’ bad کولیسٹرول‘ جو ڈیمنشیا اور الزائمر کی بیماری سے بچاتا ہے
اشاعت کی تاریخ: 6th, April 2025 GMT
سائنس کی ایک حالیہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ جو افراد کم LDL کے لیے اسٹیٹن استعمال کرتے ہیں ان میں ڈیمنشیا اور الزائمر کا خطرہ کم ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:طرز زندگی میں تبدیلی کینسر سے بچ جانے والوں کی عمر بڑھاتی ہے؟
جرنل آف نیورولوجی میں شائع ایک نئی تحقیقی رپورٹ کے مطابق ’ bad ‘، LDL کولیسٹرول کی کم سطح کا مطلب ڈیمنشیا اور الزائمر کی بیماری کا کم خطرہ ہے۔
کم کثافت والے لیپو پروٹین یا LDL والے کولیسٹرول کی سطح 70 mg/dl سے کم رکھنے والے افراد میں ڈیمینشیا کا خطرہ 26 فیصد کم اور الزائمر کا خطرہ 28 فیصد کم ہوتا ہے۔ ایسا ان تمام لوگوں کے مقابلے میں ہے جن میں LDL کی سطح 130 mg/dl سے زیادہ ہوتی ہے۔
تحقیق کے مطابق کولیسٹرول کو کم کرنے کے لیے، لیے جانے والے اسٹیٹنز ڈیمینشیا اور الزائمر کے خلاف اضافی تحفظ فراہم کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
جنوبی کوریا کے شہر سیول میں ہالیم یونیورسٹی کالج آف میڈیسن میں نیورولوجی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر یریم کم کی قیادت میں تحقیق کرنے والی ٹیم کے نتائج کے مطابق یہ نتائج ڈیمنشیا سے بچاؤ کے لیے مخصوص LDL کولیسٹرول خاص مقدار میں حاصل کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:صحتمند بڑھاپے کے لیے درمیانی عمر میں کیا کھائیں؟
اس سب کے باوجود محقیقین کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ ہدایات ’ bad‘ کولیسٹرول کی سطح اور دل کے خطرے کے درمیان واضح تعلق پر مبنی ہیں، لیکن LDL کولیسٹرول اور دماغی صحت کے درمیان تعلق کے حوالے سے متضاد شواہد موجود ہیں۔
محققین کے مطابق ابتدائی مطالعات میں بتایا گیا تھا کہ اسٹیٹن کے استعمال کے ذریعے ایل ڈی ایل کولیسٹرول کو کم کرنے سے کچھ خرابی ہو سکتی ہے، لیکن بعد کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ کم ایل ڈی ایل ڈیمنشیا کا خطرہ نہیں بڑھاتا۔
محقیقی کے مطابق یہ واضح نہیں ہے کہ آیا LDL کولیسٹرول کو کم کرنا دراصل دماغ کی حفاظت کر سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:برطانوی ہیلتھ سیکیورٹی ایجنسی نے 24 ترجیحی پیتھوجینز کی تیاری کی ہدایت کردی
اس بات کا جائزہ لینے کے لیے محققین نے جنوبی کوریا کے 11 یونیورسٹی اسپتالوں کے 192,000 سے زیادہ افراد کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا جن میں LDL کی سطح 70 mg/dl سے کم تھی اور 379,000 مریضوں میں LDL کی سطح 130 mg/dl سے زیادہ تھی۔
تجزیہ سے پتا چلتا ہے کہ کم ایل ڈی ایل کولیسٹرول والے لوگوں میں ڈیمنشیا اور الزائمر دونوں کا خطرہ کم ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ کم ایل ڈی ایل کی سطح حاصل کرنے کے لیے اسٹیٹن استعمال کرنے والے افراد میں ڈیمنشیا کا خطرہ 13 فیصد کم اور الزائمر کا خطرہ 12 فیصد کم تھا ان لوگوں کے مقابلے میں جو اسٹیٹن نہیں لے رہے تھے۔
رپورٹ کے مطابق محققین نے نوٹ کیا کہ مطالعہ ایل ڈی ایل کولیسٹرول اور ڈیمنشیا کے درمیان وجہ اور اثر کا تعلق ثابت نہیں کر سکتا۔ براہِ راست تعلق ثابت کرنے کے لیے کلینیکل ٹرائلز کی ضرورت ہوگی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
bad ‘ کولیسٹرول LDL ایل ڈی ایل کولیسٹرول جرنل آف نیورولوجی جنوبی کوریا ہالیم یونیورسٹی کالج آف میڈیسن.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: bad کولیسٹرول جرنل آف نیورولوجی جنوبی کوریا ڈیمنشیا اور الزائمر کے مطابق فیصد کم کا خطرہ کی سطح کے لیے یہ بھی
پڑھیں:
جنوبی ایشیا میں زندان میں تخلیق پانے والے ادب کی ایک خاموش روایت
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 جولائی 2025ء) جنوبی ایشیا میں جیلیں صرف قید و بند کی جگہیں نہیں رہیں، یہ تاریخ کے وہ خاموش گوشے بھی ہیں جہاں کئی نسلوں کے سیاسی خواب، جدوجہد، اذیتیں اور اصولی اقدار کاغذ پر منتقل ہوتے رہے ہیں۔ جیل کے سناٹے میں لکھی گئی یہ تحریریں نہ صرف فرد کی مزاحمت کا بیانیہ ہیں، بلکہ پورے عہد کا عکاس بھی۔
برصغیر میں زندان ادب یا زندانوں میں تخلیق پانے والے ادب کی روایت نے آزادی کی تحریک کے دوران جڑ پکڑی، جب برطانوی راج کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو جیل کی دیواروں کے پیچھے دھکیل دیا گیا۔ نہرو، گاندھی، بھگت سنگھ اور خان عبدالغفار خان جیسے رہنماؤں نے جیل کو ایک فکری خلا کے بجائے تخلیق کا میدان بنایا۔ لاہور جیل میں بھگت سنگھ کی مشہور تحریر ’وائے آئی ایم این ایتھیئسٹ‘ ہو یا خان عبدالغفار خان کی خود نوشت 'مائی لائف مائی اسٹرگل‘ یہ تحریریں آج بھی وقت سے ماورا سچ بولتی ہیں۔
(جاری ہے)
کتاب سے اسکرین تک، ادب کی بے ادبی
پاکستان میں تخلیقی عمل اور جدت پسندی کے فقدان کے اسباب
آزادی کے بعد سیاسی جبر کی شدت کم ہوئی، اور یوں جیل ادب بھی طویل وقفے میں داخل ہو گیا۔ مگر پھر 1975ء میں بھارت میں اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کی طرف سے لگائی گئی ایمرجنسی نے اسے دوبارہ جنم دیا۔ صحافی کلدیپ نئیر نے اپنی اسیری کی کہانی ’اِن جیل ایمرجنسی ری ٹولڈ‘ میں لکھی، جبکہ جے پرکاش نارائن اور لال کرشن اڈوانی جیسے سیاستدانوں نے بھی جیل کو اپنے فکری سفر کا سنگ میل بنایا۔
پاکستان میں چونکہ آمریت اور مارشل لا کے ادوار آتے جاتے رہے، اس لیے وہاں زندانوں میں تخلیق پانے والے ادب کا سفر جاری رہا۔
پاکستانی فوجی سربراہ ایوب خان کے 1958ء سے 1969ء تک جاری رہنے والے مارشل لا کے دوران فیض احمد فیض نے ’زندان نامہ‘ اور ’دست صبا‘ جیسی شاہکار شاعری تخلیق کی۔
اسی طرح جنرل ضیا الحق کی طرف سے لگائے گئے مارشل لاء کے دوران ذوالفقار علی بھٹو کی جیل ڈائریاں اور کتابیں منظر عام پر آئیں، جو انہوں نے موت کی سزا کا انتظار کرتے ہوئے جیل کی سلاخوں کے پیچھے لکھیں۔
اکیسویں صدی میں بھارت میں جب ایک بار پھر صحافیوں، کارکنوں اور سیاستدانوں پر ریاستی شکنجہ کسنے لگا، جیل ادب نے ایک نئی کروٹ لی۔ ممبئی کے استاد عبدالوحید شیخ نے، جو 2006ء کے ٹرین دھماکوں کے جھوٹے الزام میں نو برس تک قید و بند میں رہے نہ صرف اپنی روداد لکھی، بلکہ انہوں نے دیگر جیل ڈائریوں اور جیل ادب کو یکجا کر کے ان پر ڈاکٹریٹ کےلیے مقالہ بھی لکھا۔
حال ہی میں ان کو ایک یونیورسٹی نے انہیں اس کاوش کے لیے ڈاکٹریٹ سے نوازا۔عبدالوحید شیخ کے مطابق، ’’جیل کے اندر نعت، حمد، نظم، غزل، ڈائری اور خودنوشت تک ہر صنف کو برتا گیا ہے۔ یہ ادب یا تو دل سے نکلا ہوا جذباتی اظہار ہے یا مزاحمت کی پرزور صدا۔‘‘
وہ مزید کہتے ہیں، ’’یہ بھارت کی بدقسمتی ہے کہ آزادی کے بعد ایسے قیدیوں کی تحریروں کو وہ مقام نہیں دیا گیا جن پر ریاست نے ملک مخالف قوانین تھوپے۔
‘‘سینئر صحافی افتخار گیلانی نے، جو 2002ء میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت نو ماہ قید میں رہے، 1975ء کے بعد بھارت میں قید و بند کے حوالے سے پہلی یاداشت لکھی۔ ان کی انگریزی کتاب 'مائی ڈیز اِن پریزن‘ 2005ء میں جبکہ اس کا اردو ورژن ’تہاڑ میں میرے شب و روز‘ 2006ء میں منظر عام پر آئی۔
قید خانے میں تخلیق پانے والے ادب کے بارے میں وہ کہتے ہیں، ’’ایمرجنسی کے بعد تین دہائیوں تک جیل ادب جیسے خاموش ہو گیا تھا، مگر اب جب پھر سے اختلافِ رائے کو جرم بنا دیا گیا ہے، یہ روایت پھر سے زندہ ہو رہی ہے۔
‘‘اسی سلسلے میں سدھا بھردواج، جی این سائبابا اور ڈاکٹر بنائک سین، کوبڈ گاندھی جیسے سماجی کارکنوں نے بھی اپنی قید کی کہانیاں قلمبند کی ہیں، جو صرف ذاتی اذیت کی داستانیں نہیں بلکہ ریاست اور فرد کے بیچ جاری کشمکش کا آئینہ بھی ہیں۔
جنوبی ایشیا کا زندان ادب دراصل ان آوازوں کا مجموعہ ہے جنہیں دبانے کی کوشش کی گئی، مگر مرزا غالب کے اس شعر کے مصداق:
پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے
رکتی ہے میری طبع تو ہوتی ہے رواں اور
جیلوں اور قید خانوں کی دیواریں ان آوازوں کو قید رکھنے میں ناکام رہیں۔ یہ صرف قیدیوں کا ادب نہیں، یہ گواہی ہے اس سچ کی جسے طاقت نے بارہا قید کرنے کی کوشش کی، مگر ہر بار قلم نے آزاد کیا۔