رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: کسی باپ نے اپنی اولاد کو حسن ادب سے بہتر تحفہ انعام میں نہیں دیا۔‘‘ (ترمذی)
اولاد کی تربیت کس قدر اہم ہے اس کا اندازہ اﷲ تعالیٰ کے اس فرمان سے ہوتا ہے، مفہوم: ’’اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ۔‘‘ آگ سے بچانے کی صورت تو صرف یہی ہے کہ انھیں اچھے اخلاق و آداب سکھا کر سچا مسلمان بنایا جائے تاکہ وہ جہنم کا ایندھن نہ بنیں۔ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ کوئی باپ اپنے بچے کو حسن آداب سے بہتر عطیہ نہیں دے سکتا۔ آپ ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اولاد کا باپ پر یہ بھی حق ہے کہ وہ اس کی صحیح تربیت کرے اور اچھا سا نام رکھے۔
ماں کی گود بچے کے لیے پہلی تربیت گاہ ہے‘ اخلاق کی جو تربیت ماں کی گود میں ہو جاتی ہے اسی پر بچے کی شخصیت پروان چڑھتی ہے، اسی تربیت پر کسی بچے کی سیرت کے بننے یا بگڑنے کا انحصار ہوتا ہے۔ اسی لیے ماں کا یہ اہم فریضہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اسلامی اخلاق کی تربیت دے۔ ماں اور باپ دونوں بچے کے سامنے حسن اخلاق کا نمونہ پیش کریں تاکہ ان کی اولاد عمدہ اخلاق کی حامل ہو۔ ان کا یہ فرض ہے کہ بچوں کو اسلامی تعلیمات سے رُوشناس کرائیں۔ انہیں اسلام کے عقائد سکھائیں اور پھر ان پر عمل بھی کرائیں۔ اس لیے حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب بچہ سات سال کا ہو جائے تو اس کو نماز کی تلقین کرنی چاہیے اور جب وہ دس سال کا ہو جائے تو نماز نہ پڑھنے پر اس کو سزا دی جائے۔
اسلام میں اولاد کی صحیح تربیت کی بڑی تاکید ہے۔ تربیت اولاد ایک انتہائی اور بنیادی ذمے داری ہے جو والدین پر ناصرف اسلام عاید کرتا ہے بل کہ اولاد کی صحیح تربیت کا فریضہ ملک و ملت کی طرف سے بھی عاید ہوتا ہے۔ چوں کہ بُری صحبت سے بُرے شہری پیدا ہوتے ہیں جو ملک پر بار ہوتے ہیں، اگر تربیت صحیح اصولوں پر ہو جائے تو یہی بچے اپنے ملک اور ملت کا نام روشن کرنے والے ہوں گے اور قوم کو ان پر فخر ہوگا۔
اولاد کی تربیت ایک دینی فریضہ بھی ہے۔ حدیث کی رُو سے بچہ اپنے والدین پر کچھ خرچ کرے تو صرف بچے کو ہی نہیں بل کہ والدین کو بھی ثواب ملتا ہے۔ والدین کو اس بات کا ثواب ملے گا کہ بچے کو نیک تربیت دی کہ والدین کی خدمت بجا لا رہا ہے اور یہ کہ والدین نے اسے دولت کمانے کا طریقہ سکھایا اور اسے اس قابل بنایا۔ نیک اولاد صدقہ جاریہ ہے یعنی جاری رہنے والی خیرات ہے۔ حدیث شریف میں ہے، مفہوم: ’’جب چند لوگوں کا درجہ چند دوسرے لوگ بلند دیکھیں گے تو پوچھیں گے کہ اس کی کیا وجہ ہے؟ تو جواب ملے گا تمہاری اولاد نے تمہارے لیے جو استغفار کیا ہے یہ اس کی وجہ سے ہے۔‘‘ (ترمذی)
آنحضور ﷺ نے اپنی بیٹی فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی جس انداز سے تربیت و پرورش فرمائی وہ سارے انسانوں کے لیے ایک بہترین نمونہ ہے۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ جناب فاطمہ الزہرا رضی اﷲ عنہا سب عورتوں سے عقل مند ہیں۔ وہ اپنے طرزِ کلام، حسن خلق، اسلوب گفت گُو، خشوع و خضوع میں آنحضرت ﷺ کے مشابہ ہیں۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ اور حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کی پاکیزہ زندگی مسلمانانِ عالم کے لیے بہترین نمونہ ہیں۔ ان سب نے حضور اکرم ﷺ کی تربیت سے فیض حاصل کیا۔
اولاد کا والدین پر یہ بھی حق ہے کہ وہ حیثیت کے مطابق اولاد کو مروجہ تعلیم بھی دلائیں اور دینی تعلیم کا بھی بندوبست کریں۔ علم وہ دولت ہے جس سے انسان کی صلاحیتیں اجاگر ہوتی ہیں اور وہ انسانیت کے زیور سے آراستہ ہوتا ہے۔
جہاں اس تعلیم سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ انسان انسان بن جاتا ہے وہاں اس کا یہ بھی فائدہ ہے کہ حصول معاش میں آسانیاں پیدا ہو جاتی ہیں اور یہ اولاد بڑھاپے میں والدین کا سہارا بن جاتی ہے۔ سب سے بڑھ کر آج سائنس اور ٹیکنالوجی کے زمانے میں بغیر علم کے ملک کے کسی بھی شعبہ میں انسان خدمت نہیں کر سکتا۔ کسی ملک کی ترقی کے لیے اس بات کی ضرورت بنیادی طور پر ہے کہ اس کے افراد تعلیم یافتہ ہوں اور ان میں ماہرین فن بھی ہوں اور ماہرین تعلیم بھی تاکہ ملک کے منصوبے پورے ہو سکیں۔
بچوں کو تعلیم دلانا گویا کہ ایک ملی فریضہ بھی ہے، جسے ہر ماں باپ کو ادا کرنا چاہیے۔ نبی کریم ﷺ نے تعلیم کو بڑی اہمیت دی۔ بدر کے قیدیوں کا فدیہ یہ فرمایا کہ وہ مسلمانوں کے دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں۔ حصول تعلیم میں تکلیفیں اٹھانے والوں کو اﷲ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والے کا درجہ دیا۔ شرط صرف اتنی ہے کہ اس طلب علم کا مقصد نیک ہو۔
اولاد کا یہ بھی حق ہے کہ والدین ان سے محبت و شفقت کا اظہار کریں اور ان پر رحم کرنا مسلمان ہونے کی نشانی ہے۔ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کا احترام نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ حضور اکرم ﷺ کا اُسوہ بھی یہی ہے کہ آپ ﷺ بچوں سے محبت کیا کرتے تھے۔
ایک دن ایک دیہاتی حاضر خدمت ہوا بچوں کو پیار کرتے دیکھ کر پوچھا: کیا آپ ﷺ بچوں کو چومتے اور پیار کرتے ہیں؟ ہم تو ایسا نہیں کرتے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کہ میں اس پر قادر نہیں ہوں کہ تیرے دل سے اﷲ تعالیٰ نے جو رحم نکال لیا ہے پھر تیرے دل میں رکھ دوں۔
اولاد سے محبت ایک فطری بات ہے مگر اس میں اعتدال سے گزر جانا تباہ کن ہے۔ انسان کو یہ محبت راہ ہدایت سے بھی گم راہ کر دیتی ہے۔ اولاد میں انسان کے لیے بڑی آزمائش ہے۔ جو اس میں پورا اترا وہ کام یاب ہُوا۔ یہ اولاد ہی تو ہے جو انسان کو حرام روزی کمانے پر مجبور کرتی ہے۔ پھر انھی کی محبت میں گرفتار ہو کر آدمی فرائض کی بجا آوری میں کوتاہی کرتا ہے۔
قرآن کریم میں ارشاد ہے، مفہوم: ’’تمہارے اموال اور تمہاری اولاد تمہارے لیے آزمائش ہیں۔‘‘ (التغابن)
اسلام اموال اور اولاد کی محبت میں اعتدال اور میانہ روی کا راستہ تجویز کرتا ہے۔ اس کے برعکس عمل سے انسان کو سراسر گھاٹا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ قیامت کے روز حرام روزی مہیا کرنے والے آدمی کے ساتھ سب سے پہلے اس کے اہل و عیال جھگڑا کریں گے اور گناہوں کی تمام تر ذمے داری اس پر ڈال دیں گے۔
والدین کا یہ فرض ہے کہ اپنے تمام بچوں سے یک ساں اور عدل و انصاف والا سلوک کریں۔ اسلام میں لڑکے اور لڑکی یا چھوٹے اور بڑے کی کوئی تمیز نہیں، سب کے حقوق یک ساں ہیں، اسلام نے لڑکوں کے ساتھ لڑکیوں کے مقابلے میں ترجیحی سلوک کو روا نہیں رکھا۔ اسلام پہلا مذہب ہے جس نے لڑکیوں کو وراثت میں حق دلایا۔ اپنی اولاد میں کسی ایک کو کوئی چیز دے دینا اور دوسروں کو اس سے محروم رکھنا جائز نہیں، اسے ظلم قرار دیا گیا کیوں کہ یہ انصاف کے خلاف ہے۔
ایک مرتبہ ایک صحابیؓ نے اپنے ایک بیٹے کو ایک غلام دیا اور حضور ﷺ سے آکر عرض کیا: آپ ﷺ اس کے گواہ رہیے۔
آپ ﷺ نے پوچھا: کیا دوسرے بچوں کو بھی ایک غلام دیا ہے؟
اس نے عرض کیا: نہیں۔
آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں اس ظلم کا گواہ نہیں بننا چاہتا۔‘‘
اولاد کے درمیان ناانصافی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ بہن بھائیوں میں عداوت اور دشمنی کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں، جس سے گھر کا سکون ختم ہو جاتا ہے اور وہ بچہ جس سے ناروا سلوک کیا گیا ہے والدین سے نفرت کرنے لگے گا۔ یہ بات اس کی اور والدین کی زندگی پر بُری طرح اثر انداز ہو گی۔ لہٰذا ایک اچھے معاشرے کی تشکیل کے لیے اولاد کی تربیت عمدہ خطوط میں کرنا والدین کا ایک اہم فریضہ ہے۔
اﷲ رب العزت ہمیں دین اسلام کے مطابق بہترین طرزِ عمل اختیار کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: حضور اکرم ﷺ کہ والدین اﷲ تعالی کی تربیت اولاد کی بچوں کو ہوتا ہے کے لیے یہ بھی
پڑھیں:
سوڈان کی قیامت خیز جنگ سے فرار کے دوران خاندان بچھڑ گئے، بچے والدین کے سامنے قتل
سوڈان کی قیامت خیز جنگ سے فرار کے دوران خاندان بچھڑ گئے، بچے والدین کے سامنے قتل WhatsAppFacebookTwitter 0 2 November, 2025 سب نیوز
سوڈان کے شہر الفاشر سے فرار ہوکر زندہ بچ جانے والے افراد نے بتایا ہے کہ نیم فوجی دستوں نے وہاں خاندانوں کو الگ کر دیا اور بچوں کو ان کے والدین کے سامنے قتل کیا جبکہ شہر پر قبضے کے بعد بھی دسیوں ہزار لوگ اب بھی محصور ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق جرمنی کے اعلیٰ سفارتکار جوہان ویڈیفل نے صورتحال کو ’قیامت خیز‘ قرار دیا، جبکہ نئی سیٹلائٹ تصاویر سے ظاہر ہوا ہے کہ پیراملٹری فورسز کی جانب سے اجتماعی قتل عام اب بھی جاری ہے، یہ واقعات اُس کے پانچ دن بعد پیش آ رہے ہیں جب ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) نے الفاشر پر قبضہ کر لیا تھا۔
اپریل 2023 سے سوڈانی فوج کے ساتھ جاری جنگ کے دوران آر ایس ایف نے 18 ماہ کے محاصرے کے بعد بالآخر دارفور کے اس آخری فوجی گڑھ پر قبضہ کر لیا، قبضے کے بعد سے وہاں اجتماعی قتل، جنسی تشدد، امدادی کارکنوں پر حملے، لوٹ مار اور اغوا کے واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں جبکہ علاقے کا رابطہ بیرونی دنیا سے تقریباً منقطع ہے۔6 بچوں کی ماں زہرہ نامی خاتون نے سیٹلائٹ فون پر بتایا کہ ’مجھے نہیں معلوم میرا بیٹا محمد زندہ ہے یا مر گیا، انہوں نے تمام لڑکوں کو پکڑ لیا‘، وہ بتاتی ہیں کہ آر ایس ایف کے اہلکاروں نے ان کے 16 اور 20 سالہ بیٹوں کو پکڑ لیا تھا، تاہم ان کی التجا کے باوجود صرف چھوٹے بیٹے کو چھوڑا گیا۔
ایک اور شخص آدم نے بتایا کہ اس کے 17 اور 21 سالہ بیٹوں کو اس کی آنکھوں کے سامنے قتل کر دیا گیا، اس نے بتایا کہ ’انہوں نے کہا کہ یہ فوج کے لیے لڑ رہے تھے، پھر انہوں نے مجھے لاٹھیوں سے پیٹا‘۔
آر ایس ایف کے زیرِ قبضہ قصبے گرنی میں جنگجوؤں نے آدم کے کپڑوں پر خون دیکھا اور اسے بھی فوجی سمجھ کر تفتیش کی، تاہم کئی گھنٹے بعد چھوڑ دیا۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق اتوار سے اب تک 65 ہزار سے زائد لوگ الفاشر سے فرار ہو چکے ہیں، مگر دسیوں ہزار اب بھی پھنسے ہوئے ہیں، شہر میں آر ایس ایف کے حملے سے پہلے تقریباً 2 لاکھ 60 ہزار افراد موجود تھے۔
بین الاقوامی تنظیم ’ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز‘ (ایم ایس این) نے کہا ہے کہ بڑی تعداد میں لوگ شدید خطرے میں ہیں اور آر ایس ایف اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے لوگوں کو محفوظ علاقوں تک پہنچنے سے روکا جارہا ہے۔
تنظیم کے مطابق صرف 5 ہزار افراد مغربی قصبے تویلا تک پہنچ پائے ہیں، جو الفاشر سے تقریباً 70 کلومیٹر دور ہے، ایم ایس ایف کے ایمرجنسی ڈائریکٹر مشیل اولیور لاشیریٹے نے کہا کہ ’پہنچنے والوں کی تعداد بیانات سے میل نہیں کھاتی، اور بڑے پیمانے پر مظالم کی اطلاعات بڑھ رہی ہیں‘۔
کئی عینی شاہدین کے مطابق تقریباً 500 شہریوں اور فوج کے ساتھ منسلک اہلکاروں نے اتوار کے روز فرار کی کوشش کی، مگر زیادہ تر کو آر ایس ایف اور اس کے اتحادیوں نے قتل یا گرفتار کر لیا۔
رپورٹس کے مطابق لوگوں کو عمر، جنس اور نسل کی بنیاد پر الگ کیا گیا، اور متعدد افراد تاوان کے بدلے حراست میں رکھے گئے ہیں، دارفور میں زیادہ تر غیر عرب نسلوں کے لوگ آباد ہیں، جو سوڈان کے غالب عرب باشندوں سے مختلف ہیں۔
اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ آر ایس ایف کے حملے میں ہلاکتوں کی تعداد سیکڑوں میں ہو سکتی ہے، جبکہ فوج کے اتحادیوں نے الزام لگایا کہ آر ایس ایف نے 2 ہزار سے زائد شہریوں کو ہلاک کیا۔
ییل یونیورسٹی کی ہیومینیٹیرین ریسرچ لیب کے مطابق الفاشر اور اس کے گردونواح میں ابھی اجتماعی قتل جاری ہیں، ادارے نے بتایا کہ نئی سیٹلائٹ تصاویر میں اتوار سے جمعہ تک شہر کے مختلف علاقوں، یونیورسٹی کے احاطے اور فوجی مقامات پر کم از کم 31 جگہوں پر انسانی لاشوں جیسے نشانات دیکھے گئے۔
بحرین میں ہونے والی ایک کانفرنس میں جرمن سفارتکار ویڈیفل نے کہا کہ سوڈان مکمل طور پر ایک قیامت خیز صورتِ حال میں ہے، یہ دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران بن چکا ہے۔
آر ایس ایف نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے الفاشر پر قبضے کے دوران زیادتیوں کے مرتکب چند جنگجوؤں کو گرفتار کیا ہے، تاہم اقوامِ متحدہ کے انسانی امور کے سربراہ ٹام فلیچر نے گروپ کے اس عزم پر سوال اٹھایا۔
آر ایس ایف، جو بیس سال قبل دارفور میں نسل کشی کے الزامات کا سامنا کرنے والی جنجوید ملیشیا سے وجود میں آئی اور سوڈانی فوج، دونوں پر جنگی جرائم کے الزامات عائد ہیں، امریکا پہلے ہی یہ قرار دے چکا ہے کہ آر ایس ایف نے دارفور میں نسل کشی کی۔
اقوامِ متحدہ کی رپورٹس کے مطابق آر ایس ایف کو متحدہ عرب امارات سے ہتھیار اور ڈرون فراہم کیے گئے، تاہم اماراتی حکام نے بیان میں اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایسی کسی بھی حمایت کے الزام کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں اور مظالم کی مذمت کرتے ہیں۔
دوسری جانب فوج کو مصر، سعودی عرب، ایران اور ترکیہ کی حمایت حاصل ہے۔ الفاشر پر قبضے کے بعد آر ایس ایف نے دارفور کے تمام 5 صوبائی دارالحکومتوں پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا، جس سے ملک عملاً مشرقی اور مغربی حصوں میں تقسیم ہو گیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے عہدیداروں نے خبردار کیا ہے کہ تشدد اب پڑوسی علاقے کردوفان تک پھیل رہا ہے، جہاں بڑے پیمانے پر مظالم کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔
مجموعی طور پر اس جنگ نے دسیوں ہزار افراد کو ہلاک، تقریباً ایک کروڑ 20 لاکھ کو بے گھر کر دیا ہے، اور یہ دنیا کا سب سے بڑا انسانی نقل مکانی اور قحط کا بحران بن چکا ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرجنگ بندی کے باوجود غزہ میں صیہونی فوج کے حملے، مزید 5 فلسطینی شہید جنگ بندی کے باوجود غزہ میں صیہونی فوج کے حملے، مزید 5 فلسطینی شہید غزہ میں اسرائیل فضائی حملے کے دوران نوجوان فلسطینی باکسر شہید عیسائیوں کے قتل عام کا الزام: ٹرمپ کا نائیجیریا میں فوجی کارروائی کیلئے تیاری کا حکم بھارت سے آنے والی ہواؤں سے لاہور کی فضا انتہائی مضر صحت سابق وزیراعظم شاہد خاقان دل کی تکلیف کے باعث ہسپتال منتقل پشاور: سی ٹی ڈی تھانے میں شارٹ سرکٹ سے بارودی مواد پھٹ گیا، ایک اہلکار جاں بحقCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم