لندن سے خبر ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق دونوں برطانوی ارکان پارلیمنٹ کو تھوڑی دیر حراست میں رکھ کر وطن واپس روانہ کر دیا گیا۔  اسلام ٹائمز۔ برطانیہ کی 2 ارکان پارلیمان کو اسرائیل میں داخل ہونے سے روک دیا گیا، برطانیہ نے اس اقدام کی شدید مذمت کی ہے۔ لندن سے خبر ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق دونوں برطانوی ارکان پارلیمنٹ کو تھوڑی دیر حراست میں رکھ کر وطن واپس روانہ کر دیا گیا۔ خبر ایجنسی کے مطابق برطانیہ کی حکمران لیبر پارٹی کے ارکان پارلیمان یوان یینگ اور ابتسام محمد گذشتہ رات اسرائیل پہنچے تھے۔ برطانوی میڈیا کے مطابق اسرائیلی حکام کو شبہ تھا کہ برطانوی ارکان پارلیمان اسرائیلی سیکیورٹی فورسز کی سرگرمیاں ریکارڈ کریں گے۔ 

برطانوی میڈیا کے مطابق اسرائیلی حکام کو شبہ تھا کہ برطانوی ارکان پارلیمان اسرائیل مخالف جذبات پھیلائیں گے۔ خبر ایجنسی کے مطابق برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے اسرائیل کی جانب سے برطانوی ارکان پارلیمان سے برتاؤ کی مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی وزیر خارجہ کو باور کرا دیا ہے کہ برطانوی ارکان پارلیمان کے ساتھ ایسا برتاؤ ناقابل قبول ہے، برطانیہ غزہ تنازع کا خاتمہ اور یرغمالیوں کی رہائی کا خواہاں ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

پڑھیں:

اسرائیلی طرزعمل درست نہ ہوا تو فلسطینی ریاست تسلیم کر لینگے، برطانیہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 30 جولائی 2025ء) فلسطینی مسئلے کے پرامن اور دو ریاستی حل سے متعلق اعلیٰ سطحی بین الاقوامی کانفرنس اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں جاری ہے جس کے دوسرے روز برطانیہ نے اعلان کیا ہے کہ اگر اسرائیل نے غزہ میں ہولناک حالات کا خاتمہ نہ کیا تو وہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لے گا۔

فرانس اور سعودی عرب کی خارجہ وزارتوں کی مشترکہ میزبانی میں ہونے والی اس کانفرنس کا انعقاد جنرل اسمبلی کی قرارداد 81/79 کی مطابقت سے عمل میں آیا ہے۔

اس کا مقصد فلسطینی مسئلے اور اس کے دو ریاستی حل سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد ممکن بنانے کے اقدامات کرنا ہے۔

اس کانفرنس میں تنازع کے دونوں فریق شریک نہیں ہیں اور اسرائیل کے مضبوط حمایتی امریکہ کی جانب سے بھی شرکت کی توقع نہیں ہے۔

(جاری ہے)

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے اپریل میں سلامتی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ دو ریاستی حل کا امکان سرے سے ختم ہونے کو ہے۔

اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے درکار سیاسی عزم نظر نہیں آتا۔ تاہم، 5 جون کو صحافیون سے بات کرتے ہوئے انہوں نے سوال کیا کہ جو لوگ دو ریاستی حل پر شبے کا اظہار کرتے ہیں ان کے پاس اس کا متبادل کیا ہے؟ کیا یہ ایک ریاستی حل ہو گا جس میں فلسطینیوں کو یا تو ان کے علاقوں سے نکال باہر کیا جائے گا یا وہ اپنی سرزمین پر حقوق کے بغیر رہیں گے؟

انہوں نے یاد دلایا کہ دو ریاستی حل کو زندہ رکھنا اور اسے عملی صورت دینے کے لیے حالات کو سازگار بنانا عالمی برادری کی ذمہ داری ہے۔

برطانیہ کا اعلان

برطانیہ کے وزیر برائے خارجہ، دولت مشترکہ و ترقیاتی امور ڈیوڈ لیمے نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دو ریاستی حل کی حمایت کے لیے برطانیہ پر تاریخی حوالے سے خصوصی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں، ان کا ملک بین الاقوامی عدالتوں کی آزادی کی حمایت میں کھڑا ہے جس نے اسرائیل کے متشدد آباد کاروں پر پابندیاں عائد کی ہیں، اسرائیلی حکومت کے ساتھ تجارتی بات چیت کو معطل کر دیا ہے اور نفرت و تشدد کی ترغیب دینے پر اسرائیل میں دائیں بازو کے وزرا پر بھی پابندیاں لگائی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیلی حکومت کی جانب سے دو ریاستی حل کو مسترد کرنا اخلاقی اور تزویراتی دونوں اعتبار سے درست نہیں۔ برطانیہ اس حل کو قابل عمل بنانے کے لیے پرعزم ہے۔ اسی لیے ان کی حکومت ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ اگر اسرائیل کی حکومت نے غزہ میں ہولناک حالات اور اپنی عسکری کارروائیوں کا خاتمہ نہ کیا اور دو ریاستی حل کی بنیاد پر طویل مدتی پائیدار امن قائم کرنے کے عزم سے گریز کیا تو اس فیصلے پر عملدرآمد کیا جائے گا۔

قیام امن کی بنیادی شرط

جنوبی افریقہ کے وزیر برائے بین الاقوامی تعلقات و تعاون رونلڈ اوزے لامولا نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کے وجود کو لاحق خطرات کی موجودگی میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ سلامتی کونسل کو انہیں تحفظ دینے کے اقدامات کرنا ہوں گے اور دو ریاستی حل کو قابل عمل بنانے میں بین الاقوامی قانون کے مکمل احترام کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔

انہوں نے فلسطینی مسئلے پر اقوام متحدہ کی قراردادوں اور عالمی عدالت انصاف کی مشاورتی آرا پر فوری اور مکمل عملدرآمد کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل ہی نہیں بلکہ تمام ممالک کو بین الاقوامی قانون کے تحت اپنی اجتماعی ذمہ داریوں کی تعمیل کرنا ہو گی اور ان قوانین کے تقدس کو برقرار رکھنا ہو گا۔

رونلڈ لامولا نے مزید کہا کہ اس کانفرنس کو عالمگیر توجہ حاصل ہے۔

اقوام متحدہ کے قیام سے 80 برس بعد دنیا کا اجتماعی ضمیر خوابیدہ ہے۔ فلسطینی مسئلے کو حل کرنے کے لیے ان اقدار سے دوبارہ وابستگی کا ٹھوس عہد کرنا ہو گا جو تمام انسانوں کو آپس میں جوڑتی ہیں۔ UN Photo/Manuel Elías سیاسی عزم کی ضرورت

متحدہ عرب امارات کے وزیر مملکت برائے خارجہ امور خلیفہ شاہین المرار نے غزہ میں تباہ کن انسانی حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک فلسطینیوں کو انسانی امدد پہنچانے کے لیے بین الاقوامی کوششوں کی قیادت کرتا آیا ہے۔

اس نے زمین اور سمندر کے راستے امداد فراہم کرنے کے علاوہ فضا سے بھی امدادی سامان گرانے کا آغاز کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ غزہ میں فوری جنگ بندی اور یرغمالیوں اور قیدیوں کی رہائی کے لیے کام کرنا بھی ضروری ہے۔ ایک خودمختار اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی جانب واضح اور ناقابل واپسی لائحہ عمل کی منظوری دینا ہو گی جس پر عملدرآمد قانوناً لازم ہو۔

انہوں نے خبردار کیا کہ فلسطینی مسئلے کو حل کیے بغیر گزرتا ہر دن زخموں کو گہرا اور امن کے امکانات کو معدوم کر دیتا ہے۔ مستقبل کا راستہ واضح ہے اور اب بہترین تزویراتی انتخاب کے طور پر امن کی جانب بڑھنے کے لیے صرف سیاسی عزم اور جرات کی ضرورت ہے۔

غیرمشروط جنگ بندی

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت میں خارجہ امور کی وزارت کے مشیر توحید حسین نے کانفرنس سے خطاب کرتےہوئے کہا کہ 1971 میں ملک کی جنگ آزادی سے لے کر گزشتہ سال جولائی اور اگست میں برپا ہونے والی عوامی تحریک تک بنگلہ دیش کے لوگوں نے ہمیشہ اپنے حق خود اختیاری کے لیے جدوجہد کی ہے۔

انہوں ںے کہا کہ اسی میراث کی بدولت بنگلہ دیش کے لوگ فلسطینی عوام کی آزاد و خودمختاری ریاست کے لیے جائز خواہشات کی تکمیل کے مقصد میں ان کے ساتھ ہیں اور دو ریاستی حل پر بلاتاخیر عملدرآمد ہونا چاہیے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ فلسطینی عوام کی تکالیف کو دور کرنے کے لیے محض الفاظ کافی نہیں بلکہ عالمی برادری کو غزہ میں فوری اور غیرمشروط جنگ بندی کا حصول اپنی ترجیح بنانا ہو گی اور علاقے میں انسانی امداد ی بڑے پیمانے پر بلارکاوٹ فراہمی کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔

ان ممالک کے نمائندوں کے علاوہ کانفرنس کے دوسرے روز ویتنام، روس، ایسٹونیا، اور جبوٹی کے مندوبین نے بھی خطاب کیا اور مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کی حمایت کا اعادہ کیا۔

متعلقہ مضامین

  • اسرائیلی طرزعمل درست نہ ہوا تو فلسطینی ریاست تسلیم کر لینگے، برطانیہ
  • میانمار: فوجی حکومت الیکشن کیخلاف مظاہروں پر سخت سزائیں دے گی
  • برطانیہ نے فلسطینی ریاست کے حق میں اعلان پر اسرائیلی تنقید مسترد کر دی
  • فرانس اور برطانیہ کے بعد کینیڈا کا بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے پرغور
  • یوٹیوب سے ڈرائیونگ سیکھ کر پہلی بار میں ٹیسٹ پاس کرنیوالا برطانوی شہری
  • اسرائیل کو بڑادھچکا، برطانیہ نے بھی فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کردیا
  • 22 ماہ سے جاری وحشیانہ صیہونی حملے، فلسطینی شہداء کی تعداد 60 ہزار سے تجاوز کرگئی
  • پنجاب اسمبلی میں ہاتھا پائی کے بعد اپوزیشن و حکومتی اراکین پھر لڑ پڑے، گالم گلوچ بھی کی
  • پنجاب اسمبلی میں پرائیویٹ گارڈ ز نے اپوزیشن اراکین کو گالیاں کیوں دیں؟
  • 221 برطانوی اراکینِ پارلیمنٹ کا وزیراعظم کو خط: ’’فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا جائے!‘‘