مودی حکومت نے اتراکھنڈ میں 170 مدارس بند کر دیے
اشاعت کی تاریخ: 16th, April 2025 GMT
ذرائع کے مطابق ہلدوانی کے بنبھول پورہ علاقے میں 7 مدارس بغیر کسی پیشگی نوٹس کے سیل کر دیے گئے، جس سے مقامی مسلم برادری میں شدید خوف اور غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتی ریاست اتراکھنڈ میں مودی حکومت کے تحت 170 سے زائد مسلم مدارس کو غیر قانونی قرار دے کر بند کرنے کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ ان میں سے 129 مدارس میں تدریس کا سلسلہ فوری طور پر معطل کر دیا گیا ہے، جس کے باعث ہزاروں طلبہ تعلیم سے محروم ہو گئے ہیں۔ یہ کارروائی خاص طور پر اودھم سنگھ نگر، دہرہ دون، نینی تال اور ہلدوانی جیسے علاقوں میں کی گئی ہے۔ ہلدوانی کے بنبھول پورہ علاقے میں 7 مدارس بغیر کسی پیشگی نوٹس کے سیل کر دیے گئے، جس سے مقامی مسلم برادری میں شدید خوف اور غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ریاستی حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ مدارس غیر رجسٹرڈ اور "شدت پسندی" کے مراکز ہیں، جبکہ مسلم رہنماؤں اور سول رائٹس تنظیموں نے اس اقدام کو بی جے پی کی فرقہ وارانہ سیاست کا حصہ قرار دیا ہے۔ مشہور عالم دین مفتی شمون قاسمی کا کہنا ہے، "اگر کوئی ادارہ غیر قانونی ہے تو کارروائی ضرور ہو، مگر مدارس کو نشانہ بنا کر دینی تعلیم کو دہشتگردی سے جوڑنا انتہائی افسوسناک ہے۔"
کانگریس رہنماؤں اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے شفاف تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مدارس کی بندش کے پیچھے اصل مقصد مودی حکومت کے ہندوتوا ایجنڈے کو آگے بڑھانا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
مودی سرکار میں ارکان پارلیمان ارب پتی بن گئے، بھارتی عوام انتہائی غربت سے بے حال
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نئی دہلی: بھارت میں شفاف جمہوریت اور عوامی حکومت کے دعوے ایک بار پھر جھوٹ ثابت ہوگئے ہیں۔
ایک تحقیقی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بھارتی قومی اسمبلی (لوک سبھا) کے 93 فیصد ارکان کروڑوں اور اربوں کے مالک بن چکے ہیں، جب کہ عام بھارتی شہری غربت، بیروزگاری اور مہنگائی کے بوجھ تلے دب کر زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔
یہ رپورٹ بھارت کے معتبر ادارے ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز نے جاری کی ہے، جس نے بھارتی سیاسی نظام میں بڑھتی ہوئی طبقاتی خلیج کو بے نقاب کر دیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ دولت مند ارکان حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے تعلق رکھتے ہیں۔ بی جے پی کے 240 میں سے 235 ارکان کروڑ پتی ہیں، یعنی ان کے اثاثے ایک کروڑ روپے سے زیادہ ہیں جب کہ صرف 5 ارکان کے اثاثے ایک کروڑ سے کم ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہی جماعت جس نے 2014 میں عوام سے وعدہ کیا تھا کہ ’’ایلیٹ کلچر‘‘ ختم کرکے عام آدمی کی حکومت لائی جائے گی، آج خود امیر ترین سیاسی طبقہ بن چکی ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ گزشتہ 10 برس میں بھارتی سیاست دانوں کی دولت میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے، جب کہ عوام کی اکثریت اب بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ تعلیم، صحت، روزگار اور رہائش جیسے مسائل جوں کے توں موجود ہیں، مگر ارکانِ اسمبلی کے بینک اکاؤنٹس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت میں جمہوریت اب عوام کے لیے نہیں بلکہ سرمایہ دار طبقے کے لیے کام کر رہی ہے۔
ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز کی رپورٹ میں یہ خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ بھارت میں الیکشن لڑنا اب ایک کاروبار بن چکا ہے، جہاں امیدوار عوامی خدمت کے بجائے اپنے مفادات اور کاروباری تعلقات مضبوط کرنے کے لیے سیاست میں آتے ہیں۔
دوسری جانب نریندر مودی کی حکومت عوام کی توجہ معاشی بدحالی سے ہٹانے کے لیے پاکستان دشمنی اور مذہبی منافرت کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق بھارتی عوام کی حقیقی مسائل سے چشم پوشی نے معاشرے میں مایوسی بڑھا دی ہے اور اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو بھارت کی جمہوریت محض نام کی رہ جائے گی۔