سنیتا مارشل کی ماہرہ خان سے مشابہت، ماجراہ کیا؟
اشاعت کی تاریخ: 22nd, April 2025 GMT
سنیتا مارشل نے ماہرہ خان سے مشابہت پر اپنی رائے کا اظہار کر دیا۔
پاکستان کی مشہور ماڈل اور اداکارہ سنیٹا مارشل جو فیشن اور ڈرامہ انڈسٹری میں اپنی خوبصورت شخصیت اور محنت سے بے پناہ مقبولیت حاصل کر چکی ہیں، حال ہی میں اداکارہ اُشنا شاہ کے شو کی مہمان بنیں، اس موقع پر انہوں نے اپنی زندگی کے سفر اور کیریئر کے بارے میں دلچسپ گفتگو کی۔
شو کے دوران اُشنا شاہ نے ایک دلچسپ نکتہ اٹھایا کہ سنیتا مارشل کی شکل ماہرہ خان سے کافی مشابہت رکھتی ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے پہلے کبھی اس بات پر غور نہیں کیا تھا، لیکن اب یہ مشابہت بہت واضح دکھائی دیتی ہے۔
اسی بات پر اُشنا نے سنیتا سے سوال کیا کہ کیا آپ کو بھی اس سے متعلق لوگوں سے تبصرے موصول ہوتے ہیں؟
سنیتا مارشل نے ہنستے ہوئے اس بات کی تصدیق کی۔
انہوں نے کہا کہ جی ہاں، مجھے اکثر لوگ کہتے ہیں کہ میری شکل ماہرہ خان سے بہت ملتی ہے، جب بھی ہم کہیں ملاقات کرتے ہیں، تو لوگ مذاقاً کہتے ہیں کہ ہم بچپن میں بچھڑنے والی بہنیں ہیں۔
سنیتا نے کہا کہ تصاویر میں یہ مشابہت اور بھی زیادہ نمایاں ہو جاتی ہے، خاص طور پر چہرے کے ساخت، ہونٹوں اور بالوں کی مماثلت کی وجہ سے۔
یہ گفتگو ناصرف شو میں دلچسپی کا باعث بنی بلکہ شائقین نے بھی سوشل میڈیا پر دونوں خوبصورت اداکاراؤں کی مشابہت پر تبصرے شروع کر دیے۔
سنیتا مارشل اور ماہرہ خان دونوں ہی پاکستانی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کا اہم اثاثہ ہیں اور اپنی الگ الگ شناخت رکھنے کے باوجود ان کی یہ ظاہری مشابہت لوگوں کے لیے خوش گوار حیرت کا باعث ہے۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ماہرہ خان سے سنیتا مارشل
پڑھیں:
سفرِ معرفت۔۔۔۔ ایک قرآنی مطالعہ
اسلام ٹائمز: معرفت عبادت کی روح ہے۔۔۔۔۔۔ عبادت عبودیت کی علامت اور عبودیت فنا کی حقیقت۔۔۔۔۔۔ انسانی تخلیق، اسی تسلسل کی کہانی ہے۔۔۔۔۔۔۔ پہچان سے جھکنے، جھکنے سے مٹنے اور مٹ کر باقی رہنے تک۔۔۔۔ یہی انسانیت کی معراج۔۔۔۔۔۔یہی اس کا انجام اور یہی اس کی ابدی سعادت ہے۔ عبادت اگر معرفت سے خالی ہو تو رسم۔۔۔۔۔۔ اور معرفت اگر عبادت میں ظاہر نہ ہو تو ادھورا احساس ہے۔ تحریر: ساجد علی گوندل
sajidaligondal55@gmail.com
قرآنِ مجید، انسان کی خلقت کو محض ایک حیاتیاتی واقعہ نہیں۔۔۔۔۔۔ بلکہ ایک معنوی راز سے تعبیر کرتا ہے: "وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُون" (ذریات/56) "میں نے جن و انس کو محض اپنی عبادت کے لیے خلق کیا۔" مفسرین نے اس آیت کی تفسیر یوں کی ہے "لِيَعْبُدُونِ اَیْ لیَعْرِفُون" یعنی خالق نے مخلوق کو اپنی معرفت کے لیے پیدا کیا۔۔۔۔ یوں عبادت اور معرفت ایک ہی حقیقت کے دو رخ ہیں؛ معرفت باطن ہے تو عبادت اس کا ظہور۔۔۔۔۔ جب پہچان دل میں اترتی ہے تو بدن خود بخود سجدہ ریز ہوتا ہے۔۔۔۔۔ عبادت دراصل معرفت کی شعوری و عملی صورت ہے۔۔۔۔۔۔ عبادت محض حرکات و سکنات کا نام نہیں بلکہ نفی و اثبات پر مشتمل ایک مکمل نظام ہے، جس میں پہلے نفی: لا إله۔۔۔۔ یعنی ہر غیرِ خدا کا انکار ہے اور پھر إلا الله۔۔۔۔ کے ذریعے توحید تک رسائی ہے۔
عبادت کا آغاز اندر کے بت توڑنے سے ہوتا ہے۔ خواہ وہ بت خواہشات کے ہوں۔۔۔۔۔ خود پسندی کے یا پھر مادی۔۔۔۔۔ جب انسان اپنی پسند۔۔۔۔ اپنی چاہت۔۔۔۔ اپنی خواہش کو قربان کرتا ہے تو عبد بنتا ہے۔۔۔۔ اور یہی وہ راستہ ہے، جو انسان کو ظاہر سے حقیقت کی طرف لے جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ "فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى"(بقرہ/256) ۔۔۔۔۔ عبادت کا آغاز انکار میں اور اس کا کمال اقرار میں ہے۔۔۔۔ ہاں عبودیت ہی انسانی کمالات میں اعلیٰ و ارفع ترین منزل ہے، جس کو قرآن نے "سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ"(بنی اسرائیل/01) کی صورت میں بیان کیا اور عبودیت ہی وہ آئینہ ہے، جس میں رسالت کا نور جلوہ افروز ہوتا ہے۔ عبودیت کائنات کا سب سے بڑا شرف ہے۔
قرآن کے نزدیک نہ صرف انسان بلکہ تمام موجودات اسی دائرہ بندگی میں شامل ہیں: "إِنْ كُلُّ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمَٰنِ عَبْدًا"(مریم /93) عبد ہونا محض حکمِ شرع کا تقاضا نہیں بلکہ حقیقتِ وجود کا جوہر ہے۔۔۔۔۔ ہاں عبودیت فنا کا مقدمہ ہے۔۔۔۔۔۔ فنا کا مطلب مٹ جانا نہیں بلکہ حقیقتِ مطلقہ میں باقی رکھنا ہے: "كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ۩ وَيَبْقَىٰ وَجْهُ رَبِّك" (رحمن/26, 27) کائنات کا ہر ذرہ اسی فنا کے سفر میں ہے، ہر وجود اپنی اصل کی طرف لوٹ رہا ہے۔۔۔۔۔۔ فنا وہ مرحلہ ہے، جہاں انسان اپنی مرضی کو مٹا کر خدا کی مشیّت میں ڈوب جاتا ہے۔۔۔۔۔
مختصر یہ کہ معرفت عبادت کی روح ہے۔۔۔۔۔۔ عبادت عبودیت کی علامت اور عبودیت فنا کی حقیقت۔۔۔۔۔۔ انسانی تخلیق، اسی تسلسل کی کہانی ہے۔۔۔۔۔۔۔ پہچان سے جھکنے، جھکنے سے مٹنے اور مٹ کر باقی رہنے تک۔۔۔۔ یہی انسانیت کی معراج۔۔۔۔۔۔یہی اس کا انجام اور یہی اس کی ابدی سعادت ہے۔ عبادت اگر معرفت سے خالی ہو تو رسم۔۔۔۔۔۔ اور معرفت اگر عبادت میں ظاہر نہ ہو تو ادھورا احساس ہے۔