وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ (کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے) ٹریفک انجنیئرنگ بیورو کی تنظیم نو کرکے اسے میئر کراچی کے ماتحت کر دیا جائے گا۔

کراچی میں ٹریفک مسائل پر منگل کو منعقد ہونے والے ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ انسانی جانوں کا ضیاع ناقابل برداشت ہے، ماؤں کی گودیں اجڑ رہی ہیں اور میں شہر میں بڑھتے ہوئے روڈ حادثات  پر انتہائی افسردہ ہوں۔ انہوں نے حکم دیا کہ ‎ٹریفک اور ضلع پولیس مل کر روڈ حادثات کی روک تھام کرے۔

مراد علی شاہ نے تمام بڑی گاڑیوں میں ٹریکر اور ڈیش کیم کی تنصیب لازمی قرار دینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں ہیوی ٹرانسپورٹ وہیکلز کے لیے رفتار کی حد 30 کلومیٹر فی گھنٹا ہوگی۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ محکمہ ٹرانسپورٹ، ایکسائز، لائسنسنگ اتھارٹی، ٹریفک پولیس اور نادرا کو منسلک کیا جائے اور ٹریفک قوانین پرمؤثر اور ہم آہنگ عملدرآمد ممکن بنایا جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ڈرائیونگ لائسنس سے قبل ڈرائیورز کےلیےبین الاقوامی معیار کی تربیت لازمی ہوگی۔

وزیراعلیٰ سندھ نے غیر قانونی نمبر پلیٹس، کالے شیشے، غیر مجاز سائرن و لائٹس کے خلاف کریک ڈاؤن اور ہیلمٹ استعمال نہ کرنے والے اور ٹرپل سواری کرنے والے موٹرسائیکل سواروں کےخلاف کارروائی کی ہدایت کی۔ انہوں نے یہ بھی ہدایت کی کہ جن گاڑیوں کےفٹنس سرٹیفکیٹ منسوخ ہوگئے ہیں انہیں ضبط کیا جائے اور ان گاڑیوں کو دوبارہ اجازت محکمہ ٹرانسپورٹ سے مشروط ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ فیصلوں پر فوری عملدرآمد کے لیے اعلیٰ سطح کی کمیٹی قائم، نگرانی آئی جی پولیس کریں گے۔

وزیر اعلیٰ سندھ نے لائٹ اور ہیوی گاڑیوں کے ڈرائیورز کے لیے ڈرگ ٹیسٹ لازمی قرار دے دیا۔

کراچی میں سنہ 2024 میں 16 لاکھ سے زائد ٹریفک چالان

اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے آئی جی سندھ نے بتایا کہ کراچی میں سنہ 2024 میں 16 لاکھ سے زائد ٹریفک چالان ہوئے جن کے تحت ایک ارب 33 کروڑ روپے کے جرمانے وصول کیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ 5 لاکھ  12 ہزار سے زائد گاڑیوں کے خلاف کارروائیاں کی گئیں اور 11287 ڈرائیورز کوحراست میں لیا گیا۔

آئی جی سندھ نے بتایا کہ ڈرائیورز کے خلاف 650 ایف آئی آرز درج کی گئیں اور 7555 فٹنس سرٹیفکیٹ منسوخ کیےگئے۔

اجلاس میں صوبائی وزرا سعید غنی، مکیش کمار چاولہ، ضیاء لنجار، میئرکراچی سمیت دیگر نے شرکت کی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ٹریفک انجینیئرنگ بیورو حد رفتار کراچی کراچی ہیوی ٹریفک وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ٹریفک انجینیئرنگ بیورو حد رفتار کراچی کراچی ہیوی ٹریفک وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ کراچی میں نے کہا کہ انہوں نے کے لیے

پڑھیں:

اغوا برائے تاوان

کراچی میں عشروں سے جاری اغوا برائے تاوان، ڈکیتیوں، چوری و اسٹریٹ کرائم، ہر قسم کے جرائم کی سرپرستی کے لیے پولیس بدنام تھی ہی جن میں کہا جاتا تھا کہ باوردی اہلکاروں کے علاوہ ایسے جرائم پیشہ بھی شامل ہوگئے تھے جو پولیس کی جعلی وردی استعمال کرتے تھے۔ کراچی پولیس بے نظیر بھٹو دور میں ماورائے عدالت قتل میں بھی بہت مشہور ہوئی تھی جب 1991 میں کراچی آپریشن کے نام پر سیاسی بنیاد پر پولیس مقابلے ہوئے۔

الزام لگایا جاتا ہے کہ ان پولیس مقابلوں میں حقیقی مجرم برائے نام اور بے گناہ افراد زیادہ تھے ،بعدازاں آپریشن میں شریک اکثر پولیس افسروں کو بھی دہشت گردی کا نشانہ بننا پڑا تھا۔ کراچی کے سیاسی دہشت گردوں اور مختلف کالعدم دہشت گرد تنظیموں کے بڑے دہشت گرد گرفتار بھی ہوئے تھے جن کے ساتھیوں نے اپنی دہشت گردی سے ایس ایس پی چوہدری اسلم سمیت متعدد پولیس افسروں کو شہید کیا تھا۔ چوہدری اسلم دہشت گردوں کی سرکوبی اور سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار پولیس مقابلوں میں ملک بھر میں مشہور ہوئے تھے۔

کراچی کی پولیس مکمل سیاسی تو عشروں پہلے ہی ہو گئی تھی جس کے افسران مخصوص سیاسی پارٹیوں سے تعلق میں مشہور تھے۔ کراچی پولیس میں اندرون سندھ سے سیاسی بنیاد پر بڑے پیمانے پر بھرتیاں ہوئی تھیں۔

کراچی کے رہنے والوں کا پولیس میں داخلہ سیاسی بنیاد پر ناممکن تھا البتہ سندھ کے ایک سابق وزیر داخلہ نے اندرون سندھ کے لوگوں کو بڑی تعداد میں کراچی کے ڈومیسائل پر بھرتی کرایا تھا اور اب سندھ اسمبلی کے پی اے سی اجلاس میں انکشاف ہوا ہے کہ دیگر صوبوں کے ڈومیسائل پر 19 اہلکاروں کی بھرتی کا انکشاف ہوا تھا مگر انھیں برطرف کرنے کی بجائے صرف شوکاز نوٹس جاری کیے گئے تھے۔ جعلی ڈومیسائل پر دوسرے صوبوں کے بھرتی صرف 19 اہلکاروں کے خلاف اب مقدمہ درج کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے وہ بھرتیاں1979 سے 2015 کے دوران ہوئی تھیں جو سندھ پولیس کے مختلف دفاتر سے 170405 ملین روپے تنخواہ مسلسل وصول کر رہے ہیںاور کوئی پوچھنے والا نہیں۔

سندھ پولیس میں عشروں سے مختلف ریکارڈ قائم ہوئے ہیں جہاں 1977 میں ایک مڈل پاس افسر ڈی آئی جی لاڑکانہ بھی رہا ہے۔ کراچی پولیس میں بڑی تعداد اندرون سندھ کے لوگوں کی اور کراچی و حیدرآباد جیسے شہری علاقوں کی تعداد برائے نام ہے جس پر ایم کیو ایم سالوں سے شور بھی مچا رہی ہے مگر انھوں نے بھی اپنے دور میں اپنے کارکنوں کو بھرتی کرنے میں کسر نہیں چھوڑی تھی اور پیپلز پارٹی کے بقول ایم کیو ایم نے اپنے دہشت گرد پولیس میں بھر دیے تھے۔

آج سے تیس سال قبل ضلع جنوبی کے ایک تھانے پر میرے آبائی شہر شکارپور کے دوست ایس ایچ او تعینات ہوئے تھے جنھوں نے بتایا تھا کہ کراچی کے بعض ایس ایچ اوز اتنے بااثر ہیں کہ وہ ایس پیز کے تبادلے اپنی مرضی سے کراتے ہیں۔

سندھ میں 2008کے بعد سے سندھ میں حکومت پیپلز پارٹی کی ہے جسے سترہواں سال شروع ہو گیا ہے جس کے دور میں ملیر پولیس کا ایک ایسا کانسٹیبل بھی سامنے آیا ہے جس نے ملیر پولیس کے تین سپاہیوں اور علاقے کے جرائم پیشہ عناصر پر مشتمل گروپ بنا رکھا ہے جو سنگین جرائم کے ساتھ شارٹ کڈنیپنگ کی وارداتیں کراتا آ رہا تھا جو علاقے کے تھانوں کے ایس ایچ اوز اپنی مرضی سے تعینات کراتا تھا جس کے خلاف اندرون سندھ میں بھی مختلف مقدمات درج ہیں مگر کارروائی سے محفوظ رہتا ہے۔

حال ہی میں اس انتہائی بااثر سپاہی کے سیاسی اثر و رسوخ کی یہ حالت ہے کہ اس نے 28 مارچ کو کراچی کے ٹرانسپورٹر سمیت دو تاجروں کو اغوا کیا تھا اور ان سے رہائی کے لیے بڑے افسروں کے نام پر تین کروڑ تاوان مانگا تھا جو انھوں نے دینے سے انکار کیا تو انھیں گھنٹوں گاڑی میں گھمایا اور تشدد کا نشانہ ان کی اپنی مہنگی گاڑی میں بنایا گیا اورگاڑی میں لگے ٹریکر کی تلاش میں گاڑی کی سیٹیں ادھیڑ دی گئیں اور ساڑھے پانچ لاکھ روپے انھیں ضرور مل گئے۔

بااثر ٹرانسپورٹر کے عزیزوں کی پہنچ اور آئی جی پولیس اور اعلیٰ پولیس افسروں کی مداخلت پر رات گئے رہائی ملی تھی جس کے بعد ڈیڑھ ماہ کی سخت کوشش کے بعد ملزم کے خلاف ملیر میں اغوا برائے تاوان اور دہشت گردی کے الزامات میں مقدمہ تو درج ہوا۔ تین پولیس اہلکار معطل بھی ہوئے مقدمہ اے وی وی سی گارڈن منتقل ہونے کے بعد جے آئی ٹی بھی تین پولیس افسروں پر مشتمل بنی مگر ملزمان گرفتار نہیں کیے گئے اور انھوں نے دہشت گردی عدالت سے ضمانت قبل از گرفتاری بھی حاصل کرلی، بااثر پولیس اہلکار نے پہلے ضمانت کرائی جو بعد میں کنفرم بھی ہوگئی۔

 درجنوں بے گناہ لوگ مارنے والے پولیس افسران کا سالوں میں کچھ ہوا نہ اب کچھ ہو گا۔ مدعی صلح پر مجبور کرا دیا جائے گا اور بااثر ملزم بھی بچ ہی جائے گا۔ عام لوگوں کے ساتھ سندھ میں جو ہو رہا ہے وہ تو وہی جانتا ہے جب کہ اثر و رسوخ رکھنے والے لوگ بھی پولیس گردی سے محفوظ نہیں ہیں۔ سندھ پولیس میں اتنا مال، طاقت اور پولیس اثر و رسوخ ہے جب ہی تو ملک بھر سے جعلی ڈومیسائلوں پر کراچی پولیس میں بھرتی ہوا جاتا ہے اور 54 سال بعد حقائق منظر عام پر آتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • اغوا برائے تاوان
  • سرکاری محکموں میں گریڈ 5 سے 15 کی بھرتیوں پر عائد پابندی کے معاملے پر سماعت کیلئے تاریخ مقرر
  • بی وائی ڈی کا پہلا پلگ اِن ہائبرڈ ماڈل ’شارک 6‘ پاکستان میں متعارف کرانے کا اعلان
  • بارشوں اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں سندھ حکومت مکمل طور پر متحرک ہے، شرجیل میمن
  • چھبیس نومبر احتجاج کے مقدمات جلد سماعت کیلئے مقرر، ججز کی چھٹیاں منسوخ کردی گئیں
  • حب ڈیم کی نئی کینال کا کام مکمل، افتتاح 14 اگست کو کرینگے، میئر کراچی
  • کراچی، شاہراہِ بھٹو کے قیوم آباد سے کراچی بندرگاہ تک نئے کوریڈور کی تعمیر کا اعلان
  • حب ڈیم کی نئی کینال کا کام مکمل، افتتاح 14 اگست کو کریں گے: میئر کراچی
  • ہیوی میٹل کے بانی اوزی اوسبورن دنیا سے رخصت ہو گئے
  • کراچی کی مخدوش عمارتیں مکینوں سے خالی کروا کے بلڈرز کو فروخت کی جاسکتی ہیں، ایم کیو ایم