی اللہ علیہ وسلم تنہائی میں انسان ایمان کی معراج اللہ کی رضا کے ہے جب انسان انسان اللہ انسان اپنے اور ایمان کے سامنے کی عبادت میں تقوی دنیا کی ہوتی ہے اللہ کے اپنے رب کرتا ہے ہوتا ہے اپنے دل ہے اور اور اس وہ وقت
پڑھیں:
اسرائیل کی عالمی تنہائی بڑھ رہی، محاصرے کی سی کیفیت ہے، نیتن یاہو کا اعتراف
اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو نے اعتراف کیا ہے کہ اسرائیل عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی تنہائی اور دباؤ کا سامنا کر رہا ہے۔
نیتن یاہو نے مالیاتی وزارت کی ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کسی حد تک تنہائی کی حالت میں ہے۔ ممکن ہے ہمیں ایسی معیشت اپنانی پڑے جس میں خود کفالت (Autarky) کی خصوصیات ہوں۔ اگرچہ یہ وہ لفظ ہے جسے میں سب سے زیادہ ناپسند کرتا ہوں، لیکن ہمیں اسی حقیقت سے نمٹنا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ یورپی ممالک کی طرف سے اسرائیل کے خلاف اسلحہ پر پابندی اور اقتصادی پابندیوں کی دھمکیاں بڑھ رہی ہیں۔ ایسی صورت میں اسرائیل کو اپنی دفاعی صنعت میں محض تحقیق اور ترقی نہیں بلکہ مکمل پیداوار کی صلاحیت بھی خود ہی پیدا کرنی ہوگی۔
’ایتھنز اور سپر اسپارٹا‘ کا امتزاجنیتن یاہو نے کہا کہ اگرچہ اسرائیل نے ایران اور اس کے اتحادی گروہوں کے خلاف فوجی کارروائیوں میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں اور ایران کے ایٹمی و میزائل پروگرام کو نقصان پہنچایا ہے، لیکن اب اسے نئے سفارتی چیلنجز کا سامنا ہے۔
آج ہمیں ایسی ریاست بننا ہوگا جو ایتھنز کی طرح علمی و تکنیکی طاقت رکھتی ہو اور اسپارٹا کی طرح عسکری طور پر خود کفیل ہو — بلکہ ایک سپر اسپارٹا۔
اسرائیل کو کیوں تنہائی کا سامنا ہے؟
نیتن یاہو نے اسرائیل کی تنہائی کے 2 بڑے اسباب بیان کیے
یورپ میں مسلم تارکینِ وطن کی بڑھتی ہوئی آبادی: نیتن یاہو کے مطابق، یہ برادریاں اب وہاں کی حکومتوں پر اسرائیل مخالف دباؤ ڈال رہی ہیں اور بعض اوقات ان کا اسلامی ایجنڈا بھی سامنے آتا ہے۔
آن لائن پروپیگنڈہ: انہوں نے قطر اور چین پر الزام لگایا کہ وہ سوشل میڈیا اور نئی ٹیکنالوجی جیسے بوٹس اور مصنوعی ذہانت کے ذریعے اسرائیل کے خلاف بیانیہ پھیلا رہے ہیں۔ خاص طور پر TikTok کو انہوں نے بطور مثال پیش کیا۔
نیتن یاہو نے کہا کہ یہ تمام عوامل اسرائیل کو عالمی سطح پر ’محاصرے‘ کی کیفیت میں لے آئے ہیں، جسے توڑنے کے لیے اسرائیل کو اپنے وسائل سے سخت اقدامات کرنا ہوں گے۔
اپوزیشن اور صنعتکاروں کا سخت ردعملوزیراعظم کے بیانات پر فوری ردعمل سامنے آیا۔ اپوزیشن لیڈر یائر لاپیڈ نے کہا کہ یہ تنہائی کوئی قدرتی مقدر نہیں بلکہ نیتن یاہو کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے اسرائیل کو تیسری دنیا کے ملک میں بدل دیا ہے۔
یائر گولان نے کہا کہ
نیتن یاہو اپنے اقتدار کے لیے ہمیشہ کی جنگ اور تنہائی چاہتے ہیں، لیکن اس سے عوام کی معیشت، مستقبل اور دنیا سے تعلقات قربان ہو رہے ہیں۔
سابق وزیر اور نیشنل یونٹی پارٹی کے رہنما گادی ایزنکوت نے کہا کہ اگر وزیراعظم صورتِ حال کو سنبھالنے کے قابل نہیں تو انہیں اقتدار عوام کو واپس دینا چاہیے۔ مینوفیکچررز ایسوسی ایشن آف اسرائیل کے صدر نے کہا کہ آٹارکی معیشت اسرائیل کے لیے تباہ کن ہوگی اور عوام کے معیارِ زندگی پر برا اثر ڈالے گی۔ ہائی ٹیک فورم نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ کیا وزیراعظم کا وژن یہی ہے کہ اسرائیل پھر سے صرف کینو بیچنے والے ملک میں بدل جائے؟
معیشت پر اثراتنیتن یاہو کی تقریر کے بعد تل ابیب اسٹاک ایکسچینج میں 2 فیصد تک کمی واقع ہوئی۔ سرمایہ کاروں اور کاروباری اداروں نے خبردار کیا ہے کہ عالمی سطح پر اسرائیل کی ساکھ کو نقصان پہنچ رہا ہے جس کے اثرات براہِ راست معیشت اور عوام پر پڑیں گے۔
بعدازاں اسرائیلی وزیر اعظم نے ایک دوسرے بیان میں کہا کہ حکومت اپنی دفاعی صنعت میں سرمایہ کاری بڑھائے گی تاکہ اسرائیل کو یورپی ممالک پر انحصار نہ رہے، جو اپنے ملکوں میں مسلم اقلیتوں کے دباؤ میں آ کر کمزور فیصلے کرتے ہیں۔
نیتن یاہو کا اعتراف اس بات کا غماز ہے کہ اسرائیل کو نہ صرف جنگی محاذ پر بلکہ سفارتی اور اقتصادی سطح پر بھی نئے اور شدید چیلنجز کا سامنا ہے۔ جہاں وزیراعظم اسرائیل کو “سپر اسپارٹا” بنانے پر زور دے رہے ہیں، وہیں اپوزیشن اور صنعتکار خبردار کر رہے ہیں کہ یہ راستہ اسرائیل کی عالمی معیشت اور عوامی فلاح کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل نیتن یاہو