وادی کاغان کا دل ’جھیل سیف الملوک‘ خطرے سے دوچار کیوں؟
اشاعت کی تاریخ: 2nd, April 2025 GMT
مانسہرہ(نیوز ڈیسک)وادی کاغان کا سب سے زیادہ حسین اور دلفریب مقام ناران ہے۔ مانسہرہ سے ناران کا فاصلہ 122کلو میٹر ہے۔ کاغان سے ناران کی دوری صرف 23کلو میٹر ہے۔ یہ سطح سمندر سے 7904فٹ کی بلندی پر واقع ہے، یہاں پر ناران سے 10کلومیٹر سطح سمندر سے 10500فٹ کی بلندی پر واقع گہرے نیلے سبز پانی سے مزین پیالہ نما جھیل ’سیف الملوک‘ کا دلفریب نظارہ دلوں کو مول لیتی ہے۔ شہزادہ سیف الملوک اور پری بدیع الجمال کے عشق کی داستان بھی یہاں ہی پروان چڑھی۔
ایڈونچز بھرے جیپ کے ایک گھنٹے کے سفر کے بعد پہاڑوں میں گھری ہوئی دیو مالائی اور طلسماتی جھیل کے نیلگوں پانی اور ارد گرد کے خوش کن مناظرنے اپنے سحر میں جھکڑ لیا۔
 ماہرین کا کہنا ہے کہ سیاحوں کی بے احتیاطی کی وجہ سے اس کے قدرتی حسن کو تو پہلے ہی خطرات لاحق تھے لیکن تیز بارشوں کے باعث اب اس کا وجود ہی خطرے میں پڑنے لگا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر سال تیز بارشوں کے نتیجے میں اطراف میں موجود بلند وبالا پہاڑوں سے آنے والے ملبے کی وجہ سے جھیل کا قطر تیزی سے کم ہو رہا ہے۔ پہاڑوں سے مٹی اور پتھر جھیل میں گر رہے ہیں اور اس کے تدارک کے لیے فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر جھیل سیف الملوک کے اندر جانے والے پہاڑی ملبے کو نہ روکا گیا تو شدید بارشوں کے دوران جھیل کا پانی اوور فلو ہو کر ناران کے قصبے اور بازار کو نقصان بھی پہنچا سکتا ہے۔
 کاغان میں بڑھتی ہوئی بھیڑ بھاڑ اور آلودگی کی وجہ سے وہاں کی طلسماتی جھیلوں کی رونقیں ماند پڑ گئی ہیں۔
 جھیل کے ساحل پر کچی آبادی کی طرز پر ایک پورا بازار وجود میں آ چکا ہے جس میں بغیر کسی روک ٹوک کے سیاحوں کو مہنگے داموں چیزیں فروخت کی جاتی ہیں۔
گرمیوں کے موسم میں گنجان آباد شہروں کے تنگ بازاروں سے بھاگ کر آنے والے لوگوں کو یہاں بھی راہِ فرار نہیں ملتی،سینکڑوں جیپوں کا اڈہ قائم ہے جس نے سڑک پر مکمل اجارہ داری قائم کر رکھی ہے۔ناران سے جھیل تک کے9کلومیٹر کے جیب ڈرائیور 2 ہزار روپے لیتے ہیں۔
جھیل کے دہانے پر واقع پل کو پار کرنے کے لیے اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ہر طرف لوگ ایک دوسرے کی تصاویر اور اپنی سیلفیاں لیتے نظر آتے ہیں۔ناران سے 48 کلومیٹر دور واقع وادیِ کاغان کی سب سے بڑی جھیل لولوسر کا بھی تقریباً یہی حال ہے ۔
 لولوسر کے ساحل پر پکوڑوں اور سموسوں کی عارضی دکانیں اس جھیل کے قدرتی حسن پر بدنما داغ بن گئی ہیں۔ اس بارے میں وزیراعلی کے مشیر برائے سیاحت و ثقافت اور آثار قدیمہ زاہد چن زیب کا کہنا ہے کہ وادیِ ناران بالخصوص دیو مالائی قصوں کا حامل جھیل سیف الملوک پاکستان کا اہم ترین سیاحتی مرکز ہے جس کی بین الاقوامی اہمیت مسلمہ ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
امریکا کی 5 فیصد آبادی میں کینسر جینز کی موجودگی، تحقیق نے خطرے کی گھنٹی بجا دی
کلیولینڈ کلینک کے ماہرین کی جانب سے کی گئی ایک تازہ تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ امریکا کی آبادی کا تقریباً 5 فیصد حصہ یعنی قریب 1 کروڑ 70 لاکھ افراد، ایسے جینیاتی تغیرات (میوٹیشنز) کے حامل ہیں جو کینسر کے خطرات کو بڑھا سکتے ہیں اور یہ لوگ اپنی حالت سے لاعلم ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ایک بلڈ ٹیسٹ سے 50 اقسام کے کینسر کی تشخیص ابتدائی اسٹیج پر ہی ممکن ہوگئی
ریسرچ جرنل جے اے ایم اے میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ یہ جینیاتی تبدیلیاں محض ان افراد تک محدود نہیں جو کینسر کی خاندانی ہسٹری رکھتے ہیں، بلکہ بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو بظاہر خطرے کی فہرست میں شامل نہیں تھے۔
تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر جوشوا آربزمین کے مطابق جینیاتی ٹیسٹنگ عموماً انہی افراد کے لیے کی جاتی رہی ہے جن کے خاندان میں کینسر کی تاریخ موجود ہو یا جن میں علامات ظاہر ہوں، تاہم تحقیق سے معلوم ہوا کہ بڑی تعداد ان افراد کی بھی ہے جن میں خطرناک جینز پائے گئے مگر وہ روایتی کیٹیگری میں نہیں آتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: نئی دوا پروسٹیٹ کینسر کے مریضوں میں اموات 40 فیصد تک کم کرنے میں کامیاب
ان کا کہنا ہے کہ یہ صورت حال قبل ازوقت تشخیص اور بچاؤ کے مواقع ضائع ہونے کی نشاندہی کرتی ہے۔
تحقیق میں 70 سے زائد عام کینسر سے متعلق جینز کا تجزیہ کیا گیا جس میں 3 ہزار 400 سے زیادہ منفرد جینیاتی تغیرات رپورٹ کیے گئے۔ ان تبدیلیوں کے باعث کینسر کا خطرہ طرزِ زندگی، خوراک، تمباکو نوشی یا ورزش سے قطع نظر بڑھ سکتا ہے، یعنی صحت مند زندگی گزارنے والے افراد بھی جینیاتی طور پر خطرے میں ہو سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بلوچستان میں بریسٹ کینسر تیزی سے پھیلنے لگا، ایک سال میں 5 ہزار کیسز سامنے آنے کی وجہ آخر کیا ہے؟
ریسرچ میں شریک ماہر یِنگ نی کا کہنا ہے کہ ان جینیاتی تغیرات کی بہتر سمجھ کینسر کے خدشات کو جانچنے کے لیے محض خاندانی تاریخ یا طرزِ زندگی پر انحصار کرنے کے بجائے زیادہ واضح راستہ فراہم کرتی ہے۔
ماہرین کے مطابق تحقیق اس بات کو مزید تقویت دیتی ہے کہ کینسر سے بچاؤ کے لیے باقاعدہ اسکریننگ جیسے میموگرام اور کولونوسکوپی کو عام اور باقاعدہ طبی نظام کا حصہ بنانا ناگزیر ہو چکا ہے، کیونکہ لاکھوں افراد ظاہری صحت کے باوجود جینیاتی طور پر خطرے میں ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news امریکا جینیاتی تغیر جے اے ایم اے کلیولینڈ کلینک کینسر