ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارتی خسارہ 34.37 فیصد بڑھ کر 8.467 ارب ڈالر ہو گیا
اشاعت کی تاریخ: 23rd, April 2025 GMT
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2025 کے دوران جولائی تا مارچ پاکستان کی 9 ممالک افغانستان، چین، بنگلہ دیش، سری لنکا، بھارت، ایران، نیپال، بھوٹان اور مالدیپ کو برآمدات کی مالیت 3.26 فیصد اضافے کے ساتھ 3.420 ارب ڈالر رہی۔ اسلام ٹائمز۔ مالی سال 2025 کے پہلے 9 ماہ کے دوران پاکستان کا 9 ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارتی خسارہ 34.
اس پیش رفت کے باوجود علاقائی ممالک کے ساتھ تجارتی خسارہ بڑھ گیا ہے جس کی بنیادی وجہ زیر غور مہینوں کے دوران چین، بھارت اور بنگلہ دیش سے زیادہ درآمدات ہیں۔ مالی سال 2024 میں تجارتی خسارہ 9.506 ارب ڈالر رہا جو گزشتہ سال کے 6.382 ارب ڈالر کے مقابلے میں 49 فیصد زیادہ ہے۔ جولائی تا مارچ مالی سال 2025 کے دوران افغانستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا کو پاکستان کی برآمدات میں زبردست اضافہ دیکھا گیا۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس عرصے کے دوران دیگر ممالک خصوصاً چین کو برآمدات میں کمی کا سلسلہ جاری رہا۔ مالی سال 2025 کے دوران جولائی تا مارچ پاکستان کی 9 ممالک افغانستان، چین، بنگلہ دیش، سری لنکا، بھارت، ایران، نیپال، بھوٹان اور مالدیپ کو برآمدات کی مالیت 3.26 فیصد اضافے کے ساتھ 3.420 ارب ڈالر رہی جو گزشتہ سال کے اسی عرصے میں 3.312 ارب ڈالر تھی۔
اس کے برعکس مالی سال 2025 کے 9 ماہ میں درآمدات 23.65 فیصد اضافے کے ساتھ 11.887 ارب ڈالر رہیں جو گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں 9.613 ارب ڈالر تھیں۔ مزید تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ مالی سال 2025 کے 9 ماہ میں چین سے درآمدات 23.69 فیصد اضافے کے ساتھ 11.582 ارب ڈالر رہیں جو گزشتہ سال کے اسی عرصے میں 9.363 ارب ڈالر تھیں۔
مالی سال 2024 میں چین سے درآمدات 13.506 ارب ڈالر رہیں جو گزشتہ سال کے 9.662 ارب ڈالر کے مقابلے میں 39.78 فیصد زیادہ ہیں۔
خطے میں زیادہ تر درآمدات چین سے حاصل کی جاتی ہیں، اس کے بعد جزوی طور پر بھارت اور بنگلہ دیش ہیں۔ مالی سال 2025 کے 9 ماہ میں چین کو پاکستان کی برآمدات 12.36 فیصد کم ہو کر 1.878 ارب ڈالر رہ گئیں جو گزشتہ مالی سال کے انہی مہینوں میں 2.143 ارب ڈالر تھیں۔ مالی سال 2025 کے 9 ماہ میں بھارت سے درآمدات 12.72 فیصد اضافے کے ساتھ 17کروڑ 63 لاکھ 10 ہزار ڈالر تک پہنچ گئیں جو گزشتہ سال 15 کروڑ 64لاکھ 20 ہزار ڈالر تھیں۔
مالی سال 2024 میں بھارت سے درآمدات 8.866 فیصد اضافے کے ساتھ 20 کروڑ 68 لاکھ 90 ہزار ڈالر تک پہنچ گئیں جو گزشتہ سال کے اسی عرصے میں 19 کروڑ 40 ہزار ڈالر تھیں۔ دریں اثنا مالی سال 2025 کے 9 ماہ میں بھارت کو برآمدات 4 لاکھ 10 ہزار ڈالر رہیں جو گزشتہ سال 12 لاکھ 30 ہزار ڈالر تھیں۔ مالی سال 24 میں بھارت کو برآمدات 36لاکھ69 ہزار ڈالر رہیں جو گزشتہ سال کے اسی عرصے میں 3 لاکھ 29 ہزار ڈالر تھیں۔
مالی سال 2025 کے 9 ماہ میں افغانستان کو برآمدات 64.48 فیصد اضافے کے ساتھ 62 کروڑ 32 لاکھ 80 ہزار ڈالر رہیں جو گزشتہ سال 37کروڑ 89لاکھ20 ہزار ڈالر تھیں، مالی سال 2024 کے 9 ماہ کے 64لاکھ 40 ڈالر کے مقابلے میں 212 فیصد اضافے کے ساتھ برآمدات 2 کروڑ 13 لاکھ ڈالر رہیں، طورخم بارڈر اسٹیشن تقریباً 27 روز تک بند رہا جس کی وجہ سے افغانستان کو درآمدات اور برآمدات متاثر ہوئیں۔
رواں مالی سال میں افغانستان کو پاکستان کی اہم برآمدات میں چینی بھی شامل ہے، پاکستان نے گزشتہ 4 ماہ کے دوران 7 لاکھ ٹن سے زائد چینی برآمد کی جس میں سے زیادہ تر افغانستان کو برآمد کی گئی۔ ایران کے ساتھ تجارت کے کوئی اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں کیونکہ زیادہ تر تجارت غیر رسمی چینلز کے ذریعے کی جاتی ہے، تاہم پاکستان نے بلوچستان کی غیر محفوظ سرحد کے ذریعے ایرانی پیٹرولیم مصنوعات اور ایل پی جی کی بڑھتی ہوئی اسمگلنگ کے پیش نظر سرحد تجارت کا انتخاب کیا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: جو گزشتہ سال کے اسی عرصے میں مالی سال 2025 کے 9 ماہ میں ڈالر رہیں جو گزشتہ سال فیصد اضافے کے ساتھ ہزار ڈالر تھیں کے ساتھ تجارت ممالک کے ساتھ تجارتی خسارہ افغانستان کو برآمدات میں مالی سال 2024 سے درآمدات پاکستان کی کو برآمدات بنگلہ دیش میں بھارت کے دوران ارب ڈالر سری لنکا میں چین کی وجہ
پڑھیں:
سیلاب مہنگائی بڑھنے کا خدشہ ‘ سٹیٹ بنک : شرح سود 11فیصدبرقرار
کراچی (کامرس رپورٹر) سٹیٹ بنک آف پاکستان (ایس بی پی) کی مانیٹری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) نے مارکیٹ توقعات کے عین مطابق پالیسی ریٹ 11 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پالیسی ریٹ کو برقرار رکھے گی، کیونکہ حالیہ سیلاب کی وجہ سے مہنگائی میں اضافے کا امکان ہے۔ ماہرین اقتصادیات کو توقع ہے کہ مانیٹری پالیسی کمیٹی شرح سود برقرار رکھے گی کیونکہ حالیہ سیلاب کی وجہ سے مہنگائی میں اضافے کا امکان ہے۔ مرکزی بنک کی جانب سے اجری اعلامیہ کے مطابق زری پالیسی کمیٹی نے محسوس کیا کہ جولائی اور اگست دونوں مہینوں میں مہنگائی نسبتاً معتدل رہی، جبکہ قوزی مہنگائی نسبتاً سست رفتار سے کم ہوتی رہی۔ بلند تعدد کے اقتصادی اظہاریوں بشمول بڑے پیمانے کی اشیاء سازی، سے ناپی گئی، اقتصادی سرگرمیوں میں مزید تیزی آئی۔ تاہم جاری سیلابوں کے باعث مستقبل قریب میں میکرو اکنامک منظر نامے میں معمولی سا بگاڑ دیکھا گیا۔ سیلاب کی وجہ سے یہ عارضی لیکن نمایاں رسدی دھچکہ، خصوصاً وہ جو فصلوں کے شعبے کو لگے گا، عمومی مہنگائی کو بڑھا سکتا ہے اور مالی سال میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ سابقہ توقعات سے بڑھ سکتا ہے۔ دریں اثناء، معاشی نمو سابقہ تخمینے رکے مقابلے میں معتدل رہنے کی پیش گوئی ہے۔ زری پالیسی کمیٹی نے ارتقا پذیر میکرو اکنامک منظرنامے اور سیلاب سے متعلق غیر یقینی کیفیت کو دیکھتے ہوئے قیمتیں مستحکم رکھنے کے لیے آج کے فیصلے کو مناسب قرار دیا۔ زری پالیسی کمیٹی نے کہا کہ معیشت پچھلے بڑے سیلابوں کے مقابلے میں حالیہ سیلاب کے منفی اثرات کو برداشت کرنے کی خاصی مضبوط پوزیشن میں ہے۔ کم مہنگائی کے حالات میں ملکی طلب میں معتدل اضافے اور اجناس کی عالمی قیمتوں کے قدرے خوش آئند منظرنامے کے پیش نظر امید ہے کہ مہنگائی اور بیرونی کھاتے میں پچھلے سیلاب کے بعد آنے والا اضافی دباؤ اس مرتبہ قابو میں رہے گا۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے باوجود اسٹیٹ بنک کے زرمبادلہ ذخائر مستحکم رہے۔ دوسرا، سٹیٹ بنک اور آئی بی اے کے ستمبر میں ہونے والے احساسات کے دونوں سروے سے صارفین اور کاروباری اداروں دونوں کی مہنگائی کی توقعات میں اضافہ دیکھا گیا۔ بلند تعدد والے اقتصادی اظہاریوں، مثلاً مشینری اور وساطتی اشیاء کی درآمدات، گاڑیوں اور سیمنٹ کی فروخت، نجی شعبے کو قرضے اور کاروباری اعتماد کے تازہ ترین اعداد و شمار اس امر کی نشان دہی کرتے ہیں کہ مالی سال 25ء کی دوسری ششماہی سے معیشت میں مستحکم بنیادی نمو کا رجحان جاری ہے۔ اسی رجحان کے مطابق، مالی سال 25ء کی چوتھی سہ ماہی کے دوران بڑے پیمانے کی اشیاء سازی میں 3 فیصد سال بسال اضافہ ہوا، جب کہ اس سے پہلے کی تین سہ ماہیوں میں سکڑ آیا تھا۔ تاہم، حالیہ سیلاب نے مالی سال 26ء کے لیے مجموعی نمو کے امکانات کو معتدل کر دیا ہے۔ فی الحال دستیاب معلومات بشمول سیٹلائٹ تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ خریف کی فصلوں کو نقصان پہنچا ہے۔ یہ نقصانات اور سیلاب کے نتیجے میں رسدی زنجیر میں پیدا ہونے والی رکاوٹیں، مستقبل قریب میں اشیاء سازی اور خدمات کے شعبوں میں سرگرمیوں کو بھی متاثر کر سکتی ہیں۔ حقیقی جی ڈی پی کی نمو اپنے گذشتہ تخمینے 3.25 تا 4.25 فیصد کی حد کے نچلے سرے کے قریب رہنے کا امکان ہے۔ جولائی 2025ء میں کرنٹ اکاؤنٹ میں 254 ملین ڈالر خسارہ ریکارڈ ہوا، جس کی وجہ بڑھتی ہوئی اقتصادی سرگرمی کے ساتھ درآمدات میں اضافہ اور ترسیلات زر میں کسی قدر اعتدال تھا۔ اس خسارے اور مالی رقوم کی کم آمد کے باوجود، سٹیٹ بنک کے زرمبادلہ ذخائر 5 ستمبر تک تقریباً 14.3 ارب ڈالر کی سطح پر مستحکم رہے۔ مستقبل کے تناظر میں بیرونی شعبے کا منظرنامہ ملکی اور عالمی عوامل میں ممکنہ تبدیلیوں سے مشروط رہے گا۔ بالخصوص، فصلوں کو سیلاب سے پہنچنے والا نقصان تجارتی خسارے کو مزید بڑھانے کا باعث بنے گا، مجموعی طور پر مالی سال 26ء کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ پہلے سے دئیے گئے تخمینے کے مطابق جی ڈی پی کے صفر تا ایک فیصد کی حد میں رہنے کا امکان ہے۔ متوقع سرکاری رقوم کی آمد کے ساتھ سٹیٹ بنک کے زرِمبادلہ ذخائر دسمبر 2025ء تک بڑھ کر تقریباً 15.5 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے۔ مالی سال 26ء کے ابتدائی دو ماہ میں، ایف بی آر کے ٹیکس محاصل میں سال بسال 14.1 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ سٹیٹ بنک کی جانب سے حکومت کو 2.4 ٹریلین روپے کے بھاری منافع کی منتقلی اور بلند پٹرولیم لیوی کی بدولت مالی سال 26 ء کی پہلی سہ ماہی میں نمایاں پرائمری سرپلس کی توقع ہے۔ اسی اثناء میں سٹیٹ بنک کی جانب سے حکومت کو منافع موصول ہونے کے بعد بنکاری نظام سے حکومت کی خالص میزانی قرض گیری تیزی سے کم ہوئی جبکہ غیر سرکاری شعبے کو بنکوں کی جانب سے قرض کی فراہمی بڑھی۔ نجی شعبے کے قرضوں میں 14.1 فیصد سال بسال اضافہ ہوا جسے بہتر ہوتے ہوئے مالی حالات، معاشی سرگرمی اور میزانی قرض گیری میں مسلسل کمی سے سہارا ملا۔ اہم بات یہ ہے کہ قرضوں میں اضافہ وسیع البنیاد تھا، اہم قرض گیر شعبوں میں ٹیکسٹائل، ٹیلی مواصلات اور تھوک اور خردہ تجارت شامل تھے۔ سیلاب کے بعد معاشی سرگرمیوں میں متوقع سست روی سے پیدا ہونے والے چیلنجوں کے باوجود نجی شعبے کے قرض کی طلب کی موجودہ رفتار برقرار رہنے کا امکان ہے۔ جولائی میں مہنگائی بڑھ کر 4.1 فیصد سال بسال تک پہنچ گئی، جو اگست میں کم ہوکر 3 فیصد رہ گئی۔ یہ نتائج بڑے پیمانے پر غذا اور توانائی کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کی عکاسی کرتے ہیں۔ زری پالیسی کمیٹی نے محسوس کیا کہ حالیہ سیلاب نے مہنگائی کے مستقبل قریب کے منظر نامے میں، بالخصوص غذائی مہنگائی کے سلسلے میں، غیر یقینی کو بڑھا دیا ہے۔