Islam Times:
2025-07-25@02:47:02 GMT

میرا نام ہے فلسطین، میں مٹنے والا نہیں

اشاعت کی تاریخ: 15th, April 2025 GMT

میرا نام ہے فلسطین، میں مٹنے والا نہیں

اسلام ٹائمز: فلسطین کی تاریخ ایک مسلسل جدوجہد کی داستان ہے۔ ظلم کے خلاف ڈٹ جانے کا استعارہ اور ایک ایسی قوم کی کہانی جو صدیوں سے اپنی شناخت اور زمین کے تحفظ کے لیے لڑ رہی ہے۔ لاکھوں فلسطینی آج بھی جلاوطنی، محاصرے، اور بنیادی سہولیات کی کمی کا شکار ہیں مگر ان کا عزم کمزور نہیں ہوا۔ فلسطین ایک خطہ نہیں, انصاف کے لئے انسانیت کی اجتماعی آزمائش ہے.

جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا، دنیا کے ضمیر پر ایک داغ رہے گا۔ تحریر: سید عباس حیدر شاہ ایڈووکیٹ (سید رحمان شاہ)

فلسطین، ایک ایسا نام جو سننے والے کے ذہن میں قدیم تہذیبوں کی خوشبو، روحانی ورثے کی گونج اور ایک مظلوم قوم کی جدوجہدِ آزادی کی طویل داستان کو تازہ کر دیتا ہے۔ یہ محض ایک خطۂ زمین نہیں بلکہ ایک تہذیبی وراثت، ایک قومی شناخت اور ایک ناقابلِ تسخیر عزم کی علامت ہے۔ فلسطین کا شمار دنیا کے ان قدیم ترین علاقوں میں ہوتا ہے جہاں انسانی تہذیب نے بہت ابتدا میں قدم جمائے۔ آثارِ قدیمہ اور تاریخی روایات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہاں سب سے پہلے کنعانی قوم نے سکونت اختیار کی، جو سامی نسل سے تعلق رکھتی تھی۔

کنعانیوں نے زراعت، تعمیرات، تجارت اور مذہبی نظام میں خاصی ترقی کی اور فلسطین کو ایک تہذیبی اور اقتصادی مرکز بنایا۔ ان کے بعد یبوسی، اموری اور دیگر اقوام نے اس خطے کو اپنا وطن بنایا۔ بعد ازاں یہ خطہ مصری، بابلی اور سمیری تہذیبوں کے زیرِ اثر رہا۔ بعد کے ادوار میں یہی سرزمین انبیائے کرامؑ جیسے حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام کے پیغام کی آماجگاہ بنی، جس نے اس کی روحانی حیثیت کو مزید بلند کیا۔ زیرِ نظر تحریر میں ہم فلسطین کی تاریخی ارتقا سے لے کر موجودہ سیاسی و انسانی بحران تک کا تحقیقی و تجزیاتی جائزہ پیش کریں گے۔

قدیم فلسطین: کنعان سے اسلامی فتوحات تک
فلسطین کی قدیم تاریخ کا آغاز کنعانیوں سے ہوتا ہے، جنہوں نے یہاں اولین شہر آباد کئے۔ ان میں یروشلم (جسے اس وقت یبوس کہا جاتا تھا) خاص اہمیت رکھتا ہے۔ بعد ازاں بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کی قیادت میں اس سرزمین میں قدم رکھا۔ یہودی روایات کے مطابق یہ خطہ انہیں الٰہی وعدے کے تحت عطا کیا گیا، تاہم تاریخی طور پر یہ علاقہ مختلف اقوام کے درمیان مسلسل تنازعات کا مرکز رہا۔ رومی دور میں یہودیوں کو بغاوت کے بعد جلاوطن کر دیا گیا اور یروشلم کو عیسائیت کا مرکز بنا دیا گیا۔

ساتویں صدی عیسوی میں مسلمانوں نے دوسرے خلیفہ کی خلافت کے دور میں اس خطے کو فتح کیا۔ مسجد اقصیٰ، جو پہلے سے ایک مقدس مقام تھی، اسلامی تاریخ کا تیسرا مقدس ترین مقام قرار پائی۔ صلیبی جنگوں کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی نے یروشلم کو دوبارہ اسلامی ریاست میں شامل کیا۔ 1517ء سے 1917ء تک فلسطین عثمانی سلطنت کے زیرِ انتظام رہا، جس نے یہاں امن، رواداری، اور کثیرالمذہبی ہم آہنگی کو فروغ دیا۔

برطانوی استعمار اور صیہونی تحریک کا آغاز
پہلی عالمی جنگ کے بعد عثمانی سلطنت کے انہدام کے ساتھ ہی فلسطین برطانوی انتداب کے تحت آ گیا۔ 1917ء میں برطانوی حکومت نے اعلانِ بالفور کے ذریعے یہودیوں کے لیے فلسطین میں ایک "قومی وطن" کے قیام کی حمایت کا اعلان کیا۔ یہ اعلان صیہونی تحریک کی سیاسی کامیابی تھا، جس نے یورپ سے یہودی آبادکاری کے دروازے کھول دیے۔ اس آبادکاری نے مقامی عرب آبادی کو سیاسی، معاشی اور ثقافتی خطرے میں ڈال دیا، جس کے نتیجے میں شدید کشیدگی پیدا ہوئی۔

1948ء کا المیہ: اسرائیل کا قیام اور النکبہ
1947ء میں اقوامِ متحدہ نے فلسطین کو ایک یہودی اور ایک عرب ریاست میں تقسیم کرنے کی قرارداد منظور کی مگر فلسطینیوں اور عرب ریاستوں نے اسے غاصبانہ سمجھ کر مسترد کر دیا۔ 14 مئی 1948ء کو اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا گیا، جس کے فوراً بعد عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی۔ اسرائیل نے 78 فیصد فلسطینی سرزمین پر قبضہ کر لیا اور سات لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کر دیا گیا۔ یہ جبری ہجرت تاریخ میں النکبہ (یعنی المیہ) کے نام سے یاد کی جاتی ہے۔

1967ء کی جنگ: قبضے کا نیا باب
جون 1967ء کی 6 روزہ جنگ میں اسرائیل نے مشرقی یروشلم، مغربی کنارہ، غزہ کی پٹی، گولان کی پہاڑیاں، اور سینائی کے وسیع علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ اس جنگ نے فلسطینی عوام کی جدوجہد کو نیا رخ دیا۔ فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن (PLO) نے یاسر عرفات کی قیادت میں مزاحمت کو منظم کیا، اور مسلح جدوجہد کو اپنایا۔ 1987ء میں حماس نے پہلی انتفاضہ کے دوران مزاحمت کی عوامی لہر کو جنم دیا، جس نے فلسطینی شناخت کو عالمی سطح پر اجاگر کیا۔ یہ بتایا کہ بے سر و سامانی کے با وجود فلسطینی اپنے حقوق کیلئے لڑ سکتے ہیں اور پھر 2000ء کے دوسرے انتفاضہ نے مزاحمت کو نئی جہت دی

اوسلو معاہدہ: دھوکہ یا امید؟
1993ء میں اوسلو معاہدے کے تحت فلسطینی اتھارٹی قائم کی گئی، جسے بعض علاقوں میں محدود خودمختاری دی گئی۔ اگرچہ اس معاہدے سے امن کی امیدیں وابستہ کی گئیں مگر اسرائیل نے مشرقی یروشلم، غیر قانونی یہودی آبادکاری اور فوجی نگرانی جیسے حساس امور پر اپنا قبضہ برقرار رکھا غزہ کو جیل بنا دیا گیا بلکہ 2006ء میں حماس کی انتخابی فتح کے بعد غزہ پر اسرائیلی محاصرہ عائد کر دیا گیا، جس نے انسانی المیے کو جنم دیا۔

2023ء کے حالات: ظلم، محاصرہ اور مزاحمت تا حال جاری
2023ء میں اسرائیل کی جانب سے غزہ پر شدید فضائی حملے، مسجد اقصیٰ پر چھاپے، اور مغربی کنارے میں صیہونی آبادکاروں کے مظالم جاری رہے۔ اکتوبر 2023ء میں حماس نے آپریشن طوفان الاقصی لانچ کیا اور اس کے  بعد سے اسرائیل و حماس کے درمیان شدید لڑائی شروع ہوگئی حالات بگڑتے چلے گئے اسرائیل نے وسیع پیمانے پر بے گناہ انسانوں کا قتل عام شروع کردیا۔ بوڑھے، بچے، خواتین، صحافی، ڈاکٹرز ہر طبقے کے افراد کو اپنی بندوق اور میزائل سے شکار کیا، یہ انسانی زندگیوں کے ساتھ کھلواڑ امریکہ کی مدد کے ساتھ تا حال جاری ہے۔

درجنوں اسپتال، اسکول اور پناہ گاہیں تباہ ہوئیں، اور سینکڑوں معصوم فلسطینی، بالخصوص بچے اور خواتین، شہید ہوئے۔ عالمی برادری کی جانب سے اسرائیل پر جنگی جرائم کے الزامات عائد کیے گئے لیکن اقوامِ متحدہ اور بڑی طاقتوں کی خاموشی نے فلسطینیوں کو مزید مایوس کیا ہے۔ دنیا کے منافقانہ رویہ یعنی امریکہ و یورپ کی غیر مشروط حمایت، عرب لیگ کی خاموشی و دوغلی پالیسی اور اقوامِ متحدہ کی مجرمانہ بے عملی فلسطین میں انسانی المیہ کو جنم دینے میں ملوث ہیں.

فلسطینی شناخت: مزاحمت کا استعارہ
فلسطین آج بھی ظلم کے خلاف مزاحمت کی ایک شناخت، ایک خواب اور ایک استعارہ ہے۔ فلسطینی قوم آج بھی "میرا نام ہے فلسطین" کے نعرے کے ساتھ اپنی زمین، ثقافت اور مقدس مقامات کے دفاع میں ڈٹی ہوئی ہے۔ اگرچہ اقوامِ متحدہ نے 2012ء میں فلسطین کو "غیر رکن مبصر ریاست" کا درجہ دیا، مگر تاحال دو ریاستی حل کا عملی نفاذ ایک جھوٹ ہی ہے اور فلسطین تو دراصل پورے کا پورا ہی (نہر تا بحر) فلسطینیوں کا ہے۔

ایک زندہ، سلگتی تاریخ
فلسطین زندہ باد جیسا کہ محمود درویش نے کہا کہ ’’ہم اس سر زمین پر مریں گے، ہماری جڑیں اتنی گہری ہیں کہ کوئی ہمیں اکھاڑ نہیں سکتا‘‘۔ فلسطین کی تاریخ ایک مسلسل جدوجہد کی داستان ہے۔ ظلم کے خلاف ڈٹ جانے کا استعارہ اور ایک ایسی قوم کی کہانی جو صدیوں سے اپنی شناخت اور زمین کے تحفظ کے لیے لڑ رہی ہے۔ لاکھوں فلسطینی آج بھی جلاوطنی، محاصرے، اور بنیادی سہولیات کی کمی کا شکار ہیں مگر ان کا عزم کمزور نہیں ہوا۔ فلسطین ایک خطہ نہیں, انصاف کے لئے انسانیت کی اجتماعی آزمائش ہے. جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا، دنیا کے ضمیر پر ایک داغ رہے گا۔

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: اسرائیل نے فلسطین کی نے فلسطین اور ایک دنیا کے دیا گیا کے ساتھ کر دیا آج بھی کے بعد

پڑھیں:

فلسطین کی صورتحال پر مسلم ممالک اپنی خاموشی سے اسرائیل کو سپورٹ کر رہے ہیں، حافظ نعیم

اسلام آباد:

امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا ہے کہ فلسطین کی صورتحال پر اپنی خاموشی سے مسلم ممالک دراصل اسرائیل کو سپورٹ کر رہے ہیں، ابراہیم معاہدے کی طرف جانے کی کوششوں کی مزاحمت کریں گے۔

اسلام آباد میں ملی یکجہتی کونسل کے زیر اہتمام مجلس قائدین اجلاس اور ’’قومی مشاورت‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ اس وقت امت مسلمہ اور ملک کو درپیش حالات میں مضبوط و جاندار موقف اپنانے کی ضرورت ہے، مسئلہ فلسطین قبلہ اول کی آزادی کی جنگ ہے۔

انہوں نے کہا کہ فلسطین میں جو لوگ حق کے راستے میں قربانیاں دے رہے ہیں ان کے لیے آواز اٹھانی چاہیے۔ فلسطین میں روزانہ عورتوں اور بچوں سمیت 100 سے زائد افراد کو شہید کیا جا رہا ہے، بدترین بمباری کی جاری ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔

حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ آج جانوروں کے حقوق کی بات کرنے والے مغربی ممالک کہاں ہیں، دنیا بھر میں باضمیر لوگ فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کر رہے ہیں، ہمیں افسوس ہوتا ہے کہ فلسطین کی صورتحال پر اپنی خاموشی سے مسلم ممالک دراصل اسرائیل کو سپورٹ کر رہے ہیں، ہمیں اپنے حکمرانوں کو جگانے کے لیے بھی آواز بلند کرنی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ غزہ میں حق و باطل کی جنگ لڑی جا رہی ہے، حماس نے جو کیا عالمی قوانین کے مطابق کیا ہے، کسی بھی اعتبار سے حماس کے قدم کو غلط نہیں کہا جا سکتا، ہمیں واضح طور پر حماس کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا، پاکستان کو اپنے ہاں حماس کا دفتر قائم کرنا چاہیے، اسرائیلی لڑ نہیں سکتے اس لیے وہ نہتے بچوں، عورتوں اور عوام کو مار رہے ہیں، ٹرمپ اسرائیل کی ہرممکن مدد کر رہا ہے۔

حافظ نعیم نے کہا کہ پاکستان کی بنیادوں میں فلسطین کاز شامل ہے، قائد اعظم محمد علی جناح نے اسرائیل کو مغرب کا ناجائز بچہ کہا تھا، پاکستان کی پالیسی ہے کہ ہم اسرائیل کو کسی طور پر تسلیم نہیں کریں گے، پاکستان کو فلسطین کے ایک ریاستی حل کا مطالبہ کرنا چاہیے، اگر کوئی ابراہیم معاہدے کی طرف جانے کی کوشش کریں گے تو ہم اس کی مزاحمت کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں فلسطینیوں کی مدد کے لیے ہر ممکن مدد کر نی چاہیے، جب اسرائیل پر ایران کے حملے ہوئے تو ٹرمپ امن کے لیے میدان میں آگیا، جب بھارت نے حملہ کیا تو ٹرمپ چپ تھا لیکن جب پاکستان نے جواب دیا تو وہ امن کے لیے آگیا، کشمیر کے لیے ٹرمپ کی ثالثی کی کیا ضرورت ہے، کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں ان پر عمل کیا جائے، کشمیریوں کے حق خود ارادیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔

حافظ نعیم نے کہا کہ حکمران اور افواج اپنے حصے کا کام کرتے ہیں تو قوم اس کا ساتھ دیتی ہے، ہمیں ایران کے ساتھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے اور ایران کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ کوئی بھی گروہ یا فرد توہین رسالت کا غلط استعمال نہ کرے، جو لوگ توہین رسالت کا قانون ختم کرنا اور مجرموں کو بچانا چاہتے ہیں ان کے خلاف بھر پور آواز بلند کی جانی چاہیے، توہین رسالت کے قوانین کے حوالے سے ہمیں ہوشیار رہنا ہوگا۔

امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ سود کے خاتمے کے لیے حکومت نے کیا قدم اٹھایا ہے، ملک سے سود کے خاتمے کے لیے ایک مضبوط آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • تنازعہ فلسطین اور امریکا
  • امریکہ و اسرائیل امن کیبجائے فلسطین کی نابودی کے درپے ہیں، سید عبدالمالک الحوثی
  • اسرائیل کے مغربی کنارے پر خودساختہ خودمختاری کے اعلان کی عرب واسلامی ممالک کی شدید مذمت
  • فلسطین کا مسئلہ حل نہ ہوا تو اقوام متحدہ کی ساکھ داؤ پرلگ جائے گی، اسحاق ڈار
  • فلسطین کا مسئلہ حل نہ ہوا تو اقوام متحدہ کی ساکھ داؤ پر لگ جائے گی، اسحاق ڈار
  • فلسطین کی صورتحال پرمسلم ممالک اسرائیل کو سپورٹ کر رہے ہیں(حافظ نعیم )
  • فلسطین کی صورتحال پر مسلم ممالک اپنی خاموشی سے اسرائیل کو سپورٹ کر رہے ہیں، حافظ نعیم
  • اسرائیل پر ایران کا جوابی حملہ جائز تھا، فلسطین کا دو ریاستی حل قبول نہیں، ملی یکجہتی کونسل
  • یہودی فوج کے ہاتھوں 331 مسلمان فلسطین میں قتل
  • علیزے شاہ کا تہلکہ خیز انکشاف: "میرا گرنا ایک حادثہ نہیں تھا، مجھے جان بوجھ کر دھکا دیا گیا"