اسرائیلی فضائیہ کا طیارہ لبنانی حدود میں گر کر تباہ
اشاعت کی تاریخ: 10th, April 2025 GMT
اسرائیلی فضائیہ کا طیارہ تکنیکی خرابی کے باعث لبنانی حدود میں گر کر تباہ ہو گیا۔
اسرائیلی اخبار کے مطابق اسرائیلی فوج نے اس حوالے سے یا معلومات کے لیک ہونے پر کسی بھی قسم کی تشویش کا اظہار نہیں کیا ہے۔
اسرائیلی حکام نے اس واقعے کی تفتیش شروع کر دی ہے، حادثے سے متعلق مزید معلومات سامنے نہیں آ سکی ہیں۔
دوسری جانب اس حادثے میں اسرائیلی فوجی ڈرون فنی خرابی کے باعث گر کر تباہ ہونے کا بھی دعویٰ کیا جا رہا ہے۔
ادھر حوثی فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ امریکی ڈرون کو ضلع الجوف میں مار گرایا گیا ہے۔
Post Views: 3.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
پی اے ایف، فضائی دفاع کے نئے تصور کی خالق
دشمن کے حملے سے بچنے کی تدبیر ہو یا دشمن پر وار کرنے کا معاملہ، فریقین کے مابین فاصلے نے جنگ وجدل اور اپنی بقاء کی جدوجہد میں ہمیشہ سے فیصلہ کُن کردار ادا کیا ہے۔
یہ بالکل درست بات ہے کہ ہتھیاروں کو مُہلک بنانے کی دوڑ کے پیچھے سب سے بڑا محرک خوف ہے۔ جب قبل از تاریخ کے زمانے میں انسان کو نوکیلی چیزوں سے ہدف کو زیر کرنے کا گُر معلوم ہوا تو خنجر کی اولین صورت سامنے آئی۔ خود کو دشمن کے ہتھیار کی پُہنچ سے دور رکھنے کی کوشش کے نتیجے میں خنجر کا پَھل لمبا ہوتے ہوتے تلوار کی شکل اختیار کرگیا ۔
اس تلوار نے مزید ترقی کی تو نیزہ وجود میں آیا اور پھر قدیم دور کی عظیم ایجاد تیر کمان نے میدان جنگ کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ دشمن کو دور سے تباہ کرنے کی یہ خواہش آج ہائپر سونک میزائلوں تک آ پہنچی ہے۔ ہتھیار بنانے کی ٹیکنالوجی محفوظ ترین فاصلے پر رہتے ہوئے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے اور دشمن کو جوابی وار کی صلاحیت سے محروم کردینے کے تصور کے زیر اثر پَھل پُھول رہی ہے اور جس قدر کوئی فوج اس صلاحیت سے لیس ہوگی اسی قدر کسی معرکے میں فتح یاب ہونے کا امکان بڑھ جائے گا۔
ابھی حال ہی میں پاکستان ایک ایسی صورتحال سے گزرا ہے جسے کسی جنگ کا ٹریلر قرار دیا جا سکتا ہے۔ ایک مکمل جنگ حالیہ محدود تصادم سے بہت مختلف چیز ہوتی ہے، جہاں زمین، فضا اور سمندر میں جاری عسکری سرگرمیاں ایک دوسرے پر شدت سے اثر اندار ہو رہی ہوتی ہیں۔
خیر، حالیہ پاک بھارت تصادم نے انتہائی مختصر وقت میں اس بات کو ثابت کردیا کہ محض عسکری ٹیکنالوجی اور موثر مہنگے ہتھیار کامیابی دلانے کی ضمانت نہیں، بلکہ ان کے استعمال میں جدت طرازی اور بہتر حکمت عملی سے انھیں زیادہ موثر اور تباہ کن بنانا دشمن پر برتری دلانے میں اہم ترین کردار ادا کرتا ہے۔ حالیہ پاک بھارت تصادم اس اصول کی ایک کلاسیکل مثال ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس فضائی معرکے کی ہیرو، پاک فضائیہ نے اپنی کارکردگی اور رویئے سے ثابت کیا کہ ایک ادارے کے طور پر وہ بدستور انھی اصولوں اور کلچر پر کاربند ہے جو اس کے اولین معماروں ائیر مارشل اصغر خان اور ایئر مارشل نور خان جیسی عظیم شخصیات نے اپنے قابل تقلید کردار اور قائدانہ صلاحیتوں کے ذریعے پروان چڑھایا تھا۔
جب 1965میں آپریشن جبرالٹر کے نتیجے میں یہ بات واضح ہونے لگی تھی کہ کشمیر کو آزاد کرانے کی یہ عسکری کوشش صرف لائن آف کنٹرول تک محدود رہنے کی توقع بے بنیاد ثابت ہوئی ہے اور کشمیر میں جاری کارروائی کسی بھی وقت مکمل جنگ کی شکل اختیار کر سکتی ہے تو ایسی صورت میں پاک فضائیہ کے کردار کے حوالے سے ایئر ہیڈ کوارٹرز میں اجلاس چل رہا تھا۔
ایئر مارشل نور خان کو فضائیہ کی کمان سنبھالے ایک ہفتے سے کچھ زیادہ دن ہوئے تھے۔ اجلاس میں موجود زیادہ تر افسروں کا خیال تھا کہ بھارت کی فضائی کارروائی کا انتظار کیا جائے لیکن فضائیہ کے سربراہ نے اپنے پیش رو کے دفاعی تصور کے حق میں فیصلہ دیا۔ جیسے ہی جنگ کا نقارہ بجا پاک فضائیہ بھارتی فضائیہ کے اڈوں پر ٹوٹ پڑی۔ اس زمانے میں روس کے مگ۔21 طیارے دنیا کے بہترین لڑاکا طیارے شمار ہوتے تھے۔
پاک فضائیہ نے ان کی اکثریت کو اُڑنے سے پہلے ہی پٹھانکوٹ ائیر بیس پر کھڑے کھڑے ناکارہ بنا دیا تھا۔ چند روز میں بھارتی فضائیہ میدان سے باہر ہو چکی تھی اور اس پہل کاری نے جنگ کے عمومی نتیجے میں فیصلہ کُن کردار ادا کیا تھا۔
اس حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ جنگ کے کچھ عرصہ بعد روس کے وزیر دفاع مارشل آندری گریچکو بھارت کر دورے پر آئے۔ یہ وہی مارشل گریچکو تھے جنھوں نے بعد میں 1971کی پاک بھارت جنگ میں بھارت کی فتح کو یقینی بنانے میں مدد اور تعاون کے تمام معاملات کی نگرانی کی تھی۔ اُس وقت عالمی سطح پر یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی، جیسے امریکی فضائی ٹیکنالوجی نے روسی ٹیکنالوجی کا جنازہ نکال دیا ہے۔
دہلی کے ہوائی اڈے پر موجود ایک امریکی صحافی نے روس کی رُسوائی کا اہتمام کرنے کے لیے مہمان سے سوال کیا، ’’مارشل! آپ کے خیال میں امریکی F-86 سیبرز کے مقابل روسیMig-21کی کارکردگی کیسی رہی ہے‘‘؟ گوکہ پالیسی کے لحاظ سے روس پاکستان کو توڑنے کے لیے بھارت سے تعاون کر رہا تھا لیکن جب اُنگلی روس کی ٹیکنالوجی پر اُٹھی تو مارشل نے ترنت جواب دیا، ’’ جب طیارے گائیں اُڑا رہی ہوں تو کارکردگی کا سوال ہی نہیں اُٹھتا۔‘‘ مارشل نے یہی اُصول بیان کیا کہ اصل فرق استعمال کا طریقہ ڈالتا ہے۔
آج کی فضائی جنگ ماضی کے فضائی معرکوں سے بہت بدل چکی ہے۔ اب یہ بات اہم ہے کہ کتنی دور سے آپ دشمن کو دیکھ اور پہچان لیتے ہیں، اور اس سے پہلے کہ اسے آپ کی موجودگی کا علم ہو آپ اس پر وار کردیتے ہیں۔ 2019 میں بالا کوٹ پر بھارتی حملے اور اس کے ردعمل میں آپریشن سوئفٹ رٹارٹ میں بھی بھارتی طیارے ہمارے طیاروں سے کم تر درجے کے نہیں تھے لیکن فرق ڈالا تھا میسر طیاروں اور ان کی معاونت کرنے والی ٹیکنالوجی کے استعمال نے۔فیصلہ کُن کردار میدان جنگ میں اپنی کمزوریوں کو دشمن کے برتر پہلوؤں کے مقابل نہ آنے دینے اور دشمن کی کمزوریوں کے مقابل اپنی برتر صلاحیتوں کے کامیاب استعمال میں ہے۔
حالیہ پاک بھارت فضائی تصادم میں بھی اس اصول کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔ دنیا بھر میں پاکستان کے ہاتھوں بھارت کی ذلت آمیز شکست پر بات ہو رہی ہے ۔ بھارت سے خطے میں تھانیدار کا کردار ادا کرنے کی اُمیدیں وابستہ کرنے والے پریشان ہیں اور بھارت کے رویئے سے نالاں ملک مطمئن اور خوش۔ اس حوالے سے چینی میڈیا کی خوشی سمجھ میں آنے والی بات ہے۔
اس معرکے نے مغربی ممالک کے ہتھیاروں کی برتری کے تاثر کو زائل کر دیا ہے۔ اب چین اسلحہ سازی کے میدان میں دیگر سپر پاورز کے ہم پلہ ہے۔چینی صحافی ’لیوژن‘ نے ’جو ماضی میں بیجنگ میں رائٹر کی نمایندہ تھیں‘ پاک بھارت تصادم میں ’ My News ‘ پر ایک دلچسپ آرٹیکل لکھا ہے۔
وہ کہتی ہیں، ’’پاکستان کی جانب سے بھارت کے پانچ طیاروں کی تباہی ’جن میں تین رافیل بھی شامل تھے‘ دوسرے لفظوں میں نیٹو کے فوجی ساز و سامان پر چینی ہتھیاروں کی فتح کا اعلان ہے‘‘۔ اس مضمون میں انھوںنے چینی J-10c اور رافیل کا موازنہ کر کے بتایا ہے کہ رافیل کوئی کم تر طیارہ نہیں، لیکن ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ J-10 صرف پاکستان استعمال کر رہا ہے جب کہ رافیل یونان، کروشیا، مصر، انڈونیشیا اور متحدہ عرب امارات کے زیر استعمال ہے، انھوں نے یہ بھی بتایا کہ بھارت 7.4 ارب ڈالر کے عوض مزید 26رافیل حاصل کر رہا ہے۔
پاکستان ایئر فورس نے ماضی کی طرح اب بھی اپنی صلاحیت اور استعداد کو بروئے کار لاتے ہوئے اس بات میں کامیابی حاصل کی کہ اپنے عسکری اثاثوں کو میدان جنگ میں ایسے مربوط انداز میں استعمال کیا کہ اپنے سے طاقتور دشمن کو چند گھنٹوں میں میدان سے باہر کر دیا۔ ہماری فضائیہ کا یہ امتیاز بھی ہے کہ مختلف ممالک کی ٹیکنالوجیز کو آپس میں مربوط کرنے میں کامیابی حاصل کی۔
چینی میڈیا پاکستانی حکمت عملی کو 1,2,3 کا نام دے رہا ہے۔ اس میں 1 زمینی ریڈار دشمن کی نشاندہی کرکے ڈیٹا فضا میں اپنے طیاروں کو پہنچاتا ہے، 2 پائلٹ اس ڈیٹا کے ذریعے میزائل فائرکر دیتا ہے اور 3 اسے فضاء میں محو پرواز ’ایوا کس‘ نظام سے لیس طیارہ ہدف تک پہنچا دیتا ہے۔ جن چینی میزائلوں کا بھارتی طیارے شکار بنے ان کی رفتار 173 6 کلو میٹر فی گھنٹہ، یعنی 1660 میٹر فی سیکنڈ ہے۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نشانے پر آنے والے کے پاس بچ نکلنے کا کتنا وقت ہوگا۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ اصل چیلنج یہ ہے کہ ہمیں ہمیشہ دشمن سے ایک قدم آگے رہنا ہے۔