ایس آئی یو ٹی کا تاریخی اقدام؛ پاکستان کا پہلا بچوں کا جدید ترین طبی مرکز کا افتتاح
اشاعت کی تاریخ: 13th, April 2025 GMT
کراچی:
سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (ایس آئی یو ٹی) نے بچوں کے دل اور گردے کے علاج میں ایک تاریخی قدم اٹھاتے ہوئے "مریم بشیر داؤد چلڈرن اسپتال” کا افتتاح کر دیا ہے، جو پاکستان کا پہلا سرکاری سطح پر بچوں کا جدید ترین طبی مرکز بن گیا ہے۔
ایس آئی یوٹی کے زیرانتظام یہ نیا اسپتال مرکزی عمارت کے قریب واقع ہے اور اس کی تعمیر میں معروف مخیر شخصیت بشیر داؤد کے خاندان نے 7 ارب روپے سے زائد کی مالی معاونت فراہم کی ہے۔
علاوہ ازیں سندھ کی صوبائی حکومت کی جانب سے بھی مزید فنڈنگ متوقع ہے تاکہ اس منصوبے کو مزید وسعت دی جا سکے۔
کراچی میں قائم 14 منزلوں پر مشتمل اس جدید اسپتال میں بچوں کے لیے دل کے آپریشن، ڈائیلاسز، یورولوجی اور دیگر پیچیدہ سرجری کی جدید ترین سہولیات فراہم کی گئی ہیں، اسی طرح ماڈیولر آپریٹنگ تھیٹرز، ہائبرڈ کارڈیک کیتھ لیب اور جدید آئی سی یوز جیسی سہولیات کے ساتھ یہ اسپتال بچوں کو عالمی معیار کی نگہداشت فراہم کرے گا۔
ایس آئی یو ٹی کے بانی پروفیسر ادیب رضوی کے فلسفے کے مطابق اس اسپتال میں تمام طبی سہولیات بلا معاوضہ فراہم کی جائیں گی۔
ان کا ماننا ہے کہ صحت ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور کسی بھی طبقے کی میراث نہیں ہونی چاہیے،”مریم بشیر داؤد چلڈرن اسپتال” صرف ایک طبی ادارہ نہیں بلکہ یہ اس عزم کی علامت ہے کہ پاکستان کے ہر بچے کو معیاری اور مفت طبی سہولیات مہیا کی جائیں۔
ایس آئی یو ٹی کے ذرائع کے مطابق پاکستان میں ہر سال تقریباً 80 ہزار سے ایک لاکھ بچے دل اور گردے کی پیدائشی بیماریوں کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ بروقت علاج نہ ہونے کی صورت میں یہ بیماریاں نہ صرف جان لیوا ثابت ہو سکتی ہیں بلکہ بچوں کو معذوری کی طرف بھی لے جا سکتی ہیں۔
Tagsپاکستان.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان ایس آئی یو ٹی
پڑھیں:
مودی کے انتہاپسند بھارت میں 150 سالہ قدیم اور تاریخی درگاہ کی بیحرمتی
بھارتی ریاست بہار میں تاریخی حیثیت کی حامل درگاہ کی بیحرمتی کی گئی جس میں ایک بزرگ مسلم ہستی مدفون ہیں اور ملک بھر سے زائرین کی بڑی تعداد یہاں آتی ہیں۔
بھارتی میڈیا کے مطابق نامعلوم افراد نے رات کی تاریکی میں تاریخی درگاہ کو مسمار کرنے کی کوشش میں شدید نقصان پہنچایا۔ جس پر علاقہ مکینوں نے احتجاج کیا۔
شدید عوامی احتجاج کے باجود تاحال نہ تو ایف آئی آر درج کی گئی اور نہ ہی ملزمان کا تعین کرنے کے لیے کوئی کوشش کی گئی۔
بہار کی مقامی حکومت نے بھی اس واقعے پر سرد مہری کا مظاہرہ کیا جس سے عوام میں غم اور غصے کی لہر دوڑ گئی۔
اس 150 سالہ قدیم درگاہ کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے بھی بڑے تعداد میں آتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ درگاہ کا اتحاد بین المذاہب کا مرکز اور امن کی علامت سمجھا جاتا ہے اور آس پاس کی آبادی میں تمام مذاہب کے افراد مل جل کر رہتے ہیں۔
تاہم مودی سرکار کے دورِ اقتدار میں ہندوتوا کو فروغ دیا گیا جس کے باعث ملک میں نہ اقلیتیں محفوظ ہیں اور نہ ہی ان کی عبادت گاہوں کو تحفظ حاصل ہے۔
مودی سرکار کی اس نفرت آمیز پالیسیوں کا عروج اُس وقت دیکھنے میں آیا جب تاریخی بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کیا گیا۔
اس کے بعد سے متعدد تاریخی مساجد اور درگاہوں کو ہندو دیوتاؤں کی جنم بھومی یا سابق مندر قرار دیکر مسمار کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
بھارت میں مساجد اور درگاہوں کے علاوہ چرچ بھی محفوظ نہیں رہے ہیں۔ مشنری اسکولوں اور اسپتالوں کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔