Express News:
2025-07-25@14:17:18 GMT

اولاد کی تعلیم و تربیت

اشاعت کی تاریخ: 25th, April 2025 GMT

رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: کسی باپ نے اپنی اولاد کو حسن ادب سے بہتر تحفہ انعام میں نہیں دیا۔‘‘ (ترمذی)

اولاد کی تربیت کس قدر اہم ہے اس کا اندازہ اﷲ تعالیٰ کے اس فرمان سے ہوتا ہے، مفہوم: ’’اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ۔‘‘ آگ سے بچانے کی صورت تو صرف یہی ہے کہ انھیں اچھے اخلاق و آداب سکھا کر سچا مسلمان بنایا جائے تاکہ وہ جہنم کا ایندھن نہ بنیں۔ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ کوئی باپ اپنے بچے کو حسن آداب سے بہتر عطیہ نہیں دے سکتا۔ آپ ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اولاد کا باپ پر یہ بھی حق ہے کہ وہ اس کی صحیح تربیت کرے اور اچھا سا نام رکھے۔

ماں کی گود بچے کے لیے پہلی تربیت گاہ ہے‘ اخلاق کی جو تربیت ماں کی گود میں ہو جاتی ہے اسی پر بچے کی شخصیت پروان چڑھتی ہے، اسی تربیت پر کسی بچے کی سیرت کے بننے یا بگڑنے کا انحصار ہوتا ہے۔ اسی لیے ماں کا یہ اہم فریضہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اسلامی اخلاق کی تربیت دے۔ ماں اور باپ دونوں بچے کے سامنے حسن اخلاق کا نمونہ پیش کریں تاکہ ان کی اولاد عمدہ اخلاق کی حامل ہو۔ ان کا یہ فرض ہے کہ بچوں کو اسلامی تعلیمات سے رُوشناس کرائیں۔ انہیں اسلام کے عقائد سکھائیں اور پھر ان پر عمل بھی کرائیں۔ اس لیے حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب بچہ سات سال کا ہو جائے تو اس کو نماز کی تلقین کرنی چاہیے اور جب وہ دس سال کا ہو جائے تو نماز نہ پڑھنے پر اس کو سزا دی جائے۔

اسلام میں اولاد کی صحیح تربیت کی بڑی تاکید ہے۔ تربیت اولاد ایک انتہائی اور بنیادی ذمے داری ہے جو والدین پر ناصرف اسلام عاید کرتا ہے بل کہ اولاد کی صحیح تربیت کا فریضہ ملک و ملت کی طرف سے بھی عاید ہوتا ہے۔ چوں کہ بُری صحبت سے بُرے شہری پیدا ہوتے ہیں جو ملک پر بار ہوتے ہیں، اگر تربیت صحیح اصولوں پر ہو جائے تو یہی بچے اپنے ملک اور ملت کا نام روشن کرنے والے ہوں گے اور قوم کو ان پر فخر ہوگا۔

اولاد کی تربیت ایک دینی فریضہ بھی ہے۔ حدیث کی رُو سے بچہ اپنے والدین پر کچھ خرچ کرے تو صرف بچے کو ہی نہیں بل کہ والدین کو بھی ثواب ملتا ہے۔ والدین کو اس بات کا ثواب ملے گا کہ بچے کو نیک تربیت دی کہ والدین کی خدمت بجا لا رہا ہے اور یہ کہ والدین نے اسے دولت کمانے کا طریقہ سکھایا اور اسے اس قابل بنایا۔ نیک اولاد صدقہ جاریہ ہے یعنی جاری رہنے والی خیرات ہے۔ حدیث شریف میں ہے، مفہوم: ’’جب چند لوگوں کا درجہ چند دوسرے لوگ بلند دیکھیں گے تو پوچھیں گے کہ اس کی کیا وجہ ہے؟ تو جواب ملے گا تمہاری اولاد نے تمہارے لیے جو استغفار کیا ہے یہ اس کی وجہ سے ہے۔‘‘ (ترمذی)

آنحضور ﷺ نے اپنی بیٹی فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی جس انداز سے تربیت و پرورش فرمائی وہ سارے انسانوں کے لیے ایک بہترین نمونہ ہے۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ جناب فاطمہ الزہرا رضی اﷲ عنہا سب عورتوں سے عقل مند ہیں۔ وہ اپنے طرزِ کلام، حسن خلق، اسلوب گفت گُو، خشوع و خضوع میں آنحضرت ﷺ کے مشابہ ہیں۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ اور حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کی پاکیزہ زندگی مسلمانانِ عالم کے لیے بہترین نمونہ ہیں۔ ان سب نے حضور اکرم ﷺ کی تربیت سے فیض حاصل کیا۔

اولاد کا والدین پر یہ بھی حق ہے کہ وہ حیثیت کے مطابق اولاد کو مروجہ تعلیم بھی دلائیں اور دینی تعلیم کا بھی بندوبست کریں۔ علم وہ دولت ہے جس سے انسان کی صلاحیتیں اجاگر ہوتی ہیں اور وہ انسانیت کے زیور سے آراستہ ہوتا ہے۔

جہاں اس تعلیم سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ انسان انسان بن جاتا ہے وہاں اس کا یہ بھی فائدہ ہے کہ حصول معاش میں آسانیاں پیدا ہو جاتی ہیں اور یہ اولاد بڑھاپے میں والدین کا سہارا بن جاتی ہے۔ سب سے بڑھ کر آج سائنس اور ٹیکنالوجی کے زمانے میں بغیر علم کے ملک کے کسی بھی شعبہ میں انسان خدمت نہیں کر سکتا۔ کسی ملک کی ترقی کے لیے اس بات کی ضرورت بنیادی طور پر ہے کہ اس کے افراد تعلیم یافتہ ہوں اور ان میں ماہرین فن بھی ہوں اور ماہرین تعلیم بھی تاکہ ملک کے منصوبے پورے ہو سکیں۔

بچوں کو تعلیم دلانا گویا کہ ایک ملی فریضہ بھی ہے، جسے ہر ماں باپ کو ادا کرنا چاہیے۔ نبی کریم ﷺ نے تعلیم کو بڑی اہمیت دی۔ بدر کے قیدیوں کا فدیہ یہ فرمایا کہ وہ مسلمانوں کے دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں۔ حصول تعلیم میں تکلیفیں اٹھانے والوں کو اﷲ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والے کا درجہ دیا۔ شرط صرف اتنی ہے کہ اس طلب علم کا مقصد نیک ہو۔

اولاد کا یہ بھی حق ہے کہ والدین ان سے محبت و شفقت کا اظہار کریں اور ان پر رحم کرنا مسلمان ہونے کی نشانی ہے۔ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کا احترام نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ حضور اکرم ﷺ کا اُسوہ بھی یہی ہے کہ آپ ﷺ بچوں سے محبت کیا کرتے تھے۔

ایک دن ایک دیہاتی حاضر خدمت ہوا بچوں کو پیار کرتے دیکھ کر پوچھا: کیا آپ ﷺ بچوں کو چومتے اور پیار کرتے ہیں؟ ہم تو ایسا نہیں کرتے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کہ میں اس پر قادر نہیں ہوں کہ تیرے دل سے اﷲ تعالیٰ نے جو رحم نکال لیا ہے پھر تیرے دل میں رکھ دوں۔

اولاد سے محبت ایک فطری بات ہے مگر اس میں اعتدال سے گزر جانا تباہ کن ہے۔ انسان کو یہ محبت راہ ہدایت سے بھی گم راہ کر دیتی ہے۔ اولاد میں انسان کے لیے بڑی آزمائش ہے۔ جو اس میں پورا اترا وہ کام یاب ہُوا۔ یہ اولاد ہی تو ہے جو انسان کو حرام روزی کمانے پر مجبور کرتی ہے۔ پھر انھی کی محبت میں گرفتار ہو کر آدمی فرائض کی بجا آوری میں کوتاہی کرتا ہے۔

قرآن کریم میں ارشاد ہے، مفہوم: ’’تمہارے اموال اور تمہاری اولاد تمہارے لیے آزمائش ہیں۔‘‘ (التغابن)

            اسلام اموال اور اولاد کی محبت میں اعتدال اور میانہ روی کا راستہ تجویز کرتا ہے۔ اس کے برعکس عمل سے انسان کو سراسر گھاٹا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ قیامت کے روز حرام روزی مہیا کرنے والے آدمی کے ساتھ سب سے پہلے اس کے اہل و عیال جھگڑا کریں گے اور گناہوں کی تمام تر ذمے داری اس پر ڈال دیں گے۔

والدین کا یہ فرض ہے کہ اپنے تمام بچوں سے یک ساں اور عدل و انصاف والا سلوک کریں۔ اسلام میں لڑکے اور لڑکی یا چھوٹے اور بڑے کی کوئی تمیز نہیں، سب کے حقوق یک ساں ہیں، اسلام نے لڑکوں کے ساتھ لڑکیوں کے مقابلے میں ترجیحی سلوک کو روا نہیں رکھا۔ اسلام پہلا مذہب ہے جس نے لڑکیوں کو وراثت میں حق دلایا۔ اپنی اولاد میں کسی ایک کو کوئی چیز دے دینا اور دوسروں کو اس سے محروم رکھنا جائز نہیں، اسے ظلم قرار دیا گیا کیوں کہ یہ انصاف کے خلاف ہے۔

ایک مرتبہ ایک صحابیؓ نے اپنے ایک بیٹے کو ایک غلام دیا اور حضور ﷺ سے آکر عرض کیا: آپ ﷺ اس کے گواہ رہیے۔

آپ ﷺ نے پوچھا: کیا دوسرے بچوں کو بھی ایک غلام دیا ہے؟

اس نے عرض کیا: نہیں۔

آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں اس ظلم کا گواہ نہیں بننا چاہتا۔‘‘

اولاد کے درمیان ناانصافی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ بہن بھائیوں میں عداوت اور دشمنی کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں، جس سے گھر کا سکون ختم ہو جاتا ہے اور وہ بچہ جس سے ناروا سلوک کیا گیا ہے والدین سے نفرت کرنے لگے گا۔ یہ بات اس کی اور والدین کی زندگی پر بُری طرح اثر انداز ہو گی۔ لہٰذا ایک اچھے معاشرے کی تشکیل کے لیے اولاد کی تربیت عمدہ خطوط میں کرنا والدین کا ایک اہم فریضہ ہے۔

اﷲ رب العزت ہمیں دین اسلام کے مطابق بہترین طرزِ عمل اختیار کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: حضور اکرم ﷺ کہ والدین اﷲ تعالی کی تربیت اولاد کی بچوں کو ہوتا ہے کے لیے یہ بھی

پڑھیں:

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی زیر صدارت خصوصی اجلاس، تعلیمی اداروں میں اصلاحات اور معیار تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے کئی اہم فیصلے

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی زیر صدارت ہائر ایجوکیشن سے متعلق ایک اہم اجلاس ہوا جس میں پنجاب کی تعلیمی اداروں میں اصلاحات اور معیار تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے کئی اہم فیصلے کیے گئے۔ اجلاس میں ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے تفصیلی بریفنگ دی گئی جس میں جی سی یونیورسٹی، گورنمنٹ کالج برائے خواتین یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کو ماڈل تعلیمی ادارے بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔اجلاس میں بتایا گیا کہ برطانیہ، کوریا اور قازقستان سمیت متعدد غیر ملکی یونیورسٹیوں نے پنجاب میں کیمپس بنانے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ ان یونیورسٹیوں میں یونیورسٹی آف لندن، یونیورسٹی آف برنل، یونیورسٹی آف گلاسیسٹرشائر اور یونیورسٹی آف لِیسٹر شامل ہیں۔ وزیراعلیٰ مریم نواز نے اس پیشکش کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ اس سے پنجاب کی تعلیمی سطح کو مزید بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔پنجاب کے سرکاری کالجز میں کالج مینجمنٹ کونسل قائم کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا، جس کا مقصد تعلیمی اداروں کی کارکردگی کو مزید بہتر بنانا ہے۔ اجلاس میں "کے پی آئی" سسٹم کو پنجاب کی یونیورسٹیوں میں نافذ کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا تاکہ تدریسی معیار اور وائس چانسلرز کی کارکردگی کو بہتر طریقے سے جانچا جا سکے۔وزیراعلیٰ نے انڈر پرفارمنگ کالجز سے متعلق بھی رپورٹ طلب کی اور کہا کہ تعلیمی معیار کو یقینی بنانے کے لیے ان اداروں پر نظر رکھی جائے۔ مزید برآں، ایجوکیشن ویجی لینس سکواڈ قائم کرنے کی منظوری دی گئی جو تعلیمی اداروں میں اچانک حاضری، صفائی، معیار تعلیم اور دیگر امور کی جانچ کرے گا۔اجلاس میں سی ایم پنجاب ہونہار سکالر شپ اور لیپ ٹاپ سکیم کی بھی تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ پنجاب کے علاوہ، دوسرے صوبوں کے 19,000 سے زائد طلبہ نے اس اسکیم میں درخواست دی ہے۔ وزیراعلیٰ نے اس اسکیم کو مزید فعال بنانے کے لیے اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی۔ہائر ایجوکیشن کا سٹریٹجک پلان 2025-2029 کے حوالے سے بھی اجلاس میں تفصیل سے بات چیت کی گئی۔ وزیراعلیٰ مریم نواز نے کہا کہ پنجاب کی یونیورسٹیوں میں تدریسی معیار، اختراعی تحقیق، تخلیقی علم، اور ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن کو ترجیحات میں شامل کیا جائے گا۔پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں میں گورننس ریفارمز اور ادارہ جاتی خودمختاری لانے کی تجویز پر بھی اتفاق کیا گیا تاکہ یونیورسٹیوں کی کارکردگی میں مزید بہتری آئے۔وزیراعلیٰ نے پنجاب میں پہلی مرتبہ ہائر ایجوکیشن کانفرنس کے انعقاد کی اصولی منظوری دی جس کا مقصد تعلیمی اداروں میں درپیش چیلنجز اور ان کے حل کے لیے اقدامات پر تبادلہ خیال کرنا ہے۔وزیراعلیٰ نے کامرس کالجز کے حوالے سے بھی رپورٹ طلب کی تاکہ غیر فعال اداروں کی بہتری کے لیے اقدامات کیے جا سکیں۔

متعلقہ مضامین

  • گورنر سندھ سے ایم کیو ایم وفد کی ملاقات،تعلیم، صحت، روزگار اور فلاحی امور پرتبادلہ خیال
  • پولیو کے قطرے نہ پلانے سے معذوری کے ذمہ دار والدین: طاہر اشرفی 
  • لاہور: پنجاب حکومت کا اعلیٰ تعلیمی اداروں کے قیام، معیار تعلیم بلند کرنے کا فیصلہ
  • بانی نے کہا سلیمان، قاسم میری اولاد ہیں، باپ کیلئے آواز اٹھانا انکا حق ہے، علیمہ خان
  • ضم شدہ اضلاع میں روزگار اور تعلیم کی فراہمی اور غربت کے خاتمے تک امن قائم نہیں ہوسکتا، چیئرمین سینیٹ
  • وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی زیر صدارت خصوصی اجلاس، تعلیمی اداروں میں اصلاحات اور معیار تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے کئی اہم فیصلے
  • بہاولپور بورڈ؛ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والی طالبہ کی میٹرک میں شاندار کامیابی
  • پاکستان علما کونسل نے بلوچستان میں قتل خاتون کے والدین کے بیان کو قرآن و سنت کے منافی قرار دیدیا
  • پاکستان علماء کونسل نے بلوچستان میں قتل خاتون کے والدین کے بیان کو قرآن و سنت کے منافی قرار دے دیا
  • والدین ہوشیار رہیں، سفر سے قبل 18 سال سے کم عمر بچوں کی ویزا شرائط ضرور جان لیں