Express News:
2025-04-25@02:44:16 GMT

مولانا فضل الرحمن کا اچھا مشورہ

اشاعت کی تاریخ: 18th, April 2025 GMT

مولانا فضل الرحمن ذہین اور سلجھے ہوئے سیاستدان ہیں‘ دین کے علم کے حوالے سے تو بات کرنے کی ضرورت اس لئے نہیں کہ خاندانی پس منظر ہی دینی ہے اور ان کے نام کے ساتھ لگا ہوا مولانا کا لفظ ہی ان کے دینی علم کی گواہی ہے‘ میں ان کی سیاست پر بات کر رہا ہوں‘ ایک آدھ روز قبل میں ٹی وی اسکرین پر ان کی باتیں سن رہا تھا‘ انھوں نے افغان مہاجرین کے ایشو پر بات کی‘ سابقہ فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام پر اپنا موقف دہرایا اور افغانستان کے ایشو پر بات کی‘ ایسا نہیں ہے کہ انھوں نے کوئی نئی یا اچھوتی بات کی ہو‘ یہ مولانا صاحب اور ان کی جماعت کا پرانا موقف ہے۔

 ان کی باتوں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے تاہم وہ جس انداز اور پیرائے میں اپنا موقف بیان کرتے ہیں‘ وہ بتاتا ہے کہ انھیں اپنی بات کہنے کا سلیقہ اور ہنر آتا ہے۔ ان باتوں کے ساتھ ساتھ انھوں نے ایک ایسی بات کی جس میں مجھے دلچسپی ہے‘ میں اس پر بات کرنا چاہتا ہوں۔ انھوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا کے لوگوں کو اپنے صوبے میں کاروبار اور کام کرنا چاہیے۔ اگر وہ اپنے صوبے میں کام کریں گے تو ان پر یہاں کے قوانین لاگو ہوں گے۔ ان کی یہ بات یا مشورہ بالکل درست اور حالات کے عین مطابق ہے۔ بلکہ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ اس بات کو بزرگوں کی نصیحت سمجھنا چاہیے۔

خیبرپختونخوا اور بلوچستان کیوں پسماندہ ہیں‘ معاشیات کی رو سے اس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں‘ مثال کے طور پر ان صوبوں کے پاس کیپیٹل یعنی سرمائے کی کمی ہے‘ سرمایہ اس لئے کم ہے کہ یہاں غربت زیادہ ہے‘ غربت اس لئے زیادہ ہے کہ لوگوں کے پاس روز گار نہیں‘ اس کی وجہ تعلیم نہ ہونا اور ہنرمند نہ ہونا کہی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ انفراسٹرکچر نہ ہونا بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔ لیکن اگر ہم خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی اشرافیہ کا حجم دیکھیں تو واضح نظر آتا ہے کہ ان صوبوں کے لوگوں کے پاس سرمائے یا کیپیٹل کی کمی نہیں ہے۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی اشرافیہ کے پاس بہترین تعلیم بھی ہے اور دولت بھی ہے۔

انفراسٹرکچر کی صورت حال دیکھیں تو تب بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ان صوبوں میں شاہراہیں اور انٹرلنک روڈز موجود ہی نہیں ہیں‘ ان علاقوں میں بہترین سڑکیں موجود ہیں‘ یہاں کے نوجوان پڑھے لکھے بھی ہیں اور ہنر مند بھی ہیں۔ یہ نوجوان کراچی‘ لاہور‘ اسلام آباد میں بہترین کام کر رہے ہیں اور کاروبار بھی کر رہے ہیں‘ متحدہ عرب امارات‘ سعودی عرب‘ قطر اور کویت وغیرہ میں یہاں کے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کام کرتی ہے۔

 امریکا‘ یورپ ہی نہیں بلکہ افریقہ اور تھائی لینڈ ملائیشیا وغیرہ میں بھی ان صوبوں کے لوگ کام کرتے ہیں‘ اس کے باوجود اگر خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں یا اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب میں ترقی اور خوشحالی کی سطح وہ نہیں ہے جو وسطی پنجاب اور کراچی‘ لاہور اور اسلام آباد راولپنڈی میں نظر آتی ہے تو اس کی وجہ میری نظر میں وہ ہے جس کی طرف مولانا فضل الرحمن نے اشارہ کیا ہے بلکہ واضح کیا ہے کہ خیبرپختونخوا کے لوگ اپنے صوبے میں کام اور کاروبار کریں۔ آج اوور سیز پاکستانیوں کے بھیجے گئے زرمبادلہ کی جو بات ہو رہی ہے‘ غور کیا جائے تو یہ سارا سرمایہ ان اوور سیز پاکستانیوں کا ہے جن کا تعلق زیادہ تر پنجاب کے شہروں اور قصبوں سے ہے۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ یورپ اور امریکا جیسے ترقی یافتہ ملکوں میں رہنے والے یہ پاکستانی اپنا سرمایہ لاہور‘ اسلام آباد‘ فیصل آباد‘ گوجرانوالہ‘ سیالکوٹ میں کیوں انویسٹ کرنا چاہتے ہیں یا کرتے ہیں۔

اس کی سادہ سی وجہ تو یہ کہی جا سکتی ہے کہ یہ اوور سیز پاکستانیوں کے آبائی شہر ہیں۔ یہاں ان کے لئے اجنبیت نہیں ہے لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ خیبرپختونخوا کے سرمایہ کار بھی اپنا کاروبار لاہور اور کراچی میں کرتے ہیں‘ اسی طرح بلوچستان کی اشرافیہ کی سرمایہ کاری بھی کراچی یا خلیجی ملکوں میں نظر آتی ہے‘ ایسا کیوں ہے۔ یہ وہ سوال ہے جس پر غور کیا جانا چاہیے۔ میری ناقص عقل کے مطابق تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ پنجاب اور کراچی میں اپنے سرمائے کو اپنے آبائی علاقوں کی نسبت زیادہ محفوظ سمجھتے ہیں‘ ان کے کاروبار کو قانونی تحفظ بھی ہے اور امن و امان کی صورتحال بھی قدرے بہتر ہے۔

ایک اہم وجہ یہ سمجھ آتی ہے کہ پنجاب خصوصاً وسطی و شمالی پنجاب اور کراچی میں مڈل کلاس کا حجم بہت زیادہ ہے‘ مڈل کلاس ہی خرچ کرتی ہے‘ مڈل کلاس کے لوگ ہی ریستورانوں اور کیفیز میں بیٹھتے ہیں‘ پارٹیز کرتے ہیں‘ شادی ہالز اور ہوٹلز میں شادی کی تقریبات منعقد کرتے ہیں‘ مختلف تہواروں کی رنگا رنگی بھی ان ایریاز میں ہوتی ہے جہاں مڈل کلاس کا حجم زیادہ ہوتا ہے‘ آج بھارت کی شرح ترقی اس لئے بڑھ رہی ہے کہ وہاں مڈل کلاس کا پھیلاؤ مسلسل بڑھ رہا ہے‘ مڈل کلاس بڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کی قوت خرید میں اضافہ ہو رہا ہے۔

جب لوگوں کی قوت خرید بڑھتی ہے تو بازاروں میں کاروباری گہما گہمی میں اضافہ ہوتا ہے۔ روپے کی شرح تبادلہ بڑھ جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص ہزار روپے کا بل ادا کرتا ہے تو یہ دوسرے کی آمدنی بن جاتا ہے‘ وہ شخص اپنے ہزار روپے سے کوئی اور چیز خریدتا ہے تو یہ تیسرے شخص کی آمدنی بن جائے گی‘ یوں اگر ایک ہزار روپیہ دس لوگوں کے پاس آتا اور جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ہزار کے نوٹ نے دس ہزار کا بزنس کیا ہے۔

خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں خرچ کرنے والی مڈل کلاس موجود نہیں ہے‘ یہی ان صوبوں کی پسماندگی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ خیبرپختونخوا کے قوم پرست سیاستدان بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ کراچی پختونوں کا سب سے بڑا شہر ہے۔ کراچی میں پشاور سے زیادہ پختون آباد ہیں‘ ان کی یہ بات درست ہو سکتی ہے لیکن اس کا ایک دوسرا مطلب بھی لیا جا سکتا ہے کہ خیبرپختونخوا کا وہ طبقہ جو کاروبار کر سکتا ہے‘ جو ہنر مند ہے‘ جو تعلیم یافتہ ہے اور جس کے پاس سرمایہ ہے‘ وہ اپنے صوبے سے باہر ہے‘ اگر یہی سرمایہ خیبرپختونخوا میں لگتا تو یہاں بھی مڈل کلاس کا پھیلاؤ ہوتا‘ مڈل کلاس بڑھتی تو پشاور ہی نہیں بلکہ مردان‘ چار سدہ‘ کرک‘ بنوں اور کوہاٹ جیسے شہروں میں بھی ریستورانوں اور کیفیز کی انٹرنیشنل چینز خود بخود کاروبار کرنے وہاں پہنچ جاتیں‘ میں خیبرپختونخوا کے کئی شہروں میں گیا ہوں‘ سچی بات ہے مجھے نوشہرہ‘ صوابی ‘ مردان اور ڈیرہ اسماعیل خان میں کاروبار کرنے کے وسیع اور منافع بخش امکانات نظر آتے ہیں۔

مسئلہ صرف یہی ہے کہ ان شہروں میں مڈل کلاس نہ ہونے کے برابر ہے۔ صوبائی حکومتیں اسمال بزنس کی حوصلہ افزائی کریں‘ پنجاب اور کراچی کے سرمایہ کاروں کو مراعات اور ترغیب دیں‘ ان کے سرمائے کو قانونی تحفظ فراہم کیا جائے‘ امن و امان بہتر کیا جائے تو آنے والے برسوں میں خیبرپختونخوا کے یہ شہر بزنس حب بن سکتے ہیں۔ان میں پوٹینشل موجود ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے بہت پتے کی بات کی ہے۔ میں تو وفاقی حکومت سے بھی کہوں گا کہ وہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں کاروبار کرنے والوں کو خصوصی پیکیج دے‘ ان صوبوں کے لوگوں کا حق ہے کہ وہ کاروباری ترقی کریں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: خیبرپختونخوا اور بلوچستان مولانا فضل الرحمن کہ خیبرپختونخوا خیبرپختونخوا کے پنجاب اور کراچی بلوچستان کی میں کاروبار ان صوبوں کے کاروبار کر کراچی میں اپنے صوبے کرتے ہیں انھوں نے یہ ہے کہ ہے کہ ان نہیں ہے سکتی ہے ا ہے کہ پر بات کے لوگ کیا جا کام کر ہے اور کے پاس بات کی

پڑھیں:

جے یو آئی کا اپوزیشن اتحاد بنانے سے انکار، اپنے پلیٹ فارم سے جدوجہد کرنے کا فیصلہ

جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اپنے ہی پلیٹ فارم سے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے، اپوزیشن کا بڑا اتحاد قائم کرنا اس پر ہماری کونسل آمادہ نہیں ہے۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ آئے روز کے معاملات میں کچھ مشترکہ امور سامنے آتے ہیں، اس حوالے سے مذہبی جماعتوں سے مل کر اشتراک عمل ہوسکتا ہے، پارلیمانی جماعتوں کے ساتھ بھی اشتراک عمل کیلئے حکمت عملی ہماری شوریٰ اور عاملہ کرے گی۔

فضل الرحمان نے کہا کہ اتحاد صرف حکومتی بینچوں کا ہوتا ہے، اپوزیشن میں باضابطہ اتحاد کا تصور نہیں ہوتا، باضابطہ طور پر اب تک اپوزیشن کا اتحاد موجود نہیں ہے، اپوزیشن کا بڑا اتحاد قائم کرنے پر ہماری کونسل آمادہ نہیں ہے، اپوزیشن کا کوئی باقاعدہ اتحاد نہیں لیکن ایشو ٹو ایشو ساتھ چلنے کے امکان موجود ہیں۔

ہمارے ملک کی ساری سیاست اسلام آباد کی ہے، مولانا فضل الرحمان

سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ جو آئین اور قانون کا راستہ ہے وہی پاکستان کے علماء کا بیانیہ ہے۔

فضل الرحمان نے کہا کہ اس وقت ملک میں خاص طور پر کے پی، بلوچستان، سندھ میں بدامنی کی صورتحال ناقابل بیان ہے، کہیں حکومتی رٹ نہیں ہے، مسلح گروہ دندناتے پھر رہے ہیں، حکومت کی کارکردگی اب تک زیرو ہے، حکومت اور ریاستی ادارے عوام کی جان و مال کے تحفظ میں مکمل ناکام نظر آرہے ہیں، کسی قسم کا ریلیف نہیں دے رہی۔

سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ ہم نے 2018 کے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیا اور نتائج تسلیم نہیں کیے، 2024 کے انتخابات کے بارے میں بھی ہمارا وہی مؤقف ہے، عوام کی رائے کو نہیں مانا جاتا، سلیکٹڈ حکومتیں مسلط کی جاتی ہیں، صوبوں کا حق چھینا جاتا ہے تو ہم صوبوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے، عوام کو اپنا حق رائے دہی آزادانہ استعمال کرنے دیا جائے۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ مائنز اینڈ منرلز بل کو جے یو آئی کی کونسل نے مسترد کردیا۔

وزیر اعلیٰ کو پتہ نہیں کہ کچھ معاملات اسٹیٹ کے تحت ہوتے ہیں، مولانا فضل الرحمان

سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ میں خود کو قبائل کا حصہ سمجھتا ہوں، جب بھی قبائل کا مسئلہ آتا ہے ہمارے اندر ایک تحریک جنم لے لیتی ہے، ہم ہمیشہ قبائلوں کے حق کے لیے بات کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جے یو آئی فلسطین کی آزادی کی جدوجہد کی بھرپور حمایت جاری رکھے گی، اسرائیل ایک ناجائز ملک ہے، اس کی حیثیت ایک قابض کی ہے، یہ جنگی مجرم ہے، عالمی عدالت انصاف نے اس کو گرفتار کرنے کا حکم دیا ہوا ہے، امریکا اور یورپی ممالک عالمی عدالت کے فیصلے کا احترام نہیں کر رہے، انسانی حقوق کی تنظیمیں، دیگر سب جنگی جرائم کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔

آئی ایم ایف وفد کی چیف جسٹس سے ملاقات منفرد واقعہ ہے، فضل الرحمان

سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ ہماری رائے میں آئینی عدالت کی تشکیل تھی، آئینی بینچ کا بننا بُرا آغاز نہیں، آئینی بینچ کو چلنے دیا جائے تو بہتر نتائج آئیں گے۔

فضل الرحمان نے کہا کہ اسرائیل اگر سمجھتا ہے کہ ہم دفاع کی جنگ لڑ رہے ہیں تو شہریوں پر بمباری کیوں، کبھی دنیا میں دفاعی طور پر عام شہریوں پر بمباریاں ہوئی ہیں؟ کیا دفاع میں کوئی ملک خواتین، بچوں اور بوڑھوں پر بمباریاں کرتا ہے؟

سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ 11 مئی کو پشاور، 15 مئی کو کوئٹہ میں ملین مارچ ہوگا، ہم پاکستان کی آواز دنیا تک پہنچائیں گے، یہ امت مسلمہ کی آواز بن چکی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ٹریڈوار، مذاکرات واحد اچھا راستہ
  • مری کو مزید پانی نہیں دیا جائے گا، خیبرپختونخوا یہ فیصلہ کیوں کررہا ہے؟
  • وفاق و صوبائی حکومتیں ناکام ہو چکیں، اپوزیشن کا کوئی باضابطہ اتحاد نہیں: فضل الرحمن
  • سلیکٹڈ حکومتیں قوم پر مسلط کی جاتی ہیں، مولانا فضل الرحمان
  • جے یو آئی کا اپوزیشن اتحاد بنانے سے انکار، اپنے پلیٹ فارم سے جدوجہد کرنے کا فیصلہ
  • کارتک آریان اچھا دھاری ناگ کا روپ دھارنے کو تیار
  • مولانا نے اتحاد کیوں نہیں بنایا
  • بابراعظم دراصل کہاں غلطی کر رہے ہیں ؟ محمد عامرکا ناقص پرفارمنس پر مشورہ
  • فضل الرحمن حافظ نعیم ملاقات : جماعت اسلامی ، جے یوآئی کا غزہ کیلئے اتحاد ، اپریل کو پاکستان پر جلسہ 
  • صدر مسلم لیگ ن نواز شریف نے لندن میں قیام بڑھا دیا