Islam Times:
2025-11-04@11:02:42 GMT

معدنی وسائل کا ملکی معیشت میں اہم کردار

اشاعت کی تاریخ: 11th, April 2025 GMT

معدنی وسائل کا ملکی معیشت میں اہم کردار

اسلام ٹائمز: اگر پاکستان نے اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ معدنی دولت ترقی کے لیے ایک نعمت کے طور پر کام کرے تو اسے اپنے ادارہ جاتی اور قانونی فریم ورک کو مضبوط بنانا ہوگا تاکہ وسائل کی دولت کے انتظام کے لیے جامع حفاظتی اقدامات کیے جاسکیں۔ ملک کو مستقبل کے معدنی محصولات کے خلاف مستقل طور پر قرض لینے سے بچنے اور اپنے غیر مستحکم قرضوں کے بوجھ میں کمی کو ترجیح دینے کے لیے طریقہ کار پر عمل درآمد کرنا چاہیئے۔ خصوصی تحریر

پاکستان میں کھربوں ڈالر کے معدنی ذخائر ہیں، پاکستان معدنی وسائل کے استعمال سے آئی ایم ایف کو خیرباد کہہ سکتا ہے۔ یہ بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے لیے فائدے کا سودا ہے کہ وہ پاکستان سے معدنیات نکالیں اور خام مال حاصل کریں۔ ہم مل کر پاکستان کو دنیا کا عظیم ملک بنائیں گے اور طے پانے والی مفاہمتی یاد داشتوں کو معاہدوں میں تبدیل کریں گے۔ ان خیالات کا اظہار وزیراعظم شہباز شریف نے 2 روزہ پاکستان منرلز انویسٹمنٹ فورم 2025ء سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ جہاں امریکا، چین، سعودی عرب، روس، فن لینڈ اور ترکیہ سمیت دیگر ممالک کے وفود شریک ہیں۔ بلاشبہ اس وقت پاکستان کا معدنی شعبہ بڑھتی ہوئی غیر ملکی سرمایہ کاری کو اپنی طرف متوجہ کررہا ہے اور عالمی کمپنیاں ملک کے غیر استعمال شدہ معدنی ذخائر میں دلچسپی لے رہی ہیں کیونکہ پاکستان قدرتی وسائل کے ذخائر سے خود کفیل ہے، یہ اقتصادی اور صنعتی ترقی کے لیے بے پناہ صلاحیت رکھتے ہیں۔

اس وقت پاکستان کے قابل ذکر معدنی ذخائر میں دنیا کے دوسرے بڑے نمک کے ذخائر، پانچویں بڑے تانبا اور سونے کے ذخائر اور نمایاں کوئلے کے ذخائر شامل ہیں۔ مزید برآں جپسم، اور قیمتی پتھروں جیسے یاقوت، پکھراج، اور زمرد کے وافر ذخائر موجود ہیں، جو برآمدات کے لحاظ سے نمایاں صلاحیت رکھتے ہیں۔ قومی قیادت نے اقتصادی بحالی کے ایک منصوبے کا اعلان کیا جس کا مقصد معدنیات کی کان کنی کے لیے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کو راغب کرنا ہے، جس کا تخمینہ 6.

1 کھرب ڈالر لگایا گیا ہے۔ اس وژن میں کان کنی کی جدید تکنیکوں کا احاطہ کیا گیا جس سے بلوچستان میں ذخائر سے تانبا نکالا جائے گا اور جس سے ممکنہ طور پر تانبے کی صنعت کو فروغ ملے گا۔ مزید برآں لیتھیم نکالنے کی سہولیات اور بہترین معیار کی لیتھیم کاربونیٹ کی پیداوار سے پاکستان کا مقصد صاف توانائی کی سپلائی چین میں اپنی پوزیشن کو محفوظ بنانا اور بڑھتی ہوئی صاف توانائی کی منڈیوں میں برآمدات کو بڑھانا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ ہم کان کنی کے شعبے کی ترقی کے لیے درکار ٹیکنالوجی، انفرااسٹرکچر، وسائل اور سرمایے کے معاملے میں بہت پیچھے ہیں جس کی وجہ سے ہماری معدنیات کی مقدار اور پیداوار کا گراف تیزی سے گر رہا ہے۔ اس کمی کی وجوہات کا حکومت کو بغور جائزہ لینا چاہیئے۔ یہ بات حوصلہ افزاء ہے ہماری چند اہم معدنیات کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ بھی ہوا ہے مثلاً سیسے کی کانوں میں پائی جانے والی قلموں کی شکل کی باریٹس (BARYTES) کی پیداوار میں 53-57 فیصد کا ریکارڈ اضافہ ہوا ہے جب کہ ڈولو مائیٹ 42.20 فیصد، کوئلہ 17.60 فیصد، گیرو (OCHER) 15.40 فیصد، راک سالٹ 12.40 فیصد اور لائم اسٹون کی پیداوار میں 10.60 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ چند سال پہلے صوبہ پنجاب کے ضلع چنیوٹ میں سونے کے بہت بڑے ذخائر کا انکشاف اس وقت کے وزیر اعلیٰ میں شہباز شریف نے بڑے فخریہ انداز میں کیا تھا لیکن نہ جانے کیوں یہ معاملہ داخل دفتر کردیا گیا۔

تقسیم ہندوستان سے پہلے اٹک کے قریب سے تیل نکلتا ہے اور راولپنڈی میں اٹک ریفائنری ہے اور یہ شاید واحد فیکٹری تھی جو پاکستان کے حصے میں آئی تھی۔ بلوچستان میں معدنیات کی بہتات ہے لیکن کسی نہ کسی وجہ سے معدنیات نہیں نکالی جاسکیں، اس کے بعد ریکوڈک میں تانبے اور سونے کے ذخائر دریافت ہوگئے، اسی طرح گلگت بلتستان کے پہاڑوں میں سونا ہے، یہ بات اس لیے درست ہوسکتی ہے کہ گلگت بلتستان اور اُس کے ملحق علاقوں میں جہاں دریا نکلتا ہے وہاں مقامی لوگ دریائی ریت کو چھانتے اور اس سے سونا نکالنے کی سعی کرتے ہیں اور تصدیق بھی کرتے ہیں کہ اُن کو اکثر سونے کے ذرات مل جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل پاکستان کے عبوری وزیر خارجہ حسین عبداللہ ہارون نے انکشاف کیا تھا کہ پاکستان کی سمندری حدود میں اتنی مقدار میں تیل موجود ہے جتنا کہ کویت کے پاس ہے۔ اسی طرح ابھی تک پاکستان کی بحری حدود میں ہیرے اور موتیوں کے علاوہ مچھلی، سبزی اور دیگر اشیاء بڑی مقدار میں موجود ہیں جو پاکستان کی غذائی ضرورت تو کافی حد تک پوری کرسکتی ہیں اور ساتھ ساتھ بڑا زرمبادلہ بھی کما کر دے سکتی ہیں۔

صرف مچھلی اور جھینگے کو لے لیں تو یہ ہماری زرمبادلہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہے۔ پاکستان میں مچھلی کی صنعت کو فروغ دینے کی کبھی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی بلکہ سچ بات کی جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں مچھلیوں کی کوئی صنعت سرے سے موجود ہی نہیں ہے، ہم صرف مچھلی پکڑ سکتے ہیں، اگر اس میں سرمایہ کاری کی جائے تو جو مچھلی ضائع ہوجاتی ہے وہ بچ سکتی ہے اور پاکستان کی آمدنی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کو صنعت کے درجے پر لایا جائے، اس کو محفوظ کرنے اور عالمی معیار پر لا کر فروخت کرنے سے پاکستان کی آمدنی بڑھ سکتی ہے۔ تھر سے کوئلہ کی بڑی مقدار کا حصول ممکن بنا لیا گیا ہے، پھر سیاحت کی صنعت کو فروغ دینے سے پاکستان میں ڈالروں کی ریل پیل ہوسکتی ہے یا دنیا بھر کی کرنسیوں کی بھرمار ہوسکتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ صرف گلگت بلتستان پاکستان کو 50 ہزار میگاواٹ بجلی فراہم کرسکتا ہے لیکن پاکستان میں ٹرانسمیشن لائنز اس کا وزن نہیں اٹھا سکتیں۔

ایسا ملک جس کے پاس آمدنی کے مختلف ذرائع ہیں مگر وہ اپنی افرادی قوت کو متحرک کرنے کی صلاحیت سے عاری ہے، ہم نے آئی ایم ایف سے قرضہ تو لے لیا ہے لیکن وہ پاکستان کی شرح نمو 4 یا 5 فیصد سے آگے نہیں بڑھنے دے گا جب کہ قرضہ جات کے جنجال سے نکلنے کے لیے پاکستان کو 8 فیصد شرح نمو کم از کم دس سال تک درکار ہے۔ اس کے لیے پاکستان کو 20 بلین ڈالرز کی ضرورت ہوگی پھر جو طریقہ چین اور پاکستان نے وضع کیا ہے کہ یوآن اور روپے میں تجارت کی جائے وہ بھی ایک ذریعہ ہے، پاکستان کو زراعت کے لیے نئے کھیت بنانا ہوں گے اور نئی فصلیں اگانا ہوںگی، جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ اس کے لیے پانی کی ضرورت ہے اور پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیم چاہئیں۔ ملک میں کوئلہ، تانبہ، سونا، لوہا، کرومائیٹ اور قیمتی پتھروں سمیت معدنی وسائل کے وسیع ذخائر موجود ہیں، جو کان کنی کے شعبے کی ترقی اور قومی معیشت میں مثبت کردار ادا کرنے کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتے ہیں۔

اس بے پناہ صلاحیت کے باوجود، معدنی شعبہ فی الحال ملک کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں صرف 3.2 فیصد حصہ ڈالتا ہے، جب کہ برآمدات عالمی سطح پر صرف 0.1 فیصد ہیں۔ تاہم ان معدنیات کی بڑھتی ہوئی تلاش، غیر ملکی سرمایہ کاری اور بنیادی ڈھانچے میں بہتری کے ساتھ، پاکستان کی کان کنی کی صنعت نمایاں ترقی کے لیے تیار ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کے معدنی وسائل تقریباً 600,000 مربع کلومیٹر پر محیط ہیں اور ملک میں 92 معدنیات کی نشاندہی ہو چکی ہے، جن میں سے 52 تجارتی پیمانے پر نکالی جا سکتی ہیں اور سالانہ اندازاً 68.52 ملین میٹرک ٹن معدنیات حاصل کی جارہی ہیں۔ یہ شعبہ 5,000 سے زائد فعال کانوں، 50,000 چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں (SMEs) کو سہولت اور 300,000 افراد کو روزگار بھی مہیا کرتا ہے۔ بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع ریکوڈک کاپر اور گولڈ پروجیکٹ دنیا کا سب سے بڑا غیر دریافت شدہ تانبے کا ذخیرہ ہے اور پاکستان کی کان کنی کے شعبہ کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہو رہا ہے۔ یہ منصوبہ تانبے کی پیداوار کو 400,000 ٹن اور سونے کی پیداوار کو 500,000 اونس سالانہ تک بڑھا دے گا، جس میں اضافی 3.5 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری شامل ہوگی۔

بین الحکومتی معاہدے کے تحت، وفاقی کابینہ نے ریکوڈک منصوبے میں سعودی عرب کو 15 فیصد حصص فروخت کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ ریکوڈک کے علاوہ، بلوچستان میں 40 سے زائد معدنی وسائل موجود ہیں، جن میں تیل، گیس، یورینیم، اور کوئلہ شامل ہیں، جو پاکستان کی توانائی اور صنعتی ضروریات کو کئی دہائیوں تک پورا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مزید برآں، ریفائنریوں کے قیام پر بھی کام جاری ہے، جو پاکستان کی خام مال کی برآمد پر انحصار کم کرے گا۔ اگر پاکستان نے اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ معدنی دولت ترقی کے لیے ایک نعمت کے طور پر کام کرے تو اسے اپنے ادارہ جاتی اور قانونی فریم ورک کو مضبوط بنانا ہوگا تاکہ وسائل کی دولت کے انتظام کے لیے جامع حفاظتی اقدامات کیے جاسکیں۔ ملک کو مستقبل کے معدنی محصولات کے خلاف مستقل طور پر قرض لینے سے بچنے اور اپنے غیر مستحکم قرضوں کے بوجھ میں کمی کو ترجیح دینے کے لیے طریقہ کار پر عمل درآمد کرنا چاہیئے۔

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کی سرمایہ کاری پاکستان میں ترقی کے لیے پاکستان کو پاکستان کے پاکستان کی معدنیات کی جو پاکستان کی پیداوار کے لیے ایک کان کنی کے موجود ہیں کے معدنی کے ذخائر سونے کے کی صنعت ہیں اور سکتی ہے کی کان ہے اور

پڑھیں:

مذاکرات پاکستان کی کمزوری نہیں، خواہش ہے...افغانستان کو سنجیدہ کردار ادا کرنا ہوگا!!

پاک افغان تعلقات کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امور خارجہ اور سیاسی و دفاعی تجزیہ کاروں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر ارم خالد

(ڈین فیکلٹی آف سوشل اینڈ بیہوئرل سائنسز، جامعہ پنجاب)

پاک افغان تنازعہ نیا نہیں ہے مگر اس کی جہت نئی ہے۔ اس وقت بہت کوشش کی جا رہی ہے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری آسکے تاہم سوال یہ ہے کہ اس کیلئے کتنی قربانی دی جاسکتی ہے؟ پاکستان کے معاشرتی استحکام کیلئے ضروری ہے کہ افغانستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئے اور تعاون جاری رہے۔

پہلے صرف ریاست فیصلہ کرتی تھی اور عوام کو بتا دیتی تھی۔ عصر حاضر میں ذرائع ابلاغ بدل چکے ہیں، اب حکومت اکیلئے فیصلہ نہیں کرتی بلکہ عوام بھی پرزور انداز میں اپنی رائے دیتے ہیں۔ اگر 2025ء میں یہ سوال کیا جائے کہ کیا ریاست اپنے طور پر مسئلہ افغانستان حل کر سکتی ہے تو جواب ہوگا نہیں، بلکہ اب ریاست کو اس مسئلے میں عوام کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ اس معاملے پر معاشرے کے مختلف گروہوں میں اطمینان ضروری ہے۔ ہمیں دنیا پر واضح کرنا چاہیے کہ پاکستان کو مسئلہ افغانستان سے نہیں بلکہ وہاں موجود دہشت گرد گروہوں سے ہے جو ہمیں نقصان پہنچا رہے ہیں۔

سیاسی جماعتوں اور قیادت کو چاہیے کہ پارلیمنٹ میں باقاعدہ قرارداد لا کر دنیا کو دو ٹوک پیغام دیا جائے تاکہ اختلافات اور افواہیں ختم ہوں اور ایک موقف کے ساتھ ملک میں استحکام لایا جاسکے۔یہ سب کی یکساں ذمہ داری ہے کہ ملکی استحکام کو دوام بخشنے کیلئے ایک موقف اپنائیں۔ بارڈر پر دی جانے والی قربانیوں کا فائدہ اس وقت ہی ہوگا جب سب متحد ہوں۔ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے اور ہماری نوجوان نسل میں تصدیق کا عمل ختم ہوگیا ہے۔

انہیں یہ سکھانا ہے کہ جب بھی کوئی خبر آئے اس کی تصدیق کر لیں، اس کا سورس لازمی دیکھیں۔ ہمارے لیے سوچ بدلنا بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ ہم نے اپنی نسلوں کو اس بیانیے پر پروان چڑھایا کہ افغانستان برادر اسلامی ملک ہے جس پر دشمن قابض ہے لہٰذا ہمیں ہر حال میں اس کا ساتھ دینا ہے۔

اب اس نسل کو یہ سمجھانا مشکل ہے کہ ہم پہلے ٹھیک تھے یا اب۔ بھارت نے ہمیں آزمائش میں ڈال رکھا ہے جس کی تیاری کیلئے ہمیں بہت سارے پہلوؤں پر سوچنا ہوگا، اس کیلئے اندرونی اتحاد اور پاک افغان اعتماد بحال کرنا بہت ضروری ہے۔ یہ بھی اہم ہے کہ حکومت کی طرف سے اس مسئلے پر ذمہ دارانہ بیانات دیے جائیں۔ جذباتی بیانات کے نتائج قوموں کو بھگتنا پڑتے ہیں۔

افغانستان کے ساتھ ہمارا بھائی چارے کا تعلق ہے، وہاں چند عناصر ہیں جو ہمیں نقصان پہنچا رہے ہیں، اس کا ذمہ دار پورے افغانستان کو نہیں ٹہرایا جاسکتا۔ ہمیں بھارت کے ہاتھوں میںکھیلنے والوں کو بہترین حکمت عملی سے ڈیل کرنا ہے۔ ہمیں ایسا کوئی کام نہیں کرنا جس سے لوگ مشتعل ہوں، ہم نیا محاذ کھولنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ ہمیں تمام عناصر کا سمجھداری سے مقابلہ کرنا ہے۔ میرے نزدیک پاک افغان معاملے پر ریاست کو ذمہ دارانہ بیانات دینے چاہئیں۔ سب سے پہلے ہمیں اندرونی استحکام لانا ہے، ہمارے ادارے، حکومت اور افواج پاکستان ملک کو ہر طرح سے محفوظ بنانے اور استحکام لانے کیلئے تیار ہیں، تمام سیاسی جماعتوں اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کو اعلانیہ طور پر غلط چیزوں کی مذمت کرنی چاہیے، سب کو واضح ہونا چاہیے ہمارا ملک بھی ایک ہے اور دشمن بھی سب کا ہے۔

بریگیڈیئر (ر) سید غضنفر علی

(دفاعی تجزیہ کار)

 میڈیا اور سوشل میڈیا پر زیادہ تر جنگ کی بات ہوتی ہے، ایسے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں جن میں ٹکراؤ کا عنصر زیادہ ہوتا ہے اور امن کی بات کم۔ میرے نزدیک ’افغانستان کو کھلی دھمکی‘ جیسے الفاظ سے پاکستان کی عالمی ساکھ متاثر ہوتی ہے، ہمیں پاک افغان مذاکرات کے معاملے میں اشتعال انگیز بیانات کے بجائے امن کے پیغام کو اجاگر کرنا چاہیے۔ پاکستان امن کا خواہاں ہے اور اس لیے ہی مذاکرات بھی کر رہا ہے۔

پاک افغان تعلقات کبھی بھی مثالی نہیں رہے، ان میں اتار چڑھاؤ آتا رہا۔ ستمبر 1947ء میں افغانستان نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی مخالفت کی اور پھر اکتوبر میں پاکستان کو بطور ملک تسلیم کر لیا۔ افغانستان کی طرف سے پاکستان میں دہشت گردی کا پہلا واقعہ لیاقت علی خان کی شہادت ہے۔ امریکی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے کی آرکائیوز میں یہ موجود ہے کہ لیاقت علی خان کے قتل میں سی آئی اے کا ہاتھ تھا کیونکہ وہ امریکا کی مرضی کے خلاف جا رہے تھے۔ سی آئی اے نے افغانستان سے شوٹر لیے اور اپنا کام کروا لیا۔ پاک افغان اور پاک بھارت تعلقات میں بہت کچھ مشترک ہے۔

بھارت نے بھی آزادی سے پہلے ہی پاکستان کیلئے مسائل پیدا کیے۔ آزادی کے بعد بھی یہی سب چل رہا ہے۔ کشمیر کا مسئلہ سب کے سامنے ہے۔ اسی طرح فیروزپور اور گرداسپور میں مسیحیوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا، 51 فیصد ووٹ ہونے کے باوجود علاقہ بھارت کو دے دیا گیا۔ بھارت کی بنیاد میں دہشت گردی پوشیدہ ہے۔ اس وقت بھارت اور افغانستان کا گٹھ جوڑ ہے اور دونوں ہی شروع دن سے پاکستان کے مخالف ہیں۔افغانستان کے بادشاہ عبدالرحمن نے ڈیورنڈ لائن کو عالمی سرحد تسلیم کیا لیکن اب افغانستان اسے نہیں مانتا۔ بھارت خطے میں مسائل پیدا کر رہا ہے اور پاک افغان تعلقات میں مزید خرابیاں پیدا کرنی کی کوشش میں ہے۔

آر ایس ایس ، اجیت دوول، ششی تھرور و دیگر اشتعال انگیز سیاست کر رہے ہیں۔ فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ امریکا افغانستان میں 7.2 ارب ڈالر کا اسلحہ چھوڑ کر چلا گیا جو وہاں طالبان اور دوسرے دہشت گرد گروہوں کے ہاتھوں میں ہے۔ وہاں اسلحہ کی فروخت اور سمگلنگ بھی ہو رہی ہے۔یہ جدید اسلحہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں استعمال ہو رہا ہے۔

بی ایل اے جاوید مینگل گروپ کے پاس جدید ہتھیار ہیں، یہ اسلحہ انہیں افغان لیڈرز نے دیا ہے۔ پاکستان ایٹمی طاقت ہے اور امریکا کو بھی مستحکم پاکستان پسند نہیں ہے۔امریکا جب افغانستان میں تھا تو ہم نے اسے یہاں سے کور دیا تاکہ دہشت گردی کی کارروائیاں نہ ہوں مگر آپریشن ضرب عضب میں ہمیں دھوکا دیا گیا۔ جب طالبان نے ٹیک اوور کیا تو وہاں کی جیلوں سے پانچ ہزار قیدیوں کو رہا کر دیاجنہوں نے خود کو دوبارہ سے منظم کر لیا۔ گلبدین حکمت یار، منگل باغ و دیگر کی کہانی سب کے سامنے ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس وقت افغانستان میں 33 دہشت گرد تنظیمیں کام کر رہی ہیں جنہیں افغان حکومت کی سرپرستی حاصل ہے،وہاں بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسی ’’موساد‘‘ بھی کام کر رہی ہیں۔سانحہ آرمی پبلک سکول کے پیچھے بھارت ہے، دہشت گرد’’را‘‘ کے ساتھ رابطے میں تھے، پاکستان نے اقوام متحدہ کو بھی شواہد دیے ہیں۔ بھارت نے افغان حکومت کو فنڈز دیے ہیں، یہی وجہ ہے کہ افغان حکومت کا رویہ غیر لچکدار ہے۔افغانستان میں ’’را‘‘ کا دفتر بھی ہے، اب وہاں بھارتی سفارتخانہ بھی کھولا جا رہا ہے ۔

افغانستان کی جانب سے پاکستان کی دو تشکیلوں پر حملہ کیا گیا۔ ایف سی پر حملے میں ملوث پانچ افراد میں سے تین افغانی تھے جو وہاں بیان ریکارڈ کرو ا کر آئے تھے۔پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ میں 70 ہزار سول ملٹری شہادتیں دیں اور اربوں ڈالرز کا نقصان بھی اٹھایا۔ پاکستان نے خطے میں سٹرٹیجک رسٹرینٹ کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہم نے افغانستان پر کبھی حملہ نہیں کیا، اب بھی صرف جوابی کارروائی کی ہے۔ اس سے پہلے جب چمن بارڈر پر افغانستان کی طرف سے حملہ ہوا تھا تو اس کا جواب دیا، پاکستان نے افغان بارڈ پر باڑ لگائی اور انٹرنیشنل بارڈر کو یقینی بنایا۔ گزشتہ مہینے افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی ہوئی اور پاکستان نے جوابی کارروائی کی۔

افغان حکومت کہتی ہے کہ اس کا دہشت گردوں پر کنٹرول نہیں ہے تو پھر دہشت گرد کہاں سے آئے؟ جب پاکستان نے افغان چیک پوسٹوں پر حملہ کیا تو وہاں افغان فورسز اور خوارج دونوں موجود تھے جو پاکستان کے ساتھ مل کر لڑ رہے تھے۔ پاکستان نے بھرپور جواب دیا جس کے بعد جنگ بندی ہوئی۔افغانستان بھارت گٹھ جوڑ بے نقاب ہو چکا ہے۔ استنبول میں ہونے والے پاک افغان مذاکرات میں ترکیہ کی خفیہ ایجنسی نے کالیں ٹریس کی تو معلوم ہوا کہ مذاکرات میں شریک افغان نمائندوں کا رابطہ بھارت میں اجیت دوول کے ساتھ ہے۔ طالبان قندھا ر اور کابل کے درمیان پھنسے ہیں۔ افغان حکومت چاہتی ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کوبھی مذاکرات میں شامل کیا جائے، پاکستان اس پر تیار نہیں ہے۔

افغانستان یہ مان نہیں رہاکہ وہاں دہشت گرد موجود ہیں جبکہ پاکستان نے ترکیہ کے سامنے ویڈیو ثبوت بھی پیش کیے ہیں۔ مذاکرات میں پاکستان کا یک نکاتی ایجنڈہ ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ ہواور افغانستان کی سرزمین سے پاکستان میں کوئی دہشت گردی کی کارروائی نہ ہو، پاکستان افغانستان کے ساتھ جنگ کی طرف نہیں جائے گا، کوشش ہوگی کہ مذاکرات سے معاملہ حل ہو لیکن اگرمعاملہ حل نہ ہوا تو پھر دنیا نے جو ’’نیو نارمل‘‘ سیٹ کیا ہے کہ دور رہ کر کارروائی کرکے اپنے دشمنوں کا خاتمہ کریں تو پاکستان بھی یہ طریقہ استعمال کر سکتا ہے۔

محمد مہدی

(ماہر امور خارجہ)

پاک افغان تعلقات کی تاریخ پاکستان کی تحریک آزادی سے منسلک ہے۔ آزادی کے وقت آزاد پختونستان کی باتیں تھیں اور آج بھی یہ سوچ مسئلہ ہے۔ پاکستان نے شروع دن سے ہی کوشش کی کہ افغانستان کے ساتھ معاملات حل بہتر رہیں۔ آزادی کے بعد پہلے افغانستان نے پاکستان کی مخالفت کی اور بعدازاں تسلیم کر لیا۔ 65ء کی جنگ میں افغانستان نے مہمند پر حملہ کیا۔

71ء میں بنگلہ دیش کے بننے پر کابل میں بڑا جشن منایا گیا۔ 1998ء میں طالبان کے پہلے دور میں برٹش انڈیا معاہدے کے 100 سال مکمل ہوئے، اس وقت طالبا ن کا پہلا دور تھا۔ پاکستان کا خیال تھا کہ اس کی توثیق کی جائے گی لیکن طالبان نے نہیں کی۔ اسی طرح جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں افغان حکومت کے ساتھ استنبول میں مذاکرات ہوئے۔ صدرپاکستان آصف علی زرداری کے سابق دور میں بھی استنبول میں سہ فریقی مذاکرات ہوئے لیکن دونوں کا کوئی فائدہ نہیں ہو۔

دوحہ مذاکرات کے بعد خیال تھا کہ طالبان ہمارے احسان مند ہوں گے لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ طالبان نے کہا کہ پاکستان سے مذاکرات ہوئے ہی نہیں۔ اب استنبول میں پاکستان اور افغانستان کے مذاکرات ہوئے جن سے فی الحال کچھ نہیں نکلا۔ پاکستان کہتا ہے کہ افغانستان دہشت گردی کو سپورٹ کر رہا ہے اور باقاعدہ ثبوت دکھا رہا ہے جبکہ طالبان کہتے ہیں کہ ہمارے پاس دہشت گرد نہیں ہیں، ہم لکھ کر کیوں دیں۔ اس وقت بھارت افغانستان کی مدد کر رہا ہے۔ فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر نے کاکول اکیڈمی میں دیے گئے بیان میں واضح کیا کہ اگر بھارت اور افغانستان نے مل کر ہمیں انگیج کرنے کی کوشش کی تو ملکی دفاع میں ہر حد تک جائیں گے۔

خطے کے دیگر ممالک کی بات کریں تو چین نے افغانستان کے ساتھ سڑک تعمیر کی لیکن تجارت نہیںکھلی، چین چاہتا ہے کہ تجارت ہوں ۔ اس وقت خطے کے تقریباََ ہر ملک کو طالبان سے مسئلہ ہے۔ طالبان کی پالیسی ہے کہ ہر ملک کیلئے مسائل پیدا کرو تاکہ وہ گھبرا کر ان سے تعلق قائم کریں اور پھر یہ اپنی بات منوا سکیں۔ فیلڈ مارشل نے بارڈر سمگلنگ کا خاتمہ کر دیا ہے جس سے افغانستان کی معیشت کو نقصان ہوا ۔ افغانستان میں بھوک بڑھ رہی ہے۔ اگر پاکستان نے تمام افغان مہاجرین واپس بھیج دیے تووہاں بھوک کی صورتحال بدترین ہو جائے گی۔ طالبا ن قیادت کے اپنے بچے دوسرے ممالک میںرہتے ہیں۔

سہیل شاہین کے بچے قطر میں رہتے ہیں، ان لوگوں کو تو کوئی مسئلہ نہیںہے۔ پہلے قطر اور اب ترکی میں مذاکرات ہوئے، پاکستان جو چاہتا تھا وہ نہیں نکلا۔ افغانستان پر اس وقت دنیا کی توجہ ہے اور کچھ قوتیں متحرک بھی نظر آتی ہیں۔ جنرل احسان نے کہا ہے کہ دنیا میں بات ہو رہی ہے کہ اب افغانستان میں استحکام نہیں آئے گا۔ ایک اور بات قابل ذکر ہے کہ دنیا افغانستان کی تقسیم پر غور کر رہی ہے، اگر امریکا اور چین دونوں اس پر متفق ہوجاتے ہیں تو یہ کام ہوسکتا ہے۔ افغانستان کا معاملہ سادہ نہیں ہے لہٰذا پاکستان کو احتیاط اور سفارتی محاذ پر بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔

ہمیں صرف ٹرمپ اور امریکا پر ہی توجہ نہیں دینی چاہیے دیگر ممالک کے ساتھ بھی تعلقات کو مزید مضبوط کرنا چاہیے ۔ ہمیں دنیا کو یہ پیغام دینا ہے کہ پاکستان امن پسند ہے اور افغانستان میں بھی امن چاہتا ہے۔ TAPI گیس پائپ لائن منصوبہ اہم ہے۔ اس میں ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور بھارت شامل ہیں۔ گیس ہم تک آنی ہے اور کرایہ افغانستان کو ملنا ہے۔ افغانستان کے مسائل کی وجہ سے وسط ایشیائی ممالک تک درست رسائی نہیں ہوسکی۔ پاکستان کو سفارتی محاذ پر محتاط تو رہنا ہے لیکن خاموش نہیں، ہمیں امن اور دفاع کا واضح پیغام دینا چاہیے۔

متعلقہ مضامین

  • چین کی سمندری جی ڈی پی میں اضافے کا رجحان برقرارمجموعی سمندری پیداوار 7.9 ٹریلین یوآن تک پہنچ گئی
  • پاکستان کینو اور مالٹے کی پیداوار اور برآمد کرنے والے 10 بڑے ممالک میں شامل
  • ملکی معیشت مسلسل زوال کا شکار رہی ،پاکستان بزنس فورم
  • تربیلا ڈیم کے سونے کے ذخائر ملکی قرضہ اتار دیں گے، حنیف گوہر
  • پاک افغان کشیدگی اور ٹرمپ کا کردار
  • ملک میں توانائی، آئی ٹی اور معدنیات سمیت مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کے بے پناہ مواقع ہیں: احسن اقبال
  • مقبوضہ کشمیر، زعفران کی پیداوار میں 90 فیصد کمی، کاشتکار پریشان
  • مذاکرات پاکستان کی کمزوری نہیں، خواہش ہے...افغانستان کو سنجیدہ کردار ادا کرنا ہوگا!!
  • چین کی معدنی بالادستی: امریکا کو تشویش، توازن کے لیے پاکستان سے مدد طلب
  • امریکا نے چین کی معدنی بالادستی کے توازن کیلئے پاکستان سے مدد طلب کرلی