data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250923-01-20

اسلام آباد(نمائندہ جسارت) عدالت عظمیٰ نے قرار دیا ہے کہ آرمی ایکٹ میں عام شہریوں کے لیے اپیل کا مناسب فورم موجود نہیں۔عدالت عظمیٰ نے فوجی عدالتوں کے سزا یافتہ مجرموں کو اپیل کا حق دینے کے لیے 45 دن میں قانون سازی کا حکم دے دیا۔سویلین کے کورٹ مارشل کے حوالے سے انٹراکورٹ اپیلوں کا تفصیلی تحریری فیصلہ جاری کردیا گیا اور یہ تفصیلی اکثریتی فیصلہ جسٹس امین الدین خان نے تحریر کیا۔سویلین
کے کورٹ مارشل کے حوالے سے انٹراکورٹ اپیلوں پر فیصلہ7مئی 2025ء کو سنایا گیا تھا۔عدالت عظمیٰ کے 7رکنی آئینی بینچ نے انٹرا کورٹ اپیلوں پر فیصلہ سنایا تھا جن میں سے 5 ججز نے انٹراکورٹ اپیلوں کو منظور اور 2ججز نے مسترد کیا تھا۔عدالت عظمیٰ نے انٹرا کورٹ اپیل میں ملٹری ٹرائل کی اجازت دے دی تھی۔ جسٹس امین الدین خان نے 68 صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر کیا جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے 47 صفحات کا اضافی نوٹ لکھا۔جسٹس امین جسٹس، جسٹس حسن رضوی ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس شاہد بلال نے اضافی نوٹ سے اتفاق کیا۔جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس نعیم افغان نے اختلافی نوٹ تحریر کیا تھا۔ فیصلے میں ملٹری کورٹ کے سزا یافتہ مجرموں کو اپیل کا حق دینے اور اپیل کا حق دینے کے لیے45 دن میں حکومت کو قانون سازی کا حکم دیا گیا ہے۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ مناسب آئینی ردعمل آرمی ایکٹ کی دفعات کو یکسر کالعدم کرنا نہیں، آرمی ایکٹ میں بنیادی ضابطہ موجود مگر عام شہریوں کے لیے مناسب اپیل کے فورم کا فقدان ہے لہٰذا فوجی عدالتوں سے سزایافتہ شہریوں کے لیے ہائی کورٹس میں آزادانہ اپیل کے لیے قانون سازی کو پورا کیا جانا چاہیے۔فیصلے کے متن کے مطابق کیس کے دوران اٹارنی جنرل نے کئی بار حق اپیل پر حکومتی ہدایات کے لیے وقت لیا، 5 مئی کو آخری سماعت پر بھی اٹارنی جنرل نے ایسا ہی کہا، اٹارنی جنرل نے کہا عدالت ہدایت دے تو پارلیمنٹ میں قانون سازی ہوسکتی ہے اور عدالتی حکم کو سنجیدگی سے لیا جائے گا۔

نمائندہ جسارت.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کورٹ اپیلوں عدالت عظمی ا رمی ایکٹ کورٹ اپیل اپیل کا کے لیے

پڑھیں:

بین الاقوامی سرحد واہگہ بارڈر پرخودکش حملہ کے 3 مجرم بری

لاہور ہائی کورٹ نے بین الاقوامی سرحد واہگہ بارڈر پرخودکش حملہ  کے تین مجرموں کو بری کردیا۔

عدالت نے تینوں مجرموں کی سزائے موت کالعدم قرار دے دی، عدالت نے مجرم حسین اللہ، حبیب اللہ، سید جان عرف گجنی کی اپیلیں منظور کرلیں۔

عدالت نے ناکافی گواہوں اور ثبوتوں کی بناء پر مبینہ سہولت کاروں کی اپیلیں منظور کیں، پراسیکیوٹر نے کہا کہ واہگہ بارڈر پر دہشت گردی کےواقعہ میں 55شہری شہید ہوئے، وقوعہ میں 110 شہری زخمی ہوئے۔

پراسیکیوٹر نے کہا کہ ملزم کسی کے رعایت کےمستحق نہیں،  سزائے موت برقرار رکھی جائے، جسٹس شہباز رضوی کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے سماعت کی۔

اپیل کنندہ حسین اللہ اور سید جان عرف گجنی کے وکیل راجہ ندیم نے دلائل دئیے، اپیل کنندہ حبیب اللہ کےوکیل اکرم قریشی نے دلائل دیے۔

وکلا نے موقف اپنایا کہ دہشت گردی کاواقعہ سال 2014 میں پیش آیامگر مقدمے میں نوماہ کےبعد نامزد کیا، اپیل کنندگان پرخودکش حملہ آوروں کی سہولت کاری کاالزام تھا، پراسیکیوشن سہولت کاری کاکوئی بھی گواہ اور ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہی، ٹرائل عدالت نے اپیل کنندگان کوسال 2020 کوبلاجواز سزائے موت کا حکم سنایا۔

عدالت سزائے موت کالعدم قرار دیتے ہوئے بری کرنے کا حکم دے، واہگہ بارڈر خود کش حملہ کامقدمہ تھانہ باٹاپورمیں درج کیا گیا تھا۔

متعلقہ مضامین

  • سپریم کورٹ میں مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم پر ججز اور وکلاء کے درمیان دلچسپ مکالمہ
  • ترمیم کے بعد وفاقی آئینی عدالت اعلیٰ ترین عدالت، سپریم کورٹ اپیل کورٹ میں بدل جائے گی
  • شادی عورت کی شخصیت یابنیادی حقوق ختم نہیں کرتی،عدالت عظمیٰ
  • کیا ہائی کورٹ کادائرہ اختیارواپس لیا جاسکتا ہے ؟جسٹس جمال مندوخیل
  • سابق وفاقی وزیر شیخ رشید احمد کو بیرون ملک جانے سے روک دیا گیا
  •  سابق وفاقی وزیر شیخ رشید کو عمرہ ادائیگی کیلئے  جانے سے روک دیا گیا
  • انصاف فراہمی کیلئے باراور بنچ کا تعاون ضروری : چیف جسٹس 
  • چیف جسٹس آف پاکستان ڈمپر مافیا کے خلاف ازخود نوٹس لیں، علامہ باقر زیدی
  • بین الاقوامی سرحد واہگہ بارڈر پرخودکش حملہ کے 3 مجرم بری
  • سپریم کورٹ بار: نو منتخب اور رخصت ہونے والی کابینہ کی چیف جسٹس پاکستان سے ملاقات