امریکا کا پاکستان پر 39 فیصد ٹیرف کا اطلاق، علاقائی برتری و کمزوری کا نیا نقشہ
اشاعت کی تاریخ: 4th, April 2025 GMT
اسلام آباد (نیوز ڈیسک)امریکی حکومت نے پاکستان سے درآمدات پر 29 فیصد جوابی ٹیرف عائد کر دیا ہے، جو کہ 10_فیصد بنیادی (baseline) ٹیرف کے علاوہ ہے۔ یوں پاکستان کی برآمدات پر مجموعی ٹیرف 39 فیصد تک جا پہنچا ہے۔ اس فیصلے نے امریکہ میں پاکستانی مصنوعات، خاص طور پر ٹیکسٹائل، کی قیمتوں میں مسابقت کو شدید متاثر کیا ہے۔یہ فیصلہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کے روز گارڈن میں “یومِ آزادی تجارت” (Liberation Day) کے نام سے نئی تجارتی پالیسی کے اعلان کے تحت کیا۔ نیا ٹیرف 9 اپریل 2025 سے نافذ العمل ہوگا، جب کہ 10 فیصد کا بیس لائن ٹیرف 5اپریل سے لاگو ہوگا۔ وزارت تجارت کے ایک سینئر افسر نے بتایاکہ “یہ نیا 29 فیصد جوابی ٹیرف، پہلے سے لاگو 10 فیصد ٹیرف کے ساتھ ملا کر، پاکستانی برآمدات کو امریکی مارکیٹ میں مہنگا کر دے گا اور پاکستان کو کم ٹیرف والے ممالک جیسے بھارت اور ترکی کے مقابلے میں نقصان پہنچے گا۔”یہ اقدامات پاکستان کو دی گئی GSP (Generalized System of Preferences) تجارتی سہولت کی عملی طور پر تنسیخ کے مترادف ہیں، جس کے تحت کچھ مصنوعات پر 4-5 فیصد ڈیوٹی لی جاتی تھی۔امریکہ پاکستان کا سب سے بڑا سنگل کنٹری برآمدی بازار ہے، جہاں سالانہ 6 ارب ڈالر کی مصنوعات، بالخصوص ٹیکسٹائل، برآمد کی جاتی ہیں۔بین الاقوامی سطح پر ٹیرف میں ہونے والےاس ردوبدل میں پاکستان کےلیے فائدے کےچند امکانا تھی ہیں مثال کے طور پر ویتنام پر کل 50 فیصد ٹیرف سے پاکستان کو 46 فیصد قیمت برتری ہے،انڈونیشیا پر کل 49 فیصدپاکستان کو 49 فیصد برتری،کمبوڈیا پر کل 49 فیصد،چین پر کل 44 فیصد بنگلہ دیش پر کل 47فیصدبرتری پاکستان کوحاصل ہے۔ بھارت پر صرف 13 فیصد ٹیرف پاکستان کو 26 فیصد نقصان ہے۔ترکی پر 29 فیصدسے پاکستان کو 10 فیصد اردن، مصر، وسطی امریکا سے پاکستان کو 23 فیصد نقصان نقاصان ہوگا۔ یعنی پاکستان زیادہ ٹیرف زدہ ممالک کے مقابلے میں اب بھی مسابقتی رہ سکتا ہے، مگر بھارت، ترکی، اردن جیسے کم ٹیرف والے ممالک کے سامنے مشکل میں ہے۔APTMA (آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن) کے سیکرٹری جنرل شاہد ستار کا کہنا ہے کہ”پاکستان پر برآمدی اثرات محدود ہوں گے، کیونکہ علاقائی ممالک جیسے چین، ویتنام، بنگلہ دیش اور سری لنکا پر اس سے بھی زیادہ ٹیرف لگایا گیا ہے۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: پاکستان کو فیصد ٹیرف
پڑھیں:
کشیدگی کے باوجود بھارت سے تجارت: پاکستانی درآمدات 3سالہ بلند ترین سطح پر پہنچنے کا انکشاف
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ فوجی تنازعات اور سرحدی کشیدگی کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان تجارتی سرگرمیاں جاری رہنے کا انکشاف ہوا ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2025 کے پہلے گیارہ ماہ (جولائی تا مئی) میں بھارت سے درآمدات 21 کروڑ 50 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئی ہیں، جو گزشتہ تین سال کی بلند ترین سطح ہے۔
حیرت انگیز طور پر، مئی 2025 کے پہلے ہفتے میں دونوں ممالک کے درمیان چار روزہ فوجی تصادم کے باوجود اس مہینے میں درآمدات ڈیڑھ کروڑ ڈالر ریکارڈ کی گئیں، جو گزشتہ سال کے اسی مہینے کے مقابلے میں محض 20 لاکھ ڈالر کم ہے۔ تاہم، پاکستان کی جانب سے بھارت کو برآمدات نہ ہونے کے برابر رہی ہیں، جس سے دونوں ممالک کے درمیان تجارت کی یک طرفہ نوعیت واضح ہوتی ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، یہ درآمدات زیادہ تر تیسرے ممالک کے ذریعے ہو رہی ہیں۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرنے والے ایک تاجر نے بتایا کہ ’’ادائیگیاں تنازع سے پہلے ہی ہو چکی تھیں، اور اشیا تیسرے ممالک کے راستے پہنچی ہوں گی۔‘‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارتی تحقیقی ادارے گلوبل ٹریڈ ریسرچ انیشی ایٹو (جی ٹی آر آئی) کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان غیر رسمی تجارت کا حجم سرکاری اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے۔ ان کا اندازہ ہے کہ بھارت سے پاکستان کو سالانہ 10 ارب ڈالر مالیت کی اشیا دبئی، کولمبو اور سنگاپور کے راستے غیر رسمی طور پر درآمد کی جاتی ہیں۔
صنعتکاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پیداواری لاگت کا زیادہ ہونا اس غیر رسمی تجارت کی اہم وجہ ہے۔ ایک برآمد کنندہ کے مطابق، ’’ہمیں بھارت سے ہونے والی اسمگلنگ کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ پاکستان میں پیداواری لاگت خطے میں سب سے زیادہ ہے، جو بھارت، چین اور بنگلہ دیش سے اشیا کی درآمد کو پرکشش بناتی ہے۔‘‘
اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان باضابطہ تجارتی تعلقات 2019 سے منجمد ہیں، لیکن زمینی حقائق یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اقتصادی انحصار غیر رسمی ذرائع سے اب بھی برقرار ہے۔ ماہرین معاشیات کے مطابق، یہ صورتحال دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کی پیچیدہ نوعیت کو واضح کرتی ہے، جہاں سیاسی کشیدگی کے باوجود معاشی ضرورتیں تجارت کو جاری رکھنے پر مجبور کرتی ہیں۔