عملی اقدامات نہ ہونے سے لاہور ایک دہائی سے شدید اسموگ اور فضائی آلودگی کا شکار
اشاعت کی تاریخ: 3rd, April 2025 GMT
لاہور:
لاہور گزشتہ ایک دہائی سے شدید اسموگ اور فضائی آلودگی کا شکار ہے، لیکن ہر آنے والی حکومت سبز انقلاب کے دعوے تو کرتی ہے مگر عملی اقدامات میں خاطر خواہ تبدیلی نہیں لاتی۔
اس سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے، حال ہی میں تشکیل دی گئی ماحولیاتی تحفظ فورس نے مثال قائم کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے، مگر یہ کوشش بھی حقیقت کے برعکس دکھائی دیتی ہے۔ شہر میں زیادہ تر نجی اور تجارتی گاڑیاں اب بھی پیٹرول پر چل رہی ہیں اور ان کے اخراج کی نگرانی کا کوئی مناسب نظام موجود نہیں ہے۔
ماحولیاتی تحفظ فورس کی جانب سے متعارف کی گئی نئی حکمتِ عملی کے تحت 25 ہائبرڈ گاڑیاں خریدی گئی ہیں، جن پر 250 ملین روپے کی خطیر رقم خرچ کی گئی، جو کہ ورلڈ بینک کے گرین پروگرام کے تحت فراہم کی گئی تھی۔ بعض ماہرین اسے مثبت پیش رفت قرار دیتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ جب عام شہری برقی موٹر سائیکل تک خریدنے سے قاصر ہیں، تو ماحول دوست کاروں کا خواب دیکھنا بھی بے سود ہے۔
اس فورس کو 250 الیکٹرک موٹر سائیکلوں کے علاوہ جدید معائنے کے آلات بھی فراہم کیے گئے ہیں، جن میں ٹیبلٹس اور گیس و پانی کے تجزیے کے آلات شامل ہیں۔ ان پر مزید 300 ملین روپے کی رقم خرچ کی گئی، جو کہ صوبائی حکومت نے فراہم کی۔ تاہم، ماہرین کے مطابق یہ اقدامات شہر کی مجموعی فضائی کیفیت میں بہتری کے لیے ناکافی ہیں۔
’’ایکسپریس ٹریبیون‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق، لاہور میں رجسٹرڈ 7.
اسی طرح PM2.5 کی مقدار 52 مائیکروگرام فی مکعب میٹر رہی، جو عالمی ادارہ صحت کے مقررہ 24 گھنٹوں کے محفوظ معیار سے تین گنا زیادہ ہے۔
ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ محض 25 ہائبرڈ گاڑیاں متعارف کروا کر ماحولیاتی آلودگی کو کم نہیں کیا جا سکتا۔ پاک وہیلز کے بانی سنیل سرفراز منج کے مطابق ’’اگر حکومت واقعی ماحول دوست ٹرانسپورٹ کے حوالے سے سنجیدہ ہوتی، تو وہ مکمل طور پر برقی گاڑیاں خریدتی نہ کہ ہائبرڈ، جو پھر بھی ایندھن استعمال کرتی ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’یہ ایسا ہی ہے جیسے دوسروں کو نصیحت کرنا مگر خود عمل نہ کرنا۔‘‘
پنجاب ماحولیاتی تحفظ ایجنسی کے سیکریٹری راجہ جہانگیر انور کے مطابق ’’250 الیکٹرک موٹر سائیکلیں اور 25 ہائبرڈ گاڑیاں خریدنے کا مقصد آلودگی پھیلانے والے صنعتی یونٹس، فیکٹریوں اور بھٹوں کا معائنہ کرنا ہے۔ چونکہ صوبہ صفر کاربن اخراج کی جانب گامزن ہے، اس لیے ضروری تھا کہ محکمہ ماحولیات کی گاڑیاں بھی ماحول دوست ہوں۔‘‘
تاہم، ماہرین کے مطابق، جب تک عوام کے لیے مناسب عوامی ٹرانسپورٹ، صنعتی آلودگی کے سخت ضوابط اور معیاری ایندھن کی دستیابی یقینی نہیں بنائی جاتی، تب تک فضائی آلودگی میں نمایاں کمی ممکن نہیں۔ لاہور کی 14.8 ملین آبادی کے لیے موجودہ سفری سہولیات ناکافی ہیں۔ مثال کے طور پر، میٹرو بس سروس صرف 27 کلومیٹر کے سفر کا احاطہ کرتی ہے، جبکہ اورنج لائن میٹرو ٹرین کے 26 اسٹیشنز بھی شہر کے وسیع حصے کا احاطہ نہیں کرتے۔
پنجاب کے ماحولیاتی تبدیلی ایکشن پلان 2024 کے مطابق، 2030 تک 15 فیصد اور 2035 تک 20 فیصد گاڑیاں برقی ہوں گی جبکہ 60 فیصد توانائی قابلِ تجدید ذرائع سے حاصل کرنے کا ہدف ہے۔ تاہم، ماہرین ان اہداف کے حصول کے حوالے سے شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔ ماحولیاتی ماہر داؤر حمید بٹ کے مطابق ’’قابل تجدید توانائی کا ہدف کسی حد تک 40 سے 45 فیصد تک پہنچ سکتا ہے، لیکن برقی گاڑیوں کا ہدف بمشکل 1 فیصد تک ہی پہنچ پائے گا۔‘‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ چارجنگ انفرا اسٹرکچر کی عدم دستیابی اور برقی گاڑیوں کی بلند قیمت ان کے فروغ میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ لاہور جیسے شہر میں ایک مؤثر اور مربوط عوامی ٹرانسپورٹ نظام ناگزیر ہے، جس کے بغیر سڑکوں پر گاڑیوں کی تعداد کم کرنا ممکن نہیں ہے۔
لاہور کی فضائی آلودگی ایک پیچیدہ مسئلہ ہے، جس کے حل کے لیے حکومت کو محض علامتی اقدامات سے آگے بڑھنا ہوگا۔ ٹرانسپورٹ نظام میں بہتری، صنعتی آلودگی پر قابو پانے کے لیے سخت قوانین اور معیاری ایندھن کی فراہمی جیسے اقدامات کے بغیر، ماحولیاتی بہتری کے دعوے محض نعرے ہی رہیں گے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: فضائی آلودگی کے مطابق کے لیے کی گئی
پڑھیں:
عظمیٰ بخاری کا سندھ حکومت کے خلاف بیان
لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن)وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے میئر کراچی مرتضیٰ وہاب کے بیان پر ردعمل دے دیا۔لاہور سے جاری بیان میں عظمیٰ بخاری نے کہا کہ عید والے دن بھی مرتضیٰ وہاب اپنی ناکامیاں چھپانے کے لیے فضول تنقید سے باز نہیں آئے۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کا گراؤنڈ پر جانا ضروری نہیں، 1 لاکھ 40 ہزار ورکرز، انتظامیہ اور وزراء گراؤنڈ پر موجود ہیں۔وزیر اطلاعات پنجاب نے مزید کہا کہ اس وقت مقصد آلائشیں اٹھانا اور صوبے کی خوبصورتی برقرار رکھنا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ 2 دن سے وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ اوران کے وزرا کی فوج منظر عام سےغائب ہے، آپ صرف کراچی کو بھی صاف کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔عظمیٰ بخاری نے یہ بھی کہا کہ 16 سال سندھ حکومت اور اس کے بچے جموروں کا ایک ہی رونا ہے، بات میڈیا مینجمنٹ کی نہیں، جو میڈیا کو دیکھائی دے رہا ہے، وہی میڈیا دکھا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت کے پاس نہ بتانے کو کچھ ہے نہ دکھانے کو کچھ ہے، حسد کا علاج تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا، ایک محاورہ ہے محنت کر حسد نہ کر۔
فلپائنی شہری کی امارات میں اتنی بڑی لاٹری نکل آئی کہ زندگی ہی تبدیل ہوگئی
مزید :