UrduPoint:
2025-12-13@01:08:55 GMT

عورتیں جو جینا چاہتی تھیں

اشاعت کی تاریخ: 21st, April 2025 GMT

عورتیں جو جینا چاہتی تھیں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 اپریل 2025ء) گزشتہ ہفتے سندھ کی دو مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والی دو خودمختار خواتین کو بے دردی سے قتل کیا گیا لاڑکانہ کی سرکاری اسکول ٹیچر صدف حاصلو اور میرپورخاص کی پولیس اہلکار مہوش جروار۔ دونوں کے قاتل پولیس سے تعلق رکھنے والے مرد تھے۔ یعنی اسی ادارے کے نمائندے، جس پر ان کے تحفظ کی ذمہ داری تھی۔

صدف حاصلو، لاڑکانہ کی ایک باہمت لڑکی تھی، جس نے والد کے انتقال کے بعد اپنی ماں کے ساتھ مل کر گھر کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ وہ کبھی پرائیویٹ اسکولوں میں معمولی تنخواہ پر پڑھاتی رہی، کبھی بچوں کو ٹیوشن دیتی رہی اور بالآخر اپنی محنت سے ایک سرکاری اسکول میں ٹیچر لگ گئیں۔ لیکن ایک خودمختار عورت اس معاشرے کو کب قبول ہوتی ہے؟

ایک پولیس اہلکار صدف سے شادی کا خواہشمند تھا۔

(جاری ہے)

صدف کی ماں نے اس کا نکاح تو اس پولیس اہلکار سے پڑھوا دیا، لیکن رخصتی سے پہلے کچھ شرائط رکھی۔ مگر چونکہ لڑکا پولیس میں تھا، اس نے سمجھا کہ اب صدف پر اس کا مکمل حق ہے۔ وہ بار بار صدف کے گھر آتا، دھمکاتا اور ایک دن بندوق اٹھا کر زبردستی کرنے پہنچ گیا۔ صدف نے ہمت دکھائی، خلع کا فیصلہ کیا اور تحفظ کے لیے عدالت سے رجوع بھی کیا۔ لیکن کون سنتا ہے ایک عام سی اسکول ٹیچر کی فریاد؟ نہ تحفظ ملا، نہ انصاف۔

چند دن بعد، جب صدف اسکول سے واپس آ رہی تھی، تو اسی پولیس اہلکار نے سرِعام اسے گولی مار کر قتل کر دیا۔ آج بھی وہ قاتل آزاد گھوم رہا ہے، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

دوسری خاتون، مہوش جروار جو ایک پولیس کانسٹیبل تھی۔ مہوش جروار، ایک یتیم لڑکی، جس کا باپ برسوں پہلے دنیا سے رخصت ہو چکا تھا، اپنی ماں کے ساتھ غربت کے سائے میں پلی بڑھی۔

دو سال پہلے اسے پولیس میں کانسٹیبل کی نوکری ملی۔ یہ نوکری اس کے لیے ایک امید تھی، ایک نئی زندگی کی راہ۔ مگر اس نظام میں نوکری نہیں، صرف کمزوروں کا استحصال بکتا ہے۔

مہوش کی پوسٹنگ میرپورخاص سینٹرل جیل میں ہوئی۔ پھر پولیس اہلکار یوسف کھوسہ نے اسے مسلسل بلیک میل کرنا شروع کر دیا۔ تنگ آ کر مہوش نے اپنی پوسٹنگ حیدرآباد کروالی، لیکن حالات اور غربت اسے دوبارہ میرپورخاص کھینچ لائی۔

پھر ایک دن وہی وردی جو اس کی پہچان تھی، اس کی لاش پر موجود تھی۔ مہوش اپنی پولیس کی وردی ہی میں پھندے سے جھولتی پائی گئی۔

ایک بات طے ہے، مہوش اس بلیک میلنگ سے تھک چکی تھی، اس نے آواز اٹھانے کی کوشش کی، مقام بدلا، شکایات درج کروائیں، مگر سسٹم نے کبھی اس کی بات سننا گوارا نہ کی۔ حیدرآباد میں ایف آئی اے کے دفتر میں ایک شکایت 2 جنوری کو درج ہوئی اور ابھی اپریل چل رہا ہے۔

مگر اس کی تفتیش کا کوئی پتہ نہیں۔ نہ کوئی فون، نہ کوئی طلبی، نہ کوئی پیش رفت۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ اگر صدف اور مہوش جیسی تعلیم یافتہ، بہادر، محنتی عورتیں بھی اس معاشرے میں محفوظ نہیں، تو پھر تحفظ کی ضمانت کس کے پاس ہے؟ یہ دو کہانیاں محض دو عورتوں کی نہیں، بلکہ اس پورے نظام کی ناکامی کی کہانی ہیں۔ ایک ایسا نظام جو عورت کو صرف اس وقت برداشت کرتا ہے جب وہ خاموشی سے سر جھکائے، "ہاں" کہنا سیکھ لے اور اپنی خودمختاری قربان کر دے۔

صدف اور مہوش جیسے بے شمار چہرے ہیں جو روز کام پر جاتے ہیں، خود کو اور اپنے گھر والوں کو سنبھالتے ہیں اور اس امید پر زندہ رہتے ہیں کہ شاید ایک دن یہ معاشرہ انہیں جینے کا حق دے گا۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پولیس اہلکار

پڑھیں:

کھسیانی بلی، کھمبا نوچے

گزشتہ مئی میں پاکستان نے بھارت کے خلاف جو آپریشن بنیان مرصوص کیا اور اس کے نتیجے میں بھارت کو جس ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا، اس کی بازگشت پوری دنیا میں سنائی دی اور مہینوں ایک نسبتاً بہت چھوٹی طاقت کے ہاتھوں ایک بڑی طاقت کی ایسی درگت کو دنیا بھر نے دیکھا، سنا، تبصرے کیے اور دھوم مچ گئی۔

ظاہر ہے اس ہزیمت نے بھارت کو جھنجھلاہٹ میں مبتلا کر دیا۔ خبریں آنے لگیں کہ بھارت دوسرا آپریشن سندور کرنے والا ہے جس میں پاکستان کو سبق بھی سکھا دیا جائے گا اور اس شکست کا انتقام بھی لے لیا جائے گا۔

شکست کو تو بھارت نے ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کیا تھا چنانچہ وہ اس جنگ میں اپنی فضائیہ کو پہنچنے والے نقصانات کے اعتراف سے کنی کترا رہا ہے اور کسی طور یہ ماننے کو تیار نہیں ہوا کہ پاکستان نے اس کو غیر معمولی نقصانات پہنچائے ہیں لیکن زخم تو لگے تھے، اب کھسیانی بلی کھمبا نوچ رہی ہے۔

چند ماہ بعد جب بھارت کے ارباب حل و عقد کی سانسیں بحال ہوئیں اور وہ حملہ وملا کرنے کے ارادوں کو بالائے طاق رکھ کر اپنے پرانے حربوں پر اتر آئے ہیں۔ اب وہ پاکستان کو خود شکست دینے کا خواب بالائے طاق رکھ کر اندر سے پاکستان کی خودکشی کی آس لگا بیٹھے ہیں۔

چنانچہ پچھلے دنوں بھارت کے وزیر ’’جنگ و جدل‘‘ راج ناتھ سنگھ گویا ہوئے کہ پاکستان میں اندر سے ٹوٹ پھوٹ ہونے والی ہے اور یہ کہ صوبہ سندھ جس کا کلچر قدیم بھارتی ثقافت یعنی موئن جو دڑو کے مطابق ہے جلد ہی وہاں ثقافتی یلغار ہونے والی ہے۔

انھوں نے اپنی زبان میں کہا کہ ’’ پاکستان وجود میں تو آگیا مگر اصل چیز ثقافتی اور تہذیب اقدار ہیں جو باقی رہتی ہیں۔ رہی سرحدیں تو وہ تو بدلتی رہتی ہیں اور کسے پتا کہ کب پاکستان کی سرحدوں میں تبدیلی واقع ہو جائے۔‘‘

راج ناتھ سنگھ جی نے درست فرمایا مگر سندھ کی تہذیب کو دور دراز تک لے جا کر موئن جو دڑو کے کھنڈرات سے ملا کر اپنی امیدوں اور آرزوؤں کو اس دور دراز کی شے سے ہم آہنگ کرنا محض تکلف ہے۔ راج ناتھ جی نے یہ بات نظرانداز کر دی ہے موئن جو دڑو کے بعد سندھ کے دریا سے بہت پانی بہہ گیا ہے۔ سندھ کی تہذیب، اس کے لباس، اس کی زبان ، اس کے رسم الخط اور اس کی تہذیبی روایات اب مسلم ثقافت سے ایسی اور اتنی ہم آہنگ ہو چکی ہیں کہ انھیں اس سے دورکرنا بڑا مشکل کام ہے اور یہ محض آرزومندی تو ہو سکتی ہے ہوش مندی ہرگز نہیں۔

 سندھی زبان عربی (اسلامی) الفاظ سے مالا مال ہے، اس کا رسم الخط عربی رسم الخط ہے۔ سندھ مہمان نوازی اور بھائی چارے اور برداشت کی خوبیوں کا حامل صوبہ ہے۔ یہ وہی صوبہ ہے جس نے پاکستان میں شمولیت میں پہل کی تھی اور سب سے آگے بڑھ کر پاکستان کے وجود میں ضم ہوا تھا۔

اس لیے پاکستان کی اس کی علیحدگی کا تصور بھارتی آرزو مندی تو ہو سکتی ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔جاننے والے جانتے ہیں کہ بھارت پاکستان کے ہر صوبے میں اپنی اس آرزو کو آزماتا رہا ہے مگر اسے ناکامی اور نامرادی کے علاوہ کچھ نہ مل سکا۔ اب اس بار میدان جنگ میں ہزیمت سے دوچار ہونے کے بعد ایک بار پھر اپنی آرزو مندی کو بروئے کار لانے کے لیے سندھ کا انتخاب فرمایا مگر:

اے بسا آرزو کہ خاک شدی

لیکن ایک بات انھوں نے درست کہی کہ سرحدوں کا کوئی اعتبار نہیں، یہ بدلتی رہتی ہیں اور نہیں کہا جاسکتا کہ کب کون سی سرحد بدل جائے اور اس اصول کا اطلاق بھارت پر بھی تو ہو سکتا ہے۔ بھارتی پنجاب، بھارت سے اکتایا بیٹھا ہے، نہیں کہا جاسکتا کہ کب بھارتی پنجاب کی سرحدیں ہی تبدیل ہو جائیں۔ادھر جنوبی بھارت میں وقفے وقفے سے علیحدگی کی آوازیں اٹھتی رہتی ہیں۔ آخر رام چندرجی نے لنکا کو بھارت کا حصہ بنا دیا تھا مگر آج لنکا ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے، کل کو بھارت کا کوئی بھی اٹوٹ انگ اگر ٹوٹ پڑا توکیا ہوگا۔

پاکستان کی فکرکرنے کے بجائے راج ناتھ جی کو بھارت میں علیحدگی کی اٹھنے والی آوازوں کو غور سے سننا چاہیے۔ کہیں یہ آوازیں محض آوازیں نہ رہیں اور ان کے بیان کردہ اصول کے مطابق کہ سرحدوں کا اعتبار نہیں جانے کب بدل جائیں۔

آج ناتھ سنگھ نے جو بات اب واضح طور پرکہہ دی ہے وہ بھارتی لیڈر شپ کا اصول طرز فکر رہا ہے۔ پاکستان کی تخلیق سب جانتے ہیں کہ بھارت کی سخت مخالفت کے باوجود عمل میں آئی تھی چنانچہ اس کی تخلیق اس کے پہلے دن سے بھارت اس کے وجود کی مخالفت پر کمربستہ رہا ہے اور اس کی تباہی اور بربادی کا خواہش مند رہا ہے اور اس نے یہ بات چھپا کر نہیں رکھی ہے۔ جب بھی متوقع ملا اس نے کھل کر کھیلا بھی ہے۔

مگر اس بار وہ یہ موقع تلاش کرتا ہی رہ گیا اور انشا اللہ تلاش کرتا ہی رہے گا مگر کچھ نہ پا سکے گا۔ اب پاکستان بھی تجربات سے گزر کر دشمن کے ہتھ کنڈوں سے آگاہ ہو چکا ہے۔ اب پاکستانی قوم خدا پر بھروسہ رکھتے ہوئے اپنے اتحاد پر قائم رہنے کا عہد کیے ہوئے ہے اور بھارت کی ’’توقعات‘‘ سے بے خوف ہو کر حمایت ایزدی کے بل بوتے پر زندہ رہنے کے فن سے آشنا ہو چکی۔

متعلقہ مضامین

  • اسکاٹ لینڈ‘ ایڈنبرگ ائرپورٹ کی فلائٹ آپریشن بحال
  • پیپلز پارٹی جمہوریت کی علمبردار، تمام جماعتوں کو ساتھ لیکر چلنا چاہتی ہے ‘ سردار سلیم حیدر 
  • ایک نہ ایک دن سب کو چلے جانا ہے!
  • کھسیانی بلی، کھمبا نوچے
  • چارسدہ میں رشتے کے تنازعہ پر فائرنگ، دو خواتین ٹیچر قتل
  • چارسدہ: نامعلوم حملہ آوروں کی فائرنگ سے 2 خاتون ٹیچرز جاں بحق
  • پی ٹی آئی ملک میں افراتفری چاہتی ہے،عون چودھری
  • خاتون ڈی ایس پی کا بزنس مین سے محبت کا ڈھونگ؛ کروڑوں ہتھیالیے؛ ہوٹل بھی نام کرالیا
  • ’میں نے غلطی کی‘رنبیر کپور سے تعلق ختم ہونے پر کترینہ کیف کا ردعمل
  • خورشید شاہ نے پی ٹی آئی کو فون کر کے کہا تھا ووٹ دیتے ہیں حکومت بنا لیں: مصدق ملک کا دعویٰ