نامور کالم نگار و تجزیہ کار مظہر برلاس کا سیاسی صورتحال پر خصوصی انٹرویو
اشاعت کی تاریخ: 19th, April 2025 GMT
اپنے خصوصی انٹرویو میں نامور کالم نگار و تجزیہ کار مظہر برلاس نے کہا کہ اگلے دو ماہ میں عمران خان کو جیل سے باہر دیکھ رہے ہیں، ریاستی جبر اور ناانصافی کی کوئی حد باقی نہیں رہی، ایک بہن کو اپنے بھائی سے ملنے تک نہیں دیا جا رہا، جو لوگ اقتدار میں ہیں، ان کی عوام میں کوئی حیثیت ہی نہیں۔ متعلقہ فائیلیںمظہر برلاس پاکستان کے معروف صحافی، کالم نگار اور تجزیہ کار ہیں، جو کئی دہائیوں سے اردو صحافت میں سرگرم عمل ہیں۔ انہوں نے روزنامہ جنگ اور ہم سب جیسے معتبر اخبارات و ویب سائٹس کے لیے کالمز تحریر کیے ہیں، جن میں وہ ملکی سیاست، عدلیہ، فوج اور سماجی مسائل پر بے باک انداز میں اظہارِ خیال کرتے ہیں۔ مظہر برلاس کی تحریروں کا انداز جرات مندانہ اور تنقیدی ہوتا ہے، جس میں وہ طاقتور اداروں اور شخصیات پر بھی تنقید کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ ان کے کئی کالمز کو ان کے بے لاگ انداز کی وجہ سے "ناقابلِ اشاعت" قرار دیا گیا ہے۔ انہوں نے "شہیدِ مشرق" جیسی کتاب بھی تحریر کی ہے، جو ان کی ادبی خدمات کا ثبوت ہے۔ مظہر برلاس کا یوٹیوب چینل بھی ہے، جہاں وہ موجودہ حالات، سیاست اور معاشرتی مسائل پر تجزیئے اور تبصرے پیش کرتے ہیں۔ ان کی تحریریں اور تجزیئے پاکستان میں صحافت کے میدان میں ان کی گہری بصیرت اور بے باک انداز کو ظاہر کرتے ہیں۔ سینیئر صحافی نادر بلوچ نے ان سے خصوصی انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ قارئین و ناظرین محترم آپ اس ویڈیو سمیت بہت سی دیگر اہم ویڈیوز کو اسلام ٹائمز کے یوٹیوب چینل کے درج ذیل لنک پر بھی دیکھ اور سن سکتے ہیں۔ (ادارہ)
https://www.
youtube.com/@ITNEWSUrduOfficial
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: مظہر برلاس
پڑھیں:
بانی پی ٹی آئی سیاسی داؤ پیچ میں صفر بٹا صفر ہیں، حفیظ اللہ نیازی
لاہور:سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے کہا کہ سویلینز پر جو حملہ ہے اس کا کوئی جواز نہیں ہے، میں شہریوں کہ مرنے پر ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں لیکن اس کو دیکھنا یہ پڑے گا کہ پاکستان میں شہریوں پر حملے ہو رہے ہیں تو کیا اسی طرح انڈین فارن آفس نے مذمت کی ہے؟، پاکستان کی وزارت خارجہ نے تو مذمت کی ہے تو ایک فرق ہے۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام اسٹیٹ کرافٹ میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ بلوچستان میں جب ٹرین سے اتارے گئے تھے لوگ، ان کے شناختی کارڈ دیکھ کر ان کو مارا گیا تھا تو دنیا سے تعزیت کے پیغامات آئے، میرا خیال تھا کہ بھارت سے بھی آئیں گے مجھے یا د نہیں آپ کو یاد ہے تو مجھے یاد کرا دیں،
تجزیہ کار حفیظ اللہ نیازی نے کہا کہ کئی لحاظ سے بڑا سادہ اور کئی لحاظ سے بڑا پیچیدہ موضوع ہے پہلی بات تو یہ ہے کہ عمران خان صاحب جو ہیں ان کی مقبولیت جو ہے اس کی بنیاد کیا ہے، اس کی بنیاد یہ تو نہیں ہے کہ جس پر ہم سارے کم و بیش متفق ہیں کہ عمران خان سیاسی طور پر پاکستان کے انتہائی مقبول رہنما ہیں تو کیا انھوں نے کشمری فتح کیا تھا؟،کشمیر تو انھوں نے اپنے ہاتھ سے دے دیا تھا 5 اگست 2019 کو، عمران خان کے پاس سمجھ بوجھ کی کمی نہیں، اللہ تعالیٰ نے بہت صلاحیتیں دی ہیں لیکن سیاسی داؤ پیچ، سیاسی حکمت عملی میں وہ صفر بٹا صفر ہیں۔
تجزیہ کار محسن بیگ مرزا نے کہا کہ بیسیکلی آپ نے جو کرائم کیا ایکٹ کیا وہ سب کے سامنے ہے اس میں یہ کہناکہ پروف لائیں وڈیو لائیں تو نیچرلی جب کیس چلیں گے تو پروف بھی آجائیں گے اور جو ایویڈنس ہے وہ بھی مل جائے گی لیکن بیسک چیز یہ ہے کہ اگر آپ سے کوئی غلطی ہوئی ہے اس لیول پر جو اپنے آپ کو یہ سمجھتے ہیں کہ آپ پاکستان کے بڑے ہی پاپولر لیڈر ہیں تو آپ کو ایڈمٹ کرنا چاہیے کہ آپ نے اداروں کیخلاف ایسا ماحول یونیورسٹیوں اور کالجوں میں جا کر بنایا نوجوان نسل کو اتنا ورغلایا کہ شاید کوئی دشمن بھی یہ کام نہ کر سکے تو اس پر آپ کو ریلائز کرنا چاہیے یہ ملک آپ کو ملا پونے چار سال، آپ اس کو نہیں چلا سکے۔
تجزیہ کار نصر اللہ ملک نے کہا کہ میں پہلے دن سے سمجھتا ہوں میری یہ رائے ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ کے براہ راست مذاکرات کا آغاز کبھی نہیں ہوا، کبھی کبھی کچھ باتیں سامنے آ جاتی ہیں علی امین گنڈاپور پیغام لیکر گئے اعظم سواتی پیغام لیکر گئے اس میں حقیقت ایسی نہیں ہے خواہشات کا اظہار ضرور ہوتا رہا ہے، پیغامات بھجوائے جاتے رہے ہیں ابھی بھی جو ڈیلیگیشن ملا، اس نے جا کر جو بات چیت کی، یہی کہا کہ عمران خان صاحب کے ساتھ مذاکرات ہونے چاہییں پھر جو پیغامات بجھوائے گئے عمران خان صاحب نے بھی پیغامات بجھوائے ہیں۔