اسلام آباد:

عالمی ادارہ صحت کے زیر اہتمام عالمی یوم صحت کی مناسبت سے اسلام آباد میں تقریب کا انعقاد کیا گیا جس سے وفاقی وزیر صحت سید مصطفیٰ کمال اور ڈبلیو ایچ او کے نمائندے ڈاکٹر ڈپینگ لؤ نے خطاب کیا۔

وفاقی وزیر صحت مصطفیٰ کمال نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج ہم عالمی یوم صحت منا رہے ہیں۔ اس سال عالمی یوم صحت صحت مند آغاز، صحت مند مستقبل کے عنوان کے تحت منایا جا رہا ہے۔ پاکستان کا مستقبل زیادہ صحت مند نہیں ہے، لیکن ہم پر امید ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہر سال دس ہزار خواتین ڈیلیوری کے دوران موت کا شکار ہوتیں ہیں۔ ہم پر امید ہیں اور مقابلہ کر رہے ہیں۔ پاکستان میں 38 فیصد بچوں کی سٹنٹنگ گروتھ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بد قسمتی سے پاکستان میں صحت مندانہ آغاز نہیں ہوتا۔ 10 ہزار مائیں سالانہ زچگی کے دوران اپنی جانیں کھو دیتی ہیں، 400 مائیں دوران حمل اپنی جانیں کھو بیٹھتی ہیں۔ اسلیے ہمارا آغاز صحتمندانہ نہیں لیکن ہم پرامید ہیں۔

وزیر صحت نے کہا کہ ہم اپنے ذرائع درست سمت میں استعمال کریں گے۔ 38 فیصد بچے غذائی قلت کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں، ایسے بچے معاشرے کے لیے رائبلٹی ہیں۔ وہ نوکریاں حاصل نہیں کر سکتے، وہ تعلیم حاصل کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ ہمیں صحت میں طبی سہولیات کی زمہ داری اٹھانا پڑے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی بنیادی ترجیح شعبہ صحت ہے۔ ایک بھی لمحہ اور موقع ضائع نہیں ہونے دیتے۔ ہم پیدائشی بچوں کے محفوظ آغاز کے لیے کام کریں گے۔ آنے والے دنوں میں معاشرتی صحت مند ہوگا۔

وزیر صحت کا کہنا تھا کہ "میں نے جس دن عہدہ سنبھالا، اسی دن ڈاکٹر لو ڈپنیگ سے ملاقات کی۔ یہ اپنی زمہ داریاں بہترین انداز میں نبھا رہے ہیں۔ یہ وزرات ہمارے لیے پھولوں کی سیج نہیں ہے، یہ چیلنجز سے بھرپور ہے، اللہ کی مخلوق کا جواب دینا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ ہمارا تعلق انسان سے اس وقت ہوتا ہے جب وہ تکلیف میں ہوتا ہے۔ ہمارے لیے یہ خطرناک ہوتا ہے کیونکہ دنیا عارضی چیز ہے اور ہر زمہ داری اور عہدے کا حساب دینا پڑے گا۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈبلیو ایچ او پاکستان کے نمائندے ڈاکٹر ڈپینگ لؤ نے کہا کہ پاکستان میں زچگی سے ہونے والی اموات کی شرح میں نمایاں کمی آئی ہے۔ 2006 میں یہ شرح 276 فی 100,000 پیدائش تھی، جو 2024 میں کم ہو کر 155 رہ گئی۔ نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات 52 فی 1000 سے کم ہو کر 37.

6 ہو گئی ہے، جب کہ مردہ بچوں کی پیدائش کی شرح بھی 39.8 سے کم ہو کر 27.5 فی 1000 ہو چکی ہے۔

ڈاکٹر لؤ نے کہا کہ ماں اور بچے کی صحت پر ہر ایک امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری، 9 سے 20 ڈالر کی واپسی دیتی ہے۔ یہ سرمایہ کاری انسانی سرمائے، معاشی ترقی اور خوشحال معاشرے کی ضمانت ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے نومولود بچوں میں تشنج کے خلاف جنگ میں بھی اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ 80 فیصد پاکستانی آبادی ایسے علاقوں میں رہتی ہے جہاں تشنج کا پھیلاؤ فی ہزار پیدائش ایک کیس سے بھی کم ہے۔ اسلام آباد، آزاد کشمیر، سندھ اور پنجاب جیسے علاقوں نے MNT کو مکمل طور پر ختم کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 2030 تک زچگی کی شرح اموات کو 70 فی 100,000 اور نوزائیدہ اموات کو 12 فی 1000 تک لانے کے لیے مزید سرمایہ کاری اور حکومتی ترجیحات ضروری ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان سے درخواست کی ہے کہ وہ خواتین کی تولیدی صحت، غذائیت، ذہنی صحت، تعلیم اور معاشی مواقعوں پر بھرپور توجہ دے تاکہ خواتین اپنی اور اپنے بچوں کی صحت سے متعلق بہتر فیصلے کر سکیں۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ رہے ہیں بچوں کی کی شرح

پڑھیں:

پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں میں’ شدید انسانی بحران’ ہے، عالمی برادری امداد فراہم کرے، اقوام متحدہ

اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ پاکستان میں حالیہ مون سون بارشوں اور ان کے نتیجے میں سیلاب کے باعث60 لاکھ سے زیادہ افراد متاثر جبکہ 25 لاکھ سے زیادہ بے گھر ہوچکے ہیں،سیلاب زدہ علاقوں کی صورتحال’ شدید انسانی بحران’ کی شکل اختیار کرچکی ہے ،عالمی برادری اس بحران سے نمٹنے کے لیے امداد فراہم کرے۔
یہ بات اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی امور (او سی ایچ اے ) کے سربراہ کالوس گیہا نے ا پنی حالیہ رپورٹ میں کہی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ریکارڈ مون سون بارشوں اور سیلاب نے تباہی مچا دی جس کے نتیجے میں 60 لاکھ سے زائد افراد متاثر اور 25 لاکھ سے زیادہ بے گھر ہو چکے ہیں۔ انہوں نے موجودہ صورتحال کو ’ شدید انسانی بحران’ قرار دیتے ہوئے فوری عالمی امداد کی اپیل کی ۔

کارلوس گیہا نے کہا  کہ پاکستان کے علاقوں پنجاب، خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان میں آنے والے سیلاب نے مقامی آبادی کو مکمل طور پر بےیار و مددگار کر دیا ہے اور جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں وہ صرف آغاز ہے، اصل تباہی اس سے کہیں زیادہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق جون کے آخر سے شروع ہونے والی شدید بارشوں کے باعث اب تک ایک ہزار کے قریب افراد جاں بحق ہو چکے ہیں جن میں 250 بچے بھی شامل ہیں، سیلاب نے سب سے زیادہ نقصان پنجاب کو پہنچایا ہے جہاں بھارت کی جانب سے ڈیموں سے پانی چھوڑنے کے بعد دریاؤں نے تباہی مچائی اور 47 لاکھ افراد متاثر ہوئے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ کئی علاقوں میں پورے پورے گاؤں پانی میں ڈوب چکے ، سڑکیں اور پل تباہ ہو گئے ہیں جبکہ 2.2 ملین ہیکٹر زرعی زمین بھی زیرِ آب آ گئی ہے، گندم کے آٹے کی قیمت میں صرف ستمبر کے پہلے ہفتے میں 25 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
کارلوس گیہا نے کہا کہ یہ وہ کسان ہیں جو پورے ملک کا پیٹ پالتے ہیں آج ان کے پاس نہ زمین ہے، نہ مویشی اور نہ ہی کوئی سہارا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ نے فوری امداد کے لیے 5 ملین ڈالر جاری کیے ہیں جبکہ مزید 1.5 ملین ڈالر مقامی این جی اوز کو دیے گئے ہیں، تاہم حکام کا کہنا ہے کہ کئی دیہی علاقے اب بھی مکمل طور پر کٹے ہوئے ہیں جہاں امدادی سامان صرف کشتیوں یا ہیلی کاپٹروں کے ذریعے پہنچایا جا رہا ہے۔
کارلوس گیہا نے کہا کہ سیلاب کے باعث ملیریا، ڈینگی اور ہیضے جیسی بیماریوں کے پھیلنے کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے جبکہ پانی، خوراک، ادویات اور پناہ گاہوں کی اشد ضرورت ہے۔
انہوں نے کہاکہ اصل چیلنج اگلا مرحلہ ہے جب ان متاثرین کو دوبارہ زندگی کی طرف واپس لانا ہوگا۔انہوں نے عالمی برادری کو یاد دلایا کہ یہ پاکستان کی غلطی نہیں بلکہ وہ ممالک جو ماحولیاتی تبدیلی کے ذمہ دار ہیں انہیں اس بحران کی ذمے داری بھی اٹھانی ہوگی۔

Post Views: 3

متعلقہ مضامین

  • بچوں کے بال ان کی ذہنی صحت کے بارے میں بہت کچھ بتا سکتے ہیں
  • پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں میں’ شدید انسانی بحران’ ہے، عالمی برادری امداد فراہم کرے، اقوام متحدہ
  • غزہ: بھوکے اور پیاسے لوگوں کو اسرائیلی بمباری اور جبری انخلاء کا سامنا
  • پاکستان میں 6 ہزارسے زیادہ ادویاتی پودے پائے جاتے ہیں، ماہرین
  • حکومت صحت کے نظام کو مضبوط بنانے کے لئے پرعزم ہے،سید مصطفی کمال
  • وزیرصحت مصطفی کمال کی ترکیہ سفیر ڈاکٹر مہمت پاجا جی سے ملاقات ، ڈاکٹرز اور نرسز کی باہمی تعلیمی شراکت داری کے فروغ پر تبادلہ خیال
  • ایچ پی وی ویکسین کے خلاف پراپیگنڈا سراسر جھوٹ ہے: مصطفی کمال  
  •  نوجوانوں میں مالیاتی امید بلند مگر مجموعی عوامی اعتماد میں کمی ہوئی، اپسوس کا تازہ سروے
  • وزیرصحت نے سرویکل کینسرسے بچاؤ کی ویکسین کیخلاف پروپیگنڈا مہم کو مسترد کر دیا
  • سکول وینز اور رکشوں میں بچوں کو حد سے زیادہ بٹھانے پر سی ٹی او کا سخت ایکشن