دنیا ایک بار پھر ایک ایسے دوراہے پر کھڑی ہے جہاں حق اور باطل کی جنگ واضح ہو چکی ہے۔ فلسطین کی سرزمین پر بہنے والا معصوم خون، بچوں کی لاشیں، ماں کی آہیں اور بے گھر ہوتے خاندان ہمیں ایک بار پھر اس یاد دہانی کی طرف لے جا رہے ہیں کہ ظلم جب حد سے بڑھ جائے تو اللہ کی پکڑ بھی قریب آ جاتی ہے۔ آج جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے وہ صرف ایک انسانی المیہ نہیں بلکہ ایک روحانی اور ایمانی آزمائش بھی ہے۔اسلامی تعلیمات کے مطابق یہودیوں کا ماضی، حال اور مستقبل واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں بنی اسرائیل کی سرکشی، ان کی نافرمانیاں اور اللہ تعالیٰ کے نبیوں کے ساتھ ان کے سلوک کا بارہا ذکر آیا ہے۔ ان کی فطرت میں دھوکہ، فریب، اور سازش شامل ہے۔ انہوں نے نہ صرف اللہ کے انبیا ء کو جھٹلایا بلکہ انہیں قتل کرنے سے بھی دریغ نہ کیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک وقت کی نشاندہی فرمائی ہے جب یہودیوں کا مکمل خاتمہ ہو گا۔ اس وقت حق اور باطل کا آخری معرکہ ہو گا جسے ’’ملحمہ کبریٰ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس معرکے میں مسلمان غالب آئیں گے اور اللہ کے وعدے کے مطابق زمین پر عدل اور انصاف قائم ہو گا۔
حدیث مبارکہ میں آتا ہے ۔ ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک مسلمان یہودیوں سے جنگ نہ کر لیں، اور مسلمان انہیں قتل کریں گے یہاں تک کہ یہودی پتھروں اور درختوں کے پیچھے چھپیں گے مگر وہ درخت اور پتھر بھی پکار اٹھیں گے: اے مسلمان! اے اللہ کے بندے! یہ یہودی میرے پیچھے چھپا ہوا ہے، آئو اور اسے قتل کرو، سوائے ’’غرقد‘‘ کے درخت کے، کیونکہ وہ یہودیوں کا درخت ہے۔(صحیح مسلم: 2922)
یہ حدیث نہ صرف مستقبل کے ایک یقینی واقعے کی نشاندہی کرتی ہے بلکہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ یہودیوں کا انجام عبرتناک ہو گا۔ وہ جہاں بھی چھپیں گے قدرت انہیں بے نقاب کر دے گی۔یہ حدیث ہمیں نہ صرف یہ بتاتی ہے کہ یہودیوں کا انجام تباہی ہو گا بلکہ یہ بھی واضح کرتی ہے کہ اس معرکے میں اللہ کی قدرت براہِ راست کام کرے گی۔ یہاں تک کہ جمادات(درخت اور پتھر) بھی بول اٹھیں گے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں بلکہ ایک الہامی سچائی ہے جس پر ہمیں کامل یقین رکھنا ہے کیونکہ یہ بات بات دنیا کے سب سے عظیم ، سچے انسان اور خاتم النبیین جناب محمد الرسول اللہ نے ارشاد فرمائی ہے۔
فلسطین میں ہونے والی نسل کشی انسانی تاریخ کا ایک سیاہ ترین باب بن چکی ہے۔ ہزاروں بچوں، عورتوں اور معصوم لوگوں کا قتلِ عام، ہسپتالوں، مساجد اور سکولوں پر بمباری، اور عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ جنگ صرف زمینی نہیں بلکہ ایمانی ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ وہ طاقت کب، کہاں اور کیسے مسلمانوں کو حاصل ہو گی جس کے ذریعے وہ یہودیوں کو شکست دیں گے؟ اس کا جواب بھی قرآن اور سنت میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہیں’’ان تنصروا اللہ ینصرکم ویثبت اقدامکم‘‘ (سورۃ محمد: 7)
ترجمہ: اگر تم اللہ کے دین کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جما دے گا۔یعنی جب مسلمان دین اسلام پر مکمل عمل پیرا ہوں گے، جب وہ فرقوں، تعصبات، اور دنیاوی لالچ سے نکل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں گے تب ہی اللہ کی نصرت نازل ہو گی۔میرا رب وہ ہے جو تقدیر بھی بدلتا ہے اور حالات بھی۔ غم کا موسم کبھی ہمیشہ کے لیے نہیں رہتا۔ مگر یہ معرکہ جسے ہم دیکھ رہے ہیں اس نے نہ صرف دشمن کو بے نقاب کیا ہے بلکہ ہمارے اپنے مسلمان حکمرانوں کو بھی۔ وہ حکمران جن کی زبانیں خاموش، ضمیر مردہ اور آنکھیں بند ہیں۔ جن کے محلات تو چمک رہے ہیں مگر ان کے دل سیاہ ہو چکے ہیں۔ وہ یہودیوں کے سامنے اس لیے جھک چکے ہیں کیونکہ انہیں مسلمانوں کی جانیں اور عزتیں نہیں بلکہ اپنی بادشاہتیں، اپنی دولت اور دنیاوی آسائشیں عزیز ہیں۔یہی معرکہ ہم عام مسلمانوں کے ایمان کا بھی امتحان ہے۔ اربوں کی تعداد میں ہم مسلمان دنیا بھر میں بستے ہیں مگر افسوس کہ ہمارا طرزِ زندگی، ہماری خریداری، ہماری ترجیحات سب اسرائیل کی مدد کا ذریعہ بن چکے ہیں۔ ہم ان ہی یہودی مصنوعات کو خریدتے ہیں جن کا منافع اسرائیل کے فوجی بجٹ میں شامل ہوتا ہے۔ہم میں سے کتنے ہی افراد روزانہ یہودی مصنوعات کا استعمال کرتے ہیں۔ ہم انہی کمپنیوں کی چیزیں خریدتے ہیں جن کا منافع اسرائیلی فوج کے اسلحہ اور بارود پر خرچ ہوتا ہے۔ ہم اپنی لاعلمی، غفلت یا لاپرواہی کے باعث اس ظلم میں شریک ہو رہے ہیں۔ ہم خود اپنے ہاتھوں سے ان ظالموں کی پشت پناہی کر رہے ہیں جو ہمارے ہی بھائیوں کا خون بہا رہے ہیں۔افسوس، صد افسوس! کہ ہم صرف سوشل میڈیا پر پوسٹس اور احتجاج تک محدود ہو چکے ہیں جبکہ عمل کے میدان میں ہماری موجودگی ناپید ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم سب سے پہلے خود کو بدلیں، اپنی ترجیحات کو ایمان کی روشنی میں دیکھیں، اور ہر وہ قدم اٹھائیں جو ظالم کی طاقت کو کمزور کرے۔اللہ کی مدد صرف انہی کو حاصل ہوتی ہے جو خود کو اس کے دین کے لیے وقف کرتے ہیں۔ ہمیں آج سے یہ عہد کرنا ہو گا کہ ہم صرف باتوں سے نہیں، بلکہ عمل سے اس ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔ اپنے گھر سے، اپنی خریداری سے، اپنی دعائوں سے اور اپنی زندگی کے ہر شعبے میں ہم ظالم کے خلاف اور مظلوم کے ساتھ ہوں گے۔دنیا اس وقت ظلم، فتنہ اور نفاق کے نازک ترین دور سے گزر رہی ہے۔ فلسطین کی سرزمین پر جو خون بہایا جا رہا ہے جو لاشیں گرائی جا رہی ہیں اور جو بچے ماں کی گود سے چھینے جا رہے ہیں تاریخِ انسانی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ایک منظم نسل کشی کا کھیل کھیلا جا رہا ہے اور دنیا بالخصوص مسلم حکمران تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔یہودیوں کا انجام اللہ کے فیصلے کے مطابق ہونا ہے۔ مگر وہ دن کب آئے گا؟ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ ہم مسلمان کب جاگتے ہیں؟ کب ہم دنیا کی محبت اور موت کے خوف کو ترک کر کے اللہ کی راہ میں نکلتے ہیں؟ کب ہم قرآن کو صرف ثواب کے لیے نہیں بلکہ رہنمائی کے لیے پڑھنا شروع کرتے ہیں؟یقین رکھیں! وہ وقت ضرور آئے گا جب ہر درخت اور پتھر بھی گواہی دے گا، اور مظلوموں کے آنسو ظالموں کے لیے آگ بن جائیں گے۔یہودیوں کا انجام طے شدہ ہے لیکن اس انجام کو لانے کے لیے ہمارا کردار کیا ہو گا؟ یہ فیصلہ ہمیں کرنا ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: یہودیوں کا انجام نہیں بلکہ اللہ کے رہے ہیں اللہ کی چکے ہیں کے لیے
پڑھیں:
عقیدہ اور قانون میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس حیثیت
عقیدہ اور قانون میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس حیثیت WhatsAppFacebookTwitter 0 23 July, 2025 سب نیوز
تحریر: محمد محسن اقبال
انسانی تاریخ کے ہر دور میں کچھ شخصیات ایسی ابھری ہیں جنہوں نے اپنے بے مثال کردار، لازوال پیغام اور آفاقی کشش کی بدولت سب پر فوقیت حاصل کی۔ ان ہستیوں میں کوئی بھی شخصیت حضرت محمد مصطفیٰ ۖ سے زیادہ مقدس اور محترم نہیں، جنہیں دنیا بھر میں ایک ارب سے زائد مسلمان دل کی گہرائیوں سے عزیز رکھتے ہیں۔ آپ ۖ نہ صرف اسلام میں سلسلہ? نبوت کی آخری کڑی ہیں بلکہ رحمت، عدل اور اخلاقی عظمت کی علامت بھی ہیں۔ قرآنِ مجید گواہی دیتا ہے:
محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے والد نہیں ہیں، لیکن وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں، اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔ (سورة الاحزاب، 33:40)
نبوت کا یہ خاتمہ محض ایک عقیدہ نہیں بلکہ اسلام کی بنیاد ہے، اور اس کا انکار درحقیقت اسلام کا انکار ہے۔ مسلمانوں کے دلوں میں نبی کریم ۖ کے لیے جو بے پناہ عقیدت و محبت پائی جاتی ہے، وہ براہِ راست خدائی احکامات کا نتیجہ ہے۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
ہم نے تمہیں گواہ، خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا تاکہ تم لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ، اور نبی کی عزت کرو، ان کی مدد کرو، اور صبح و شام ان کی تعظیم کرو۔ (سورة الفتح، 48:8)
یہ صرف روحانی تعلق نہیں بلکہ اطاعت، محبت، اور آپ ۖ کے نام و پیغام کے دفاع میں جڑوں تک پیوست ایک رشتہ ہے۔ متعدد احادیث اس عظیم احترام کو مزید اجاگر کرتی ہیں۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا:
تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسے اس کے والد، اس کی اولاد اور تمام انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔” (بخاری)
آپ ۖ کے صحابہ کرام نے اس محبت کو اپنے عمل سے ثابت کیا۔ وہ آپ ۖ کے دفاع میں اپنی جانیں قربان کرنا سب سے بڑا اعزاز سمجھتے تھے۔ جب کبھی کسی دشمن نے نبی کریم ۖ کی شان میں گستاخی کی، تو صحابہ کرام نے انتہائی غیرت مندانہ اور مضبوط ردِعمل دیا، جو ان کی آپ ۖ کی حرمت و عظمت سے بے پناہ وابستگی کو ظاہر کرتا تھا۔
حضرت محمد ۖ کے غیر معمولی کردار کا اعتراف صرف اسلامی دنیا تک محدود نہیں رہا۔ بہت سے غیر مسلم مورخین، فلاسفرز اور مذہبی مفکرین نے بھی آپ ۖ کی عظمت کو تسلیم کیا ہے۔ معروف برطانوی دانشور جارج برنارڈ شا نے ایک مرتبہ کہا:
انہیں انسانیت کا نجات دہندہ کہا جانا چاہیے۔ میرا یقین ہے کہ اگر ان جیسے شخص کو آج کی دنیا کی قیادت مل جائے، تو وہ دنیا کے مسائل کو اس انداز میں حل کرے گا جو امن اور خوشی کا ضامن ہوگا۔ اسی طرح مشہور امریکی مصنف مائیکل ایچ ہارٹ نے اپنی کتاب ”دی ہنڈرڈ” میں حضرت محمد ۖ کو تاریخ کی سب سے مؤثر شخصیت قرار دیا، اور اس کی وجہ آپ ۖ کی دینی و دنیاوی دونوں میدانوں میں بے مثال کامیابی کو بتایا۔
مزید برآں، مختلف مذاہب کی آسمانی کتابیں اور روایات — اگرچہ صراحت کے ساتھ حضرت محمد ۖ کا نام نہیں لیتیں — لیکن بالواسطہ طور پر آپ ۖ کی آمد اور صفات کی پیش گوئی کرتی ہیں۔ مسیحی روایات میں انجیل یوحنا (باب 14:16، 15:26، اور 16:7) میں مذکور ”پیراکلیٹ” یا ”تسلی دینے والا” کے حوالے کو بہت سے محققین حضرت محمد ۖ کی پیش گوئی قرار دیتے ہیں، خاص طور پر جب اس لفظ کے اصل یونانی مفہوم کا تجزیہ کیا جائے۔ یہودی صحیفے استثناء 18:18 میں لکھا ہے:
”میں ان کے بھائیوں میں سے تیرے مانند ایک نبی ان کے لیے اٹھاؤں گا، اور اپنا کلام اس کے منہ میں رکھوں گا۔”
اسلامی علما اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ حضرت محمد ۖ، جو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے تھے، اس پیش گوئی کے مصداق ہیں کیونکہ آپ ۖ بنی اسرائیل سے نہیں بلکہ ان کے بھائیوں یعنی بنی اسماعیل سے تعلق رکھتے تھے، اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح شریعت لے کر آئے اور ایک قوم کی قیادت فرمائی۔
ہندو مذہبی کتب میں بھی ایسے حوالے موجود ہیں جنہیں بعض محققین آخری نبی کی پیش گوئی سے تعبیر کرتے ہیں۔ قدیم سنسکرت مذہبی کتاب بھوِشیہ پران میں ایک شخصیت ”مہامدا” کا ذکر ملتا ہے، جو ایک غیر ملکی سرزمین میں اصلاحات لائیں گے اور سچائی کا پرچار کریں گے۔
اگرچہ ان حوالوں کی تشریحات مختلف ہو سکتی ہیں، لیکن ایسے مقامات کو اس بات کا ثبوت قرار دیا گیا ہے کہ حضرت محمد ۖ کے پیغام کی آفاقیت کو مختلف تہذیبوں میں تسلیم کیا گیا تھا۔
بدقسمتی سے حالیہ برسوں میں دنیا بھر میں ایک نہایت تشویشناک رجحان سامنے آیا ہے—آزادی اظہار یا فنون لطیفہ کے نام پر جان بوجھ کر حضرت محمد ۖ کی عظمت کو نظر انداز کرنے، تمسخر اُڑانے یا کم تر دکھانے کی منظم کوششیں کی جا رہی ہیں۔ یورپی اشاعتی اداروں میں شائع ہونے والے گستاخانہ خاکوں سے لے کر توہین آمیز فلموں اور نفرت انگیز تقاریر تک، یہ تمام اشتعال انگیز اقدامات عالم اسلام کے جذبات کو مجروح کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ یہ رجحان، جسے اب اسلاموفوبیا کے نام سے جانا جاتا ہے، مذہبی نفرت کو معمول بنانے، معاشرتی تقسیم کو ہوا دینے، اور ایک ارب سے زائد مسلمانوں کے عقائد کو چیلنج کرنے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
پاکستان بھی ان خطرناک کوششوں سے محفوظ نہیں رہا۔ بعض مقامی اور غیر ملکی فنڈنگ سے چلنے والے عناصر نے خفیہ نظریاتی مہمات، نصابی بگاڑ اور قانونی چالاکیوں کے ذریعے رسول اکرم ۖ کے مرکزی مقام کو کمزور کرنے اور ختمِ نبوت کے عقیدے پر سوال اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ قادیانی عقائد کو اصل اسلام کے طور پر پیش کرنے یا اسلامی عقائد کے بارے میں الجھن پیدا کرنے کی یہ کوششیں اس وسیع تر عالمی ایجنڈے کا حصہ ہیں جو امتِ مسلمہ کی وحدت کو نقصان پہنچانے کے لیے سرگرم ہے۔ تاہم، ایسی تمام کوششوں کو نہ صرف مذہبی حلقوں کی جانب سے بلکہ پاکستانی پارلیمان، عدلیہ، اور عام عوام کی طرف سے بھی بھرپور مزاحمت اور ردعمل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
دنیا کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ اگرچہ مسلمان سیاست یا ثقافت میں اختلافات رکھتے ہیں، لیکن ایک بنیادی مسئلے پر وہ مکمل طور پر متحد ہیں اور وہ ہے حضرت محمد مصطفیٰ ۖ سے محبت، عقیدت اور عقیدہ? ختمِ نبوت۔ ایشیا سے لے کر افریقہ، یورپ سے لے کر امریکہ تک، مسلمانوں نے بارہا اس اتحاد کو عملی طور پر ثابت کیا ہے۔ پرامن احتجاج، علمی جوابات، قانونی درخواستیں اور بین الاقوامی سفارت کاری—سب ذرائع کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا گیا ہے کہ نبی کریم ۖ کی عظمت اور حرمت کا دفاع کیا جا سکے۔ یہ عالمی اتحاد اس بات کی یاددہانی ہے کہ رسول اکرم ۖ کی شان میں گستاخی کوئی معمولی سیاسی یا قانونی مسئلہ نہیں، بلکہ یہ مسلم شناخت کی روح پر حملہ ہے۔
قانونی اور سیاسی لحاظ سے دنیا کے کئی ممالک ایسے قوانین رکھتے ہیں جو مذہبی جذبات کے تحفظ اور نفرت انگیز تقاریر کی ممانعت کو یقینی بناتے ہیں، جن میں مقدس مذہبی شخصیات کی توہین بھی شامل ہے۔ یورپ کے متعدد ممالک جیسے جرمنی اور آسٹریا میں اگر کسی شخص نے مذہبی جذبات کو مجروح کیا تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے۔ حتیٰ کہ بھارت میں بھی تعزیراتِ ہند کی دفعات 295 اور295 اے کے تحت مذہبی برادریوں کے مقدسات اور شخصیات کی توہین کے خلاف تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔
یورپی عدالت برائے انسانی حقوق نے بھی اپنے سابقہ فیصلوں میں اُن افراد کی سزاؤں کو برقرار رکھا ہے جنہوں نے حضرت محمد ۖ کی شان میں گستاخی کی تھی، اور ان اقدامات کو نفرت انگیزی پر اُکسانے کے مترادف قرار دیتے ہوئے آزادی? اظہار کے دائرہ کار سے باہر تصور کیا ہے۔ تاہم، کوئی بھی ملک عقیدہ? ختمِ نبوت کے قانونی تحفظ کے معاملے میں پاکستان جتنا پُرعزم اور دوٹوک نہیں رہا۔ 1974ء میں ایک ملک گیر تحریک اور پارلیمنٹ میں تفصیلی بحث کے بعد، پاکستان کے آئین میں ترمیم کی گئی جس کے تحت قادیانیوں (احمدیوں) کو غیر مسلم قرار دیا گیا۔
یہ تاریخی فیصلہ مذہبی امتیاز کی بنیاد پر نہیں تھا، بلکہ اسلام کے اس بنیادی عقیدے — ختمِ نبوت — کے تحفظ کے لیے کیا گیا تھا۔ اگرچہ احمدی جماعت اپنے آپ کو مسلمان کہتی ہے، لیکن ان کے عقائد اس بنیادی اسلامی نظریے سے متصادم تھے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ، جو عوام کی نمائندہ ہے، نے طویل سماعتوں کے بعد یہ طے کیا کہ اس گروہ کا نظریہ اسلام کے متفقہ عقائد سے انحراف کرتا ہے۔ چنانچہ، پاکستان کے آئین میں دوسری آئینی ترمیم کے تحت واضح طور پر یہ شق شامل کی گئی
”جو شخص حضرت محمد مصطفیٰ ۖ کی ختم نبوت پر مکمل اور غیر مشروط ایمان نہیں رکھتا، وہ آئین اور قانون کی رُو سے مسلمان نہیں ہے۔”
بعد ازاں، 1984 میں آرڈیننس نافذ کیا گیا، جس کے تحت احمدیوں کو اپنے آپ کو مسلمان کہنے، اسلامی اصطلاحات استعمال کرنے، یا اپنے عقائد کو اسلام کے طور پر پیش کرنے سے روک دیا گیا۔ یہ قانون 1993 کے معروف ”ظہیر الدین کیس” میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے برقرار رکھا، جہاں عدالت نے قرار دیا کہ ریاست کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ عوامی نظم و ضبط کو قائم رکھنے اور فریب دہی کو روکنے کے لیے مذہبی اظہار پر ضابطہ لگا سکے۔عدالت نے بجا طور پر مشاہدہ کیا کہ مذہبی آزادی کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی گروہ کسی دوسرے مذہب کی علامات اور عبادات کو غلط طریقے سے پیش کرے یا ان کی نقالی کرے۔
یہ بات سمجھنا نہایت ضروری ہے کہ پاکستان کا یہ قانونی مؤقف کسی بھی فرقے یا کمیونٹی کے خلاف نفرت یا تشدد کو ہوا دینے کے لیے نہیں، بلکہ اسلامی عقائد کے تقدس کے تحفظ کے لیے ایک واضح اور دوٹوک حد کھینچنے کے مترادف ہے۔ پاکستان کے تمام شہری، چاہے وہ کسی بھی مذہب یا مسلک سے تعلق رکھتے ہوں، قانون کے تحت مساوی حقوق کے حامل ہیں، لیکن کسی کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ ذاتی یا سیاسی مفادات کے لیے کسی مذہب کے بنیادی عقائد کو مسخ کرے۔
حضرت محمد مصطفیٰ ۖ کی حرمت صرف ایک دینی مسئلہ نہیں، بلکہ مسلمانوں کے لیے ایک جذباتی، ثقافتی اور سیاسی معاملہ بھی ہے۔ جب کبھی نبی کریم ۖ کی شان میں گستاخی کی جاتی ہے — خواہ وہ گستاخانہ خاکوں، فلموں یا بیانات کی صورت میں ہو — تو پوری دنیا میں مسلمانوں کی جانب سے جو شدید ردِعمل سامنے آتا ہے، وہ عدم برداشت کی علامت نہیں، بلکہ آپ ۖ سے گہری عقیدت اور محبت کا فطری اظہار ہے۔آزادی? اظہار کے نام پر اس قسم کی اشتعال انگیزی صرف تہذیبوں کے درمیان کشیدگی کو ہوا دیتی ہے اور باہمی غلط فہمیوں کو مزید گہرا کرتی ہے۔
دنیا کو یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے کہ جس طرح یہودی اور عیسائی حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کے لیے احترام کا مطالبہ کرتی ہیں، اسی طرح مسلمان اپنے نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ ۖ سے کہیں زیادہ گہرا اور محافظانہ تعلق رکھتے ہیں۔ اسلام کے نبی ۖ نہ صرف آخری رسول ہیں بلکہ سچائی، رحمت اور عدل کا مجسم نمونہ ہیں۔ آپ ۖ کا پیغام آج بھی اربوں لوگوں کے لیے ہدایت کا چراغ ہے، اور آپ ۖ کی حرمت ہر چیز سے زیادہ مقدس ہے۔ لہٰذا دنیا کے ہر کونے میں — چاہے وہ عدالتیں ہوں، عبادت گاہیں، قدیم صحیفے یا اہلِ ایمان کے دل — نبی کریم ۖ کے احترام، عزت اور ختمِ نبوت کو تسلیم کرنا اور محفوظ رکھنا لازم ہے۔ یہ صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے ایک پکار ہے کہ وہ تعصب سے بالاتر ہو کر اُس عظیم ہستی کی حرمت کو پہچانے، جنہوں نے دنیا کے اخلاقی معیار کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبراسلام آباد میں چینی مہنگی بیچنے والوں کے خلاف ضلعی انتظامیہ کا بھرپور ایکشن مون سون کا چوتھا اسپیل یا تباہی؟تحریر عنبرین علی غیرت کے نام پر ظلم — بلوچستان کے المیے پر خاموشی جرم ہے آبادی پر کنٹرول عالمی تجربات اور پاکستان کے لیے سبق حلف، کورم اور آئینی انکار: سینیٹ انتخابات سے قبل خیبرپختونخوا اسمبلی کا بحران اور اس کا حل موسم اور انسانی مزاج کا تعلق چینی مافیا: ریاست کے اندر ریاستCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم