UrduPoint:
2025-07-24@16:38:50 GMT
بھارت اورچین کے بڑھتے تجارتی تعلقات‘سال2024میں دونوں ملکوں کے درمیان 118اعشاریہ4ارب ڈالر کی تجارت ہوئی
اشاعت کی تاریخ: 15th, April 2025 GMT
لندن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔15 اپریل ۔2025 )بھارت اور چین کے درمیان دوریاں کم ہورہی ہیں اور برکس کے بانی اراکین میں شامل دونوں ملک جہاں باہمی تجارت میں اضافہ کررہے ہیں وہیںسال2020میں سرحدی تنازعہ کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان بند ہونے والی براہ راست پروازوں کو دوبارہ شروع کرنے پر مذکرات ہورہے ہیں.
(جاری ہے)
سال2023میں امریکا بھارت کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دارتھا مگرسال 2024 میں چین نے ایک بار پھر انڈیا کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار بن گیا ہے گلوبل ٹریڈ ریسرچ انیشیٹو (جی ٹی آر آئی) کی رپورٹ کے مطابق سال 2024 میں انڈیا نے چین سے 2.2 بلین ڈالر مالیت کی لیتھیئم آئن بیٹریاں خریدیں، جو خطے میں درآمدات کا 75 فیصد ہے اس کے علاوہ ٹیلی کام آلات اور فون سے متعلق 44 فیصد درآمدات چین سے آتی ہیں جن کی مالیت تقریباً 4.2 بلین ڈالر ہے. رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2021میں کشیدہ تعلقات کے باوجود بھی دونوں ملکوں کے تجارتی تعلقات متاثر نہیں ہوئے تھے اور اس دوران انڈیا نے چین سے 58.7 ارب ڈالر مالیت کا سامان چین سے درآمد کیا جو امریکہ اور متحدہ عرب امارات سے درآمد کیے گئے سامان سے زیادہ تھا جبکہ انڈیا نے چین کو 19 ارب ڈالر کا سامان برآمد کیا اسی طرح 2020میںسرحدی جھڑپوں کے دوران دہلی اور بیجنگ کے درمیان تجارتی تعلقات مثالی رہے اور اس سال انڈیا اور چین کے درمیان دوطرفہ تجارت 77.77 ارب ڈالر رہی اس سے پچھلے سال دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا حجم 85.5 ارب ڈالر تھا. صدر ٹرمپ کے پہلے دور صدارت میں چین کی المونیم اور سٹیل مصنوعات پر ٹیرف کے بعد چینی سرمایہ کاروں نے ٹیرف سے بچنے کے لیے بڑے پیمانے پر المونیم اور سٹیل کے شعبہ میں انڈیا میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی تھی اور بندپڑی فیکٹریاں خریدنے کے علاوہ سینکڑوں کی تعداد میں نئے کارخانے قائم کیئے تھے . عالمی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت فارماسٹویکل اور ٹیکنالوجی سمیت مختلف شعبوں میں عالمی منڈیوں میں جگہ بنا چکا ہے خاص طور پر ادویہ سازی میں دہلی کو اس وقت عالمی لیڈرکا درجہ حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ بھارت نے ایک نئی پالیسی کو اپنایا تھاجسے” ڈاکٹرمن موہمن سنگھ ڈاکٹرائن “قراردیا جاتا ہے جس میں تنازعات سے ہرممکن گریزاور تجارت کو جنگ کی حالت بھی جاری رکھنا ‘ نئی تجارتی شراکت داریوں کا فروغ‘عالمی لیبرمارکیٹ پر اپنی گرفت مزید مضبوط کرنا شامل ہیں. ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت اس وقت ایک طرف بڑی عالمی معیشتو ں کی تنظیم جی 20 کا حصہ ہے تو دوسری جانب وہ پانچ عسکری طاقتوں پر مشتمل”کواڈگروپ“میں شامل ہے اسی طرح دہلی نے پاکستان کی عدم دلچسپی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے”سارک“کو غیرموثرکرکے ایک بڑے عالمی اتحاد”برکس“کے بانی ممبران میں شامل ہوگیا‘اس کے علاوہ بھارت روس‘ایران اور چین کی شراکت داری سے پاکستان کو بائی پاس کرکے سمندری راستے سے ایرانی بندرگاہ چہاہ بہارکے ذریعے روس‘وسط ایشیائ‘مشرق وسطی اور یورپ کی منڈیوں تک رسائی حاصل کرنے کے منصوبے پر کام کررہا ہے اگرچہ حال ہی میں پاکستان نے اس منصوبے میں شرکت کے لیے اعلی روسی حکومتی حکام سے ملاقاتیں کی ہیں مگر ماسکو اور اسلام آبادکے درمیان تعلقات کی نوعیت کے پیش نظرکچھ کہنا قبل ازوقت ہے. ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت نے ایران اور روس سے سستے دامو ں تیل خریدکر چندسالوں میں کئی سو ارب ڈالر کمائے ہیں جبکہ پاکستان ملک طور پر عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں پر انحصار کررہا ہے اور اب دوست ممالک بھی پیچھے ہٹ رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اپنی پالیسیاں تبدیل کرتے ہوئے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارت پر فوکس کرنا ہوگا ‘انہوں نے کہا کہ بھارت‘ایران اور افغانستان ایسے ممالک ہیں جن کے ساتھ24گھنٹوں کے اندر تجارت کو شروع کیا جاسکتا ہے بھارت اور ایران کے ساتھ ریلولے اور روڈ لنک جبکہ افغانستان کے ساتھ بھی زمینی رابطے موجود ہیں . ماہرین کا کہنا ہے کہ اسلام آباد کو سنجیدگی سے سوچنا پڑے گا کہ سعودی عرب اور یواے ای جیسے قریبی دوست ممالک نے پاکستان کے ساتھ سینکڑوں ایم او یو سائن کررکھے ہیں ان میں سے کتنے منصوبے عملی طور پر شروع ہوئے؟دوست عرب ممالک کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار بھارت ہے اسی طرح ان ممالک کی لیبرمارکیٹ میں بھی بھارت چھایا ہوا ہے ‘متحدہ عرب امارات کے درمیان جامع اقتصادی شراکت داری کا معاہدہ(سی ای پی اے)کے تحت بھارت یواے ای سے مزید مراعات حاصل کررہا ہے اسی طرح 2019میںپاکستان کے ساتھ سعودی ولی عہد کے دورے کے دوران20ارب ڈالرسے زیادہ کی سرمایہ کاری کے معاہدوں پر دستخط ہوئے تھے جن میں روزانہ 1اعشاریہ دوملین بیرل تیل صاف کرنے والی ایک آئل ریفائنری کا قیام بھی تھا اسی سال شہزادہ محمد بن سلمان کے دورہ بھارت کے دوران ہونے معاہدے کے تحت سعودی عرب او رامارات کے تعاون سے ”آرمکو“ نے بھارتی ریاست گجرات میںخطے کی سب سے بڑی آئل ریفائنری قائم کرنے کا معاہدہ کیا تھا جس نے سال2021میں کام شروع کردیا تھا .
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ماہرین کا کہنا ہے کہ تجارتی شراکت ہے کہ بھارت بلین ڈالر کے درمیان ارب ڈالر کے ساتھ چین سے
پڑھیں:
پاکستان اور برطانیہ کے مابین حال ہی میں ہونے والے تجارتی مذاکرات دونوں فریقین کے لئے فائدہ مند ثابت ہوں گے ، وزیراعظم شہبازشریف کی برطانوی ہائی کمشنر جین میریٹ سے ملاقات میں گفتگو
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 23 جولائی2025ء) وزیراعظم محمد شہبازشریف نے پاکستان اور برطانیہ کے مابین دوطرفہ تعاون پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان حال ہی میں ہونے والے تجارتی مذاکرات دونوں فریقین کے لئے فائدہ مند ثابت ہوں گے ۔ وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم محمد شہبازشریف سے پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر جین میریٹ نے بدھ کو یہاں ملاقات کی۔ وزیر اعظم نے کنگ چارلس سوئم اور برطانوی وزیراعظم کیئر سٹارمر کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس سال کے اواخر میں برطانیہ کی قیادت کے ساتھ ملاقات کے منتظر ہیں۔ انہوں نے برطانوی حکومت کی جانب سے پی آئی اے کی پروازوں کی بحالی کے حالیہ فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس مثبت پیشرفت سے برطانوی پاکستانی کمیونٹی کو درپیش مشکلات کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے درمیان تبادلے کو بڑھانے میں بھی مدد ملے گی۔(جاری ہے)
انہوں نے اس سلسلے میں ہائی کمشنر کے مثبت کردار کو خاص طور پر سراہا۔وزیراعظم نے پاکستان اور برطانیہ کے درمیان دوطرفہ تعاون کی مثبت رفتار پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان حال ہی میں ہونے والے تجارتی مذاکرات دونوں فریقین کے لئے باہمی طور پر فائدہ مند ثابت ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھی برطانیہ کے ساتھ قریبی تعاون کر رہا ہے جس کی اس وقت پاکستان کے پاس صدارت ہے۔ملاقات میں جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کی علاقائی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیراعظم نے پاک بھارت کشیدگی میں کمی کے لئے برطانیہ کے کردار کو سراہتے ہوئے اس بات کا اعادہ کیا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ تمام تصفیہ طلب مسائل پر بامعنی مذاکرات کے لئے تیار ہے۔برطانوی ہائی کمشنر نے وزیراعظم کو اپنے حالیہ دورہ لندن کے بارے میں بتایا جہاں انہوں نے پاکستان اور برطانیہ کے درمیان تعلقات کو بڑھانے کے حوالے سے وسیع مشاورت کی۔برطانوی ہائی کمشنر نے وزیراعظم کے وژن اور قیادت میں گزشتہ ڈیڑھ سال میں حکومت کی معاشی کارکردگی کو سراہا جس سے تمام اہم میکرو اکنامک اشاریوں میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ ملاقات میں برطانوی ہائی کمشنر نے وزیراعظم کے ساتھ جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں ہونے والی علاقائی پیشرفت پر برطانیہ کے نقطہ نظر کے حوالے سے گفتگو کی۔