لاہور:

لاہور گزشتہ ایک دہائی سے شدید اسموگ اور فضائی آلودگی کا شکار ہے، لیکن ہر آنے والی حکومت سبز انقلاب کے دعوے تو کرتی ہے مگر عملی اقدامات میں خاطر خواہ تبدیلی نہیں لاتی۔

اس سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے، حال ہی میں تشکیل دی گئی ماحولیاتی تحفظ فورس نے مثال قائم کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے، مگر یہ کوشش بھی حقیقت کے برعکس دکھائی دیتی ہے۔ شہر میں زیادہ تر نجی اور تجارتی گاڑیاں اب بھی پیٹرول پر چل رہی ہیں اور ان کے اخراج کی نگرانی کا کوئی مناسب نظام موجود نہیں ہے۔

ماحولیاتی تحفظ فورس کی جانب سے متعارف کی گئی نئی حکمتِ عملی کے تحت 25 ہائبرڈ گاڑیاں خریدی گئی ہیں، جن پر 250 ملین روپے کی خطیر رقم خرچ کی گئی، جو کہ ورلڈ بینک کے گرین پروگرام کے تحت فراہم کی گئی تھی۔ بعض ماہرین اسے مثبت پیش رفت قرار دیتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ جب عام شہری برقی موٹر سائیکل تک خریدنے سے قاصر ہیں، تو ماحول دوست کاروں کا خواب دیکھنا بھی بے سود ہے۔

اس فورس کو 250 الیکٹرک موٹر سائیکلوں کے علاوہ جدید معائنے کے آلات بھی فراہم کیے گئے ہیں، جن میں ٹیبلٹس اور گیس و پانی کے تجزیے کے آلات شامل ہیں۔ ان پر مزید 300 ملین روپے کی رقم خرچ کی گئی، جو کہ صوبائی حکومت نے فراہم کی۔ تاہم، ماہرین کے مطابق یہ اقدامات شہر کی مجموعی فضائی کیفیت میں بہتری کے لیے ناکافی ہیں۔

’’ایکسپریس ٹریبیون‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق، لاہور میں رجسٹرڈ 7.

5 ملین گاڑیوں میں سے 99 فیصد پیٹرول پر چلتی ہیں، جو شہر کی خطرناک حد تک بگڑتی ہوئی فضائی آلودگی کی بڑی وجہ ہیں۔ 27 مارچ کو لاہور کا ایئر کوالٹی انڈیکس 140 سے 157 کے درمیان رہا، جو اسے غیر صحت بخش زمرے میں رکھتا ہے۔

اسی طرح PM2.5 کی مقدار 52 مائیکروگرام فی مکعب میٹر رہی، جو عالمی ادارہ صحت کے مقررہ 24 گھنٹوں کے محفوظ معیار سے تین گنا زیادہ ہے۔

ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ محض 25 ہائبرڈ گاڑیاں متعارف کروا کر ماحولیاتی آلودگی کو کم نہیں کیا جا سکتا۔ پاک وہیلز کے بانی سنیل سرفراز منج کے مطابق ’’اگر حکومت واقعی ماحول دوست ٹرانسپورٹ کے حوالے سے سنجیدہ ہوتی، تو وہ مکمل طور پر برقی گاڑیاں خریدتی نہ کہ ہائبرڈ، جو پھر بھی ایندھن استعمال کرتی ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’یہ ایسا ہی ہے جیسے دوسروں کو نصیحت کرنا مگر خود عمل نہ کرنا۔‘‘

پنجاب ماحولیاتی تحفظ ایجنسی کے سیکریٹری راجہ جہانگیر انور کے مطابق ’’250 الیکٹرک موٹر سائیکلیں اور 25 ہائبرڈ گاڑیاں خریدنے کا مقصد آلودگی پھیلانے والے صنعتی یونٹس، فیکٹریوں اور بھٹوں کا معائنہ کرنا ہے۔ چونکہ صوبہ صفر کاربن اخراج کی جانب گامزن ہے، اس لیے ضروری تھا کہ محکمہ ماحولیات کی گاڑیاں بھی ماحول دوست ہوں۔‘‘

تاہم، ماہرین کے مطابق، جب تک عوام کے لیے مناسب عوامی ٹرانسپورٹ، صنعتی آلودگی کے سخت ضوابط اور معیاری ایندھن کی دستیابی یقینی نہیں بنائی جاتی، تب تک فضائی آلودگی میں نمایاں کمی ممکن نہیں۔ لاہور کی 14.8 ملین آبادی کے لیے موجودہ سفری سہولیات ناکافی ہیں۔ مثال کے طور پر، میٹرو بس سروس صرف 27 کلومیٹر کے سفر کا احاطہ کرتی ہے، جبکہ اورنج لائن میٹرو ٹرین کے 26 اسٹیشنز بھی شہر کے وسیع حصے کا احاطہ نہیں کرتے۔

پنجاب کے ماحولیاتی تبدیلی ایکشن پلان 2024 کے مطابق، 2030 تک 15 فیصد اور 2035 تک 20 فیصد گاڑیاں برقی ہوں گی جبکہ 60 فیصد توانائی قابلِ تجدید ذرائع سے حاصل کرنے کا ہدف ہے۔ تاہم، ماہرین ان اہداف کے حصول کے حوالے سے شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔ ماحولیاتی ماہر داؤر حمید بٹ کے مطابق ’’قابل تجدید توانائی کا ہدف کسی حد تک 40 سے 45 فیصد تک پہنچ سکتا ہے، لیکن برقی گاڑیوں کا ہدف بمشکل 1 فیصد تک ہی پہنچ پائے گا۔‘‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ چارجنگ انفرا اسٹرکچر کی عدم دستیابی اور برقی گاڑیوں کی بلند قیمت ان کے فروغ میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ لاہور جیسے شہر میں ایک مؤثر اور مربوط عوامی ٹرانسپورٹ نظام ناگزیر ہے، جس کے بغیر سڑکوں پر گاڑیوں کی تعداد کم کرنا ممکن نہیں ہے۔

لاہور کی فضائی آلودگی ایک پیچیدہ مسئلہ ہے، جس کے حل کے لیے حکومت کو محض علامتی اقدامات سے آگے بڑھنا ہوگا۔ ٹرانسپورٹ نظام میں بہتری، صنعتی آلودگی پر قابو پانے کے لیے سخت قوانین اور معیاری ایندھن کی فراہمی جیسے اقدامات کے بغیر، ماحولیاتی بہتری کے دعوے محض نعرے ہی رہیں گے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: فضائی آلودگی کے مطابق کے لیے کی گئی

پڑھیں:

یمن کیجانب سے ہمارے قیمتی اثاثوں پر حملے جاری ہیں، واشنگٹن کی دہائی

ملکی و عرب میڈیا کیساتھ گفتگو میں اعلی امریکی حکام نے اعتراف کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ یمن پر 40 دن کے جارحانہ حملوں کے باوجود بھی یمنی مسلح افواج کیجانب سے ہمارے خلاف مزاحمتی کارروائیاں جاری ہیں!! اسلام ٹائمز۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب یمنی مسلح افواج نے غاصب و سفاک صیہونی رژیم اور امریکہ کے جنگی بحری جہازوں کے خلاف اپنی مزاحمتی کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، واشنگٹن نے اعتراف کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ یمن کے خلاف اس کے جارحانہ حملے "بے سود" ہیں۔ تفصیلات کے مطابق 2 اعلی امریکی حکام نے فاکس نیوز کے ساتھ انٹرویو میں اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ یمن میں 40 دن سے جاری وسیع امریکی بمباری کے باوجود بھی، یمن کی جانب سے امریکہ کے قیمتی اثاثوں پر تابڑ توڑ حملوں کا سلسلہ جاری ہے!

ادھر عرب چینل الجزیرہ نے بھی پینٹاگون کے اعلی حکام سے نقل کیا ہے کہ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے تمام حملے؛ حوثیوں کی کمانڈ سائٹس، ہتھیاروں کی تیاری کے مراکز اور جدید ہتھیاروں کے ڈپوؤں کے خلاف جاری ہیں!! رپورٹ کے مطابق، یمن کے خلاف جاری جارح امریکی فوج کے دہشتگردانہ حملوں میں عام شہری افراد و انفراسٹرکچر کو ہدف بنائے جانے سے متعلق دستاویزی شواہد کے بارہا منظر عام پر آ جانے کے حوالے سے امریکی وزارت دفاع کے اعلی حکام کا کہنا تھا کہ ہم یمن میں ہونے والی اپنی بمباریوں کے نتیجے میں عام شہریوں کی وسیع ہلاکتوں کی اطلاعات سے آگاہ ہیں!! مذکورہ اعلی امریکی اہلکاروں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر گفتگو کرتے ہوئے دعوی کیا کہ ہم شہری ہلاکتوں کے دعووں کو "سنجیدگی" سے لیتے ہیں اور ان رپورٹس پر تحقیقات کا ایک "باقاعدہ طریقۂ کار" رکھتے ہیں!!

متعلقہ مضامین

  • بھارتی ڈی مارش میں سندھ طاس معاہدے کا ذکر نہیں، اسحاق ڈار: فضائی حدود کی بندش سے بھارتی پروازوں پر یومیہ لاکھوں ڈالر اضافی اخراجات ہونگے، ذرائع
  • پاکستانی فضائیہ بمقابلہ بھارتی فضائیہ: صلاحیت، ٹیکنالوجی اور حکمت عملی کا موازنہ
  • 25 ہزار ملازمین کے بیروزگار ہونے کا خدشہ
  • یمن کیجانب سے ہمارے قیمتی اثاثوں پر حملے جاری ہیں، واشنگٹن کی دہائی
  • کراچی: برطرف پولیس اہلکار گاڑیاں چھیننے لگے
  • شدید گرمی سے ہونے والی اموات، سندھ حکومت اور نجی اداروں کے اعدادوشمار میں بڑا تضاد
  • پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے زیر اثر غیر متوقع موسموں کا سامنا ہے، بلاول بھٹو زرداری
  • بے نامی اتھارٹی پچھلے 11 ماہ سے غیر فعال ہونے کا انکشاف
  • لاہور میں تیزی سے بڑھتی ہوئی شہری آبادی نے شدید گرمی کے بحران کو سنگین بنا دیا
  • ملک کا نظام لاقانونیت کا شکار ہے، عمران سے ملاقات نہ ہونے پر سلمان اکرم راجہ برہم