UrduPoint:
2025-11-22@19:49:05 GMT

عورتیں جو جینا چاہتی تھیں

اشاعت کی تاریخ: 21st, April 2025 GMT

عورتیں جو جینا چاہتی تھیں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 اپریل 2025ء) گزشتہ ہفتے سندھ کی دو مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والی دو خودمختار خواتین کو بے دردی سے قتل کیا گیا لاڑکانہ کی سرکاری اسکول ٹیچر صدف حاصلو اور میرپورخاص کی پولیس اہلکار مہوش جروار۔ دونوں کے قاتل پولیس سے تعلق رکھنے والے مرد تھے۔ یعنی اسی ادارے کے نمائندے، جس پر ان کے تحفظ کی ذمہ داری تھی۔

صدف حاصلو، لاڑکانہ کی ایک باہمت لڑکی تھی، جس نے والد کے انتقال کے بعد اپنی ماں کے ساتھ مل کر گھر کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ وہ کبھی پرائیویٹ اسکولوں میں معمولی تنخواہ پر پڑھاتی رہی، کبھی بچوں کو ٹیوشن دیتی رہی اور بالآخر اپنی محنت سے ایک سرکاری اسکول میں ٹیچر لگ گئیں۔ لیکن ایک خودمختار عورت اس معاشرے کو کب قبول ہوتی ہے؟

ایک پولیس اہلکار صدف سے شادی کا خواہشمند تھا۔

(جاری ہے)

صدف کی ماں نے اس کا نکاح تو اس پولیس اہلکار سے پڑھوا دیا، لیکن رخصتی سے پہلے کچھ شرائط رکھی۔ مگر چونکہ لڑکا پولیس میں تھا، اس نے سمجھا کہ اب صدف پر اس کا مکمل حق ہے۔ وہ بار بار صدف کے گھر آتا، دھمکاتا اور ایک دن بندوق اٹھا کر زبردستی کرنے پہنچ گیا۔ صدف نے ہمت دکھائی، خلع کا فیصلہ کیا اور تحفظ کے لیے عدالت سے رجوع بھی کیا۔ لیکن کون سنتا ہے ایک عام سی اسکول ٹیچر کی فریاد؟ نہ تحفظ ملا، نہ انصاف۔

چند دن بعد، جب صدف اسکول سے واپس آ رہی تھی، تو اسی پولیس اہلکار نے سرِعام اسے گولی مار کر قتل کر دیا۔ آج بھی وہ قاتل آزاد گھوم رہا ہے، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

دوسری خاتون، مہوش جروار جو ایک پولیس کانسٹیبل تھی۔ مہوش جروار، ایک یتیم لڑکی، جس کا باپ برسوں پہلے دنیا سے رخصت ہو چکا تھا، اپنی ماں کے ساتھ غربت کے سائے میں پلی بڑھی۔

دو سال پہلے اسے پولیس میں کانسٹیبل کی نوکری ملی۔ یہ نوکری اس کے لیے ایک امید تھی، ایک نئی زندگی کی راہ۔ مگر اس نظام میں نوکری نہیں، صرف کمزوروں کا استحصال بکتا ہے۔

مہوش کی پوسٹنگ میرپورخاص سینٹرل جیل میں ہوئی۔ پھر پولیس اہلکار یوسف کھوسہ نے اسے مسلسل بلیک میل کرنا شروع کر دیا۔ تنگ آ کر مہوش نے اپنی پوسٹنگ حیدرآباد کروالی، لیکن حالات اور غربت اسے دوبارہ میرپورخاص کھینچ لائی۔

پھر ایک دن وہی وردی جو اس کی پہچان تھی، اس کی لاش پر موجود تھی۔ مہوش اپنی پولیس کی وردی ہی میں پھندے سے جھولتی پائی گئی۔

ایک بات طے ہے، مہوش اس بلیک میلنگ سے تھک چکی تھی، اس نے آواز اٹھانے کی کوشش کی، مقام بدلا، شکایات درج کروائیں، مگر سسٹم نے کبھی اس کی بات سننا گوارا نہ کی۔ حیدرآباد میں ایف آئی اے کے دفتر میں ایک شکایت 2 جنوری کو درج ہوئی اور ابھی اپریل چل رہا ہے۔

مگر اس کی تفتیش کا کوئی پتہ نہیں۔ نہ کوئی فون، نہ کوئی طلبی، نہ کوئی پیش رفت۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ اگر صدف اور مہوش جیسی تعلیم یافتہ، بہادر، محنتی عورتیں بھی اس معاشرے میں محفوظ نہیں، تو پھر تحفظ کی ضمانت کس کے پاس ہے؟ یہ دو کہانیاں محض دو عورتوں کی نہیں، بلکہ اس پورے نظام کی ناکامی کی کہانی ہیں۔ ایک ایسا نظام جو عورت کو صرف اس وقت برداشت کرتا ہے جب وہ خاموشی سے سر جھکائے، "ہاں" کہنا سیکھ لے اور اپنی خودمختاری قربان کر دے۔

صدف اور مہوش جیسے بے شمار چہرے ہیں جو روز کام پر جاتے ہیں، خود کو اور اپنے گھر والوں کو سنبھالتے ہیں اور اس امید پر زندہ رہتے ہیں کہ شاید ایک دن یہ معاشرہ انہیں جینے کا حق دے گا۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پولیس اہلکار

پڑھیں:

ادکارہ فضا علی اور بیٹی کی تصاویر پر ہنگامہ کھڑا ہوگیا

پاکستانی اداکارہ، گلوکارہ اور میزبان فضا علی اپنی بیٹی کے ساتھ بیرون ملک کے دورے پر ہیں جس کے دوران انہیں سوشل میڈیا پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔

فضا علی فرال فواد کے ساتھ چھٹیاں گزارنے کیلیے بیرون ملک کے دورے پر ہیں جس کے دوران اُن کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر شیئر ہوئیں تو ایک طوفان برپا ہوگیا۔

@user3370214021960

AQPiqQIj3TfBSR8Akk9keHFxnYj2QR3e3izqBhSLdy2dDlOWDyH-83okdRPWc2PXbQxQjOfjuJsr-JkALgyzSFLDlSOr2KVTZYO58twYQ5s5jQ

♬ original sound - user3370214021960

فضا علی اور فرال کی تصاویر سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا صارفین نے دونوں کے کپڑوں پر تنقید کی اور انہیں مناسب لباس پہننے کا مشورہ دیا۔

ایک صارف نے لکھا کہ پاکستان میں رہ کر قمیص شلوار اور بیرون ملک جاتے ہیں مغربی لباس۔

ایک جذباتی صارف نے فضا علی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اپنی بیٹی کو اپنی طرح نہ بنائیں۔ ایک اور نے لکھا کیا آپ لوگ پاکستان میں پہنے جانے والے کپڑے گھر پر بھول گئے ہیں؟

متعلقہ مضامین

  • ادکارہ فضا علی اور بیٹی کی تصاویر پر ہنگامہ کھڑا ہوگیا
  • لیبیا کی معروف ولاگر سرِ راہ بیدردی سے قتل؛ ممکنہ وجہ کیا تھی؟
  • لیبیا کی مشہور ولاگر خنساء مجاہد قتل؛ سیاسی وجہ کا امکان؟
  • اگر میں قابل قدر نہیں تو ساتھ کام بھی نہ کریں، شیفالی شاہ
  • ثانیہ زہرہ کیس اور سماج سے سوال
  • چاکلیٹی ہیرو … وحید مراد
  • بھارتی طیارے میں فنی خرابی کی اطلاعات تھیں، دفاعی ماہرین
  • نظام کی اصلاح کے لیے اسلوبِ دعوت
  • خاتون بازیابی کیس: پولیس نے کچھ نہ کیا تو سختی ہو گی: چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ
  • ہڈیاں آپ کی توجہ چاہتی ہیں