Express News:
2025-09-18@23:24:06 GMT

شرح نمو میں کمی کا عندیہ اور عوام

اشاعت کی تاریخ: 26th, April 2025 GMT

آئی ایم ایف نے حالیہ تازہ قلابازی ایسی کھائی کہ شرح نمو کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیے۔ آئی ایم ایف نے چند ہفتے قبل معاشی حکام کو تسلی دی تھی کہ برے دن گزر جانے والے ہیں اور جلد ہی پاکستان کی شرح نمو 3 فی صد ہو کر رہے گی۔

کچھ غریبوں نے بھی کہیں سے سنی ان سنی کر لی تھی کہ بس اب وہ دن دور نہیں، آمدن بڑھے گی، مہنگائی گھٹے گی، کارخانوں کے دروازے کھلیں گے، نقارے بجائے جائیں گے کہ ضرورت ہے بے روزگاروں کی، تاکہ ان کو روزگار فراہم کیے جائیں، تاکہ لوگوں کی آمدن میں اضافہ ہو، کارخانہ داروں نے بھی کان کھڑے کر لیے کہ بس اب بھلے دن آگئے، کیا ہوا اگر امریکا بہادر نے ہماری ایکسپورٹ کو مہنگا کر دیا، بس اب پاکستانی عوام کی جیب میں اتنا پیسہ آنے والا ہے کہ اپنا مال بنائیں گے اور ملک کے طول و عرض میں بیچیں گے۔ لیکن یہ ساری خوش فہمیاں اس وقت ہوا ہو گئیں جب آئی ایم ایف نے یہ تازہ فرمان جاری کیا کہ کچھ عالمی تقاضے، کساد بازاری کا ماحول، امریکا چین کی معاشی جنگ، جنگ کا کھیل ان دو ملکوں کا ہے اور سزا پاکستان کے لیے، کیونکہ پاکستان کی شرح نمو تین فی صد سے گھٹا کر 2.

6 فی صد کر دی گئی ہے۔

ساتھ ہی یہ نوید بھی سنائی گئی کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں، مستقبل میں اضافہ بھی ہوگا، یعنی 2030 تک 4.5 فی صد ہو کر رہے گی۔ بات یہ ہے کہ اس ساری اتھل پتھل، کبھی کم یا کبھی زیادہ شرح نمو ان سب سے غریب عوام کو کیا لینا دینا۔ اسے تو چند سال کیا کئی عشروں سے اپنی دال روٹی کی فکر تھی، اسے کیا معلوم عالمی کساد بازاری کیا ہے؟ پاکستان میں افراط زر کی شرح کیا ہے؟ چین و امریکا کی تجارتی جنگ میں اس کا کیا کردار ہے؟ دنیا کی اسٹاک مارکیٹس کا کیا بن رہا ہے؟ عالمی سطح پر ڈالر کی حکمرانی میں کتنے فی صد اضافہ یا کمی ہوگئی ہے، اسے تو یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ آج مزدوری نہ ملی تو رات بچے پھر بھوکے سوئیں گے۔

شرح نمو کی بات ہو رہی ہے تو اس کا کچھ موازنہ کر لیتے ہیں۔ 2018 سے قبل مسلم لیگ نے کہا تھا کہ ہم نے اپنے دور میں جی ڈی پی 2.8 فی صد سے بڑھا کر 5.8 فی صد کر دی تھی۔ دعویٰ یہ کیا گیا کہ یہ سولہ سال میں بلند ترین شرح ہے۔ اس کے بعد 2018 میں آنے والی حکومت کے بارے میں کہا گیا کہ 2019 میں شرح نمو 2.1 فی صد ہوکر رہ گئی اور اس میں آئی ایم ایف کی دیر سے آمد کا بھی کچھ عنصر داخل تھا۔ ڈالر ریٹ بھی بڑھ گئے تھے، معاشی حالات میں بہتری نہیں آ رہی تھی اور پھر 2020 میں کووڈ 19 کے اثرات نمایاں ہونے لگے اور 2021 میں حکومت شرح نمو 2.1 فی صد ہونے کا دعویٰ کر رہی تھی۔

اس بات کا ڈھنڈورا مچایا گیا کہ کووڈ سے معیشت کو سنبھال کر لے آئے ہیں۔ 2020 میں بعض شہروں کی انتظامیہ نے دعویٰ کیا کہ اربوں روپے کی امداد خاموشی کے ساتھ غربا میں تقسیم کر دی گئی جب کہ بہت سے غربا، اعلانیہ اس بات کی تردید کرتے رہے۔ اسی طرح 2021-22 کے لیے شرح نمو6 فی صد بیان کیا گیا۔ جوکہ مالی سال 2023 میں کم ہو کر رہ گئی اور 2024 کے لیے 2.4 فی صد اور 2024-25 کے لیے پہلے تخمینہ لگایا گیا کہ 3 فی صد تک ہوگا لیکن اب اس میں کمی کرکے 2.6 فی صد کر دیا گیا ہے۔ البتہ عوام کو اور حکام کو یہ تسلی دے دی گئی ہے کہ 2030 تک 4.5 فی صد شرح نمو حاصل ہو کر رہے گی۔

اس قسم کی پیش گوئیاں کرنے کے لیے ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر چائے کی پیالی کے گھونٹ لگا لگا کر اعداد و شمار سے کھیلتے کھیلتے، کچھ نمبرز ادھر کچھ اُدھر، کچھ جمع کچھ تفریق، ان سب میں غریب کو مستقبل کے سہانے خواب دکھانے کا عمل بھی شامل ہو جائے گا، گراف جو برسوں سے گر رہا تھا اسے بڑھانے کا خیال آجائے، پھر اس میں کہا جائے کہ سالانہ شرح نمو، یوں سالانہ کی قید بھی ہو، دلفریب بڑھتی ہوئی قدر کے ساتھ ایک نئے رنگ ڈھنگ میں، ایک ایسا دلاسا ہے ساڑھے چار فی صد کی شرح جو 2023 کے سال کو خوشنما بناتا ہے، ان تمام باتوں کے باوجود، میں اس معاشی اصول کو اہمیت دوں گا جو یہ کہتا ہے کہ بشرط یہ کہ دیگر حالات بدستور رہیں تو ہو سکتا ہے کہ 4.5 فی صد کی شرح نمو حاصل ہو جائے گی لیکن غریب کو تو آج اور کل کی فکر ہے اسے روٹی کی فکر ہے بچوں کے بھوک کی فکر ہے۔

حکام کو چاہیے کہ آئی ایم ایف کے کہنے پر نہ جائیں 2.6 کی پیش گوئی کو ڈبل کر دیں، کوئی مشکل کام نہیں ہے، غیر ملکی غذائی درآمدات، اشیائے تعیش، لگژری آئٹمز، بیش قیمت فرنیچرز، مہنگی اشیا کی درآمد کو روکیں اور ہر وہ درآمدی شے جس کا متبادل ملک میں تیار ہو سکتا ہے ان کے نئے کارخانے کھولے جائیں پہلے سے بند کارخانوں کو سہارا دیا جائے۔

ملک کے کسانوں کے مسائل حل کریں، گندم کی ریکارڈ پیداوار حاصل ہوگئی ہے وفاقی حکومت اور تمام صوبائی حکومتیں اس بات کی بھرپور کوشش کریں کہ جن کسانوں نے ملک میں گندم کے ڈھیر لگا دیے ان کی جیبیں بھی مال و زر سے بھر جانی چاہیے تاکہ وہ ان سے ملکی صنعتوں کا مال خریدیں، ملکی صنعت کو فروغ حاصل ہو، روزگار کے نئے مواقع حاصل ہوں، پھر دیکھیے کس طرح آئی ایم ایف کی پیش گوئی غلط ثابت ہوکر شرح نمو 6 تا 7 فی صد تک حاصل ہو سکتی ہے۔ بشرط یہ کہ حکومت بھی کمر کس لے تو عوام بھی بھرپور ساتھ دینے کے لیے تیار ہے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: آئی ایم ایف فی صد ہو حاصل ہو کے لیے گئی ہے کی فکر گیا کہ کی شرح

پڑھیں:

کراچی: سیلاب، کرپشن اور جعلی ترقی کے منصوبے

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250917-03-6

 

میر بابر مشتاق

کراچی، پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور معاشی حب، ہمیشہ سے اپنے مسائل کی وجہ سے شہ سرخیوں میں رہا ہے۔ یہ وہ شہر ہے جو ملک کے ریونیو کا 65 فی صد اور صوبہ سندھ کے ریونیو کا تقریباً 95 فی صد دیتا ہے، لیکن بدلے میں اسے جو سہولتیں ملنی چاہییں وہ آج بھی خواب ہیں۔ اس شہر کو چلانے والے ہمیشہ یہ دعویٰ کرتے رہے کہ وہ کراچی کو روشنیوں کا شہر بنائیں گے، جدید انفرا اسٹرکچر فراہم کریں گے اور عوام کو معیاری سہولتیں دیں گے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ کراچی آج بھی بارش کے چند قطروں سے مفلوج ہو جانے والا شہر ہے۔ بارش اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔ یہ زمین کو شاداب کرتی ہے، کھیتوں کو سیراب کرتی ہے اور زندگی کو تازگی بخشتی ہے، لیکن بدقسمتی سے کراچی کے عوام کے لیے بارش کسی عذاب سے کم نہیں۔ یہاں بارش کا مطلب ہے گھنٹوں کا ٹریفک جام، پانی میں ڈوبی سڑکیں، گھروں میں داخل ہوتا ہوا گندا پانی، بیماریاں، کاروبار کی بندش اور ناقص منصوبہ بندی کا کھلا تماشا۔ حالیہ بارشوں نے ایک بار پھر یہ حقیقت آشکار کر دی کہ ہمارے حکمران صرف دکھاوے کے منصوبے بناتے ہیں، جن پر اربوں روپے خرچ کر کے عوام کو سبز باغ دکھائے جاتے ہیں، لیکن جیسے ہی بارش کا پہلا ریلا آتا ہے، یہ منصوبے زمین بوس ہو جاتے ہیں۔

کراچی میں 55 ارب روپے کی شاہراہ بھٹو اور 12 ارب روپے کی حب کنال صرف چند دن کی بارش میں بہہ گئیں۔ یہ وہی منصوبے تھے جن کے افتتاحی تقاریب پر حکومت نے کروڑوں روپے لٹائے، میڈیا پر اشتہارات چلائے اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی، لیکن چند دن بعد ہی یہ سب فراڈ بے نقاب ہو گیا۔ شاہراہ بھٹو کا ڈھانچہ بیٹھ گیا، حب کنال ٹوٹ گئی، اور عوام کے اربوں روپے مٹی میں مل گئے۔ یہ کسی ایک منصوبے کی بات نہیں، پورے شہر کا انفرا اسٹرکچر انہی خامیوں کا شکار ہے۔سندھ حکومت نے ہمیشہ کراچی کے وسائل کو لوٹا اور شہر کو نظرانداز کیا۔ پچھلے پندرہ سال میں صوبائی فنانس کمیشن (PFC) کا اجلاس تک نہیں ہوا۔ کراچی کو اس کے جائز حق کے 3360 ارب روپے نہیں دیے گئے۔ صوبائی ترقیاتی پروگرام میں کراچی کو ہمیشہ نظرانداز کیا گیا اور جو منصوبے دیے بھی گئے، ان کا حال وہی ہوا جو شاہراہ بھٹو اور حب کنال کا ہوا۔ کراچی میں بارش کے بعد سب سے زیادہ ناکامی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کے نظام کی سامنے آئی۔ نکاسی آب کا نظام مفلوج ہو گیا۔ ندی نالے قبضہ مافیا اور کچرے سے بھرے پڑے ہیں۔ اورنگی نالہ، ناظم آباد، گلشن، گلبہار اور نارتھ ناظم آباد کے شہری بدترین اذیت میں رہے۔ پانی گھروں میں داخل ہو گیا، گاڑیاں ڈوب گئیں، کاروبار بند ہو گئے اور بیماریاں پھیلنے لگیں۔

حقیقت یہ ہے کہ بیچارہ مرتضیٰ وہاب چند لاکھ کی نوکری کے بدلے میں کبھی حب کینال پر وزیراعلیٰ کی گندگی صاف کرتا ہے تو کبھی شاہراہ بھٹو پر زرداری کا داغدار چہرہ دھوتا ہے۔ یقین کریں، پیپلز پارٹی کے وڈیرے اپنی نجی محفلوں میں ہنستے ہیں کہ کراچی والو کیسا دیا؟ کتنے سستے میں ہمیں یہ چغد مل گیا جو ہمارے کرپشن، تعصب اور بدمعاشی سے لتھڑے گندے چہرے کو صاف کرتا رہتا ہے۔ یہ بیچارا بے اختیار ہوتے ہوئے بھی مجبور ہے کہ کہے کہ میں با اختیار ہوں، حالانکہ نہ بلڈنگ کنٹرول میں اس کی بات چلتی ہے، نہ واٹر بورڈ میں، نہ سالڈ ویسٹ میں، نہ سڑکیں بنانے کے کلک میں۔ کراچی کے ووٹ کی پیپلز پارٹی کو ضرورت نہیں، بس کراچی کے وسائل کی ضرورت ہے جو وہ سامنے رکھ کر دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہے۔ بیچارہ میئر نہ لیپنے کا نہ پوتنے کا…

کراچی کی تباہی کا دوسرا بڑا سبب سیاسی قبضہ ہے۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے ہمیشہ کراچی کو اپنے سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھایا۔ ایم کیو ایم نے شہری حکومت کے نام پر لوٹ مار کی اور پیپلز پارٹی نے صوبائی حکومت کے ذریعے وسائل پر قبضہ کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ عوام کے حصے میں محرومیاں، تباہ حال سڑکیں، کچرا کنڈیاں اور بیماریاں آئیں۔ یہ کہاں کی ترقی ہے کہ اربوں روپے کے منصوبے بارش کے چند قطروں میں بہہ جائیں؟ کہاں کی حکمرانی ہے کہ شہری بارش کے پانی میں ڈوب کر بیماریاں برداشت کریں جبکہ حکمران افتتاحی تقریبات اور پریس کانفرنسوں میں خود کو کامیاب قرار دیتے رہیں؟ یہ دراصل جعلی ترقی کے منصوبے ہیں جن کا مقصد صرف کمیشن خوری اور سیاسی تشہیر ہے۔ ایسے حالات میں واحد جماعت جس نے عوام کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھا، وہ جماعت اسلامی ہے۔ ’’حق دو کراچی تحریک‘‘ نے کراچی کے عوام کو آواز دی اور ان کے مسائل کو قومی سطح پر اجاگر کیا۔ یہ تحریک محض احتجاج نہیں بلکہ عوامی حقوق کی جنگ ہے۔ جماعت اسلامی نے ثابت کیا کہ اگر نیت صاف ہو تو محدود اختیارات میں بھی بڑے کام کیے جا سکتے ہیں۔

صرف دو سال کے اندر جماعت اسلامی نے کراچی میں وہ کام کیے جو پچھلے پندرہ سال میں صوبائی اور شہری حکومتیں مل کر بھی نہ کر سکیں۔ 86 ہزار سے زائد گھروں تک پانی پہنچایا گیا، جس سے 6 لاکھ افراد مستفید ہوئے۔ 9 ٹاؤنز میں سیکڑوں ماڈل اسٹریٹس بنائی گئیں۔ رین واٹر ہارویسٹنگ کے کئی منصوبے شروع کیے گئے۔ 171 تباہ حال پارکس بحال کیے گئے۔ 42 اسکول اپ گریڈ کیے گئے اور ریکارڈ نئے داخلے ہوئے۔ ایک لاکھ سے زائد اسٹریٹ لائٹس نصب ہوئیں، جس سے ہزاروں گلیاں روشن ہوئیں۔ 30 ہزار سے زائد گٹر کے ڈھکن اور رنگز نصب کیے گئے۔ بورنگ کا پانی جو صرف 10 منٹ آتا تھا، اب ایک گھنٹے تک مستقل آنے لگا۔ نارتھ ناظم آباد میں بارش کے پانی کو جمع کرنے کا جدید نظام کامیاب ہوا۔ یہ تمام کام اس بات کا ثبوت ہیں کہ جماعت اسلامی نے سیاست نہیں بلکہ خدمت کی۔ اسی خدمت کی وجہ سے قابض میئر مرتضیٰ وہاب جماعت اسلامی پر تنقید کر کے حقیقت سے فرار اختیار کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنی ناکامیوں اور عوامی ردعمل کے دباؤ سے پریشان ہیں۔ کراچی کے عوام سب دیکھ رہے ہیں کہ کس نے خدمت کی اور کس نے صرف بیانات دیے۔ میئر کے عہدے کا ادب اور آداب یہی ہے کہ وہ عوامی مسائل کو ترجیح دیں، لیکن افسوس کہ موجودہ میئر نے اس منصب کو بھی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ کراچی کے مسائل کے حل کے لیے صرف تنقید کافی نہیں، بلکہ عملی اقدامات ضروری ہیں۔ سب سے پہلے تو شہر کے ندی نالوں کو مستقل بنیادوں پر صاف کرنا ہوگا اور قبضہ مافیا کے خلاف سخت کارروائی کرنی ہوگی۔ واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کی مکمل اصلاح ناگزیر ہے۔ نکاسی آب کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا۔ ترقیاتی منصوبوں میں شفافیت اور معیار کو یقینی بنانا ہوگا۔ کراچی کو اس کا جائز مالی حصہ دینا ہوگا اور صوبائی فنانس کمیشن کو فوری طور پر بحال کرنا ہوگا۔

کراچی کے لیے کم از کم 500 ارب روپے کا ہنگامی ترقیاتی فنڈ فوری جاری ہونا چاہیے، اور اس میں سے ہر ٹاؤن کو 2 ارب روپے ملنے چاہئیں تاکہ مقامی سطح پر ریلیف فراہم کیا جا سکے۔ منصوبوں کی تکمیل میں عوام کی شراکت داری اور نگرانی ضروری ہے تاکہ کرپشن اور ناقص کام کی گنجائش نہ رہے۔ کراچی کی موجودہ صورتحال نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ حکمران عوامی مسائل حل کرنے میں سنجیدہ نہیں۔ ہر بارش کے بعد وہی اذیت، وہی بیماریاں اور وہی وعدے دہرا دیے جاتے ہیں۔ لیکن اب کراچی کے عوام مزید دھوکا کھانے کے لیے تیار نہیں۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ ان کے ساتھ ہر بار ان کی محنت کی کمائی کرپشن کے نذرانے میں ضائع کی جاتی ہے۔ اب فیصلہ عوام کے ہاتھ میں ہے۔ وہ چاہیں تو جعلی ترقی اور کرپشن کے ایجنڈے کو مزید سہنے کے بجائے ایسی قیادت کا انتخاب کریں جو اختیار سے بڑھ کر خدمت کرے۔ جماعت اسلامی نے عملی مثال دے دی ہے کہ دیانت داری اور اخلاص کے ساتھ عوام کے مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔ اب یہ کراچی کے عوام پر ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کیسے کرتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • قطر کا اسرائیلی حملے پر آئی سی سی میں قانونی چارہ جوئی کا عندیہ
  • یو اے ای کا اسرائیل سے سفارتی تعلقات میں کمی کا عندیہ
  • اسرائیلی ٹیم کی شرکت پر اسپین کا فیفا ورلڈ کپ 2026 کے بائیکاٹ کا عندیہ
  • لندن ، سرکاری دورے پر ٹرمپ کی آمد،عوام کا بڑا احتجاجی مظاہرہ
  • مریم نواز شریف نے وزیر آباد کے لئے الیکٹرک بس پراجیکٹ کا افتتاح کر دیا
  • فلسطینی عوام کے لیے تعاون، صحت کے شعبے میں معاہدہ طے
  • سعودی عرب کی جانب سے غزہ پر اسرائیلی جارحیت کی شدید مذمت
  • سیلاب ،بارش اور سیاست
  • کراچی: سیلاب، کرپشن اور جعلی ترقی کے منصوبے
  • سونا عوام کی پہنچ سے مزید دور، قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی