اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 اپریل 2025ء) گزشتہ ہفتے سندھ کی دو مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والی دو خودمختار خواتین کو بے دردی سے قتل کیا گیا لاڑکانہ کی سرکاری اسکول ٹیچر صدف حاصلو اور میرپورخاص کی پولیس اہلکار مہوش جروار۔ دونوں کے قاتل پولیس سے تعلق رکھنے والے مرد تھے۔ یعنی اسی ادارے کے نمائندے، جس پر ان کے تحفظ کی ذمہ داری تھی۔
صدف حاصلو، لاڑکانہ کی ایک باہمت لڑکی تھی، جس نے والد کے انتقال کے بعد اپنی ماں کے ساتھ مل کر گھر کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ وہ کبھی پرائیویٹ اسکولوں میں معمولی تنخواہ پر پڑھاتی رہی، کبھی بچوں کو ٹیوشن دیتی رہی اور بالآخر اپنی محنت سے ایک سرکاری اسکول میں ٹیچر لگ گئیں۔ لیکن ایک خودمختار عورت اس معاشرے کو کب قبول ہوتی ہے؟
ایک پولیس اہلکار صدف سے شادی کا خواہشمند تھا۔
(جاری ہے)
صدف کی ماں نے اس کا نکاح تو اس پولیس اہلکار سے پڑھوا دیا، لیکن رخصتی سے پہلے کچھ شرائط رکھی۔ مگر چونکہ لڑکا پولیس میں تھا، اس نے سمجھا کہ اب صدف پر اس کا مکمل حق ہے۔ وہ بار بار صدف کے گھر آتا، دھمکاتا اور ایک دن بندوق اٹھا کر زبردستی کرنے پہنچ گیا۔ صدف نے ہمت دکھائی، خلع کا فیصلہ کیا اور تحفظ کے لیے عدالت سے رجوع بھی کیا۔ لیکن کون سنتا ہے ایک عام سی اسکول ٹیچر کی فریاد؟ نہ تحفظ ملا، نہ انصاف۔چند دن بعد، جب صدف اسکول سے واپس آ رہی تھی، تو اسی پولیس اہلکار نے سرِعام اسے گولی مار کر قتل کر دیا۔ آج بھی وہ قاتل آزاد گھوم رہا ہے، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
دوسری خاتون، مہوش جروار جو ایک پولیس کانسٹیبل تھی۔ مہوش جروار، ایک یتیم لڑکی، جس کا باپ برسوں پہلے دنیا سے رخصت ہو چکا تھا، اپنی ماں کے ساتھ غربت کے سائے میں پلی بڑھی۔
دو سال پہلے اسے پولیس میں کانسٹیبل کی نوکری ملی۔ یہ نوکری اس کے لیے ایک امید تھی، ایک نئی زندگی کی راہ۔ مگر اس نظام میں نوکری نہیں، صرف کمزوروں کا استحصال بکتا ہے۔مہوش کی پوسٹنگ میرپورخاص سینٹرل جیل میں ہوئی۔ پھر پولیس اہلکار یوسف کھوسہ نے اسے مسلسل بلیک میل کرنا شروع کر دیا۔ تنگ آ کر مہوش نے اپنی پوسٹنگ حیدرآباد کروالی، لیکن حالات اور غربت اسے دوبارہ میرپورخاص کھینچ لائی۔
پھر ایک دن وہی وردی جو اس کی پہچان تھی، اس کی لاش پر موجود تھی۔ مہوش اپنی پولیس کی وردی ہی میں پھندے سے جھولتی پائی گئی۔ایک بات طے ہے، مہوش اس بلیک میلنگ سے تھک چکی تھی، اس نے آواز اٹھانے کی کوشش کی، مقام بدلا، شکایات درج کروائیں، مگر سسٹم نے کبھی اس کی بات سننا گوارا نہ کی۔ حیدرآباد میں ایف آئی اے کے دفتر میں ایک شکایت 2 جنوری کو درج ہوئی اور ابھی اپریل چل رہا ہے۔
مگر اس کی تفتیش کا کوئی پتہ نہیں۔ نہ کوئی فون، نہ کوئی طلبی، نہ کوئی پیش رفت۔افسوس کی بات یہ ہے کہ اگر صدف اور مہوش جیسی تعلیم یافتہ، بہادر، محنتی عورتیں بھی اس معاشرے میں محفوظ نہیں، تو پھر تحفظ کی ضمانت کس کے پاس ہے؟ یہ دو کہانیاں محض دو عورتوں کی نہیں، بلکہ اس پورے نظام کی ناکامی کی کہانی ہیں۔ ایک ایسا نظام جو عورت کو صرف اس وقت برداشت کرتا ہے جب وہ خاموشی سے سر جھکائے، "ہاں" کہنا سیکھ لے اور اپنی خودمختاری قربان کر دے۔
صدف اور مہوش جیسے بے شمار چہرے ہیں جو روز کام پر جاتے ہیں، خود کو اور اپنے گھر والوں کو سنبھالتے ہیں اور اس امید پر زندہ رہتے ہیں کہ شاید ایک دن یہ معاشرہ انہیں جینے کا حق دے گا۔نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پولیس اہلکار
پڑھیں:
ایک نہ ایک دن سب کو چلے جانا ہے!
اونچ نیچ
۔۔۔۔۔۔۔
آفتاب احمد خانزادہ
انتھونی ہاپکنز نے ایک بار کہا تھا: دوسرے میرے بارے میں کیا سوچتے ہیں یا کہتے ہیں اس سے مجھے کوئی سروکار نہیں ہے۔ میں صداقت کے ساتھ جیتا ہوں، اس بات کی بنیاد پر کہ میں کون ہوں اور میری کیا قدر ہے۔ میں توثیق کا پیچھا نہیں کرتا یا دوسروں کی رائے سے چمٹا نہیں رہتا، کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ حقیقی سکون زندگی کی نعمتوں اور اس کے چیلنجوں کو کھلے بازوؤں سے قبول کرنے سے حاصل
ہوتا ہے۔ توقعات کو چھوڑ کر اور تمام تجربات کا خیرمقدم کرتے ہوئے، مجھے ایک قسم کی آزادی ملتی ہے جو ہر دن کو ہلکا اور زیادہ پورا کرنے
والا بناتی ہے۔ہم ایک ایسے وقت میں رہتے ہیں جب ظاہری شکل دل سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے، اور تقریبات اکثر ان جذبات سے
کہیں زیادہ ہوتی ہیں جن کا مقصد ان کا احترام کرنا ہوتا ہے۔ ایک ایسی دنیا جہاں لوگ شاندار ڈسپلے پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، پھر بھی کنکشن اور موجودگی کی پرسکون، ضروری خوبصورتی کو نظر انداز کرتے ہیں۔ جنازوں کو خراج تحسین کے طور پر تیار کیا جاتا ہے، پھر بھی اکثر منائے جانے والے شخص کے جوہر سے محروم رہتے ہیں۔ شادیاں دو لوگوں کے درمیان محبت سے زیادہ شو کے بارے میں بن جاتی ہیں۔ ہم تصاویر، لیبلز، اور تعریفوں کی قدر کرتے ہیں، جو اکثر اندر کی روح، کردار اور مہربانی کو نظر انداز کرتے ہیں۔ ظاہری شکل کے اس کلچر میں، واقعی معنی خیز چیز کو نظر انداز کرنا آسان ہے۔لیکن میں مختلف طریقے سے رہنے کا انتخاب کرتا ہوں۔ میں سطح سے آگے جانے، ڈسپلے پر گہرائی کی قدر کرنے، اور ان چیزوں کو ترجیح دینے کے لیے پرعزم ہوں جن کو پسندیدگیوں یا لیبلز سے ماپا نہیں جا سکتا۔
زندگی اس وقت امیر ہو جاتی ہے جب ہم لوگوں کو ان کی روحوں کے لیے، ان کی گرمجوشی کے لیے، اور ان کے حقیقی روابط کے لیے
جو وہ ہماری زندگیوں میں لاتے ہیں۔ دوسروں کے لیے منظوری حاصل کرنے یا پرفارم کرنے کے لامتناہی چکر میں پھنسنے سے بچنے کے
لیے شور سے پیچھے ہٹنا آزاد ہے۔ اس کے بجائے، میں اپنی اقدار کو پروان چڑھانے، بامعنی تعلقات استوار کرنے، اور زندگی کو
خوبصورت بنانے والے چھوٹے، مستند لمحات میں خوشی تلاش کرنے پر توجہ مرکوز کرتا ہوں۔اس طرح زندگی گزارنا ظہور کے جنون میں
مبتلا دنیا میں بغاوت کا خاموش عمل ہے۔ یہ ظاہری نمائش پر اندرونی طاقت، رسم پر محبت، اور معاشرے کے معیارات پر دل کی سچائیوں
کا احترام کرنے کا انتخاب کر رہا ہے۔ میں سادگی اور مادہ کو قبول کرتا ہوں، یہ سمجھتے ہوئے کہ حقیقی قناعت اسپاٹ لائٹ میں نہیں بلکہ
امن، شکرگزاری اور حقیقی تعلق کے لمحات میں پائی جاتی ہے۔لہذا، میں فیصلے کے شور یا موافقت کے دباؤ سے بے نیاز ہوکر اپنے راستے
پر چلتا رہوں گا۔ میں جیسا کہ میں ہوں کافی ہوں، اور میری زندگی اس چیز کی قدر کرنے کے لیے زیادہ امیر ہے جو واقعی اہم ہے۔ ایک
ایسی دنیا میں جو اکثر تحفے سے زیادہ لپیٹنے کو اہمیت دیتی ہے، میں جیسا کہ میں ہوں، مستند طور پر، غیر معذرت کے ساتھ، اور خوشی سے
زندگی گزارنے کا انتخاب کرتا ہوں، یہ جان کر کہ حقیقی دولت ان دیکھی خصوصیات میں پنہاں ہے جو روح کی تشکیل کرتی ہیں۔ہمارے
غصے ، جھنجھلا ہٹ، طیش میں آنے، احساس بربری کا شکار ہوجانے ، نفرت ، اپنے آپ کو ناگزیر سمجھنے، صرف اپنے آپ سے محبت کرنے
کے پیچھے حالات و واقعات نہیں ہوتے بلکہ ہماری ذہنی و جسمانی بیماریاں ہوتی ہیں اگر ہم ذہنی و جسمانی طور صحت مند ہونگے تو ہمارے
روئیے بھی صحت مند ہونگے جب روئیے صحت مند ہونگے تو ان سے صحت مند حالات و واقعات کا جنم ہوگا لیکن اگر ہم ذہنی و جسمانی
طورپر بیمار ہونگے تو ہمارے روئیے بھی بیمار ہونگے اور جب روئیے بیمار ہونگے تو پھر اس سے بیمار حالات و واقعات جنم لیں گے ایسا
ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی صحت مند آدمی غصے، جھنجھلاہٹ، احساس بر تری یا صرف اپنے آپ سے محبت کرنے جیسی بیماریوں کا شکا ر
ہوجائے ۔ اس لیے اگر آپ کو کوئی شخص غصے، جھنجھلاہٹ ، طیش میں بے تکی باتیں یا تقریر کرتے ہوئے نظر آئے تو آپ کارویہ اس کے
ساتھ وہ ہی ہونا چاہیے جو ایک بیمار آدمی کے ساتھ آپ کا ہوتا ہے اس لیے آئیں سب سے پہلے تو ہم اپنے ملک کے سب ذہنی و جسمانی
بیماریوں کے لیے مل کر دعا کریں ۔ یہ اس لیے بھی بہت ضروری ہے کیونکہ بیمار سخت بے سکونی کا شکار ہوتے ہیں ۔ سارتر لکھتاہے کہ ”
میری ماں صرف یہ دعا مانگتی تھی کہ اسے سکون نصیب ہو ‘ ‘ جبکہ سیموئیل جانسن کہتاہے ” اطمینان کے سوتے ذہن سے پھوٹتے ہیں اور
انسانی فطرت کے بارے میں وہ کم علم جو اپنی بجائے دوسری چیزوں کو تبدیل کرکے خو شیوں کے حصول کے متمنی ہوتے ہیں وہ نہ صرف
اپنی تمام کوششوں کو ضائع کرتے ہیں بلکہ ان ہی غموں کو اپنے لیے بڑھا لیتے ہیں جن کو ختم کرنے کے لیے وہ ساری جدو جہد کررہے
ہوتے ہیں ”۔
یاد رہے جب ہم مسائل کا شکار ہوتے ہیں اور یہ سو چتے ہیں کہ مسئلہ کہیں باہر ہے تو دراصل یہ سو چ ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے یہ کہہ کر ہم اپنا کنٹرول اس باہر کے مسئلے کے ہاتھ میں دیتے ہیں لیکن کبھی بھی مسئلہ باہر نہیں ہوتا مسئلہ ہمیشہ اندر ہوتاہے ۔ اسی لیے ایمر سن کہتا تھا کہ ” تم جو کچھ ہو اس ہونے کا شو ر میرے کانوں میں اسی قدر زیادہ ہے کہ تم جو کچھ کہتے ہو وہ مجھے سنائی نہیں دیتا ” ۔اب ہمارے ملک کے اہم کرداروں کو ہی لے لیجئے جو یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ان کے ساتھ ناانصافی اور زیادتی کی جارہی ہے غصے، طیش اور جھنجھلاہٹ کے عالم میں وہ سب کو برا بھلا کہنے میں مصروف ہیں یہ سو چے سمجھے بغیر کہ مسئلہ باہر نہیں ہے بلکہ مسئلہ خود ان کے اندر ہے اور یہ وہ بات تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں حتی کہ انہوں نے نا سمجھی میں اپنی ہر چیز دائو پر لگا دی ہے نتیجے میں مسئلے نے تو کیا ختم ہونا تھا انہوں نے اپنی لیے ان گنت اور نئے مسائل پیدا کردئیے ہیں وقت کے ساتھ ساتھ یہ نئے مسائل اور نئے مسائل کو جنم دیں گے او ر وہ مسائل اور نئے مسائل کو جنم دیں گے اور پھر وہ وقت آجائے گا کہ وہ اگر چاہیں گے بھی تو کبھی اپنے مسائل سے نکل ہی نہیں پائیں گے اصل میں ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ ہم اپنی دنیا کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ اس عینک پر بھی غور کر لیاکریں کہ جس کے ذریعے ہم یہ سب کچھ دیکھ رہے ہوتے ہیںدنیا کے بارے میں ہمارے خیالا ت کی ساری تشکیل کا اسی عینک پر انحصار ہے لیکن افسوس ہماری اکثریت ساری زندگی اپنی عینک کے بارے میں بھی سو چتی تک نہیں ہے یاد رکھیں ہم جوکچھ ہیں اس کا سب کو پتہ ہوتا ہے سوائے خود ہمارے ۔نامور ماہر نفسیات اسٹیفن آر کو ۔ کو وے لکھتاہے ” برائے مہربانی کو شش کیجئے کہ اپنے ذہن سے ہر چیز نکال دیں اور اپنی پوری توجہ میری بات پر مرکو ز رکھیں اپنے وقت ، بزنس، خاندان ، احباب وغیرہ کسی کے بارے میں بھی فکر مند نہ ہوں اور اپنے ذہن کو حقیقتاً کھلا رکھیں ۔ اب آپ اپنے ذہن کی آنکھ سے اپنے آپ کو اپنی کسی پیارے کے جنازے پر جاتا دیکھیں خود کو جنازے کی جگہ پر پہنچتا دیکھیں اور اپنی کار سے باہر آتا دیکھیں آپ جب عمارت میں داخل ہوتے ہیں تو پھول دیکھتے ہیں اور دھیمی دھیمی ماتمی موسیقی آپ کے کانوں میں پڑتی ہے آپ جیسے جیسے آگے بڑھتے ہیں آپ کا احساس زیاں وہاں موجود ہر شخص کے دل سے بہہ رہا ہے اور شناسائی کے مہ وسال کی خوش کن یادوں میں بھی بڑھتا جاتا ہے یہ احساس آپ کے دل میں بھر جاتا ہے جب آپ اس کمرے کے آخر پر پہنچتے ہیں اور تابوت میں جھانکتے ہیں تو اچانک آپ خود کو اپنے مقابل پاتے ہیں یہ آپ کی اپنی میت ہے اور آخری رسومات کی تقریب ہے جو کہ آج سے تین سال بعد منعقد ہورہی ہے۔ اور یہ تمام لوگ آپ کے لیے اپنی عزت کا اظہار کرنے اپنی محبت نچھاور کرنے اور آپ کی بھر پور زندگی کی یاد میں یہاں اکٹھے ہوئے ہیں آپ رسومات کے شرو ع ہونے کے انتظار میں جب اپنی نشست پر بیٹھتے ہیں تو آپ کی نظر اپنے ہاتھ میں رسومات کے پروگرام کی کاپی پر پڑتی ہے تقریب میں چار مقرر ہونگے پہلا ، آپ کے خاندان سے قریبی یادور کا، بچوں ،بھائیوں ، بہنوں ، بھانجے ، بھتیجوں ، چچائوں میں سے کوئی جو سارے ملک کے طول و عر ض سے آپ کے جنازے میں شرکت کے لیے جمع ہوئے ہیں دوسر امقرر ،آپ کے دوستوں میں سے کوئی ہوگا جو کہ آپ کی شخصیت پر روشنی ڈال سکے تیسرا مقرر ،آپ کے پیشے سے متعلق ہوگا اور چوتھا آپ کے مذہبی یا پھر ایسے فلاحی ادارے سے کہ جہاں آپ اپنی خدمات پیش کرتے رہے۔ اب آپ ذرا گہرائی سے سوچئے آپ ان تمام مقررین کے منہ سے اپنے اور اپنی زندگی کے بارے میں کیسی باتیں سننا پسند کریں گے؟ تو پھر آپ کو اپنی کامیابی کی تعریف مل جائے گی اور یہ ممکن ہے کہ یہ تعریف آپ کے ذہن میں اس سے پہلے موجود تعریف سے مختلف ہو ہماری تمام جدوجہد کے مطمح ہائے نظر یعنی شہرت، کامیابی، دولت اور ایسی ہی دوسری چیزیں شاید صحیح دیوار کا حصہ بھی نہ نکلیں ۔اس لیے آئیں پہلی فرصت میں اپنی عینک کو بدل دیں تاکہ آپ دیکھ سکیں کہ مسائل باہر نہیں بلکہ آپ کے اندر ہیں اور آخر کو نظر میں رکھتے ہوئے اپنا آج گذاریں یا درکھیں ایک نہ ایک دن ہم سب نے چلے جانا ہے یہ ہمارے آج پر منحصر ہے کہ کل لوگ ہمیں کس طرح یاد کریں گے ۔