Daily Ausaf:
2025-07-25@12:44:40 GMT

خلافت عثمانیہ کے خاتمہ میں یہودی کردار

اشاعت کی تاریخ: 8th, April 2025 GMT

2003 میں اسرائیل کے وزیر دفاع جنرل موفاذ نے کہا تھا کہ چند روز تک عراق پر ہمارا قبضہ ہوگا اور ہمارے راستے میں جو بھی رکاوٹ بنے گا اس کا حشر عراق جیسا ہی ہوگا۔ جنرل موفاذ نے خلافت عثمانیہ کا حوالہ بھی دیا ہے کہ عثمانی خلیفہ سلطان عبد الحمید نے ہمیں فلسطین میں جگہ دینے سے انکار کیا تھا جس کی وجہ سے ہم نے نہ صرف ان کی حکومت ختم کر دی بلکہ عثمانی خلافت کا بستر ہی گول کر دیا۔ اب جو اسرائیل کی راہ میں مزاحم ہوگا اسے اسی انجام سے دو چار ہونا پڑے گا۔اسرائیلی وزیر دفاع کے اس بیان سے یہ حقیقت ایک بار پھر واضح ہوگئی ہے کہ عراق پر امریکی حملے کا منصوبہ در اصل صیہونی عزائم کی تکمیل کے لیے ہے اور اس عالمی پروگرام کا حصہ ہے جو عالم اسلام کے وسائل پر قبضہ اور اسرائیلی سرحدوں کو وسیع اور مستحکم کرنے کے لیے گزشتہ ایک صدی سے تسلسل کے ساتھ جاری ہے اور اس میں امریکہ، برطانیہ اور ان کے اتحادی مسلسل سرگرم عمل ہیں۔آج سے ایک صدی قبل سلطان عبدالحمید خلافت عثمانیہ کے تاجدار تھے جن کا تذکرہ جنرل موفاذ نے اپنے مذکورہ بیان میں کیا ہے۔ خلافت عثمانیہ کا دار السلطنت استنبول ( قسطنطنیہ) تھا اور فلسطین، اردن، عراق، شام، مصر اور حجاز سمیت اکثر عرب علاقے ایک عرصہ سے خلافت عثمانیہ کے زیر نگین تھے۔ فلسطین خلافت عثمانیہ کا صوبہ تھا اور بیت المقدس کا شہر بھی عثمانی سلطنت کے اہم شہروں شمار ہوتا تھا۔ یہودی عالمی سطح پر فلسطین میں آباد ہونے اور اسرائیلی ریاست کے قیام کے ساتھ ساتھ بیت المقدس پر قبضہ کر کے مسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکل سلیمانی تعمیرکرنے کا پروگرام بنا چکے تھے اور اس کے لیے مختلف حوالوں سے راہ ہموار کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے۔ سلطان عبدالحمید مرحوم نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ یہودیوں کی عالمی تنظیم کا وفد ان کے پاس آیا اور ان سے درخواست کی کہ انہیں فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت دی جائے۔ چونکہ عثمانی سلطنت کے قانون کے مطابق یہودیوں کو فلسطین میں آنے کی اور بیت المقدس کی زیارت کی اجازت تو تھی مگر وہاں زمین خریدنے اور آباد ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ چنانچہ بیسویں صدی کے آغاز تک پورے فلسطین میں یہودیوں کی کوئی بستی نہیں تھی، یہودی دنیا کے مختلف ممالک میں بکھرے ہوئے تھے اور کسی ایک جگہ بھی ان کی ریاست یا مستقل شہر نہیں تھا۔ سلطان عبدالحمید مرحوم نے یہ درخواست منظور کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ اسرائیل، بیت المقدس اور فلسطین کے بارے میں یہودیوں کا عالمی منصوبہ ان کے علم میں آچکا تھا اس لیے ان کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ اس صورتحال میں یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت دیتے۔سلطان مرحوم کا کہنا ہے کہ دوسری بار یہودی لیڈروں کا وفد ان سے ملا تو یہ پیشکش کی کہ ہم سلطنت عثمانیہ کے لیے ایک بڑی یونیورسٹی بنانے کے لیے تیار ہیں جس میں دنیا بھر سے یہودی سائنس دانوں کو اکٹھا کیا جائے گا اور سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کے لیے یہودی سائنسدان خلافت عثمانیہ کا ہاتھ بٹائیں گے، اس کے لیے انہیں جگہ فراہم کی جائے اور مناسب سہولتیں مہیا کی جائیں۔ سلطان عبدالحمید مرحوم نے وفد کو جواب دیا کہ وہ یونیورسٹی کے لیے جگہ فراہم کرنے اور ہر ممکن سہولتیں دینے کو تیار ہیں بشرطیکہ یہ یونیورسٹی فلسطین کی بجائے کسی اور علاقہ میں قائم کی جائے۔ یونیورسٹی کے نام پر وہ یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت نہیں دیں گے لیکن وفد نے یہ بات قبول نہ کی۔سلطان عبدالحمید مرحوم نے لکھا ہے کہ تیسری بار پھر یہودی لیڈروں کا وفد ان سے ملا اور یہ پیشکش کی کہ وہ جتنی رقم چاہیں انہیں دے دی جائے گی مگر وہ صرف یہودیوں کی ایک محدود تعداد کو فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت دے دیں۔ سلطان مرحوم نے اس پر سخت غیظ و غضب کا اظہار کیا اور وفد کو ملاقات کے کمرے سے فوراً نکل جانے کی ہدایت کی نیز اپنے عملہ سے کہا کہ آئندہ اس وفد کو دوبارہ ان سے ملاقات کا وقت نہ دیا جائے۔اس کے بعد ترکی میں خلافت عثمانیہ کے فرمانروا سلطان عبد الحمید مرحوم کے خلاف سیاسی تحریک کی آبیاری کی گئی اور مختلف الزامات کے تحت عوام کو ان کے خلاف بھڑکا کر ان کی حکومت کو ختم کرا دیا گیا۔ چنانچہ حکومت کے خاتمہ کے بعد انہوں نے بقیہ زندگی نظر بندی کی حالت میں بسر کی اور اسی دوران مذکورہ یادداشتیں تحریر کیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ انہیں خلافت سے برطرنی کا پروانہ دینے کے لیے جو وفد آیا اس میں ترکی پارلیمنٹ کا یہودی ممبر قرہ صو بھی شامل تھا جو اس سے قبل مذکورہ یہودی وفد میں بھی شریک تھا۔ اور یہ اس بات کی علامت تھی کہ سلطان مرحوم کے خلاف سیاسی تحریک اور ان کی برطرنی کی یہ ساری کارروائی یہودی سازشوں کا شاخسانہ تھی جس کی تصدیق اب تقریباً ایک صدی گزر جانے کے بعد اسرائیلی وزیر دفاع جنرل موفاذ نے بھی مذکورہ بیان میں کر دی۔سلطان عبد الحمید مرحوم ایک باغیرت اور باخبر حکمران تھے جنہوں نے اپنی ہمت کی حد تک خلافت کا دفاع کیا اور یہودی سازشوں کا راستہ روکنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے لیکن ان کے بعد بننے والے عثمانی خلفاء کٹھ پتلی حکمران ثابت ہوئے جن کی آڑ میں مغربی ممالک اور یہودی اداروں نے خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے ایجنڈے کی تکمیل کی اور ۱۹۲۴ء میں خلافت کا خاتمہ ہو گیا۔ ترکوں نے عرب دنیا سے لاتعلقی اختیار کر کے ترک نیشنلزم کی بنیاد پر سیکولر حکومت قائم کرلی، جبکہ مکہ مکرمہ کے گورنر حسین شریف مکہ نے، جو اردن کے موجودہ حکمران شاہ عبد اللہ کے پردادا تھے، خلافت عثمانیہ کے خلاف مسلح بغاوت کر کے عرب خطہ کی آزادی کا اعلان کر دیا۔ انہیں یہ چکمہ دیا گیا تھا کہ خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد ان کی خلافت عالم اسلام میں قائم ہو جائے گی مگر ان کے ایک بیٹے کو عراق اور دوسرے بیٹے کو اردن کا بادشاہ بنا کر ان کی عرب خلافت کا خواب سبو تاژ کر دیا گیا۔ حجاز مقدس پر آل سعود کے قبضہ کی راہ ہموار کر کے حسین شریف کو نظر بند کر دیا گیا جنہوں نے باقی زندگی اسی حالت میں گزاری۔اس دوران فلسطین پر برطانیہ نے قبضہ کر کے اپنا گورنر بٹھا دیا جس نے یہودیوں کو اجازت دے دی کہ وہ فلسطین میں آکر جگہ خرید سکتے ہیں اور آباد ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ دنیا کے مختلف ممالک سے منظم پروگرام کے تحت یہودیوں نے فلسطین میں آکر آباد ہونا شروع کیا۔ وہ فلسطین میں جگہ خریدتے تھے اور اس کی دوگنی چوگنی قیمت ادا کرتے تھے۔ فلسطینی عوام نے اس لالچ میں جگہیں فروخت کیں اور علماء کرام کے منع کرنے کے با وجود محض دگنی قیمت کی لالچ میں یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کا موقع فراہم کیا۔ اس وقت عالم اسلام کے سرکردہ علماء کرام نے فتویٰ صادر کیا کہ چونکہ یہودی فلسطین میں آباد ہو کر اسرائیلی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں اور بیت المقدس پر قبضہ ان کا اصل پروگرام ہے اس لیے یہودیوں کو فلسطین کی زمین فروخت کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ یہ فتویٰ دیگر بڑے علماء کرام کی طرح حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے بھی جاری کیا جو ان کی کتاب ’’ بوادر النوادر‘‘ میں موجود ہے۔ مگر فلسطینیوں نے اس کی کوئی پروا نہ کی اور دنیا کے مختلف اطراف سے آنے والے یہودی فلسطین میں بہت سی زمینیں خرید کر اپنی بستیاں
بنانے اور آباد ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ حتیٰ کہ ۱۹۴۷ء میں اقوام متحدہ نے یہودیوں کو فلسطین کے ایک حصے کا حقدار تسلیم کر کے ان کی ریاست کے حق کو جائز قرار دے دیا اور فلسطین میں اسرائیل اور فلسطین کے نام سے دو الگ الگ ریاستوں کے قیام کی منظوری دے دی جس کے بعد برطانوی گورنر نے اقتدار یہودی حکومت کے حوالہ کر دیا۔
یہ اس بیان کا مختصر سا پس منظر تھا جس میں اسرائیلی وزیر دفاع کے جنرل موفاذ نے خلافت عثمانیہ کے فرمانروا سلطان عبد الحمید مرحوم کی معزولی اور خلافت عثمانیہ کے خاتمہ میں یہودی کردار کا ذکر کیا ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ عالم اسلام کے دشمن کس قدر چوکنا، با خبر اور مستعد ہیں۔ اور اس کے مقابلہ میں ہماری بے حسی، بے خبری اور نا عاقبت اندیشی کی سطح کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائیں،آمین یا رب العالمین۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: فلسطین میں ا باد ہونے کی اجازت سلطان عبدالحمید مرحوم نے کو فلسطین میں ا باد ہونے یہودیوں کو فلسطین میں ا سلطان عبد الحمید جنرل موفاذ نے میں یہودیوں عالم اسلام اور فلسطین بیت المقدس میں یہودی وزیر دفاع کے خاتمہ کے خلاف دیا گیا کی اور اور یہ کے لیے کر دیا اور اس کے بعد

پڑھیں:

انتظامی افسران کو قیام امن کے لیے ‘فری ہینڈ’ دیتے ہیں، جرائم پیشہ عناصر کا ملکر خاتمہ کریں، وزیراعلیٰ بلوچستان

وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کی زیر صدارت سبی نصیر آباد قومی شاہراہ پر امن و امان کی صورتحال سے متعلق اہم اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں صوبائی وزیر ریونیو میر عاصم کرد گیلو، ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ، ایڈیشنل آئی جی، کمشنر، ڈپٹی کمشنرز اور ڈی آئی جیز نے شرکت کی۔

اجلاس میں وزیر اعلیٰ نے قومی شاہراہ پر جرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتوں پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مجرموں کے خلاف بھرپور کارروائی کا حکم دیا۔ انہوں نے ہدایت کی کہ پولیس اور لیویز کی حدود سے بالاتر ہو کر جرائم پیشہ عناصر کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے۔

یہ بھی پڑھیے: ’بلوچستان میں دہشتگرد ایک ایس ایچ او کی مار‘ محسن نقوی نے وہ تذکرہ پھر چھیڑ دیا

میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ لیویز اور پولیس مل کر جرائم پیشہ عناصر کا قلع قمع کریں، انتظامی افسران کو قیام امن کے لیے فری ہینڈ دیا جاتا ہے۔ عوام کے جان و مال کے تحفظ کے لیے ہر ممکن قدم اٹھایا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ کسی حیل و حجت کے بغیر امن و امان یقینی بنانا متعلقہ انتظامی حکام کی ذمہ داری ہے۔ دہشت گردی کے انسداد کے لیے ایف سی اور سی ٹی ڈی سے مؤثر تعاون حاصل کیا جائے۔

وزیر اعلیٰ نے ہدایت کی کہ رابطہ کاری کا نظام مربوط بنا کر قیام امن کی کوششوں کو نتیجہ خیز بنایا جائے۔ جوائنٹ چیک پوسٹیں قائم کرکے مؤثر اقدامات اٹھائے جائیں اور کسی بھی دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے جرائم پیشہ افراد سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امن و امان بلوچستان سیکیورٹی قومی شاہراہ

متعلقہ مضامین

  • پائیدار ترقی کے عزم نو کے ساتھ یو این اعلیٰ سطحی سیاسی فورم کا خاتمہ
  • یہودی درندوں کے حملوں سے 79 مسلمان غزہ میں شہید
  • انتظامی افسران کو قیام امن کے لیے ‘فری ہینڈ’ دیتے ہیں، جرائم پیشہ عناصر کا ملکر خاتمہ کریں، وزیراعلیٰ بلوچستان
  • فیصلہ کیا گیا ہے کہ صوبے سے گُڈ طالبان کا خاتمہ کیا جائے گا، علی امین گنڈاپور
  • کولمبیا یونیورسٹی کا ٹرمپ انتظامیہ سے 221 ملین ڈالر کے تصفیے پر اتفاق
  • بلوچستان، خیبر پی کے میں حکومتی رٹ نہیں، دہشتگردی کا خاتمہ دور کی بات ہے: فضل الرحمٰن
  • سلامتی کونسل غزہ میں فوری سیز فائر یقینی بنائے، مسئلہ فلسطین کے حل میں کردار ادا کرے، اسحاق ڈار
  • بلوچستان اور کے پی میں حکومتی رٹ نہیں، دہشتگردی کا خاتمہ تو دور کی بات، مولانا فضل الرحمٰن
  • فلسطین میں 130 نہتے ،بھوکے مسلمان بنے یہودی فوج کا شکار
  • جوہری طاقت کے میدان میں امریکی اجارہ داری کا خاتمہ، دنیا نئے دور میں داخل