بی جے پی کی گود میں بیٹھ کر کشمیر کو تباہ کرنے والے آج مجھ پر تنقید کررہے ہیں، عمر عبدللہ
اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT
وزیراعلٰی نے کہا کہ اس تصویر کو بنیاد بناکر ان پر تنقید کرنا ناانصافی ہے، خاص طور پر ان لوگوں کیجانب سے جنہوں نے بی جے پی کو کشمیر کی سیاست میں داخل ہونے کا موقع دیا۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر کے وزیراعلٰی عمر عبدللہ نے کشمیر کی موجودہ صورتحال کے لئے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہا کہ وہ لوگ جو کبھی بی جے پی کے ساتھ اتحاد میں تھے اور مشکل حالات میں خاموش تماشائی بنے رہے آج وہی لوگ ان پر ایک بھارتی وزیر کے ساتھ تصویر کھنچوانے پر تنقید کر رہے ہیں۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے عمر عبدللہ نے کہا کہ آج جو لوگ محض تصویر پر مجھے مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں، وہیں لوگ بی جے پی کی گود میں بیٹھ کر کشمیریوں کے خلاف باتیں کررہے تھے اور جموں و کشمیر کی تباہی کو خاموشی سے دیکھتے رہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کچھ افراد نے ایک تصویر کو بنیاد بناکر ان پر سوالات اٹھائے جو کہ ایک اتفاقیہ ملاقات کے دوران باغ گل لالہ میں لی گئی تھی۔ عمر عبدللہ نے کہا کہ میں اپنے والد کو باغ میں لے گیا تھا وہاں ایک مرکزی وزیر بھی موجود تھے۔ انہوں نے میرے ساتھ تصویر کی خواہش ظاہر کی۔
عمر عبدللہ نے کہا کہ اس تصویر کو بنیاد بناکر ان پر تنقید کرنا ناانصافی ہے، خاص طور پر ان لوگوں کی جانب سے جنہوں نے بی جے پی کو جموں و کشمیر کی سیاست میں داخل ہونے کا موقع دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے 2016ء کی ہلاکتوں پر آج تک معافی نہیں مانگی۔ انہوں نے کہا کہ ان کی غیر موجودگی میں ایوان میں کئی عجیب و غریب باتیں ہوئی ہیں۔ انہوں نے سوالیہ انداز میں کہا کہ بطور منتخب نمائندے ان کا فرض ہے کہ وہ عوامی مسائل کو ایوان میں اٹھائیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہم ایوان میں عوامی مسائل نہیں اٹھائے گے تو اور کہاں اٹھائیں گے۔ قابل ذکر ہے کہ پی ڈی پی کی صدر اور جموں و کشمیر سابق وزیراعلٰی محبوبہ مفتی نے عمر عبدللہ کو تنقید کا نشانہ بناتے دعویٰ کیا کہ عمر عبدللہ کی جانب سے بی جے پی وزیر برائے اقلیتی امور کرن رجیجو کے لئے سرینگر میں سرخ قالین استقبال سے وقف ترمیمی بل کو جواز مل گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وقف ترمیمی بل کو پارلیمنٹ سے منظور کروانے کے بعد وزیر کرن رجیجو کی جانب سے کشمیر کا دورہ ایک اسٹراٹیجک فیصلہ تھا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ عمر عبدللہ نے کشمیر کی بی جے پی
پڑھیں:
بھارت کو 4 گھنٹے میں ہرا دیا، دہشتگردی کو 40 سال میں شکست کیوں نہیں دی جا سکی؟ مولانا فضل الرحمن
اسلام آباد میں ملی یکجہتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے دہشتگردی، کشمیر، فاٹا کے انضمام اور سود کے خاتمے سے متعلق حکومت کی پالیسیوں پر اپنے تحفظات اور تشویش کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کا مسئلہ 11 ستمبر کے بعد نہیں بلکہ 40 سال سے پاکستان کا مسئلہ ہے۔ علما کی جانب سے امریکا کے افغانستان پر قبضے کے باوجود پاکستان میں مسلح جدوجہد کو ناجائز قرار دیا گیا تھا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ فوج نے مسلح جدوجہد کرنے والوں کے خلاف کئی آپریشن کیے، جن کی وجہ سے آج بھی لاکھوں لوگ بے گھر ہیں۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اب دوبارہ لوگوں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ شہر خالی کر دیے جائیں، اور سوال اٹھایا کہ جو لوگ افغانستان گئے تھے، وہ واپس کیسے آئیں گے۔ انہوں نے دہشتگردی کے خاتمے میں سیاسی ارادے کی کمی پر بھی شدید تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ بھارت کو 4 گھنٹے میں شکست دے دی گئی لیکن دہشتگردی کو 40 سال سے شکست کیوں نہیں دی جا سکی۔
مزید پڑھیں: مولانا فضل الرحمن نے بھی 28 اگست کی ملک گیر ہڑتال کی حمایت کردی
کشمیر کے حوالے سے انہوں نے پاکستان کی پالیسی پر نکتہ چینی کی۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ کشمیر پر پاکستان مسلسل پیچھے ہٹتا جا رہا ہے۔ انہوں نے اپنے کردار اور کشمیر کمیٹی کی صدارت کے حوالے سے کہا کہ انہیں کہا جاتا تھا کہ انہوں نے کشمیر کمیٹی کے لیے کیا کچھ کیا، لیکن اب کئی برس سے وہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین نہیں، تو سوال اٹھتا ہے کہ اب کیا کیا گیا؟
انہوں نے کشمیر کی 3 حصوں میں تقسیم، جنرل پرویز مشرف کے اقوام متحدہ کی قراردادوں سے پیچھے ہٹنے کے فیصلے اور 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 کے خاتمے پر قرارداد میں اس کا ذکر شامل نہ ہونے پر سوالات اٹھائے۔ فاٹا کے انضمام پر بھی حکومت کی حالیہ پالیسی پر تنقید کی اور کہا کہ فاٹا کے لوگوں پر فوج اور طالبان دونوں کے ڈرون حملے ہو رہے ہیں۔
فلسطینی حماس کے رہنما خالد مشعل کے فون کال کا ذکر کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اگر پاکستان جنگ میں مدد نہیں کر سکتا تو کم از کم انسانی امداد میں کردار ادا کرے۔
مزید پڑھیں: پیپلز پارٹی وعدے سے نہ پھرتی تو الیکشن بروقت ہو جاتے، مولانا فضل الرحمن
سود کے خاتمے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ جمیعت علمائے اسلام نے 26ویں آئینی ترمیم کے 35 نکات سے حکومت کو دستبردار کرایا اور مزید 22 نکات پر مزید تجاویز دیں۔ وفاقی شرعی عدالت نے 31 دسمبر 2027 کو سود ختم کرنے کی آخری تاریخ دی ہے اور آئندہ یکم جنوری 2028 تک سود کا مکمل خاتمہ دستور میں شامل کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے حکومت کو خبردار کیا کہ اگر وہ اپنے وعدے پر عمل نہ کرے تو عدالت جانے کے لیے تیار رہیں کیونکہ آئندہ عدالت میں حکومت کا دفاع مشکل ہوگا۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں کوئی اپیل معطل ہو جائے گی، اور آئینی ترمیم کے تحت یکم جنوری 2028 کو سود کے خاتمے پر عمل درآمد لازمی ہوگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بھارت جمیعت علمائے اسلام سود فلسطینی حماس کشمیر کشمیرکمیٹی ملی یکجہتی کونسل مولانا فضل الرحمن