اسلام آباد (آئی این پی )قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی (پی اے سی)  کے ارکان نے رکن  ثنا اللہ خان مستی خیل کے خلاف کارروائیوں پر شدید احتجاج  کرتے ہوئے اجلاس منعقد کرنے سے انکار کردیا۔
کمیٹی اجلاس چیئرمین جنید اکبر خان کی زیر صدارت اجلاس شروع ہوا ۔ پی اے سی اجلاس آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیے بغیر ختم کردیا گیا، جنید اکبر خان نے کہا کہ کل ثنا اللہ مستی خیل نے پوچھا تھا کہ واپڈا میں جنرل کیوں ہوتا ہے، شاید وہ کسی کو اچھا نہیں لگا اس کے میٹرز، ٹرانسفارمر اتار لئے گئے، اسی طرح کا رویہ ہے تو میرا نہیں خیال کہ میٹنگ جاری رکھنی چاہئے۔
کمیٹی رکن خواجہ شیراز محمود نے کہا کہ جو بھی فیصلہ ہو ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے، سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ احتجاج میں سیشن نہیں کرنا چاہئے، آپ کو اسپیکر کو لکھنا چاہئے۔حنا ربانی کھر کا کہنا تھا کہ ممبر کا سوال اٹھانے میں یہ ری ایکشن ہو سکتا ہے تو پھر ہم اپنا اپنا کوئی اور کام کرلیں، نوید قمر نے کہا کہ بالکل اس معاملے کو اسپیکر کے ساتھ اٹھائیں۔
ثنا اللہ خان مستی خیل کا کہنا تھا کہ رات گئے میرے گاؤں کے میٹر اکھاڑ کر لے گئے، ٹرانسفارمر اٹھا کر لے گئے ہیں، ہم پاکستان کے وفادار ہیں، 22 ،23 سال سے پارلیمان میں آرہا ہوں، بیشک میرے گھر کو گرا کر ویڈیو بھجوا دیں۔سید نوید قمر نے کہا کہ ایک پہ حملہ سب پہ حملہ ہے، اس کو سنجیدگی سے لیناچاہئے، افنان اللہ خان نے کہا کہ میں بھی اس کی مذمت کرتا ہوں، اس کے خلاف ایکشن لینا چاہئے۔
حنا ربانی کھر  نے کہا اس کو اردو میں شاید کہیں گے غنڈا گردی ہے، جنید اکبر خان نے کہا میں سیکرٹری کو بلا لیتا ہوں۔

سیکیورٹی اداروں میں بغاوت کو ہوا دینے والا ملک کا دشمن ہے : آرمی چیف 

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

پڑھیں:

کیا آزاد کشمیر کے عوام پاکستان کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں؟

اسلام ٹائمز: ریاستی سکیورٹی کو محض بندوق کی طاقت سے ماپنا ایسے ہی ہے، جیسے دھوپ کے مقابلے میں بغیر چھت کے دیوار کھڑی کر دینا۔ حقیقی تحفظ وہ ہوتا ہے، جو روٹی، روزگار، عزت اور انصاف سے جُڑا ہو۔ سیاستدانوں اور اداروں کو یہ تسلیم کرنا چاہیئے کہ جب عوام اپنے حقوق کا سوال کرتے ہیں تو وہ کسی سے دشمنی نہیں رکھتے بلکہ اپنے قومی وسائل میں اپنی شراکت داری چاہتے ہیں۔ ہمیں سیاسی و قومی سطح پر عوامی احتجاج کو غدّاری کہنے کی روش ترک کرنا ہوگی، ایک تو اس سے ہندوستان کے بیانئے کو تقویّت ملتی ہے اور دوسرے تاریخ ہمیں یہ سبق بار بار دیتی آئی ہے کہ جو قومیں اپنے آئینے توڑ دیتی ہیں، وہ اپنی شکلیں پہچاننے سے محروم ہو جاتی ہیں۔ تحریر: ڈاکٹر نذر حافی

آزاد کشمیر میں جاری احتجاجی تحریک ساری دنیا میں توجہ حاصل کرتی جا رہی ہے۔ شاید بہت سارے لوگ اس تحریک کو پاکستان کے خلاف سمجھتے ہیں۔؟ ہمارے سامنے تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ جب اشرافیہ اور طاقتور لوگوں نے عوام سے حقائق کو چھپا کر انہیں اُن کے بنیادی حقوق سے محروم کیا۔ ماضی قریب کی ہی بات ہے کہ عرب ممالک کے بادشاہوں نے ایران میں آنے والے جمہوری و عوامی انقلاب کو شیعہ انقلاب، خمینی انقلاب یا فرقہ وارانہ انقلاب کا نام دے کر اپنے عوام کو جمہوریّت سے محروم رکھا۔ انہوں نے اپنی رعایا کو سُنّی و شیعہ میں الجھا دیا، تاکہ وہاں کے لوگ ایران کے اسلامی و جمہوری انقلاب کی حقیقت، یعنی عوامی خود مختاری، انصاف، احتساب اور قومی وسائل میں اپنا حق مانگنے اور حکمرانی میں شراکت جیسے شعور سے محروم رہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایران سے تو بادشاہت ختم ہوگئی، لیکن عرب ممالک کے لوگ آج بھی امریکہ، اسرائیل اور  بادشاہوں کے غلام ہیں۔ بعض سیاسی مبصرین کے مطابق اس وقت اِسی قدیمی فارمولے کو آزاد کشمیر کی عوامی تحریک کے خلاف بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔

دوسری طرف کچھ لوگ اس حد تک آگے بڑھ گئے ہیں کہ وہ آزاد کشمیر کی اس عوامی، قانونی اور جمہوری تحریک کو پاکستان دشمنی کا نام دینے لگے ہیں۔ ہمارا مقصد اس تحریک کی وکالت کرنا ہرگز نہیں، لیکن اتنا تو ہر شخص کو  دکھائی دے رہا ہے کہ اس تحریک کو پاکستان کا دشمن قرار دینے سے آزاد کشمیر کے اندر صرف اور صرف ہندوستان اور دیگر دشمن ممالک کی ایجنسیوں کیلئے فکری راستہ ہموار ہو رہا ہے۔ حُبّ الوطنی کا تقاضا یہ ہے کہ کسی پر ملک دشمنی کا الزام لگانے کے بجائے سوشل میڈیا اور جدید ذرائع ابلاغ سے استفادہ کرتے ہوئے عام لوگ اس قسم کی پروپیگنڈا تکنیکوں کو سمجھنے کی آزادانہ کوشش کریں۔ آپ اس عوامی تحریک کے مطالبات اور لوگوں کے بیانات کو دیکھیں تو یہ واضح نظر آتا ہے کہ آزاد کشمیر کے لوگ یہ چاہتے ہیں کہ مقتدر حلقے ہمارے ساتھ وہ نہ کریں، جو پاکستان کے چاروں صوبوں کے لوگوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ آزاد ذرائع کے مطابق پس یہی جرم ہے، آزاد کشمیر کے لوگوں کا کہ جس کی بنیاد پر انہیں پاکستان کا دشمن کہا جا رہا ہے اور بعید نہیں کہ کل کو انہیں کافر اور واجب القتل بھی قرار دے دیا جائے۔ آزاد کشمیر کے جاری احتجاج کو سمجھنا ہے تو پہلے پاکستان کے چاروں صوبوں کی جاری صورتحال کو سمجھئے۔

کیا کبھی ہم پاکستانیوں نے پنجاب کے بارے میں سنجیدگی سے سوچا ہے۔؟ پنجاب جو آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے، اسے زرعی پیداوار کی فراوانی، صنعتی یونٹس کی کثرت اور سیاسی مرکزیت بھی حاصل ہے۔ اپنے مقامی وسائل زراعت (گندم، چاول، کپاس)، صنعتی بیس (ٹیکسٹائل، غذائی پراسسنگ)، بڑے شہر (لاہور، فیصل آباد، راولپنڈی) اور نسبتاً بہتر انفراسٹرکچر یہاں موجود ہے، لیکن اس کے باوجود عام کسان کیلئے زرعی اجرتی نظام، بجلی و پانی کی بدانتظامی، نوجوانوں میں بے روزگاری، غریب کیلئے انصاف، تحفظ، صحت و تعلیم کی سہولتیں ناپید اور حکمرانوں میں دیانتداری نایاب کیوں ہے۔؟ اگر پنجابی خود نہیں نکلیں گے تو پھر کون پنجابیوں کیلئے زرعی ویلیو چینز کو اپ گریڈ کرنے، غربت کو ختم کرنے، صحت اور تعلیم کی سہولتوں کو عام کرنے، پانی کا موثر انتظام (ڈرنکیئر-بیسڈ پالیسیاں) وضع کرنے، دیہی روزگار کے پروگرام اپڈیٹ کرنے، بلدیاتی خود مختاری کو مضبوط کرنے اور صنعتی مزدوروں کی مہارت میں اضافہ کرنے کیلئے میدان میں نکلے گا۔ کیا کافر کافر اور مارو مارو کی تحریکوں کیلئے استعمال کئے جانے والے اس صوبے میں اصلاحات کے عمل کے تحت وسائل کی ری ڈسٹری بیوشن اور شفاف بجٹ پریکٹس نہیں ہونی چاہیئے، تاکہ اشرافیہ کی ناجائز مراعات کا خاتمہ کر کے عام آدمی کی آمدنی بڑھائی جائے۔

اب سندھ کی خبر لیجئے۔ سندھ کوئی نادار اور فقیر صوبہ نہیں۔ سندھ میں وسائل کا ایک بڑا مرکز کراچی ہے۔ یہاں بندرگاہیں، بڑی صنعتیں، مالیاتی اور تجارتی سرگرمیاں کسی چیز کی کمی نہیں۔ اس کے علاوہ اندرونِ سندھ میں زراعت (کپاس، گندم)، مٹیاتی اور آبی وسائل کثرت سے موجود ہیں۔ اس کے باوجود اسی سندھ میں زراعتی ناانصافی، کراچی میں بوسید انفراسٹرکچر کا بوجھ، بجلی و پانی کی ناقص فراہمی، کچے کے ڈاکووں، اغوا برائے تاوان، عدمِ تحفظ، بے روزگاری، امن و قانون کا نفاذ کرنے والے اداروں پر اشرافیہ کی گرفت، لوگوں کو بنیادی سہولیات نہ ملنا اور زمین و آبی وسائل کی غیر مساوی تقسیم سے ہر سندھی پریشان ہے۔ اگر شہری پلاننگ اور بنیادی ڈھانچے کی سرمایہ کاری (پانی، سیوریج، ٹرانسپورٹ)، زرعی اصلاحات جو چھوٹے کاشتکار کو فائدہ دیں، صوبائی شفاف آبی حکمرانی اور کراچی میں اقتصادی تنوع کے ذریعے غیر رسمی شعبے کو باقاعدہ بنانے کیلئے خود سندھ کے لوگ نہیں سوچیں گے تو کون اُن کی جگہ آکر ان مسائل کا حل سوچے گا۔

کیا سندھ میں وفاق کے ساتھ مربوط پراجیکٹس میں صوبائی نمائندگی اور شواہد پر مبنی شفاف فنڈنگ ضروری  نہیں۔؟ کیا مقتدر اشرافیہ اور وڈیرہ شاہی سندھ کے عوام کے مسائل کو حل کرے گی۔؟ خیبر پختونخواہ  بھی پاکستان کے بہادروں اور وفاداروں کا منطقہ ہے۔ یہاں انسانی سرمائے (بڑی نوجوان آبادی)، ہائی-مارجن جگہوں پر ہائڈرو پاور اور معدنی ذخائر، بارڈر ٹریڈ پوٹینشل اور زرعی وسائل کی بہتات ہے۔ اس کے باوجود یہاں سکیورٹی کا فقدان، ایجنٹوں کے ذریعے سرکاری نوکریوں کی فروخت، انفراسٹرکچر کی کمی (سڑکیں، ہسپتال، سکول)، روزگار کے مواقع کی کمی، تعلیم اور صحت کی سہولتوں کا فقدان اور نوجوانوں کی بیروزگاری نمایاں ہے۔ اگر یہاں کے پڑھے لکھے، باشعور اور عام لوگ ہنرمندی پر سرمایہ کاری، ہائی ویلیو زراعت/ایکو ٹورزم، چھوٹے ہائڈرو و منرلز کے اصولی استعمال اور مقامی خود انتظامی میکانزم (پارٹیسپےٹری منصوبہ بندی، نوجوانوں کے لیے انٹرپرینیورشپ مراکز) کیلئے خود حرکت نہیں کریں گے تو پھر کون انہیں نسل در نسل اس بدحالی سے نجات دلائے گا۔؟ کیا خیبر پختونخواہ میں سکیورٹی و معاشی مسائل کو ایک ساتھ حل کرنے کیلئے طاقتور طبقات پر انحصار کرنا دانشمندی ہے۔؟

بلوچستان کے وسائل اور مسائل بھی ہمارے سامنے ہیں۔ معدنی وسائل (گیس، خام معدنیات)، ساحلی حدود، اسٹریٹجک جغرافیہ، وسیع رینج زراعتی شعبے (محدود) الغرضیکہ خدا کی عظیم نعمتیں اس منطقے میں فروان ہیں اس کے باوجود یہ پاکستان کا انتہائی محروم اور پسماندہ صوبہ ہے۔ انفراسٹرکچر کا فقدان، مقامی آبادی  کے لیے صرف غربت اور فقر، امن و سیاسی نمائندگی میں خلا اور قدرتی وسائل کے حصول میں مراعات یافتہ حلقوں کا غلبہ سب کو دکھائی دے رہا ہے۔ ترجیحی اسٹریٹیجی، کیا ایک غریب بلوچستانی کو بلوچستان کے وسائل سے رائلٹی اور روزگار نہیں ملنا چاہیئے۔ کیا وسائل کے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کے پیشِ نظر مقامی کنٹریکٹنگ کو ترجیح نہیں دی جانی چاہیئے؟ کیا صوبے کی سکیورٹی پالیسی اور عام شہری کی معاشی حالت گذشتہ اسّی سال سے مخدوش نہیں۔؟  اگر عام بلوچ کو اپنی زمین میں موجود وسائل اور اُن کے استعمال کا شعور نہیں ہوگا تو طاقتور اشرافیہ کے منہ سے وہ اپنا لقمہ کیسے واپس لے گا۔؟ یہ شعور اہالیان بلوچستان کو دینا کس کی ذمہ داری ہے۔

اب آئیے اور آزاد کشمیر کی خبر لیجئے۔ یہ قدرتی وسائل، اسٹریٹیجک جغرافیہ اور تعلیم یافتہ و باشعور آبادی کے اعتبار سے ایک غیر معمولی خطہ ہے۔ دوسری طرف یہاں کے عوام کی حالت اس کے وسائل کے برعکس حد درجہ زبوں حالی کی شکار ہے۔ دریا، جنگلات، معدنیات، سیاحت اور توانائی کے وسائل سے مالا مال یہ خطہ ایک طرف ہزاروں میگاواٹ بجلی پیدا کرتا ہے، تو دوسری طرف اسی خطے کے عوام بجلی کی لوڈ شیڈنگ، مہنگی بجلی، اشیائے خوردونوش کی مہنگائی اور بیروزگاری میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے چاروں صوبوں کی مانند یہاں پر بھی مشکلات کا سبب وسائل کی کمی نہیں بلکہ وسائل کو لوٹنے والوں کی کثرت ہے۔ مقتدر حلقے یہاں کے آبی وسائل سے بجلی پیدا کرکے سستے داموں بیچتے ہیں، لیکن یہاں کے عوام کو نہ صرف مہنگی بجلی دی جاتی ہے، بلکہ لوڈشیڈنگ اور کم وولٹیج جیسی اذیتیں بھی دی جاتی ہیں۔ جنگلات اور معدنیات کی دولت مقامی افراد کے روزگار کا ذریعہ بننے کے بجائے مخصوص طاقتور طبقات کے ہاتھوں لُٹ رہی ہے۔

کیا یہ سچ نہیں کہ آزاد کشمیر کے نوجوان شرحِ خواندگی کے اعتبار سے پاکستان بھر سے آگے ہیں، مگر انہیں اپنے ہی علاقے میں روزگار کے مواقع میسر نہیں۔ نتیجتاً یا تو وہ ہجرت پر مجبور ہوتے ہیں یا ہمیشہ اقتصادی مایوسی، ہجرت در ہجرت، ذہنی دباؤ اور سماجی تناؤ کے شکار رہتے ہیں۔ بیرونِ ملک مقیم کشمیری بڑی مقدار میں ترسیلات زر بھیجتے ہیں، مگر ان رقوم کو مقامی آبادی کی ترقی، تعلیم، صحت یا انفراسٹرکچر پر خرچ کرنے کی کوئی مؤثر اور شفاف پالیسی موجود نہیں۔ علاقے کی سیاحتی اہمیت ناقابلِ تردید ہے، لیکن انفراسٹرکچر کی کمی، بدانتظامی اور نجی مفادات نے اس شعبے میں بھی عام شہری کو فائدے سے محروم کر رکھا ہے۔ شاید بہت کم لوگ یہ جانتے ہونگے کہ آزاد کشمیر کے دلکش سیاحتی علاقوں کے عام باشندے صحت، تعلیم اور نقل و حمل جیسی بنیادی سہولیات سے آج بھی محروم ہیں، جبکہ اشرافیہ کے ہاں دولت و سہولیات کا ارتکاز کسی سے مخفی نہیں۔

سالہا سال سے حکومتی سطح پر کرپشن، اقربا پروری، غیر شفاف ترقیاتی منصوبے اور اشرافیہ کی مراعات یافتہ پالیسیوں نے عوام کے اعتماد کو مسلسل مجروح کیا ہے۔ عوام کے مطابق آزاد کشمیر کی اشرافیہ اور بیوروکریسی اس لوٹ مار کے بدلے میں عوام کے سامنے جواب دہ ہونے کے بجائے، پاکستان کی طاقتور اشرافیہ اور بیوروکریسی کی پارٹنر ہے۔ یعنی عوام کو لوٹنے کیلئے پاکستان کے دیگر صوبوں کی مانند دونوں طرف کی اشرافیہ باہم متحد ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ مقامی وسائل سے پیدا ہونے والا فائدہ مقامی آبادی کو نہیں بلکہ صرف مراعات یافتہ طبقات کو پہنچتا ہے۔ یہاں توانائی، معدنیات، جنگلات، سیاحت، سب کچھ موجود ہے، مگر فیصلے کرنے اور فائدہ اٹھانے والے وہ ہیں، جن کے مفادات اسلام آباد اور دیگر مراکزِ اقتدار سے جڑے ہوئے ہیں۔ ایسے میں آزاد کشمیر کے عوام ایک ایسا نظام چاہتے ہیں، جس میں ان کے وسائل ان کے اپنے فائدے کے لیے استعمال ہوں، ان کی آواز سنی جائے، ان کی تعلیم اُن کیلئے روزگار بنے اور ان کی زمین و صلاحیتیں اُن کیلئے ترقی کا ذریعہ بنیں۔ اب یہ فیصلہ قارئین خود کریں کہ کیا یہ مطالبات بغاوت ہیں اور پاکستان کے ساتھ دشمنی یا نفرت سے ان کا کوئی تعلق ہے۔؟

ہمارے نزدیک آزاد کشمیر کے لوگ وہی چاہتے ہیں، جو ہر پاکستانی چاہتا ہے۔ عزت کے ساتھ جینے، آزاد داخلہ و خارجہ پالیسی، اپنے  قومی وسائل پر حق رکھنا اور شفاف و جواب دہ حکمرانی کا حصول ہر پاکستانی کا خواب ہے۔ اس خواب کی تعبیر کیلئے اگر کشمیری خود نہیں اُٹھیں گے تو کیا باہر سے آکر لوگ انہیں ان کے حقوق دلوائیں گے۔؟ آزاد کشمیر کے عوام کا سب سے اہم مطالبہ یہ ہے کہ بجلی آزاد کشمیر کے عوام کو واپڈا کے ریٹس پر نہیں بلکہ مقامی پیداواری لاگت پر فراہم کی جائے، کیونکہ یہاں بجلی خود پیدا کی جاتی ہے اور اسے دیگر علاقوں میں بیچا جاتا ہے۔ عوامی کمیٹی کا مؤقف ہے کہ اگر خطے سے بجلی پیدا ہو رہی ہے تو یہاں کے شہریوں کو مہنگی بجلی فراہم کرنا سراسر ناانصافی اور استحصالی طرز عمل ہے۔ اسی طرح آٹے اور دیگر ضروری اشیاء پر سبسڈی کی بحالی یا قیمتوں میں کمی کا مطالبہ بھی شامل ہے، تاکہ مہنگائی کی مار سہنے والے عام شہری کو فوری ریلیف مل سکے۔ ایکشن کمیٹی نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اشرافیہ اور بیوروکریسی کو دی گئی غیر معمولی مراعات، تنخواہوں، الاؤنسز اور سرکاری وسائل کے بے جا استعمال کو روکا جائے۔ اشرافیہ کے اللے تللوں کو ختم یا محدود کرکے بجٹ سے قومی خزانے کو بھرا جائے۔ اس تناظر میں کمیٹی نے سادگی اور کفایت شعاری کو ریاستی پالیسی کا لازمی حصہ بنانے پر زور دیا ہے۔

عوامی ایکشن کمیٹی کا ایک اور اہم مطالبہ یہ ہے کہ ریاستی وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے اور سیاسی و رشوت کی بنیادوں پر کی جانے والی تقرریوں اور ٹھیکوں کا خاتمہ کیا جائے۔ میرٹ اور شفافیت کا نفاذ ہی دیرپا استحکام کی بنیاد بن سکتا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع کو عام شہری کی دسترس میں لانا بھی مطالبات کا حصہ ہے، تاکہ ریاست عوامی فلاح کی حقیقی ضامن بن سکے۔ ان تمام مطالبات میں ایک مشترکہ نکتہ یہ ہے کہ آزاد کشمیر کے شہری خود کو دوسرے پاکستانی شہریوں کی طرح مظلوم سمجھتے ہیں، وہ کرپٹ اور مراعات یافتہ طبقے کے خلاف ہیں، نہ کہ پاکستان کے۔ عوامی ایکشن کمیٹی کا مؤقف واضح ہے کہ یہ تحریک پاکستان کے خلاف نہیں بلکہ کرپٹ طرزِ حکمرانی اور استحصالی نظام کے خلاف ہے۔ اب ہم آتے ہیں اپنی رائے کی طرف۔ ہماری رائے میں اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ آزاد کشمیر میں وسائل کی تقسیم کا ایک جامع، شفاف اور قابلِ عمل فریم ورک ناگزیر ہے۔ حکمران حلقے اپنے اقتدار کو بچانے کیلئے عوام کے خلاف منفی ہتھکنڈے اور پولیس و فوج کی طاقت بڑھانے کے بجائے عوام میں اپنا اعتبار بڑھائیں۔ حکومت میں یقیناً ایسے سمجھدار لوگ موجود ہیں کہ جو یہ سمجھتے ہیں کہ اگر دریا کے دہانے پر بند باندھ دیا جائے تو پانی رُکتا نہیں، راستہ بدل لیتا ہے اور ایسا ہی حال عوامی شعور کا ہوتا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ ریاستی سکیورٹی کو محض بندوق کی طاقت سے ماپنا ایسے ہی ہے، جیسے دھوپ کے مقابلے میں بغیر چھت کے دیوار کھڑی کر دینا۔ حقیقی تحفظ وہ ہوتا ہے، جو روٹی، روزگار، عزت اور انصاف سے جُڑا ہو۔ سیاست دانوں اور اداروں کو یہ تسلیم کرنا چاہیئے کہ جب عوام اپنے حقوق کا سوال کرتے ہیں تو وہ کسی سے دشمنی نہیں رکھتے بلکہ اپنے قومی وسائل میں اپنی شراکت داری چاہتے ہیں۔ ہمیں سیاسی و قومی سطح پر عوامی احتجاج کو غدّاری کہنے کی روش ترک کرنا ہوگی، ایک تو اس سے ہندوستان کے بیانئے کو تقویّت ملتی ہے اور دوسرے  تاریخ ہمیں یہ سبق بار بار دیتی آئی ہے کہ جو قومیں اپنے آئینے توڑ دیتی ہیں، وہ اپنی شکلیں پہچاننے سے محروم ہو جاتی ہیں۔ بلدیاتی اداروں کو مضبوط بنانا جمہور کی وقعت کا اعلان ہے، نچلی سطح پر خود مختاری کا مطلب یہ ہے کہ عوام صرف ووٹ ڈالنے والے ہاتھ نہ ہوں، بلکہ فیصلے کرنے والے دماغ بھی ہوں۔ جب گاؤں کی گلی میں بیٹھا کسان اپنے علاقے کی ترقی پر اثرانداز ہو تو یہی جمہوریت کی اصل روح ہے۔ اسی طرح مذاکرات کو الزامات اور دھونس کے بجائے ملکی فلاح و بہبود کیلئے خلوصِ نیت سے انجام دیا جانا چاہیئے، چونکہ دلوں کی خلیجیں صرف بات چیت کے پلوں سے ہی پاٹی جا سکتی ہیں۔

بحیثیت مسلمان اشرافیہ کی تعیشات پر کٹ لگانا محض مالیاتی ضرورت نہیں بلکہ ایک قانونی، دینی و اخلاقی فریضہ بھی ہے۔ جب عوام دو وقت کی روٹی کے لیے پریشان ہوں تو وہاں حکمرانوں کا شاہانہ طرزِ زندگی صرف زخموں پر نمک بنتا ہے۔ قانونی اور سماجی تحفظ کے بغیر ریاستی نظم قائم نہیں رہ سکتا۔ اگر قانون کمزور کے لیے تلوار بن جائے اور طاقتور کے لیے ڈھال تو پھر عدالتیں انصاف کی جگہ تماشا بن جاتی ہیں۔ لہذا عدالتی فیصلوں کو نافذ کرنے میں لیت و لعل سے کام نہیں لیا جانا چاہیئے۔ اسی طرح نوجوانوں کی تربیت، روزگار اور عزتِ نفس کی بحالی وہ بیج ہیں جنہیں اگر آج بو دیا جائے تو کل ایک پُرامن اور خوشحال کشمیر کی فصل کاٹی جا سکتی ہے۔ بصورتِ دیگر محرومیوں کے کانٹوں سے الجھتے یہ نوجوان صرف صبر نہیں، اپنی امید بھی کھو بیٹھیں گے۔ ہم اس جملے کے ساتھ اپنا آج کا یہ کالم ختم کر رہے ہیں کہ پاکستان اور آزاد کشمیر کے حکمرانوں کو شہنشاہِ ایران کی تاریخ سے عبرت حاصل کرنی چاہیئے اور اُس کے زوال سے یہ سیکھنا چاہیئے کہ عوام کیلئے اقتدار صرف وہی قابلِ احترام ہوتا ہے، جو عوامی خدمت سے عبارت ہو، بصورتِ دیگر تاج خود ہی اپنے وزن کے باعث قدموں میں پر گر پڑتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • فلسطین کے حق میں احتجاج، اٹلی پر اسرائیل کے خلاف میچ منسوخ کرنے کا دباؤ
  • ایران، روس اور آذربائیجان علاقائی تعاون پر اجلاس منعقد کرینگے
  • پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کا بائی کاٹ مستقل طور پر ختم کرنے سے انکار کر دیا
  • وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی زیر صدارت انسداد پولیو کے حوالے سے اعلیٰ سطحی اجلاس
  • مریم نواز کے بیانات کے خلاف پیپلز پارٹی کا قومی اسمبلی اجلاس سے واک آؤٹ
  • نواز لیگ سے لفظی جنگ،پیپلز پارٹی کاپنجاب اسمبلی اجلاس کے بائیکاٹ کا فیصلہ
  • کیا آزاد کشمیر کے عوام پاکستان کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں؟
  • ن لیگ سے لفظی جنگ:پیپلز پارٹی نے اہم فیصلہ کر لیا
  • پاکستان کی ’’صمود غزہ فلوٹیلا‘‘ پر اسرائیلی افواج کے بزدلانہ حملے کی شدید ترین مذمت
  • بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ڈیٹا پر ہمارے شدید اعتراضات ہیں: رانا ثناء اللہ