کتِب علیکم القِتال ۔ مسلمان مظلوم ہوں تو ان کی مدد کے لئے جہاد کرنے کو اللہ تعالیٰ نے خود بلایا ہے، جھنجھوڑ کر بلایا ہے۔ اور جب وہ مدد کے لئے پکاریں تو ان کی مدد کے لئے فوری اقدام کرنا ہی مسلمانوں کی لازمی ذمہ قرار دیا ہے۔
وِانِ استنصروکم فِی الدِینِ فعلیکم النصر فعلیکم النصر کے جملے میں صرف مدد کا حکم نہیں تین تاکیدوں کے ساتھ حکم ہے ۔ وجوب کی تاکید، علیکم کا معنی ہے کہ یہ کام لازم ہے ۔حصر کی تاکید یعنی صرف یہی آپشن ہے۔ جلدی کی تاکید کہ یہ کام فوری کرنے کا ہے ۔اگر مسلمان اب تک فتوے کے انتظار میں رہے تو الحمد للہ وہ بھی آ گیا ہے اور متفقہ آ گیا ہے۔ اور جب جہاد کی فرضیت کا حکم آ جائے تو معاشرہ ہمیشہ تین طرح کے لوگوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔
-1 جہاد کے لئے نکل پڑنے والے الحمدللہ امت میں ایسے اہل ایمان ہیں اور ہمیشہ رہیں گے جو مسلمانوں کی مدد کے لئے قتال کرنے کو اپنی لازمی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ اپنی اولین ترجیح بنائے رکھتے ہیں۔ ان کے کان ہمیشہ مظلوموں کی پکار کی طرف لگے رہتے ہیں۔ ان کے دل ہمہ وقت امت کے لئے دھڑکتے ہیں۔ ان کے بازو شجاعت کے جوہر دکھانے اور اللہ کے ان دشمنوں کو عذاب دینے کے لئے مچلتے رہتے ہیں جو اہل ایمان پر ظلم و ستم کریں اور اللہ کے دین کو مٹانے کے در پے ہوں۔ وہ اپنے جسموں کو مضبوط اور عزائم کو توانا رکھتے ہیں۔ وہ اپنی دنیا کو آخرت کے بدلے میں بیچ ڈالتے ہیں اورجنت کے حصول کے میدانوں کی طرف دیوانہ وار لپکتے ہیں۔ وہ نہ فتاوی کا انتظار کرتے ہیں نہ دلائل کی موشگافیوں میں الجھتے ہیں۔ انہیں قرآن سے ، آقا مدنی ﷺ کی سیرت مبارکہ سے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے طرز عمل سے یہ مسئلہ سمجھ آ چکا ہے اور ذہن نشین ہو چکا ہے کہ ایسے وقت میں ان مظلوموں کی مدد کو پہنچنا ہی ان کی اولین ذمہ داری ہے۔ ان کے گھوڑے تیار اور تلواروں کی دھار آبدار رہتی ہے اور وہ میدانوں کی کھوج میں رہتے ہیں۔ وہ دن رات یہی پیغام لے کر پھرتے ہیں اور اسی فکر کو عام کرتے ہیں۔ اگرچہ ملامتیں سہتے ہیں اور تنہائیاں برداشت کرتے ہیں۔ انہیں مبارک ہو یہ اصل کامیابی کے راستے پر ہیں۔ یہ قرآن کا فیصلہ ہے۔ انہوں نے نبی علیہ الصلوۃ والسلام کا اور ان کی مبارک جماعت کا راستہ پایا ہے۔
لِکنِ الرسول و الذِین امنوا معہ جاھدوا بِاموالِہِم و انفسِہِم ۔ رسول اللہﷺ اور ان کی مبارک جماعت ہر طرح کے حالات میں جہاد پر نکلے۔ یہ ان کا طرز عمل اور اسوہ حسنہ ہے۔ بدر جیسی بے سروسامانی ہو یا احزاب جیسے ایمانی امتحان کے مواقع۔ احد کے لاشوں سے اٹے میدانوں سے بھی نکل پڑنے کا حکم آ گیا تو اپنے زخموں کو سہلاتے ہوئے چل پڑنے والے۔
الذِین استجابوا لِلہِ و الرسولِ مِن بعدما اصابہم القرح ۔ ان اہل ایمان کے لئے کیا انعام ہے؟ و اولٓئک لہم الخیرت۔ یہی بھلائیاں پانے والے ہیں۔ دنیا آخرت کی خیریں سمیٹنے والے اور رب سے رضا کی اکبر نعمت پانے والے ہیں۔ و اولٓئک ہم المفلِحون اور کامیابی تو بس انہی کے لئے ہے۔
بھائیو! دوستو ! بزرگو!اللہ تعالیٰ نے دنیا آخرت کی کامیابی جہاد میں رکھ دی ہے اوریہ قرآن کا واضح اعلان ہے۔یہ جہاد ہماری زندگیوں میں کیسے آئے گا؟اس کے لئے محنت کی ضرورت ہے۔ہر وقت جہاد، دعوت جہاد، سچے نظریہ جہاد اور جہاد کی مکمل تیاری سے جڑے رہنے والوں کو خوشخبری ہو۔ ان کی یقینی کامیابی اور ان کے لئے دنیا آخرت کی بھلائیوں کا وعدہ رب تعالیٰ کی طرف سے آ چکا ہے۔
ومن اوفی بِعہدِہ مِن اللہ۔ معذوری کی وجہ سے جہاد میں نہ نکل پانے والے یہ اگر چاہیں کہ نہ نکل سکنے کی وجہ سے تارکین میں شمار نہ کئے جائیں، انہیں اس محرومی پر سوال اور عذاب کا سامنا نہ کرنا پڑے اور گنہگار نہ ہوں تو انہیں دو کام کرنے ہوںگے۔ -1 جہاد کی مکمل حسب استطاعت تیاری میں رہ کر اپنی نیت کی صداقت ثابت کرنا ہو گی۔ اگر تیاری سے غافل رہے تو یہ دعویٰ قبول نہ کیا جائے گا۔ قرآن مجید نے واضح اعلان فرما دیا ہے اور ان لوگوں کا دعوی جھوٹ قرار دے دیا ہے ولو ارادوا الخروج لاعدوا لہ عدۃ ۔ ٹھیک ہے کہ آج امت کی اکثریت اسی حالت میں ہے کہ ان مظلوم مسلمانوں کی عملی مدد کو نہیں پہنچ سکتی۔ سرحدوں کی رکاوٹیں ہیں اور عالمی قوانین کی جکڑ بندیاں۔ اور سب یہی کہہ رہے ہیں کہ ہم اگر ان مجبوریوں میں نہ ہوتے تو ضرور جاتے۔ تسلیم بجا لیکن وہ تیاری کی وہ شرط کہاں ہے جو اس عذر کو سچا ثابت کر سکتی؟اور تیاری کے بغیر اگر پہلوئوں کا عذر ناقابل قبول ٹھہرا تو پچھلوں کے حق میں کیونکر قابل قبول ہو سکتا ہے؟جہاد کی فرضیت کے فتوے کا مخاطب حکمرانوں کو قرار دیا گیا۔ اللہ کرے انہیں شرم و حیا آئے اور وہ اپنے اختیار کو اسلام کے اس لازمی فرض کی ادائیگی میں استعمال کریں۔ لیکن ان سے امید کتنی ہے یہ ہم سب جانتے ہیں۔ عام المسلمین کو حسب طاقت مالی معاونت، بائیکاٹ اور آواز اٹھانے کا مکلف قرار دیا گیا۔ سب مسلمان یہ کام ضرور کریں کہ ایمانی غیرت کا کم سے کم تقاضا ہے۔
لیکن کیا جہاد کرنے کی ذمہ داری حکمرانوں کو سونپ دینے سے عام مسلمان اس فرض کی عملی ادائیگی سے بری ہو گئے؟کیا انہیں یہ نہیں بتانا چاہئے کہ ہر مسلمان پر عملی جہاد کی حسب استطاعت تیاری رکھنا ہر حال میں لازم ہے، اور ان حالات میں بطور خاص اس کا کیا حکم ہے؟ واعِدوا لہم ( دشمنوں سے مقابلے کی تیاری کرو)کیا یہ حکم صرف اہل اقتدار کے لئے ہے؟مِن قوۃ جسمانی قوت، اسلحہ، نشانہ بازی اور جہاد میں کام آنے والی ہر طاقت کا حصول کیا امت کے ایک طبقے پر لازم ہے دوسرے پر نہیں؟و مِن رِباطِ الخیل ِ۔گھوڑے پالنے، گھڑ سواری سیکھنے شہسوار بننے کا حکم کیا مخصوص مسلمانوں کے لئے ہے؟کیا جہاد کی سچی نیت کے بغیر موت آ جانے پر مات علی شعبۃ من نفاق کی وعید کسی کے لئے ہے اور کسی کے لئے نہیں؟اور اس سچی نیت کی جانچ کا پیمانہ اور کسوٹی جہاد کی تیاری کو کسی ایک طبقے میں حق میں قرار دیا گیا ہے یا سب مسلمان اس کے مخاطب ہیں؟ہم بائیکاٹ ضرور کریں اور ایسی تمام مصنوعات کو اپنی ذاتی استعمال سے بھی باہر کریں اور کاروبار سے بھی جن کا نفع ان دشمنان اسلام کو پہنچتا ہے۔
جہاد کو نہ ماننے والے، تاویلیں کرنے والے، بہانے ڈھونڈنے والے، مجاہدین پر طعن و تشنیع کے تیر برسانے والے، ان کے مقابل اپنی بزدلی اور بے حمیتی کو عقلمندی سمجھنے والے۔ انہیں برے حالات کا ذمہ دار قرار دینے والے اور ان سب سے بڑھ کر لوگوں کو جہاد سے روکنے والے عبد اللہ بن ابی کے فرزندقرآن مجید کا زندہ معجزہ ہے کہ اس کا کوئی کردار بھی محو نہیں ہوتا۔ کسی نہ کسی شکل میں زمین پر ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ کل بدر تھا آج غزہ ہیکل عبد اللہ بن ابی اور اس کی جماعت تھے تو آج غامدی اور اس کے ہمنوا ہیں ماضی میں غزوہ تبوک سے رہ جانے پر آنسو بہانے والے تھے تو آج بھی رات کی تاریکیوں میں سسکیوں اور آہوں سے اپنی بے بسی پر رونے والے موجود ہیں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: مدد کے لئے کے لئے ہے قرار دیا ہیں اور جہاد کی ہے کہ ا ہے اور کا حکم اور اس اور ان کی مدد
پڑھیں:
جنوبی ایشیا میں زندان میں تخلیق پانے والے ادب کی ایک خاموش روایت
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 جولائی 2025ء) جنوبی ایشیا میں جیلیں صرف قید و بند کی جگہیں نہیں رہیں، یہ تاریخ کے وہ خاموش گوشے بھی ہیں جہاں کئی نسلوں کے سیاسی خواب، جدوجہد، اذیتیں اور اصولی اقدار کاغذ پر منتقل ہوتے رہے ہیں۔ جیل کے سناٹے میں لکھی گئی یہ تحریریں نہ صرف فرد کی مزاحمت کا بیانیہ ہیں، بلکہ پورے عہد کا عکاس بھی۔
برصغیر میں زندان ادب یا زندانوں میں تخلیق پانے والے ادب کی روایت نے آزادی کی تحریک کے دوران جڑ پکڑی، جب برطانوی راج کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو جیل کی دیواروں کے پیچھے دھکیل دیا گیا۔ نہرو، گاندھی، بھگت سنگھ اور خان عبدالغفار خان جیسے رہنماؤں نے جیل کو ایک فکری خلا کے بجائے تخلیق کا میدان بنایا۔ لاہور جیل میں بھگت سنگھ کی مشہور تحریر ’وائے آئی ایم این ایتھیئسٹ‘ ہو یا خان عبدالغفار خان کی خود نوشت 'مائی لائف مائی اسٹرگل‘ یہ تحریریں آج بھی وقت سے ماورا سچ بولتی ہیں۔
(جاری ہے)
کتاب سے اسکرین تک، ادب کی بے ادبی
پاکستان میں تخلیقی عمل اور جدت پسندی کے فقدان کے اسباب
آزادی کے بعد سیاسی جبر کی شدت کم ہوئی، اور یوں جیل ادب بھی طویل وقفے میں داخل ہو گیا۔ مگر پھر 1975ء میں بھارت میں اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کی طرف سے لگائی گئی ایمرجنسی نے اسے دوبارہ جنم دیا۔ صحافی کلدیپ نئیر نے اپنی اسیری کی کہانی ’اِن جیل ایمرجنسی ری ٹولڈ‘ میں لکھی، جبکہ جے پرکاش نارائن اور لال کرشن اڈوانی جیسے سیاستدانوں نے بھی جیل کو اپنے فکری سفر کا سنگ میل بنایا۔
پاکستان میں چونکہ آمریت اور مارشل لا کے ادوار آتے جاتے رہے، اس لیے وہاں زندانوں میں تخلیق پانے والے ادب کا سفر جاری رہا۔
پاکستانی فوجی سربراہ ایوب خان کے 1958ء سے 1969ء تک جاری رہنے والے مارشل لا کے دوران فیض احمد فیض نے ’زندان نامہ‘ اور ’دست صبا‘ جیسی شاہکار شاعری تخلیق کی۔
اسی طرح جنرل ضیا الحق کی طرف سے لگائے گئے مارشل لاء کے دوران ذوالفقار علی بھٹو کی جیل ڈائریاں اور کتابیں منظر عام پر آئیں، جو انہوں نے موت کی سزا کا انتظار کرتے ہوئے جیل کی سلاخوں کے پیچھے لکھیں۔
اکیسویں صدی میں بھارت میں جب ایک بار پھر صحافیوں، کارکنوں اور سیاستدانوں پر ریاستی شکنجہ کسنے لگا، جیل ادب نے ایک نئی کروٹ لی۔ ممبئی کے استاد عبدالوحید شیخ نے، جو 2006ء کے ٹرین دھماکوں کے جھوٹے الزام میں نو برس تک قید و بند میں رہے نہ صرف اپنی روداد لکھی، بلکہ انہوں نے دیگر جیل ڈائریوں اور جیل ادب کو یکجا کر کے ان پر ڈاکٹریٹ کےلیے مقالہ بھی لکھا۔
حال ہی میں ان کو ایک یونیورسٹی نے انہیں اس کاوش کے لیے ڈاکٹریٹ سے نوازا۔عبدالوحید شیخ کے مطابق، ’’جیل کے اندر نعت، حمد، نظم، غزل، ڈائری اور خودنوشت تک ہر صنف کو برتا گیا ہے۔ یہ ادب یا تو دل سے نکلا ہوا جذباتی اظہار ہے یا مزاحمت کی پرزور صدا۔‘‘
وہ مزید کہتے ہیں، ’’یہ بھارت کی بدقسمتی ہے کہ آزادی کے بعد ایسے قیدیوں کی تحریروں کو وہ مقام نہیں دیا گیا جن پر ریاست نے ملک مخالف قوانین تھوپے۔
‘‘سینئر صحافی افتخار گیلانی نے، جو 2002ء میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت نو ماہ قید میں رہے، 1975ء کے بعد بھارت میں قید و بند کے حوالے سے پہلی یاداشت لکھی۔ ان کی انگریزی کتاب 'مائی ڈیز اِن پریزن‘ 2005ء میں جبکہ اس کا اردو ورژن ’تہاڑ میں میرے شب و روز‘ 2006ء میں منظر عام پر آئی۔
قید خانے میں تخلیق پانے والے ادب کے بارے میں وہ کہتے ہیں، ’’ایمرجنسی کے بعد تین دہائیوں تک جیل ادب جیسے خاموش ہو گیا تھا، مگر اب جب پھر سے اختلافِ رائے کو جرم بنا دیا گیا ہے، یہ روایت پھر سے زندہ ہو رہی ہے۔
‘‘اسی سلسلے میں سدھا بھردواج، جی این سائبابا اور ڈاکٹر بنائک سین، کوبڈ گاندھی جیسے سماجی کارکنوں نے بھی اپنی قید کی کہانیاں قلمبند کی ہیں، جو صرف ذاتی اذیت کی داستانیں نہیں بلکہ ریاست اور فرد کے بیچ جاری کشمکش کا آئینہ بھی ہیں۔
جنوبی ایشیا کا زندان ادب دراصل ان آوازوں کا مجموعہ ہے جنہیں دبانے کی کوشش کی گئی، مگر مرزا غالب کے اس شعر کے مصداق:
پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے
رکتی ہے میری طبع تو ہوتی ہے رواں اور
جیلوں اور قید خانوں کی دیواریں ان آوازوں کو قید رکھنے میں ناکام رہیں۔ یہ صرف قیدیوں کا ادب نہیں، یہ گواہی ہے اس سچ کی جسے طاقت نے بارہا قید کرنے کی کوشش کی، مگر ہر بار قلم نے آزاد کیا۔