گل بدن ، بل بدن اور فل بدن
اشاعت کی تاریخ: 5th, April 2025 GMT
ویسے تو انسانوں میں بے شمار انواع واقسام کے ’’بدن‘‘ہوتے ہیں اورہوسکتے ہیں یعنی جتنے انسان اتنے ابدان،جتنے منہ اتنے دہان جتنی زبانیں اتنی باتیں، جتنے لیڈر اتنے مسائل جتنے وزیر اتنے چور لیکن علمائے ابدان نے ابدان کو تین بڑی بڑی کیٹگریوں میں تقسیم کیاہوا ہے ، پہلے نمبر پر وہ بدن ہوتے ہیں جنھیں گل بدن کہاجاتاہے، ظاہرہے کہ جتنے گل اس سے کئی گنا زیادہ بلبل،یہ بدن جتنے گلاب ہوتے ہیں اتنے پر شباب ہوتے، سرخاب ہوتے ہیں، نایاب ہوتے ہیں، کمیاب اورکامیاب ہوتے ہیں، ثبوت کے لیے چینلات، اشتہارات اورماڈلات دیکھئیے،لیکن یہ جتنے پربہار ہوتے ہیں، گل وگلزار ہوتے ہیں اتنے ہی ان کے گرد خار بھی ہوتے ہیں کیوں کہ سارے ہی ان کے پرستار و طلب گار ہوتے ہیں ،ایسی ہی ایک گل بدن کاقول زرین وگوہرین ہے کہ
لیلیٰ میں لیلیٰ ایسی ہوں لیلیٰ
ہر کوئی چاہے مجھ سے ملنا اکیلا
مطلب یہ کہ گل بدن بہت ہی قیمتی بے بہا اورانمول ہوتے ہیں۔دوسری قسم کو بل بدن کہاجائے یا بیل بدن، کوئی فرق نہیں پڑتا کیوںکہ یہ درمیان درمیان میں ہوتے ہیں کہ یہ بھی ہوسکتے ہیں اوروہ بھی ہوسکتے ہیں یا یہ بھی نہیں ہوتے اوروہ بھی نہیں ، نہ تین میں نہ تیرہ میں۔ لیکن ہوتے بے شمار ہیں قطار اندر قطار ہیں اورخدائی مارکاشکار ہیں ان کی بے پناہ کثرت کی وجہ سے یہ ہرجگہ موجود بھی ہوتے ہیں اورہرطرح سے استعمال بھی کیے جاتے ہیں لڑائیوں میں، بھڑائیوں میں، جلسوں میں، جلوسوں میں دھرنوں میں، بھرنوں، جھرنوں اور مرنوں میں تھوک کے حساب سے استعمال اورخرچ ہوتے ہیں لیکن پھر بھی خدا نے ان میں اتنی برکت ڈالی ہے کہ کبھی بھی کہیں بھی اورکسی کوبھی ان کی کمی نہیں ہوتی ، وہ جو ایک بلا سے ہرکولیس کو واسطہ پڑاتھا کہ وہ اس کا ایک سرکاٹتا تھا تو وہاں دوسرا اورنکل آتا ، کدوں کے پھولوں کے بارے میں بھی پشتو کہاوت ہے
گل دکدو گل دے چہ یوترے شوکوم ترے لاندے بل دے
یعنی پھول ہے کدو کا، پھول ہے ایک توڑو تو اس کے نیچے ایک اورہے، اگر آپ نے دیکھا ہو تو کدو میں ایک پھول تو وہ ہوتے ہیں ، حسن کے ساتھ پھل بھی ہوتا ہے لیکن زیادہ پھول وہ ہوتے ہیں جو بغیر پھل کے یوں ہی پیدا ہوتے ہیں اورمرجھاتے رہتے ہیں، اوربل بدن کے معنی یہی ہیں کہ مضبوط ، دماغ سے خالی اورہرجگہ لڑانے کے لیے تیار ،تابعدار دیوانہ وار لیکن ہمارا اصل موضوع بحث نہ تو گل بدن ہیں نہ بل بدن بلکہ بدنوں کی تیسری قسم’’فل بدن‘‘ ہیں کہ فل ہوتے ہوتے اتنے ’’فل‘‘ہوجاتے ہیں کہ ان میں سانس کی آمدورفت بھی مشکل ہوجاتی ہے۔
ایسے ہی ایک فل بدن کی موت جب عین دسترخوان پر کھاتے کھاتے ہوگئی تو معائنہ کرنے والے ڈاکٹر نے موت کی وجہ یوں تحریرکی کہ اس نے اتنا کھایا تھا کہ سانس لینے کے لیے کوئی جگہ ہی باقی نہیں رہی تھی ،ان فل بدن لوگوں کا معاملہ سودی نظام کی طرح سود درسود جیسا ہوتا ہے، زیادہ کھانے سے ان کے بدن میں جو بڑھوتری ہوتی ہے وہ بڑھوتری مزید کھانے کا تقاضا کرتی ہے اورکھانا مزید بڑھوتری پیدا کرتا ہے ، یوں جتنا کھاتے ہیں اتنے پھیلتے ہیں اورجتنے پھیلتے ہیں اتنا ہی زیادہ کھاتے ہیں۔ ایسے ہی ایک فل بدن سے جس کا بدن اتنا فل ہوگیا تھا کہ اپنی ہی لمبائی بھی کھاگیا تھا یعنی لمبائی بھی گولائی میں گول ہوگئی،اس سے ہم نے پوچھا کہ تم رات کو کروٹ کیسے بدلتے ہو تو بولا پہلے بیٹھ جاتا ہوں پھر جس کروٹ لینا ہوتا ہے اس طرف پیٹ کا وزن منتقل کردیتا ہوں ۔
لیکن کہانی ہم ایک ایسے فل بدن کی سنانا چاہتے ہیں جو جدی پشتی دکاندار تھا اورمسلسل ایک جگہ بیٹھنے کی وجہ سے موٹاپا ان کی خاندانی شناخت ہوگیا ، ہمارے قریبی بازار میں ان کی دکان تھی ، اس کا چھوٹا بھائی آوٹ ڈور کام کرنے کی وجہ سے الف ہوگیا تھا جب کہ اس نے ’’نون‘‘ کی شکل اختیار کرلی تھی، دونوں بھائی جدید دکانداری کے ہرگُر سے واقف تھے اوران پر عمل پیرا بھی تھے ، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، نقلی چیزوں کو اصلی بنا کر بیچنا، آٹے کی بوریوں میں کارخانے والوں سے کہہ کر تین چار کلو آٹا کم ڈلوانا، ناقص گھی پر مشہور کمپنیوں کے لیبل لگانا، رمضان میں موٹے چاول کو پیس کر اوررنگ دے کر بیسن کے نام سے بیچنا ان کاخصوصی ہنر تھا، چنانچہ دن دونی رات چوگنی ترقی کرتے رہے جب ان کے حریف دکاندار نے حج کر کے دکان پر اپنے نام کے ساتھ حاجی لکھوا لیا تو ان کو بھی فکر پڑگئی اوردکان پر حاجی کا نام لکھوانے کی غرض سے بڑے بھائی’’فل بدن‘‘ کو حج پر روانہ کیا، پورے چالیس سال ایک جگہ بیٹھے رہنے اورصرف ہندسوں کے لین دین سے واسطہ رکھنے کی وجہ سے بدن کے ساتھ اس کا دماغ سکڑ کر صرف ایک صفر کی صورت اختیار کرچکاتھا یعنی دکانداری کے سوا باقی سارے معاملات میں صفرہوگیا تھا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کی وجہ سے ہوتے ہیں فل بدن گل بدن ہیں کہ
پڑھیں:
ہونیاں اور انہونیاں
پاکستان میں نظام انصاف میں معاشرے سے زیادہ تقسیم نظر آرہی ہے۔ اب صرف باہمی اختلاف نہیں بلکہ عدم برداشت والا تاثر ابھر رہا ہے۔ اسے ملکی نظام انصاف کی کوئی خوشنما شکل قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ اس سے لوگوں کا نظام انصاف پر اعتماد جو پہلے ہی ڈگمگاہٹ کا شکار ہے، مزید ڈگمگانے کے خدشات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتاہے۔
پاکستان کے لوگ پہلے ہی سیاستدانوں کی لڑائیوں سے تنگ ہیں۔ اگر نظام انصاف کے بارے میں وہ یہی تاثر لیتے ہیں، تو یہ کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں تو جو کچھ چل رہا ہے، یہ سب کچھ چونکا دینے والا ہے۔ حال میں جو تین واقعات ہوئے ہیں، ان پر ججز پر بحث و مباحثہ شروع ہے جو اچھی روایت نہیں ہے۔ ہمارے لیے تو عدلیہ کا احترام لازم ہے۔ ججز کے لیے ایسا ہی ہے۔ عوام میں یہ تاثر نہیں پیدا ہونا چاہیے کہ ججز اور وکلا تو کچھ بھی کرسکتے ہیں لیکن عوام ایسا نہیں کرسکتے۔
سب سے پہلے ایمان مزاری اور اسلام آباد ہا ئی کورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کا معاملہ دیکھ لیں۔ کھلی عدالت میں ایک معاملہ ہوا۔ ججز صاحب نے اگلے دن معذرت مانگ لی۔ یہ معاملہ غصہ میں ہوئی گفتگو سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔
میری رائے ہے کہ ایمان مزاری کو معذرت قبول کرلینی چاہیے تھی۔ محترم جج صاحب نے انھیں بیٹی بھی کہا۔ لیکن ایمان مزاری نے اس واقعہ پر سیاست کرنی شروع کر دی جو زیادہ افسوسناک بات ہے۔
ایمان مزاری نے اسلام آباد ہا ئی کورٹ میں جج ثمن رفعت کو چیف جسٹس صاحب کے خلاف ہراسگی کی درخواست دے دی، اس درخواست پر فورا ً تین جج صاحبان پر مشتمل کمیٹی بنا دی۔ یوں صورتحال کس رخ پر جارہی ہے، وہ ہم سب کے سامنے ہے۔
اس سے پہلے اسلام ا ٓباد ہائی کورٹ کے رولز بنانے پر بھی قانونی لڑائی سب کے سامنے تھی۔ سپریم کورٹ میں بھی صورتحال سب کے سامنے ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک ڈبل بنچ نے جسٹس طارق جہانگیری کو کام کرنے سے روک دیا ہے۔ ان کی ڈگری کا معاملہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں جج کی ڈگری ایک حساس معاملہ ہوتی ہے۔
حال ہی میں ایک رکن قومی اسمبلی جمشید دستی کی ڈگری جعلی نکلی ہے تو الیکشن کمیشن نے اسے ڈس کوالیفائی کر دیا ہے۔ یہ قانونی پہلو بھی درست ہے کہ کسی بھی جج کے خلاف کاروائی کرنے کا واحد فورم سپریم جیوڈیشل کونسل ہے۔
بہرحال قانونی نکات اور تشریحات کے معاملات قانون دان ہی بہتر سمجھ سکتے ہیں اور ججز ہی ان پر فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔
پاکستان میں خط میں تو ساتھی ججز کوچارج شیٹ کرنے کا طریقہ تو عام ہو چکا ہے۔ اس حوالے سے میڈیا میں خبریں بھی آتی رہی ہیں۔ بہر حال رٹ پٹیشن میں کسی جج صاحب کو کام کرنے سے روکنے کا اپنی نوعیت کا یہ پہلا معاملہ ہے۔
لیکن میرا خیال ہے کہ آئین وقانون میں جعلی ڈگری کے ایشو پر کسی جج کوکام سے روکنے کی کوئی ممانعت بھی نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آئین اس کی اجازت دیتا ہے۔ اس لیے مجھے فیصلہ میں کوئی قانونی رکاوٹ نظر نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی یہ ایک پنڈورا بکس کھول دے گا۔
پاکستان میں سیاسی تقسیم بہت گہری ہے اور حالیہ چند برسوں میں اس تقسیم میں نفرت ‘عدم برداشت اس قدر بڑھی ہے کہ معاملہ دشمنی کی حدود میں داخل ہو چکا ہے۔ خصوصاً پی ٹی آئی نے جس انداز میں مہم جوئیانہ سیاست کا آغاز کیا ‘اس کا اثر پاکستان کے تمام مکتبہ ہائے فکر پر پڑا ہے۔
پاکستان میں نظام انصاف کے حوالے سے باتیں ہوتی رہتی ہیں تاہم یہ باتیں زیادہ تر سیاسی و عوامی حلقے کرتے تھے ‘زیادہ سے زیادہ وکلا حضرات ذرا کھل کر بات کرتے تھے لیکن نظام انصاف کے اندر اختلافات اور تقسیم کی باتیں باہر کم ہی آتی تھیں لیکن حالیہ کچھ عرصے سے جہاں بہت سی چیزوں میں بدلاؤ آیا ہے ‘یہاں بھی صورت حال میں تبدیلی آئی ہے۔
اب پاکستان کے عام شہری کو بھی بہت سے معاملات سے آگاہی مل رہی ہے کیونکہ بحث و مباحثہ مین اسٹریم میڈیا میںہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا تک پہنچ چکے ہیں۔ سوشل میڈیا کے بارے میں تو آپ کو پتہ ہے کہ چھوٹی سی بات بھی کتنی بڑی بن جاتی ہے اور گلی محلوں تک پھیل جاتی ہے۔