اگر آپ ہائی بلڈ پریشر یا ذیابیطس یا دونوں مرض میں مبتلا ہیں، تو خوراک دوسروں کی بنسبت آپ کی صحت پر بڑا اثر ڈالتی ہے۔

یہ دونوں امراض خوراک سے گہرا تعلق رکھتے ہیں اور بعض غذائیں انہیں مزید خراب کر سکتی ہیں۔ جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں۔

1)    سب سے پہلی خوراک جس پر آپ کو توجہ دینے کی ضرورت ہے، وہ ہے نمک کی مقدار۔ نمک آپ کے جسم میں اضافی پانی کو روکتا ہے، جو آپ کے بلڈ پریشر کو بڑھاتا ہے اور آپ کے دل پر زیادہ دباؤ ڈالتا ہے۔

2)    شوگر ایک اور بڑی تشویش رہی ہے خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو ذیابیطس کے مریض ہیں۔ لیکن یہ ہائی بلڈ پریشر میں بھی کردار ادا کر سکتا ہے۔

3)    اسی طریقے سے چکنائی ہے۔ خوراک میں موجود چکنائی دونوں امراض میں شدید نقصان دہ ہے۔ تمام چکنائیاں خراب نہیں ہوتیں لیکن ٹرانس فیٹس اور سیچوریٹڈ فیٹس سے پرہیز ضروری ہے۔

4)    ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس والے لوگوں کو سُرخ گوشت اور مکمل چکنائی والی ڈیری مصنوعات کو بھی محدود کرنے کی ضرورت ہے۔ ان میں سیر شدہ چکنائی بہت زیادہ ہوتی ہے جو کولیسٹرول کی سطح کو بڑھا سکتی ہے اور دل سے متعلق پیچیدگیوں کو مزید خراب کر سکتی ہے۔ 

5)    اس کے علاوہ ریفائن اناج جیسے سفید چاول اور سفید آٹے یا میدے کو بھی ترک کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ غذائیں بلڈ شوگر میں تیزی سے اضافے کا باعث بنتی ہیں جو ذیابیطس کے شکار لوگوں کے لیے موزوں نہیں ہے۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ہائی بلڈ پریشر کی ضرورت

پڑھیں:

پاکستان کو تصادم نہیں، مفاہمت کی سیاست کی ضرورت ہے، محمود مولوی

سابق رکن قومی اسمبلی نے کہا کہ جو لوگ ملک میں انتشار اور محاذ آرائی کی سیاست کر رہے ہیں، انہیں اب کھل کر سامنے آنا چاہیئے تاکہ عوام خود فیصلہ کریں کہ کون ملک کے استحکام کے لیے مفاہمت کی راہ پر گامزن ہے اور کون مزاحمت کے نام پر قومی مفاد کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سابق رکن قومی اسمبلی اور سینئر سیاستدان محمود مولوی نے کہا ہے کہ پاکستان اس وقت ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے جہاں مفاہمت اور تعمیری سیاست کو فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد واضح ہے، ہم اس ملک میں مفاہمت، مکالمے اور تعمیری سیاست کو فروغ دینا چاہتے ہیں کیونکہ مزاحمت اور تصادم کی سیاست نے قومی مفاد کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ محمود مولوی نے کہا کہ جو لوگ ملک میں انتشار اور محاذ آرائی کی سیاست کر رہے ہیں، انہیں اب کھل کر سامنے آنا چاہیئے تاکہ عوام خود فیصلہ کریں کہ کون ملک کے استحکام کے لیے مفاہمت کی راہ پر گامزن ہے اور کون مزاحمت کے نام پر قومی مفاد کو نقصان پہنچا رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ جو عناصر تصادم چاہتے ہیں، وہ دراصل قوم کو تقسیم اور اداروں کو کمزور کرنے کے خواہاں ہیں، ان کے لیے ہمارا پیغام بالکل واضح ہے کہ اگر آپ واقعی پاکستان کے خیرخواہ ہیں، تو مفاہمت کے راستے پر آئیں، مکالمے میں شامل ہوں اور ایک پرامن اور مستحکم سیاسی ماحول کے قیام میں اپنا کردار ادا کریں۔ سینئر سیاستدان نے کہا کہ پاکستان آج عالمی سطح پر ایک مضبوط اور قابلِ اعتماد ملک کے طور پر ابھر رہا ہے، امریکا، چین اور سعودی عرب جیسے ممالک ہمارے اسٹریٹیجک پارٹنرز ہیں، مگر افسوس کہ اندرونی سطح پر ہم اب بھی سیاسی طور پر کمزور ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ٹنڈو جام: حیدرآباد میرپور ہائی وے پر ہونے والے حادثے میں زخمی وجاں بحق افراد
  • ڈینگی سے ہلاکتوں کا سلسلہ نہ رک سکا، اسپتالوں میںجگہ کم پڑ گئی
  • فاسٹ فیشن کے ماحولیاتی اثرات
  • پاکستان کو تصادم نہیں، مفاہمت کی سیاست کی ضرورت ہے، محمود مولوی
  • پاکستانی ویزا 24 گھنٹوں میں مل جاتا ہے، براہ راست فلائٹ کا مسئلہ ہے: بنگلا دیشی ہائی کمشنر
  • ممکنہ تنازعات سے بچنے کے لیے امریکا اور چین کے درمیان عسکری رابطوں کی بحالی پر اتفاق
  • ای چالان سسٹم کیخلاف ایڈووکیٹ راشد رضوی کی سندھ ہائی کورٹ میں آئینی پٹیشن داخل
  • اسلام آباد ہائی کورٹ نے ٹیلی کام کمپنیوں کی کمپٹیشن کمیشن کے خلاف درخواستیں مسترد کردیں
  • کراچی میں ٹریفک چالان سے بچنے کیلیے کون سی گاڑی کِس رفتار پر چلانی چاہیے؟
  • اسرائیلی پابندیوں سے فلسطینیوں کو خوراک و پانی کی شدید کمی کا سامنا ہے، انروا