امریکی کانگریس کے وفد کی اہم ملاقاتیں
اشاعت کی تاریخ: 15th, April 2025 GMT
امریکی کانگریس کا ایک تین رکنی وفد آج کل پاکستان کے دورہ پر ہے۔اس دورہ کے حوالے سے پہلے تحریک انصاف میں بہت جوش و خروش تھا۔یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ امریکا میں مقیم تحریک انصاف کے دوست ہی ان کانگریس مین کو پاکستان بھیج رہے ہیں۔ ایسا تاثر دیا جا رہا تھا کہ ان کانگریس مینز کا وفد پاکستان پہنچ ہی تحریک انصاف کی مدد کے لیے رہا ہے۔
ہمیں تو یہی بتایا جا رہا تھا کہ اس وفد کو ایسے ہی سمجھیں جیسے ٹرمپ خود آرہے ہیں۔ یہ وفد پاکستان کی سیاست میں ایک طوفان لے آئے گا اور اسٹبلشمنٹ کے لیے مسائل پیدا کر دے گا۔ پہلے تو یہ تاثر تھا کہ کانگریس کا یہ وفد پاکستان پہنچتے ہی سب سے پہلے اڈیالہ میں قید بانی تحریک انصاف کو ملنے پہنچ جائے گا بعد میں تحریک انصاف کی قیادت سے ملے گا۔ پھر بانی تحریک انصا ف کی بہنوں سے ملے گا۔ پھر تحریک انصاف کے سوشل میڈیا ونگ سے ملے گا۔ وہ پاکستان کے بارے میں جو بتائیں گے اس کے بعد اس پر پاکستانی حکومت اور اسٹبلشمنٹ کی باز پرس کرے گا۔ اس لیے تحریک انصاف امریکا نے کانگریس کے اس وفد کے دورہ کی اہمیت پر زور دیا تھا اور اس سے بہت سے امیدیں بھی باندھ لی تھیں۔
لیکن کھیل تو بدل گیا۔ بقول تحریک انصاف کے جس وفد کو انھوں نے پاکستان بھجوایا تھا وہ تو اڈیالہ نہیں گیا ہے اور اس نے اڈیالہ جانے کا کوئی مطالبہ بھی نہیں کیا ہے۔ یہ وفد تو وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کو مل رہا ہے، وفاقی وزیر احسن اقبال کو مل رہا ہے، حکومتی نمایندوں کو مل رہا ہے۔
سب سے زیادہ تو اس نے پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملاقات کر لی ہے۔ ابھی یہ وفد پاکستان میں ہے اس کی مزید ملاقاتیں ہونی ہیں۔ لیکن ابھی تک دورے کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں وہ تو پاکستانی حکومت اور اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ملاقاتیں کی ہیں اور ایسا لگ رہا ہے کہ یہ وفد پاکستان اور امریکا کے درمیان اچھے تعلقات کے لیے دورے پر ہے۔ حالانکہ تاثر تو یہ بنایا گیا تھا کہ یہ تحریک انصاف کے ایجنڈے پر پاکستان کا دورہ کر رہا ہے۔
ابھی کی صورتحال یہ ہے کہ تحریک انصاف کے امریکا میں مقیم دوست سوشل میڈیا پر ان کانگریس مینز سے اپیلیں کر رہے ہیں کہ آپ اڈیالہ جائیں، آپ علیمہ خان سے ملیں۔ لیکن تادم گفتگو مجھے ایسی کسی ملاقات کا کوئی علم نہیں اور نہ تحریک انصاف پاکستان ہی ایسی کسی ملاقات کی تصدیق کر رہی ہے۔ البتہ سوشل میڈیا پر اپیلوں کا ایک چکر چل رہا ہے۔
بیرسٹر شہزاد اکبر نے لندن بیٹھ کر تحریک انصاف امریکا کے دوستوں کو بہت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اور ان کا موقف ہے کہ کھیر بے شک تحریک انصاف امریکا نے پکائی تھی لیکن کھا اسٹبلشمنٹ گئی ہے۔ ان کا موقف ہے کہ تحریک انصاف امریکا کے دوستوں میں ایسے غدار ہیں جنھوں نے اس وفد کی آرمی چیف سے ملاقات کی راہ ہموار کی ہے اور ان کے مطابق یہ تحریک انصاف کی ایک بڑی ناکامی ہے۔ ان کے مطابق اب کھیل ہاتھ سے نکل بھی رہا ہے اور جدوجہد لمبی بھی ہو گئی ہے اب جلدی کچھ ہونے کی کوئی امید نہیں ہے۔
ایک بات اور سمجھیں کانگریس مینز کا یہ وفد کوئی امریکی حکومت کا وفدنہ ٹرمپ کے نمایندے ہیں، یہ کوئی امریکی انتظامیہ کے نمایندے نہیں۔ ان کا امریکی حکومت میں کوئی کردار نہیں۔ یہ کانگریس مین اپنے طور پر پاکستان کے دورے پر ہیں اور ان کے دورے کا امریکی پالیسی پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ البتہ یہ امریکی کانگریس میں پاکستان کے لیے کردار ادا کر سکتے ہیں۔
تحریک انصاف کا یہی پراپیگنڈا تھا کہ اس وقت ایک امریکی کانگریس مین نے پاکستان ڈیموکریسی ایکٹ کے نام سے ایک بل جو تجویز کیا ہوا ہے۔ یہ کانگریس مینز اس بل کی کامیابی میں کردار ادا کریں گے اورکانگریس مینز کے اس وفد سے اس بل کی راہ ہموار ہوگی لیکن ایسا نہیں ہوا ہے، یہ سب پراپیگنڈا ثابت ہوا ہے۔ یہ دورہ ابھی تک سفارتی پروٹوکول کے مطابق ہی چل رہا ہے ا ور اس میں سفارتی آداب کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جا رہا ہے۔ اس لیے مجھے تو اس دورے کے نتائج پاکستان کی اسٹبلشمنٹ اور حکومت کے حق میں نظر آرہے ہیں۔
جب سے ٹرمپ کی حکو مت آئی ہے اگر دیکھا جائے تو پاکستان اور امریکا کے تعلقات بہتر ہوئے ہیں۔پہلے ٹرمپ نے اپنے صدارتی خطاب میں پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔ جب کہ ماحول تو یہ بنایا گیا تھا کہ ٹرمپ تب تک پاکستان میں کسی سے بات نہیں کریں گے جب تک بانی تحریک انصاف اقتدار میں نہ آجائیں گے۔
ماحول تو یہ تھا کہ ٹرمپ آئے گا تو تحریک انصاف بھی آجائے گی۔ لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹا ہو گیا۔ پہلے صدارتی خطاب میں شکریہ، پھر منرلز کانفرنس میں اعلیٰ سطح کے وفد کی آمد، ٹرمپ کی پاکستان میں سرمایہ کاری میں دلچسپی ۔اب اس وفد کی آرمی چیف سے ملاقات سب اشارے تو اس حکومت اور اسٹبلشمنٹ کے حق میں جا رہے ہیں۔ رچرڈ گرنیل بھی خاموش ہو گئے ہیں۔ اب صرف جو ولسن رہ گئے ہیں۔ جو کانگریس کے اس وفد میں شامل نہیں ہیں۔
اوور سیز کنونشن کو بھی اس تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ وہ بھی پوری دنیا کو پیغام ہے کہ اوور سیز پاکستانی بھی اس حکومت اور اسٹبلشمنٹ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یہ کنونشن بھی اس ساری پراپیگنڈے کو ختم کرے گا۔ جس میں یہ تاثر پیدا کیاجا رہا تھا کہ اوورسیز تو سارے تحریک انصاف کے ساتھ ہیں۔ لیکن اب تو ایک بڑی اکثریت حکومت کی حامی بھی سامنے آئی ہے۔
اس کا بھی بیرونی دنیا پر اثر ہوگا اور پاکستان کی حکومت کے مخالف کام کرنے والی لابی کو نقصان پہنچے گا۔ آرمی چیف کی کانگریس مینز سے ملاقات پر تحریک انصاف کے اندر ایک صدمہ کی کیفیت ہے۔ان کا دکھ شدید ہے، وہ ایک دوسرے کو کوس رہے ہیں۔ اس کا ایک دوسرے کو ذمے دار ٹھہرا رہے ہیں، اسے اپنی بڑی ناکامی تصور کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے دوست بھول گئے تھے کہ تعلقات حکومتوں کے ہوتے ہیں، تعلقات ممالک کے ہوتے ہیں، تعلقات ریاست کے ریاست کے ساتھ ہوتے ہیں، اداروں کے اداروں کے ساتھ تعلقات ہوتے ہیں۔ یہی نظر آرہا ہے۔ باقی سب شور تھا۔ اور کچھ بھی نہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: حکومت اور اسٹبلشمنٹ تحریک انصاف امریکا اور اسٹبلشمنٹ کے امریکی کانگریس تحریک انصاف کے یہ وفد پاکستان کانگریس مینز کی کانگریس پاکستان کے سے ملاقات امریکا کے ا رمی چیف ا رہے ہیں ہوتے ہیں وفد کی ا کے ساتھ اس وفد رہا ہے جا رہا تھا کہ
پڑھیں:
ملک میں اس وقت مارشل لاء کا دورہ ہے، جاوید ہاشمی
جاوید ہاشمی نے لکھا ہے کہ مجھے بھی 23 سال کی قید ہوئی تھی، اور آپ کے مقدمات کا انجام بھی وہی ہوگا، جو میرے کیس کا ہوا تھا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آپ کا لیڈر خود بھی ڈٹ کر مقابلہ کر رہا ہے۔ ملک میں اس وقت مارشل لاء کا دور ہے اور جمہوریت صرف کاغذوں میں باقی ہے۔ تحریکِ انصاف اور اس کے کارکنوں کو میرا سلام‘‘۔ اسلام ٹائمز۔ سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی تحریک انصاف کے رہنماوں کے حق میں بول پڑے۔ پی ٹی آئی رہنماوں کو گزشتہ شب 9 مئی کیسز میں سنائی جانیوالی سزاؤں پر ردعمل جاری کرتے ہوئے جاوید ہاشمی نے پی ٹی آئی کے اسیر رہنماوں کو حوصلہ رکھنے کا مشورہ دیا ہے اور کہا کہ آپ کے کیسز کا بھی وہ انجام ہو گا جو میرے کیسوں کا ہوا تھا۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’’ایکس‘‘ پر جاری پیغام میں جاوید ہاشمی کا کہنا ہے کہ ’’تحریکِ انصاف کے بہادر شیروں، جنہیں 10، 10 سال کی قید ہوئی ہے، آپ میں سے کئی ہمارے مستقبل کے لیڈر ہیں، آپ نے مایوس نہیں ہونا۔
جاوید ہاشمی نے لکھا ہے کہ مجھے بھی 23 سال کی قید ہوئی تھی، اور آپ کے مقدمات کا انجام بھی وہی ہوگا، جو میرے کیس کا ہوا تھا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آپ کا لیڈر خود بھی ڈٹ کر مقابلہ کر رہا ہے۔ ملک میں اس وقت مارشل لاء کا دور ہے اور جمہوریت صرف کاغذوں میں باقی ہے۔ تحریکِ انصاف اور اس کے کارکنوں کو میرا سلام‘‘۔ یاد رہے کہ گزشتہ شب انسداد دہشتگردی عدالت نے نے یاسمین راشد اور محمود رشید سمیت دیگر پی ٹی آئی رہنماوں کو 10، 10 سال قید کی سزا سنائی تھی جبکہ شاہ محمود قریشی کو بری کر دیا گیا تھا۔