افرادی قوت کے اثاثے کی بے قدری
اشاعت کی تاریخ: 22nd, April 2025 GMT
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان کی افرادی قوت ملک کا اصل اثاثہ ہے۔ ملک کے نوجوانوں کو عالمی سطح پر مطلوبہ پیشہ ورانہ ہنر سے آراستہ کرنا حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے، حکومت اس سلسلے میں نیوٹیک کو ہر قسم کی فنڈنگ فراہم کرے گی۔ نیوٹیک ناقص کارکردگی والے تربیتی اداروں کو بلیک لسٹ اور اچھی کارکردگی والے اداروں کی حوصلہ افزائی کرے تاکہ ملک کے نوجوان تربیت اور ہنر سیکھ کر قانونی طور پر ملک سے باہر جا کر خدمات فراہم کر سکیں۔
کہنے کی حد تک تو وزیر اعظم کی ہدایات مثبت اور نوجوانوں کے لیے نہایت حوصلہ افزا ہیں اور حکومت نے نواز شریف دور میں ملک سے باہر جانے کے خواہش مند نوجوانوں کی تربیت اور ہنرسازی کے لیے ایک ادارہ نیوٹیک بھی بنایا تھا جو نوجوانوں کو مختلف کاموں میں ہنر اور تربیت کے بعد ملک سے باہر جانے میں مدد فراہم کرتا تھا۔
مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی کوشش تھی کہ ملک کے نوجوانوں کی تربیت کے ساتھ ملک سے باہر جانے سے ہی ملک و قوم کا فائدہ ہوگا اور ہنرمند نوجوانوں کا مستقبل محفوظ ہوگا۔ ملک میں بے روزگاری کے باعث نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد اپنے اچھے مستقبل کے لیے ملک سے باہر جانے کی خواہش مند رہی ہے کیونکہ انھیں اپنے ملک میں اپنا مستقبل اچھا نظر نہیں آتا اور مایوس نوجوان ملک سے باہر جانے کو ترجیح دیتے رہے ہیں اور حکومتیں بھی ایسا چاہتی رہی ہیں کہ ملک سے باہر جا کر نوجوان نہ صرف اپنا مستقبل بنائیں گے اور باہر جا کر اپنے خاندانوں کی کفالت کے لیے زرمبادلہ بھی بھیجیں گے جو ملک کی ضرورت بھی ہے۔
2013 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اس سلسلے میں اقدامات بھی کیے تھے جبکہ اس سے قبل 2008 میں جب پیپلز پارٹی نے یوسف رضا گیلانی کو وزیر اعظم منتخب کرایا تھا۔ اس وقت بھی ملک سے باہر جانے کا رجحان تو تھا مگر اتنا نہیں تھا کہ جتنا اب ہو چکا ہے اور اپنے مستقبل سے مایوس نوجوان غیر قانونی طریقوں سے اپنی جانوں کو خطرات میں ڈال کر ملک سے باہر جا رہے ہیں۔
غیر قانونی طریقے سے ملک سے باہر جانے کا رجحان اس لیے بڑھا ہے کہ انھیں حکومت کی طرف سے قانونی طور پر ملک سے باہر جانے میں مدد نہیں ملتی، جس کی وجہ سے وہ غیر قانونی ذرائع سے باہر جانے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کے غریب گھر والے اپنے بچوں کے اچھے مستقبل کی امید میں اپنی جائیدادیں، زیورات فروخت کرکے قرضے لے کر باہر بھیجنے کے لیے ٹریولنگ ایجنٹوں کو لاکھوں روپے ادا کرتے ہیں اور انسانی اسمگلنگ میں ملوث ٹریول ایجنٹ انھیں جھوٹے دلاسے دے کر غیر قانونی طور سمندری راستوں سے باہر بھجواتے ہیں جن میں بہت کم ہی کسی منزل پر پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں اور زیادہ تر سمندر برد یا گرفتار ہو جاتے ہیں اور ان کا مستقبل تباہ ہو جاتا ہے۔
پیپلز پارٹی کے ایک سابق وزیر اعظم یوسف نے اپنے اقتدار میں ایک بیان دیا تھا جب ان سے پوچھا گیا تھا کہ ملک میں روزگار نہ ہونے سے نوجوان ملک سے باہر جانا چاہتے ہیں مگر انھیں حکومتی مدد نہیں ملتی تو وزیر اعظم نے جواب دیا تھا کہ ’’ جو باہر جانا چاہتے ہیں جائیں انھیں روکا کس نے ہے؟‘‘ ملک میں اس وقت بے روزگاری 22 فی صد تک پہنچ چکی ہے۔ حکومت کو ملک کے بے روزگاروں کی کوئی فکر نہیں ہے۔
اس سلسلے میں پیپلز پارٹی کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں میں ماضی میں کچھ اقدامات بھی ہوئے تھے اور نیوٹیک نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا اور نیوٹیک نے ملک بھر میں نوجوانوں کی تربیت اور ہنر سکھانے کے لیے بہت کام کیا تھا جس کا کریڈٹ نیوٹیک اور (ن) لیگ کو ضرور جاتا ہے مگر بعد میں 2018 میں پی ٹی آئی کی حکومت بنوائی گئی جنھیں مسلم لیگ (ن) سے سخت نفرت تھی اور انھیں (ن) لیگی حکومت میں عوام کی فلاح و بہبود کا کوئی اچھا کام بھی پسند نہیں تھا اس لیے انھیں نیو ٹیک اچھا لگا نہ اس کی کارکردگی اور انھوں نے نیوٹیک کو اہمیت کے قابل ہی نہیں سمجھا تھا جس کی وجہ سے نیوٹیک کے سربراہ نے استعفیٰ دے دیا تھا جس کے بعد نیوٹیک کوئی کارکردگی نہ دکھا سکا جس پر کئی سال بعد اب مسلم لیگ (ن) کے وزیر اعظم شہباز شریف نے نیوٹیک اور ملک کی افرادی قوت کی بہتری کے لیے پھر سے کوششیں شروع کی ہیں اور انھوں نے ملک کی افرادی قوت کو ملک کا اثاثہ قرار دیا ہے اور نیوٹیک کے سلسلے میں ہدایات بھی جاری کی ہیں تاکہ نیوٹیک ملک کے نوجوانوں کو تربیت اور ہنر کے ذریعے باہر جانے میں مددگار بن سکے۔
ماضی کے سابق حکمرانوں کو صرف اپنی اولادوں کی فکر تھی جس کی وجہ سے وہ اپنے علاقے کی سیاست پر حاوی رہے مگر ملک کے نوجوان بے روزگاری کا شکار ہیں جن کی اگر پیپلز پارٹی نے اپنی حکومت میں فکر کی ہوتی اور پی ٹی آئی حکومت نے بے روزگاروں کو باہر قانونی طور پر بھجوانے کے اقدامات کیے ہوتے تو ملک میں بے روزگاری انتہا پر نہ ہوتی۔
نیوٹیک بھی سیاست کی نذر ہوا جس کی غفلت و لاپرواہی سے سرکاری اداروں نے ملک کے نوجوانوں کی تربیت اور ہنر سکھانے پر وہ توجہ نہیں دی جس مقصد کے لیے نیوٹیک قائم ہوا تھا۔ ملک کے نوجوان جنھیں تربیت اور ہنر کی ضرورت تھی وہ انھیں نہ مل سکی اور ان پڑھ ہی نہیں بلکہ پڑھے لکھے نوجوان بھی ملک سے مایوس ہیں کیونکہ ملک میں ان کی کوئی قدر نہیں اور کہا گیا کہ جائیں انھیں روکا کس نے ہے؟ اگر حکومتی سطح پر نوجوانوں کی قدر ہوتی اور انھیں سرکاری سرپرستی میں باہر جانے کا موقعہ ملتا تو آج وہ بیرون ملک سمندروں میں ڈوب کر نہ مر رہے ہوتے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نوجوانوں کی تربیت ملک سے باہر جانے ملک کے نوجوانوں ملک سے باہر جا تربیت اور ہنر ملک کے نوجوان پیپلز پارٹی افرادی قوت بے روزگاری ہیں اور ان سلسلے میں کی حکومت مسلم لیگ ملک میں نے ملک کہ ملک کے لیے
پڑھیں:
چینی باہر بھیجنے میں کون سی شوگر ملز ملوث تھیں؟ فہرست سامنے آگئی
اسلام آباد:پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے اجلاس میں آج چینی بحران پر تفصیلی بریفنگ دی گئی، جس میں چینی کی برآمد، درآمد، قیمتوں میں اضافے اور شوگر ملز مالکان کی اجارہ داری پر سخت سوالات اٹھائے گئے۔ اجلاس میں ارکان کی جانب سے حکومت، شوگر مافیا اور ایڈوائزری بورڈ پر سخت تنقید کی گئی۔
سیکرٹری صنعت و پیداوار نے اجلاس کو بتایا کہ شوگر انڈسٹری کو صوبائی حکومتیں ریگولیٹ کرتی ہیں اور شوگر ایڈوائزری بورڈ میں وفاق اور صوبوں کے نمائندے شامل ہوتے ہیں۔ بریفنگ کے مطابق بورڈ چینی کے موجودہ اسٹاک، ضروریات اور پیداوار کا جائزہ لیتا ہے، اور کرشنگ سیزن ہر سال 15 نومبر سے 15 مارچ تک جاری رہتا ہے۔
سیکرٹری صنعت و پیداوار کے مطابق گزشتہ دس سال میں 5.09 ملین میٹرک ٹن چینی کی برآمد کی اجازت دی گئی، جن میں سے 3.927 ملین ٹن برآمد ہوئی۔ سال 2023-24 میں 68 لاکھ ٹن چینی پیدا ہوئی جبکہ مجموعی اسٹاک 76 لاکھ ٹن تھا، جس میں سے 8 لاکھ ٹن سرپلس قرار دی گئی۔ اس پر ای سی سی نے 7.9 لاکھ ٹن برآمد کی اجازت دی، مگر صرف 7.5 لاکھ ٹن ہی برآمد کی جا سکی۔ تاہم، بعد ازاں چینی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے 5 لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
سیکرٹری صنعت نے بتایا کہ چینی کے موجودہ ذخائر نومبر تک کے لیے کافی ہیں، لیکن اس سال درآمد کی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔
سیکرٹری فوڈ سکیورٹی نے بتایا کہ گنے کی پیداوار کم ہونے اور کرشنگ میں تاخیر کے باعث مسائل پیدا ہوئے۔ ان کے مطابق اس وقت چینی کی ایکس مل قیمت 165 روپے ہے، جو اگست میں 167 اور ستمبر میں 169 روپے تک جا سکتی ہے۔ تاہم چیئرمین پی اے سی کے استفسار پر انہوں نے تسلیم کیا کہ چینی کی فی کلو فروخت کی اوسط قیمت 173 روپے ہے۔
چیئرمین پی اے سی اور دیگر ارکان نے قیمتوں پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مارکیٹ میں چینی 210 روپے فی کلو تک فروخت ہو رہی ہے۔ چیئرمین نے کہا کہ ’صرف 42 شوگر ملز کی خاطر عوام کو ذلیل کیا جا رہا ہے‘ اور یاد دلایا کہ انہوں نے شوگر ملز مالکان کی فہرست طلب کی تھی۔
سیکرٹری صنعت نے بتایا کہ ان کے پاس ملز کی فہرست موجود ہے، جس پر چیئرمین نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شوگر ملز نہیں بلکہ مالکان اور ڈائریکٹرز کی تفصیلات درکار ہیں۔ پی اے سی نے فوری طور پر شوگر ملز مالکان کے ناموں کی فہرست طلب کر لی۔
بعد ازاں وزارت صنعت و پیداوار نے شوگر ملز مالکان اور ڈائریکٹرز کی فہرست، چینی برآمد و درآمد کرنے والی شوگر ملز کے نام اور ملکوں کی تفصیل بھی پیش کر دی۔
چینی ایکسپورٹ کرنے والی ملز کی فہرست
جن ممالک کو چینی ایکسپورٹ کی گئی ان کی فہرست
بریفنگ کے مطابق گزشتہ برس 40 کروڑ ڈالر مالیت کی 7 لاکھ 49 ہزار ٹن چینی برآمد کی گئی، جس میں سے سب سے زیادہ یعنی 4 لاکھ 94 ہزار ٹن چینی افغانستان کو بھیجی گئی۔ سب سے زیادہ چینی جے ڈی ڈبلیو شوگر مل نے برآمد کی۔
ارکان پی اے سی نے انکشاف کیا کہ 117 روپے فی کلو برآمد کی گئی چینی بعد ازاں 170 روپے میں درآمد کی گئی۔ خواجہ شیراز نے سوال اٹھایا کہ ’یہ ڈاکے صرف تب ہی کیوں پڑتے ہیں جب ملز مالکان کی حکومت آتی ہے؟‘
رکن قومی اسمبلی عامر ڈوگر نے دعویٰ کیا کہ ملک میں سب سے زیادہ شوگر ملز زرداری خاندان کی ہیں، دوسرے نمبر پر جہانگیر ترین اور تیسرے نمبر پر شریف فیملی کی ملز آتی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ 2017 میں شوگر مافیا کو برآمد کی اجازت کے ساتھ 10 روپے فی کلو سبسڈی دی گئی۔ عامر ڈوگر نے مزید کہا کہ سندھ کی ساری شوگر ملز آصف زرداری کی ہیں۔
ان کے اس بیان پر پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ مری نے سخت ردعمل دیا اور کہا، ’عامر ڈوگر اپنے الزامات کو ثابت کریں یا واپس لیں۔ ہم تو صرف یہ کہتے ہیں کہ شوگر سیکٹر میں حکومتی مداخلت ختم ہونی چاہیے۔‘
سینیٹر بلال نے بھی عامر ڈوگر سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے الفاظ واپس لیں، جبکہ چیئرمین کمیٹی خواجہ شیراز نے کہا کہ چینی کی برآمد یا درآمد کے تمام فیصلے مختلف وزارتوں میں سمریوں کی منظوری سے ہوتے ہیں۔ خواجہ شیراز نے مزید استفسار کیا، ’کیا کسی نے یہ اعتراض نہیں اٹھایا کہ چینی درآمد پر دی گئی ٹیکس چھوٹ آئی ایم ایف معاہدے کے خلاف تھی؟‘
چیئرمین پی اے سی نے سوال اٹھایا کہ ان شوگر ملز مالکان کے خلاف کیا کارروائی کی گئی جنہوں نے قیمتیں نہ بڑھانے کی یقین دہانی کروا کر بھی قیمتیں بڑھا دیں؟ اس پر سیکرٹری صنعت نے وضاحت کی کہ چینی کی ”ایکس مل“ قیمت شوگر ایڈوائزری بورڈ کی سفارش پر مقرر کی جاتی ہے۔
عامر ڈوگر کے ریمارکس پر سینیٹر افنان اللہ نے طنز کرتے ہوئے کہا، ’یہ بھی بتائیں کہ آپ کی پارٹی کس کے پیسے سے بنی؟‘ جس کے بعد اجلاس میں ن لیگ، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے ارکان کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا اور ماحول کشیدہ ہو گیا۔
معین پیرزادہ نے شوگر ایڈوائزری بورڈ کو ”فساد کی جڑ“ قرار دیتے ہوئے الزام لگایا کہ شوگر مافیا براہ راست حکومتوں کا حصہ ہے، اور عوام کو لوٹ کر ذاتی مفاد حاصل کیا جا رہا ہے۔
پی اے سی نے آخر میں حکومت سے مطالبہ کیا کہ شوگر ملز مالکان کے نام، ان کے کاروباری مفادات اور برآمد و درآمد میں کردار کو قوم کے سامنے واضح کیا جائے تاکہ چینی بحران کے اصل ذمے داروں کا تعین ہو سکے۔
Post Views: 6