UrduPoint:
2025-12-11@13:59:45 GMT

عورتیں جو جینا چاہتی تھیں

اشاعت کی تاریخ: 21st, April 2025 GMT

عورتیں جو جینا چاہتی تھیں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 اپریل 2025ء) گزشتہ ہفتے سندھ کی دو مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والی دو خودمختار خواتین کو بے دردی سے قتل کیا گیا لاڑکانہ کی سرکاری اسکول ٹیچر صدف حاصلو اور میرپورخاص کی پولیس اہلکار مہوش جروار۔ دونوں کے قاتل پولیس سے تعلق رکھنے والے مرد تھے۔ یعنی اسی ادارے کے نمائندے، جس پر ان کے تحفظ کی ذمہ داری تھی۔

صدف حاصلو، لاڑکانہ کی ایک باہمت لڑکی تھی، جس نے والد کے انتقال کے بعد اپنی ماں کے ساتھ مل کر گھر کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ وہ کبھی پرائیویٹ اسکولوں میں معمولی تنخواہ پر پڑھاتی رہی، کبھی بچوں کو ٹیوشن دیتی رہی اور بالآخر اپنی محنت سے ایک سرکاری اسکول میں ٹیچر لگ گئیں۔ لیکن ایک خودمختار عورت اس معاشرے کو کب قبول ہوتی ہے؟

ایک پولیس اہلکار صدف سے شادی کا خواہشمند تھا۔

(جاری ہے)

صدف کی ماں نے اس کا نکاح تو اس پولیس اہلکار سے پڑھوا دیا، لیکن رخصتی سے پہلے کچھ شرائط رکھی۔ مگر چونکہ لڑکا پولیس میں تھا، اس نے سمجھا کہ اب صدف پر اس کا مکمل حق ہے۔ وہ بار بار صدف کے گھر آتا، دھمکاتا اور ایک دن بندوق اٹھا کر زبردستی کرنے پہنچ گیا۔ صدف نے ہمت دکھائی، خلع کا فیصلہ کیا اور تحفظ کے لیے عدالت سے رجوع بھی کیا۔ لیکن کون سنتا ہے ایک عام سی اسکول ٹیچر کی فریاد؟ نہ تحفظ ملا، نہ انصاف۔

چند دن بعد، جب صدف اسکول سے واپس آ رہی تھی، تو اسی پولیس اہلکار نے سرِعام اسے گولی مار کر قتل کر دیا۔ آج بھی وہ قاتل آزاد گھوم رہا ہے، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

دوسری خاتون، مہوش جروار جو ایک پولیس کانسٹیبل تھی۔ مہوش جروار، ایک یتیم لڑکی، جس کا باپ برسوں پہلے دنیا سے رخصت ہو چکا تھا، اپنی ماں کے ساتھ غربت کے سائے میں پلی بڑھی۔

دو سال پہلے اسے پولیس میں کانسٹیبل کی نوکری ملی۔ یہ نوکری اس کے لیے ایک امید تھی، ایک نئی زندگی کی راہ۔ مگر اس نظام میں نوکری نہیں، صرف کمزوروں کا استحصال بکتا ہے۔

مہوش کی پوسٹنگ میرپورخاص سینٹرل جیل میں ہوئی۔ پھر پولیس اہلکار یوسف کھوسہ نے اسے مسلسل بلیک میل کرنا شروع کر دیا۔ تنگ آ کر مہوش نے اپنی پوسٹنگ حیدرآباد کروالی، لیکن حالات اور غربت اسے دوبارہ میرپورخاص کھینچ لائی۔

پھر ایک دن وہی وردی جو اس کی پہچان تھی، اس کی لاش پر موجود تھی۔ مہوش اپنی پولیس کی وردی ہی میں پھندے سے جھولتی پائی گئی۔

ایک بات طے ہے، مہوش اس بلیک میلنگ سے تھک چکی تھی، اس نے آواز اٹھانے کی کوشش کی، مقام بدلا، شکایات درج کروائیں، مگر سسٹم نے کبھی اس کی بات سننا گوارا نہ کی۔ حیدرآباد میں ایف آئی اے کے دفتر میں ایک شکایت 2 جنوری کو درج ہوئی اور ابھی اپریل چل رہا ہے۔

مگر اس کی تفتیش کا کوئی پتہ نہیں۔ نہ کوئی فون، نہ کوئی طلبی، نہ کوئی پیش رفت۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ اگر صدف اور مہوش جیسی تعلیم یافتہ، بہادر، محنتی عورتیں بھی اس معاشرے میں محفوظ نہیں، تو پھر تحفظ کی ضمانت کس کے پاس ہے؟ یہ دو کہانیاں محض دو عورتوں کی نہیں، بلکہ اس پورے نظام کی ناکامی کی کہانی ہیں۔ ایک ایسا نظام جو عورت کو صرف اس وقت برداشت کرتا ہے جب وہ خاموشی سے سر جھکائے، "ہاں" کہنا سیکھ لے اور اپنی خودمختاری قربان کر دے۔

صدف اور مہوش جیسے بے شمار چہرے ہیں جو روز کام پر جاتے ہیں، خود کو اور اپنے گھر والوں کو سنبھالتے ہیں اور اس امید پر زندہ رہتے ہیں کہ شاید ایک دن یہ معاشرہ انہیں جینے کا حق دے گا۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پولیس اہلکار

پڑھیں:

خان صاحب حل صرف غیر مشروط مفاہمت میں ہے

عمران خان کی سیاست اس وقت پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں سب سے زیادہ شور، شدت اور ٹکراؤ کا مرکز بنی ہوئی ہے، اور یہ ٹکراؤ اب اس نہج پر پہنچ چکا ہے جہاں نہ صرف ادارے، سیاست دان اور ریاستی طبقات ان سے فاصلہ اختیار کرچکے ہیں بلکہ ان کی اپنی سیاسی جماعت بھی شدید دباؤ، انتشار اور مایوسی کا شکار دکھائی دیتی ہے۔

عمران خان نے پچھلے چند برسوں میں جس انداز سے ریاستی اداروں، بالخصوص فوج اور عدلیہ، کو براہِ راست نشانہ بنایا ہے، وہ پاکستان کی چار دہائیوں کی سیاسی تاریخ میں کہیں نظر نہیں آتا۔ ان کی سیاست کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے مفاہمت، مکالمہ اور سیاسی حکمت عملی جیسے بنیادی جمہوری اصولوں کو پس پشت ڈال کر ٹکراؤ کو ہی سیاست کا اصل جوہر سمجھ لیا ہے۔

عمران خان اس غلط فہمی کا شکار رہے کہ اگر وہ مسلسل سخت بیانیہ اختیار کریں گے، الزام تراشی کریں گے اور ریاستی اداروں کی خلاف میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے فضا بنائیں گے تو عوامی حمایت انہیں ہر قسم کی سیاسی اور قانونی مشکلات سے بچا لے گی۔ لیکن تاریخ، سیاسی حقیقت اور ریاستی ڈھانچے کی ساخت اس مفروضے کی اجازت نہیں دیتی۔ پاکستان میں کبھی بھی کوئی سیاسی رہنما اداروں سے مسلسل لڑائی کر کے کامیاب نہیں ہوا۔ نہ ذوالفقار علی بھٹو ریاستی طاقت کے سامنے کھڑے رہ سکے، نہ نواز شریف اداروں سے ٹکر لے کر حکومت چلا سکے، اور نہ ہی عمران خان کے لیے یہ راستہ کوئی سیاسی فتح لانے والا ثابت ہو سکتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں طاقت کے کئی مراکز موجود ہیں، وہاں ایک سیاست دان کا اصل امتحان یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنی سیاست کو ٹکراؤ سے نکال کر مکالمے، مفاہمت اور تدبر کی طرف لے جائے۔

عمران خان کا مسئلہ صرف یہ نہیں کہ وہ اداروں پر تنقید کرتے ہیں، بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے تنقید کو ذاتی جنگ بنادیا ہے۔ ان کے بیانات میں وہ سنجیدگی، دلیل یا سیاسی بلوغت نہیں پائی جاتی جو ایک قومی رہنما کے اندر ہونا ضروری ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے سخت زبان، ذاتی حملے، طنزیہ تبصرے اور جذباتی بیانیہ سیاسی حقیقت کو تبدیل نہیں کرتے بلکہ سیاست دان کو مزید تنہا کر دیتے ہیں، اور یہی ہوا۔
 
پی ٹی آئی کے اندرونی حلقوں نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ خان صاحب کے مسلسل حملوں نے نہ صرف ریاستی اداروں میں شدید ردعمل پیدا کیا بلکہ پارٹی کی اپنی پوزیشن بھی کمزور کردی۔ سوشل میڈیا کی تالیاں وقتی ہوتی ہیں، مگر ریاست ہمیشہ دیرپا ہوتی ہے، اور اس حقیقت کو نہ سمجھنا عمران خان کی سب سے بڑی سیاسی خامی تھی۔ انہوں نے اپنی حکمت عملی خیالی تصورات پر رکھی، عملی سیاست کی حقیقتوں پر نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اردگرد وہی لوگ جمع ہو گئے جو انہیں وہی مشورے دیتے رہے جو وہ سننا چاہتے تھے، نہ کہ وہ جو سیاسی بقا کا تقاضا تھے۔ ایسا ہر سیاسی رہنما کے ساتھ ہوا ہے جو اپنی مقبولیت کو حقیقت سمجھ بیٹھتا ہے اور اپنی ٹیم کو دلیل کے بجائے خوشامد پر کھڑا کر دیتا ہے۔

ریاست سے ٹکراؤ کی یہ روش عمران خان کے لیے بھی مہلک ثابت ہوئی کیونکہ انہوں نے کبھی یہ حقیقت تسلیم نہیں کی کہ پاکستان میں سیاست کا راستہ صرف مفاہمت، تدبر، آئینی دائرہ کار اور پارلیمانی عمل سے ہو کر گزرتا ہے۔ انہوں نے پارلیمنٹ کو کبھی وہ اہمیت نہیں دی جو ایک جمہوری رہنما دیتا ہے۔ انہوں نے اپنی حکومت کے دوران اپوزیشن سے مکمل دوری اختیار کی، اصلاحات کا عمل تعطل کا شکار کیا، پارلیمانی نظام کو مضبوط کرنے کے بجائے اس کو کمزور کیا، اور نتیجہ یہ ہوا کہ جب وہ خود مشکل میں پڑے تو ان کے پاس کوئی سیاسی راستہ، کوئی پل، کوئی رابطہ باقی نہ بچا۔ سیاست دان وہ ہوتا ہے جو اپنے مخالف کے لیے بھی دروازہ کھلا رکھے، مگر عمران خان نے ہر دروازہ اپنے ہاتھوں سے بند کیا۔ سیاست میں سخت بیانیہ وقتی فائدہ دیتا ہے، مگر طویل المیعاد تباہی ثابت ہوتا ہے۔

اس پورے منظر میں ایک بنیادی غلط فہمی بھی پائی جاتی ہے، عمران خان خود کو انقلابی سمجھتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ریاستی ڈھانچوں کے خلاف انقلابی جنگیں اس ملک میں ممکن ہی نہیں۔ پاکستان کا انتظامی، عسکری اور عدالتی ڈھانچہ کسی انقلابی عمل کو اپنی جڑیں ہلانے نہیں دیتا۔ لہٰذا عمران خان کا یہ خیال کہ وہ بیانیے کے زور پر اس پوری ساخت کو بدل دیں گے، سیاسی ناپختگی اور طاقت کی حقیقی ڈائنامکس کو نہ سمجھنے کا نتیجہ تھا۔ اگر وہ واقعی تبدیلی کے خواہاں تھے تو انہیں پارلیمنٹ، قانونی عمل اور ادارہ جاتی اصلاحات کے راستے پر چلنا چاہیے تھا، مگر انہوں نے ہر بار شارٹ کٹ لیا۔ احتجاج، لانگ مارچ، دھرنے، جلسے یہ سب سیاسی دباؤ پیدا تو کرتے ہیں مگر ریاستی پالیسیوں کو تبدیل نہیں کرتے۔ اب جبکہ وہ شدید سیاسی، قانونی اور سماجی دباؤ کا شکار ہیں، انہیں خود بھی یہ احساس ہو رہا ہے کہ وہ راستے جو وہ نے اکھاڑے تھے، وہی اب ان کے آگے دیوار بن کر کھڑے ہیں۔

اصل حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست میں بقا کا واحد راستہ مفاہمت ہے، اور مفاہمت کمزوری نہیں بلکہ حکمت ہوتی ہے۔ اگر عمران خان واقعی ایک بڑے لیڈر کے طور پر اپنا کردار برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو انہیں انا، غصے، ضد، الزام تراشی اور اداروں سے جنگ جیسے بیانیے کو ترک کرنا ہوگا۔ ایک ایسا رہنما جو ریاستی اداروں سے دشمنی مول لے، وہ کبھی بھی قومی سطح پر مضبوط کردار ادا نہیں کر سکتا۔ سیاست ملک کو جوڑنے کا نام ہے، ریاستی دائروں کو توڑنے کا نام نہیں۔

عمران خان کو اب اپنی سیاست کو انتقام، جذباتیت اور ذاتی رنجشوں سے نکال کر ویژن، سیاست، مکالمے اور نیشنل انٹرسٹ کی بنیاد پر کھڑا کرنا ہوگا۔ انہیں سمجھنا ہوگا کہ اداروں سے محاذ آرائی، بیانیوں کے ذریعے ریاست کو چیلنج کرنا اور سیاسی مخالفین کو مکمل طور پر ختم کرنے کی خواہش صرف انتشار پیدا کرتی ہے، مسائل حل نہیں کرتی۔ پاکستان میں نہ کوئی سیاست دان اکیلے تبدیلی لا سکتا ہے، نہ کوئی ادارہ اکیلے نظام چلا سکتا ہے۔ یہاں ہر سیاسی قوت کو کسی نہ کسی مقام پر دوسروں کے ساتھ بیٹھ کر چلنا پڑتا ہے۔ اسی حقیقت کو قبول کرنا عمران خان کی سیاسی بقا کی پہلی شرط ہے۔

اگر وہ اپنی انا سے اوپر اٹھ جائیں، مفاہمت کو اپنائیں، اداروں کے ساتھ کشیدگی کم کریں، سیاسی قوتوں سے مکالمہ بحال کریں اور قومی سطح پر ایک ذمے دار رہنما کے طور پر ابھریں تو وہ اب بھی پاکستان کے سیاسی مستقبل میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر وہ اسی ٹکراؤ، اسی لڑائی، اسی سخت بیانیے پر قائم رہے تو وہ اپنی مقبولیت کھونے کے ساتھ ساتھ اپنی سیاسی جگہ بھی محدود کر بیٹھیں گے۔ پاکستان کو اس وقت ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جو تقسیم نہیں کرے بلکہ جوڑنے والا ہو، جو محاذ آرائی نہیں بلکہ حل دے، جو جذباتی نہیں بلکہ بالغ سیاسی فیصلہ سازی کرے۔ عمران خان کو بھی یہی سمجھنا ہوگا کہ سیاست جنگ نہیں، حکمت ہے اور مفاہمت ہی وہ واحد راستہ ہے جو ریاست، سیاست اور عوام تینوں کو آگے لے کر چل سکتا ہے۔
 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

متعلقہ مضامین

  • چارسدہ: نامعلوم حملہ آوروں کی فائرنگ سے 2 خاتون ٹیچرز جاں بحق
  • پی ٹی آئی ملک میں افراتفری چاہتی ہے،عون چودھری
  • خاتون ڈی ایس پی کا بزنس مین سے محبت کا ڈھونگ؛ کروڑوں ہتھیالیے؛ ہوٹل بھی نام کرالیا
  • ’میں نے غلطی کی‘رنبیر کپور سے تعلق ختم ہونے پر کترینہ کیف کا ردعمل
  • خان صاحب حل صرف غیر مشروط مفاہمت میں ہے
  • خورشید شاہ نے پی ٹی آئی کو فون کر کے کہا تھا ووٹ دیتے ہیں حکومت بنا لیں: مصدق ملک کا دعویٰ
  • ناقابل تسخیر تصورِ پاکستان
  • پیپلز پارٹی نے خورشید شاہ اور ندیم افضل چن کے ذریعے پی ٹی آئی کو حکومت بنانے کی پیشکش کی، مصدق ملک
  • سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی گاڑی میں آگ لگ گئی
  • ٹی 20 ورلڈ کپ، یو اے ای نے عمدہ کھیل کی ٹھان لی