عالمی مندوبین کا پاکستان منرلز انویسٹمنٹ فورم میں گہری دلچسپی کا اظہار
اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT
اسلام آباد (ویب ڈیسک) ملکی معدنیات سے معیشت کو ترقی دینے کا مشن، پاکستان منرلز انویسٹمنٹ فورم 2025 کا دوسرا روز جاری ہے۔
پاکستان منرلز انویسٹمنٹ فورم کے پہلے روز وزیراعظم شہباز شریف، آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر، نائب وزیراعظم اسحاق ڈار، وزیر صنعت و تجارت جام کمال، وزیرپٹرولیم علی پرویز ملک ودیگر نے خطاب کیا۔
دنیا بھر کے مندوبین کو پاکستان کے معدنی شعبے میں سرمایہ کاری کی دعوت دی گئی، جس پر امریکا، چین، سعودی عرب، روس اور دیگر ملکوں کے مندوبین نے دلچسپی کا اظہار کیا۔
دوسرے روز پاکستان منرلز انویسٹمنٹ فورم میں ریکوڈک مائننگ کمپنی کے نمائندے رسل ہاورڈ اوون نے منصوبے کی فزیبلٹی پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ریکوڈک منصوبہ بلوچستان کے علاقے چاغی میں ہے، منصوبہ معدنیات کی کان کنی کے شعبے میں پاکستان کو دنیا نے نقشے پر اہم ملک کے طور پر سامنے لایا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ریکوڈک معدنیات 286 کلو میٹر کے علاقے پر محیط ہیں، منصوبے کی 19 کلو میٹر رقبے پر جیو تکنیکی ڈرلنگ ہو چکی ہے، منصوبے کی جیوکیپٹل ڈرلنگ بھی ہو چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ریکوڈک میں سونے اور تانبے کے وسیع ذخائر موجود ہیں، ریکوڈک میں 5.
رسل ہاورڈ کا کہنا تھا کہ فزیبلٹی سٹڈی میں ریکوڈک میں تانبے کے ایک کروڑ 50 لاکھ ٹن اور سونے کے 2 کروڑ 60 لاکھ اونس ذخائر کا پتہ چلا ہے، 2028 سے ریکوڈک کان سے 2 لاکھ 40 ہزار ٹن تانبا اور 3 لاکھ اونس سونا سالانہ نکالا جائے گا، ریکوڈک کان سے دوسرے مرحلے میں 4 لاکھ ٹن تانبا ار 5 لاکھ اونس سونا سالانہ نکالا جائے گا۔
Post Views: 1ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: پاکستان منرلز انویسٹمنٹ فورم
پڑھیں:
مودی ٹرمپ تعلقات میں تلخی کب آئی؟ بلومبرگ نے امریکی صدر کی پاکستان میں دلچسپی کی وجہ بھی بتادی
واشنگٹن ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 08 اگست 2025ء ) معروف امریکی جریدے بلومبرگ نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں حالیہ کچھ عرصے میں مودی اور ٹرمپ کے تعلقات میں آنے والی تلخی اور امریکی صدر کے بظاہر پاکستان کی جانب سے جھکاؤ کی وجوہات بیان کردی گئیں۔ امریکی جریدے کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ پاکستان نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ اپنے کارڈ بہت اچھے طریقے سے کھیلے ہیں اور یہ ان چند ممالک میں سے ہے جس نے اپنے سخت حریف بھارت کے برعکس سوئٹزرلینڈ اور برازیل کے بعد زیادہ کسی ہچکچاہٹ کے بغیر امریکہ کے ساتھ تجارتی معاہدہ کیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹرمپ کے موجودہ دور میں اسلام آباد اور وائٹ ہاؤس کے درمیان پہلی بات چیت اس وقت ہوئی جب بھارت اور پاکستان اس سال کے شروع میں جنگ کے قریب پہنچ گئے تھے اور دونوں فریقوں نے ایک دوسرے پر میزائل اور ڈرون حملے کیے، ٹرمپ نے جنگ بندی کا اعلان کیا جس کا پاکستان نے کھلے عام خیر مقدم کیا، جب کہ بھارت نے امریکی صدر کے اس دعوے کو مسترد کر دیا کہ انہوں نے جنگ بندی کی ثالثی کی تھی۔(جاری ہے)
بلومبرگ کا کہنا ہے کہ یہ وہ موقع تھا جہاں سے وائٹ ہاؤس کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات نیچے کی طرف چلے گئے، دریں اثنا پاکستان کے پاس کچھ اثاثے ہیں جنہوں نے ٹرمپ کی دلچسپی کو جنم دیا کیوں کہ پاکستان کے پاس دنیا کے سب سے بڑے غیر استعمال شدہ سونے اور تانبے کے وسائل میں سے ایک ہیں، جس کی وجہ سے یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ امریکہ یوکرین کے ساتھ ہونے والے معدنیات کا ایسا ہی معاہدہ چاہتا ہے، یہ امریکی سرمایہ کاری کو محفوظ بناتا ہے، ٹرمپ نے پاکستان کے ساتھ "تیل کے بڑے ذخائر" دریافت کرنے کیلئے کام کرنے کے بارے میں بھی کہا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ٹرمپ کی حمایت یافتہ ورلڈ لبرٹی فنانشل کے نمائندے پاکستان بھارت جھڑپوں کے وقت اسلام آباد پہنچے اور پاکستان کے ساتھ کام کرنے کے معاہدے کا اعلان کیا، یہ سب پاکستان کے آرمی چیف عاصم منیر کے لیے وائٹ ہاؤس میں لنچ کی ایک سرپرائز میٹنگ پر اختتام پذیر ہوا جس کے فوراً بعد پاکستانی حکومت نے کہا کہ وہ ٹرمپ کو امن کے نوبل انعام کے لیے نامزد کرے گی۔ امریکی جریدے نے بتایا کہ امریکی صدر اور نریندر مودی کے درمیان 17 جون کو 35 منٹ طویل گفتگو ہوئی، یہ اس وقت ہوا جب صدر ٹرمپ انڈین وزیراعظم سے ملاقات کیے بغیر جی 7 سمٹ سے واپس گئے تھے، جس کے بعد ٹیلیفونک گفتگو میں صدر ٹرمپ نے مودی کو امریکہ آنے کی دعوت دی جو انہوں نے مسترد کردی کیوں کہ مودی کو خدشہ تھا کہ صدر ٹرمپ ان کی اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کی ملاقات کروائیں گے۔ رپورٹ سے پتا چلا ہے کہ اس فون کال کے بعد وائٹ ہاؤس کے لہجے میں تبدیلی آئی، مودی اور ٹرمپ کی اس کال کے بعد کوئی بات چیت بھی نہیں ہوئی جب کہ امریکی صدر کی جانب سے بھارت پر ٹیرف کا اعلان دو طرفہ تعلقات کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا، بھارت نے ابھی تک امریکی ٹیرف پر جوابی رد عمل نہیں دیا اور مودی امریکہ کی طرف جھکاؤ کی پالیسی کا ازسرِ نو جائزہ لے رہے ہیں۔