ملک میں بنیادی افراط زر اب بھی 8 فیصد سے اوپر ہے، مشیر خزانہ کے پی
اشاعت کی تاریخ: 3rd, April 2025 GMT
پشاور(ڈیلی پاکستان آن لائن)مشیر خزانہ خیبرپختونخوا مزمل اسلم کا کہنا ہے کہ ملک میں بنیادی افراط زر اب بھی 8 فیصد سے اوپر ہے جبکہ نااہل حکومت مہنگائی میں کمی کا جشن منا رہی ہے۔
نجی ٹی وی چینل ایکسپریس نیوز کے مطابق ملکی مہنگائی اور معیشت بارے ردعمل دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پی ایم ایل این اور پی ڈی ایم کی معاشی ویژن ہمیشہ کی طرح فرسودہ ذہنیت کی عکاس ہے۔ پی ایم ایل این نجی شعبے والے افراد کو کابینہ میں شامل کرتے پھر وہی حالات رہتے ہیں۔
مزمل اسلم نے کہا کہ کوئی حکمت عملی نہیں پرانے خیالات کے مالک اسحاق ڈار اور احسن اقبال پی ایم ایل این کی بقا کی قیادت کر رہے ہیں۔
امریکا ٹیرف عائد کرے یا نہ کرے، پاکستان کو اپنی ایکسپورٹس بہتر کرنا ہوں گی: ملیحہ لودھی
انہوں نے کہا کہ قومی اقتصادی کونسل اجلاس میں شہباز شریف کو شرح نمو کی نشاندہی کروائی، پانچ سال کے تخمینے میں اوسط نمو 4 فیصد سے کم ہے جبکہ اگلے سال تخمینہ اہم فصلوں کے لیے منفی ہے۔
مزمل اسلم نے کہا کہ میں نے پوچھا اس ویژن کے ساتھ بے روزگاری اور غربت پر قابو کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا اور شہباز شریف نے معاملہ پلاننگ کمیشن کے چیئرمین کی طرف موڑ دیا۔
انہوں نے کہا کہ پچھلے ایک سال سے بتا رہا ہوں کہ پاکستان کساد بازاری کا شکار ہے، زراعت اور صنعت کے شعبے منفی میں ہے جبکہ حکومت اس کو کساد بازاری نہیں بلکہ استحکام کہتے ہیں۔ شہباز شریف کی ٹیم ڈیٹا کو پڑھنے کی محدود صلاحیت رکھتی ہے مہنگائی کم کا ڈھول پیٹ رہے ہیں۔
پشاور میں مرغی اور سبزیوں کی قیمت میں بڑی کمی
مشیر خزانہ کے پی نے کہا کہ قیمت میں تبدیلی کو قیمتوں میں کمی نہیں کہتے حکومت ابھی تک یہ سمجھنے سے قاصر ہے۔ اشیا کی طلب و قوت خرید میں کمی، بے روزگاری اور غربت کی وجہ سے قیمتیں نہیں بڑھ رہی۔ پاکستان کے معاملے میں مہنگائی میں کمی پیداواری ترقی کی وجہ سے نہیں ہے۔
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: نے کہا کہ
پڑھیں:
شوگر ملز کی جانب سے 15 ارب روپے سے زائد قرضے واپس نہ کیے جانے کا انکشاف
اسلام آباد:شوگر ملز کی جانب سے 15 ارب روپے سے زائد کے قرضے واپس نہ کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس جنید اکبر کی صارت میں ہوا، جس میں فنانس ڈویژن سے متعلق آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں نیشنل بینک کی جانب سے 190 ارب روپے کی ریکوریاں نہ کرنے سے متعلق آڈٹ اعتراض پر بحث کی گئی۔
سیکرٹری خزانہ نے بریفنگ میں بتایا کہ ریکوری کی کوششیں کی جارہی ہیں،28.7 ارب روپے ریکور ہوئے ہیں۔
جنید اکبر نے استفسار کیا کہ قرضہ لیتے ہیں تو کوئی چیز گروی نہیں رکھتے؟ ، جس پر نیشنل بینک کے صدر نے بتایا کہ بالکل رکھتے ہیں۔ 10 ہزار 400 کیس ریکوری کے پینڈنگ ہیں۔ جس پر کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔
کمیٹی میں بریفنگ کے دوران آڈٹ حکام نے انکشاف کیا کہ نیشنل بینک انتظامیہ نے شوگر ملز کو 15.2 ارب روپے کے قرضے جاری کیے جو شوگر ملز واپس کرنے میں ناکام رہیں، جس پر نیشنل بینک کے صدر نے بتایا کہ 25 قرضے ہیں۔ ایک قرضہ مکمل ایڈجسٹ ہو چکا ہے اور 3 ری اسٹرکچر ہو گئے ہیں۔ 17 قرضے ریکوری میں ہیں۔
کمیٹی نے ریکوری کی ہدایت کرتے ہوئے معاملہ آئندہ کے لیے مؤخر کردیا۔
علاوہ ازیں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں نیشنل بینک کے بورڈ آف ڈاریکٹرز کا عشائیہ ڈیڑھ لاکھ سے بڑھا کر 4 لاکھ کرنے کا انکشاف ہوا۔ ندیم عباس نے کہا کہ بورڈ کے پاس اپنی مراعات بڑھانے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے، جس پر سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ اس کیس میں ایسے کیا جاسکتا ہے کہ اس طرح کی منظوری پہلے وزارت خزانہ سے کی جائے۔
نوید قمر نے کہا کہ ہم نے بینک کو وزارت خزانہ سے نکالا ہے، واپس نہ دھکیلا جائے۔ جنید اکبر نے کہا کہ آئندہ بورڈ میں وزارت خزانہ کے نمائندے کی شرکت یقینی بنائی جائے۔