’ڈاکٹر چکر لگوا رہے تھے، چیٹ جی پی ٹی نے مرض کی تشخیص کر کے زندگی بچا لی
اشاعت کی تاریخ: 25th, April 2025 GMT
واشنگٹن(انٹرنیشنلڈیسک)امریکہ میں ایک خاتون نے کہا ہے کہ چیٹ جی پی ٹی نے ان کے اندر ”پوشیدہ کینسر“ کا پتا لگانے میں مدد کی جس کی علامات انہوں نے ڈاکٹر کو بتائیں لیکن انہوں اسے نظر انداز کر کے کسی اور مرض کی تشخیص کردی۔
فوکس نیوز کے مطابق 40 سالہ لورین بینن نے تیزی سے وزن کم ہونے اور معدے میں درد کی شکایت پر ڈاکٹر سے رابطہ کیا تو انہوں نے وجہ آرتھرائٹس یا معدے کی خرابی بتائی۔
لورن، جو ایک مارکیٹنگ کمپنی کی مالک ہیں، پھر انتھائی تکلیف دہ پیٹ کے درد میں مبتلا ہو گئیں اور صرف ایک ماہ میں 14 پاؤنڈ وزن کھو بیٹھیں، جسے ڈاکٹروں نے ایسڈ ریفلکس قرار دیا۔
خاتون نے چیٹ جی پی ٹی پر اپنی علامات کے بارے میں لکھا تو جواب آیا کہ انہیں ”ہیشیموتو“ (کینسر کی ایک قسم) ہے اور جب ٹیسٹ کروایا تو معلوم ہوا کہ چیٹ جی پی ٹی ٹھیک کہہ رہا ہے۔
ٹیسٹ سے پتا چلا کہ ان کی گردن پر دو چھوٹی رسولیاں ہیں جو کینسر ثابت ہوئیں۔
لورین کا کہنا تھا کہ ’ڈاکٹر مجھے صرف چکر لگوا رہے تھے، میں بہت مایوس تھی اور جاننا چاہتی تھی کہ آخر مجھے کیا ہوا ہے۔ لیکن جو جواب مجھے چاہیے تھا وہ نہیں مل رہا تھا۔
یہ وہ وقت تھا کہ جب میں نے چیٹ جی پی ٹی پر جاننے کی کوشش کی جس نے مرض کے بارے میں بتایا اور کہا کہ تھائیرائڈ کا ٹیسٹ ہونا چاہیے۔ میں ڈاکٹر کے پاس گئی جس نے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا کیونکہ اس مرض کی میری کوئی فیملی ہسٹری نہیں ہے۔
لورین کا کہنا تھا کہ میرے اندر ہیشیموتو مرض کی علامات نہیں تھیں، مجھے تھکاوٹ محسوس نہیں ہوتی تھی۔ اگر میں چیٹ جی پی ٹی پر نہ دیکھتی تو کینسر میرے جسم میں پھیل جاتا۔ چیٹ جی پی ٹی نے میری زندگی بچائی ہے۔
مزیدپڑھیں:سونے کی قیمتوں میں پھر یکدم ہزاروں روپے کی کمی
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: چیٹ جی پی ٹی مرض کی
پڑھیں:
پاکستان میں شعبہ صحت کا بحران:ساڑھے 7 لاکھ افراد کیلیے صرف ایک ڈاکٹر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد:پاکستان میں صحتِ عامہ کی صورت حال بدستور تشویش ناک ہے، جہاں ہر 7لاکھ 50 ہزار شہریوں کے لیے محض ایک ڈاکٹر میسر ہے۔
یہ حیران کن انکشاف وفاقی حکومت کی جانب سے جاری کردہ سالانہ اقتصادی سروے برائے مالی سال 2024-25 میں کیا گیا ہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ صحت پر حکومتی توجہ نہایت محدود اور وسائل غیر تسلی بخش ہیں۔
سروے رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں صحت کے شعبے پر رواں مالی سال کے دوران مجموعی طور پر 925 ارب روپے خرچ کیے گئے، جو جی ڈی پی کا ایک فیصد بھی نہیں بنتے۔ ماہرین صحت کے مطابق یہ شرح نہ صرف عالمی معیار سے بہت کم ہے بلکہ ملک کی بڑھتی آبادی، موسمیاتی اثرات اور وبائی خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ اخراجات انتہائی ناکافی قرار دیے جا رہے ہیں۔
پاکستان کی 24 کروڑ سے زائد آبادی کے مقابلے میں صرف 3 لاکھ 19 ہزار رجسٹرڈ ڈاکٹرز دستیاب ہیں۔ اگرچہ گزشتہ ایک سال میں ڈاکٹروں کی تعداد میں 20 ہزار سے زائد کا اضافہ ہوا، مگر یہ اضافہ بھی آبادی کے تناسب سے نہایت کم ہے۔ رپورٹ کے مطابق دانتوں کے امراض کے لیے مختص ماہرین یعنی ڈینٹسٹ کی مجموعی تعداد 39 ہزار 88 ہے، جو ملک کی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔
دیگر طبی عملے کی صورت حال بھی کچھ مختلف نہیں۔ نرسز کی کل تعداد ایک لاکھ 38 ہزار، دائیوں کی تعداد 46 ہزار 801 اور لیڈی ہیلتھ ورکرز صرف 29 ہزار ہیں۔ دیہی علاقوں خاص طور پر سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں بھی اس عملے کی شدید قلت محسوس کی جا رہی ہے، جس کے باعث زچگی، بچوں کی پیدائش اور عام بیماریوں کا بروقت علاج مشکل ہو چکا ہے۔
طبی انفرا اسٹرکچر کے حوالے سے بھی صورت حال تسلی بخش نہیں ہے۔ ملک میں اسپتالوں کی تعداد صرف 1696 ہے جب کہ بنیادی ہیلتھ یونٹس 5434 بتائے گئے ہیں۔ دور دراز علاقوں میں ان سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث لاکھوں افراد کو علاج کے لیے بڑے شہروں کا رخ کرنا پڑتا ہے، جہاں نہ صرف اخراجات زیادہ ہیں بلکہ رسائی بھی ایک مسئلہ ہے۔
ایک اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں بچوں کی شرح اموات اب بھی بلند سطح پر ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہر 1000 بچوں میں سے 50 شیرخوار سالانہ طور پر جان کی بازی ہار جاتے ہیں، جو عالمی سطح پر انتہائی تشویش ناک شرح سمجھی جاتی ہے۔ اس کی بنیادی وجوہات میں خوراک کی کمی، ناقص ویکسینیشن نظام اور بروقت طبی امداد کی عدم دستیابی شامل ہیں۔
اگرچہ رپورٹ میں اوسط عمر میں بہتری کا عندیہ دیا گیا ہے ، جو اب 67 سال 6 ماہ تک پہنچ چکی ہے ، لیکن ماہرین صحت کے مطابق یہ بہتری صرف شہری علاقوں تک محدود ہے، جب کہ دیہی علاقوں میں صورت حال اب بھی بدتر ہے۔ صحت کے شعبے میں پائیدار اصلاحات، فنڈز کا شفاف استعمال اور طبی عملے کی بھرتی جیسے اقدامات ناگزیر ہیں۔
اقتصادی سروے کے ان اعداد و شمار نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا ہے کہ پاکستان میں صحت کا شعبہ مسلسل نظراندازکیا جا رہا ہے۔ اگر حکومت اور پالیسی سازوں نے سنجیدہ اور بروقت اقدامات نہ کیے تو ملک کو مستقبل میں مزید بڑے صحت کے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔