ٹک ٹاک کی ویڈیو دیکھ کر ملتان سے کراچی فریج لینے کے لئے آنے والے شہری کو سی ویو جانا مہنگا پڑ گیا

رپورٹ کے مطابق  بائیک رائیڈر "پردیسی" کو سمندر کنارے لیجاکر کپڑے، چپل، موبائل فون اور چالیس ہزار روپے لیکر غائب ہوگیا، عمران نامی متاثرہ شخص ملتان سے کراچی پہنچا تھا۔

متاثرہ شخص  نے کہا کہ کینٹ اسٹیشن پر شیرشاہ کے لئے آف لائن بائیک بک کرائی،  شیر شاہ مارکیٹ پہنچے تو مارکیٹ بند تھی، شیر شاہ سے کورنگی اپنے رشتے دار کے گھر جانے کے لئے اسی بائیک رائیڈر سے کہا۔

متاثرہ شخص  نے کہا کہ  راستے میں کلفٹن سی ویو آیا تو سمندر دیکھنے کے لئے رک گیا،  متاثرہ شخص سی ویو سمندر میں گیا کپڑے گیلے ہونے پر اپنے قمیض ،چپل بائیک رائیڈر کو دیئے۔

اس نے مزید بتایا کہ سمندر میں گیا وہاں سے دیکھا تو بائیک رائیڈر غائب تھا، میرے قمیض کی جیب میں چالیس ہزار نقد ، موبائل فون شناختی کارڈ و دیگر اشیاء موجود تھیں۔

بائیک رائیڈر کے ہاتھوں لٹنے والا شہری بغیر قیمض اور ننگے پاؤں سی ویو چوکی پہنچا ، پولیس نے کہا کہ  متاثرہ شہری کی درخواست وصول کرلی ہے، کارروائی جاری ہے۔

 

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

پاکستان سے تجارت کم کرنا طالبان رجیم کو کتنا مہنگا پڑے گا؟

افغانستان کے تاجروں کو پاکستان کے بجائے متبادل راستے تلاش کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے جو کہ ایک مشکل کام ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔ یہ کہنا تھا پڑوسی ملک افغانستان میں طالبان حکومت کے نائب وزیراعظم ملا عبدالغنی برادر کا جو کچھ دن پہلے کابل میں افغان تاجروں سے ملاقات میں انہیں واضح طور پر بتا چکے تھے کہ پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات بہتر ہونے کے امکانات محدود ہیں اور اس کا اثر تجارت پر مزید پڑے گا۔

یہ بھی پڑھیں: پاک افغان نیا زرعی تجارتی معاہدہ، بلوچستان کے زمینداروں اور پھل سبزی فروشوں کو تحفظات کیوں؟

ملا برادر سے ملاقات کے بعد افغان تاجر کافی پریشان ہیں۔ ملا برادر کے بیانات اور افغان تاجروں کی پریشانی سے واضح ہو رہا ہے کہ پاکستان سے تجارت افغانستان کے لیے کتنی آسان، سستی اور اہم ہے اور اگراسے کم کیا گیا تو افغان معیشت پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔

سیاست اور خراب سفارتی تعلقات کے باعث تجارتی حجم میں کمی

پاک افغان تجارت سے منسلک تاجروں کے مطابق پاک افغان سفارتی تعلقات کا تجارت پر منفی اثر پڑا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ تجارتی حجم میں اضافے کی بجائے کمی آرہی ہے اور اب نوبت تجارت ختم ہونے کی دہانے پر پہنچی ہے جس سے دونوں ملکوں کو نقصان ہو رہا ہے۔

پاک افغان چیمبر آف کامرس کے کوآرڈینیٹر ضیاء اللہ سرحدی کے مطابق پاک افغان تجارت ہمیشہ سفارتی تعلقات کی کشمکش کی نذر ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بارڈر بندش، نئی پالیسیز اور سختیوں سے نقصان صرف تاجروں کا ہوتا ہے۔

مزید پڑھیے: سیاست اور خراب سفارتی تعلقات، پاک افغان تجارت میں کتنا نقصان ہورہا ہے؟

ضیاء اللہ کے مطابق سنہ 2010 تک تجارت عروج پر تھی جس کے بعد پابندیوں اور نئے شرائط نے تجارت کو زبوں حالی کا شکار کر دیا اور افغان ٹریڈ چابہار کی طرف منتقل ہو گئی۔ انہوں نے کہا کہ 70 فیصد تجارت جو یہاں سے ہو رہی تھی وہ اب چابہار منتقل ہو گئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ گزشتہ چند سالوں میں دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان کشیدگی نے تجارت کو شدید متاثر کیا ہے۔

تاجروں کے مطابق دوطرفہ تجارتی حجم ڈھائی ارب ڈالر تھا جو اب ایک ارب ڈالر سے بھی کم ہو گیا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ چابہار اور دیگر روٹ استعمال کرنا مجبوری ہے اور یہ پاکستان کے روٹ کے مقابلے میں مہنگے اور مشکل بھی ثابت ہوتے ہیں۔

مزید پڑھیں: پاک افغان معاہدہ طے، کن سبزی و پھلوں کی تجارت ہوگی، ٹیرف کتنا؟

اگرچہ افغان طالبان حکومت نے اپنے تاجروں کو واضح بتا دیا ہے کہ پاکستان سے تجارت کم کریں لیکن افغان تاجر اس فیصلے سے خوش نہیں ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان کے ذریعے یا پاکستان کے راستے ٹرانزٹ ٹریڈ آسان اور سستی ہے۔

پاک افغان تجارت سے وابستہ پشاور میں مقیم ایک افغان تاجر نے بتایا کہ پاکستان سے تجارت ختم کرنا ان کے لیے معاشی طور پر قتل کے برابر ہے۔ انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پاکستان میں تمام افغان تاجروں کے تعلقات مضبوط ہیں اور اچانک کسی دوسرے ملک کی طرف تجارت منتقل کرنا ممکن نہیں۔

’دونوں جانب سے تاجر تجارت کے فروغ کے حق میں ہیں‘

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی مارکیٹ افغان تاجروں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور پاکستانی تاجر بھی باہمی تجارت کے فروغ کے حق میں ہیں۔

تاجر نے کہا کہ پاکستان سے تجارت ختم کرنا ایسا ہے جیسے تاجروں کو کنویں میں دھکیل دیا جائے۔

افغان تاجر کے مطابق پاک افغان تجارت میں کمی یا خاتمے سے دونوں جانب نقصان ہوگا لیکن افغانوں کا نقصان زیادہ ہوگا اور عام عوام بھی متاثر ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیے: پاک افغان تعلقات میں بہتری، تجارت 3 گنا بڑھانے کا ہدف

وہ کہتے ہیں کہ حالیہ سرحد بندش سے افغان کسانوں کو بہت نقصان اٹھانا پڑا کیونکہ انگور، انار اور دیگر پھلوں کی ترسیل نہیں ہو سکی۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان سے مال چند گھنٹوں میں پہنچ جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پنڈی یا پشاور سے اگر مال صبح روانہ کیا جائے تو شام تک افغانستان کے کسی بڑے شہر پہنچ جاتا ہے۔

افغان تاجروں کے پاس متبادل راستے محدود اور مہنگے ہیں۔ انڈیا، چین اور تاجکستان کے راستے استعمال کرنے میں وقت زیادہ لگتا ہے اور لاگت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے زمینی راستے افغانستان کے لیے سب سے آسان، سستا اور قابل اعتماد ہیں۔

پاک افغان تجارت

پاکستان سے افغانستان میں آٹا، چینی، دالیں، گھی، سبزیاں، تازہ پھل، ادویات، تعمیراتی سامان اور روزمرہ استعمال کی اشیا پہنچتی ہیں جبکہ افغانستان سے پاکستان الیکٹرانکس، سبزیاں، پھل اور دیگر درآمد شدہ مصنوعات بھیجی جاتی ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق پاک افغان تجارت سے نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان کو بھی فائدہ پہنچ رہا ہے لیکن افغانستان کو اس کی زیادہ ضرورت ہے اور وہ پاکستان پر زیادہ انحصار کرتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

افغان تاجر افغانستان پاک افغان تجارت پاک افغان تجارتی روٹ پاکستان

متعلقہ مضامین

  • خاتون کی قابل اعتراض تصاویر پھیلانے والے کو 3 سال قید
  • ماہرہ خان کو دیکھ کر نوجوان جذبات پر قابو نہ رکھ سکا، ویڈیو وائرل
  • خاتون کی قابلِ اعتراض تصاویر پھیلانے والے کو 3 سال قید کا حکم
  • مظفرگڑھ: خواتین ٹیچرز سے مبینہ زیادتی، متاثرہ خاتون کو مقدمہ واپس لینے کی دھمکیاں
  • انسانی اسمگلروں کے جھانسے میں آنے والے 170 افراد کی لیبیا سے بنگلہ دیش واپسی
  • لسانیات کا چورن بیچنے والے ہمیشہ روتے ہی رہیں گے‘سعدیہ جاوید
  • کراچی میں ٹریفک حادثات، خاتون رائیڈر سمیت 2 افراد جاں بحق، دو زخمی
  • پاکستان سے تجارت کم کرنا طالبان رجیم کو کتنا مہنگا پڑے گا؟
  • کراچی کینٹ اسٹیشن کی اپ گریڈیشن دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ہے:وزیراعظم
  • لسانیات کا چورن بیچنے والے ہمیشہ روتے ہی رہیں گے، سعدیہ جاوید