شرح نمو میں کمی کا عندیہ اور عوام
اشاعت کی تاریخ: 26th, April 2025 GMT
آئی ایم ایف نے حالیہ تازہ قلابازی ایسی کھائی کہ شرح نمو کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیے۔ آئی ایم ایف نے چند ہفتے قبل معاشی حکام کو تسلی دی تھی کہ برے دن گزر جانے والے ہیں اور جلد ہی پاکستان کی شرح نمو 3 فی صد ہو کر رہے گی۔
کچھ غریبوں نے بھی کہیں سے سنی ان سنی کر لی تھی کہ بس اب وہ دن دور نہیں، آمدن بڑھے گی، مہنگائی گھٹے گی، کارخانوں کے دروازے کھلیں گے، نقارے بجائے جائیں گے کہ ضرورت ہے بے روزگاروں کی، تاکہ ان کو روزگار فراہم کیے جائیں، تاکہ لوگوں کی آمدن میں اضافہ ہو، کارخانہ داروں نے بھی کان کھڑے کر لیے کہ بس اب بھلے دن آگئے، کیا ہوا اگر امریکا بہادر نے ہماری ایکسپورٹ کو مہنگا کر دیا، بس اب پاکستانی عوام کی جیب میں اتنا پیسہ آنے والا ہے کہ اپنا مال بنائیں گے اور ملک کے طول و عرض میں بیچیں گے۔ لیکن یہ ساری خوش فہمیاں اس وقت ہوا ہو گئیں جب آئی ایم ایف نے یہ تازہ فرمان جاری کیا کہ کچھ عالمی تقاضے، کساد بازاری کا ماحول، امریکا چین کی معاشی جنگ، جنگ کا کھیل ان دو ملکوں کا ہے اور سزا پاکستان کے لیے، کیونکہ پاکستان کی شرح نمو تین فی صد سے گھٹا کر 2.
ساتھ ہی یہ نوید بھی سنائی گئی کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں، مستقبل میں اضافہ بھی ہوگا، یعنی 2030 تک 4.5 فی صد ہو کر رہے گی۔ بات یہ ہے کہ اس ساری اتھل پتھل، کبھی کم یا کبھی زیادہ شرح نمو ان سب سے غریب عوام کو کیا لینا دینا۔ اسے تو چند سال کیا کئی عشروں سے اپنی دال روٹی کی فکر تھی، اسے کیا معلوم عالمی کساد بازاری کیا ہے؟ پاکستان میں افراط زر کی شرح کیا ہے؟ چین و امریکا کی تجارتی جنگ میں اس کا کیا کردار ہے؟ دنیا کی اسٹاک مارکیٹس کا کیا بن رہا ہے؟ عالمی سطح پر ڈالر کی حکمرانی میں کتنے فی صد اضافہ یا کمی ہوگئی ہے، اسے تو یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ آج مزدوری نہ ملی تو رات بچے پھر بھوکے سوئیں گے۔
شرح نمو کی بات ہو رہی ہے تو اس کا کچھ موازنہ کر لیتے ہیں۔ 2018 سے قبل مسلم لیگ نے کہا تھا کہ ہم نے اپنے دور میں جی ڈی پی 2.8 فی صد سے بڑھا کر 5.8 فی صد کر دی تھی۔ دعویٰ یہ کیا گیا کہ یہ سولہ سال میں بلند ترین شرح ہے۔ اس کے بعد 2018 میں آنے والی حکومت کے بارے میں کہا گیا کہ 2019 میں شرح نمو 2.1 فی صد ہوکر رہ گئی اور اس میں آئی ایم ایف کی دیر سے آمد کا بھی کچھ عنصر داخل تھا۔ ڈالر ریٹ بھی بڑھ گئے تھے، معاشی حالات میں بہتری نہیں آ رہی تھی اور پھر 2020 میں کووڈ 19 کے اثرات نمایاں ہونے لگے اور 2021 میں حکومت شرح نمو 2.1 فی صد ہونے کا دعویٰ کر رہی تھی۔
اس بات کا ڈھنڈورا مچایا گیا کہ کووڈ سے معیشت کو سنبھال کر لے آئے ہیں۔ 2020 میں بعض شہروں کی انتظامیہ نے دعویٰ کیا کہ اربوں روپے کی امداد خاموشی کے ساتھ غربا میں تقسیم کر دی گئی جب کہ بہت سے غربا، اعلانیہ اس بات کی تردید کرتے رہے۔ اسی طرح 2021-22 کے لیے شرح نمو6 فی صد بیان کیا گیا۔ جوکہ مالی سال 2023 میں کم ہو کر رہ گئی اور 2024 کے لیے 2.4 فی صد اور 2024-25 کے لیے پہلے تخمینہ لگایا گیا کہ 3 فی صد تک ہوگا لیکن اب اس میں کمی کرکے 2.6 فی صد کر دیا گیا ہے۔ البتہ عوام کو اور حکام کو یہ تسلی دے دی گئی ہے کہ 2030 تک 4.5 فی صد شرح نمو حاصل ہو کر رہے گی۔
اس قسم کی پیش گوئیاں کرنے کے لیے ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر چائے کی پیالی کے گھونٹ لگا لگا کر اعداد و شمار سے کھیلتے کھیلتے، کچھ نمبرز ادھر کچھ اُدھر، کچھ جمع کچھ تفریق، ان سب میں غریب کو مستقبل کے سہانے خواب دکھانے کا عمل بھی شامل ہو جائے گا، گراف جو برسوں سے گر رہا تھا اسے بڑھانے کا خیال آجائے، پھر اس میں کہا جائے کہ سالانہ شرح نمو، یوں سالانہ کی قید بھی ہو، دلفریب بڑھتی ہوئی قدر کے ساتھ ایک نئے رنگ ڈھنگ میں، ایک ایسا دلاسا ہے ساڑھے چار فی صد کی شرح جو 2023 کے سال کو خوشنما بناتا ہے، ان تمام باتوں کے باوجود، میں اس معاشی اصول کو اہمیت دوں گا جو یہ کہتا ہے کہ بشرط یہ کہ دیگر حالات بدستور رہیں تو ہو سکتا ہے کہ 4.5 فی صد کی شرح نمو حاصل ہو جائے گی لیکن غریب کو تو آج اور کل کی فکر ہے اسے روٹی کی فکر ہے بچوں کے بھوک کی فکر ہے۔
حکام کو چاہیے کہ آئی ایم ایف کے کہنے پر نہ جائیں 2.6 کی پیش گوئی کو ڈبل کر دیں، کوئی مشکل کام نہیں ہے، غیر ملکی غذائی درآمدات، اشیائے تعیش، لگژری آئٹمز، بیش قیمت فرنیچرز، مہنگی اشیا کی درآمد کو روکیں اور ہر وہ درآمدی شے جس کا متبادل ملک میں تیار ہو سکتا ہے ان کے نئے کارخانے کھولے جائیں پہلے سے بند کارخانوں کو سہارا دیا جائے۔
ملک کے کسانوں کے مسائل حل کریں، گندم کی ریکارڈ پیداوار حاصل ہوگئی ہے وفاقی حکومت اور تمام صوبائی حکومتیں اس بات کی بھرپور کوشش کریں کہ جن کسانوں نے ملک میں گندم کے ڈھیر لگا دیے ان کی جیبیں بھی مال و زر سے بھر جانی چاہیے تاکہ وہ ان سے ملکی صنعتوں کا مال خریدیں، ملکی صنعت کو فروغ حاصل ہو، روزگار کے نئے مواقع حاصل ہوں، پھر دیکھیے کس طرح آئی ایم ایف کی پیش گوئی غلط ثابت ہوکر شرح نمو 6 تا 7 فی صد تک حاصل ہو سکتی ہے۔ بشرط یہ کہ حکومت بھی کمر کس لے تو عوام بھی بھرپور ساتھ دینے کے لیے تیار ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: آئی ایم ایف فی صد ہو حاصل ہو کے لیے گئی ہے کی فکر گیا کہ کی شرح
پڑھیں:
بھارت کے خلاف کشمیری عوام سڑکوں پر نکل آئے
بھارت کے خلاف کشمیری عوام سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر کے عوام نے بھارتی میڈیا کا پروپیگنڈا مسترد کر دیا، شدید نعرے بازی
آزاد کشمیر کے شہروں میرپور، ڈڈیال، چکسواری، اسلام گڑھ اور دیگر علاقوں میں بھارت کے خلاف کشمیری عوام نے احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔
مظاہرین نے مقبوضہ کشمیر میں سیاحوں کا قتل بھارتی خفیہ ایجنسیوں اور فورسز کی دہشتگردی قرار دیا۔
یہ بھی پڑھیں: متنازعہ وقف بل کے باعث پورا بھارت ہنگاموں کی لپیٹ میں آگیا
ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا کر ریلی کے شرکا نے کہا کہ بھارت اپنی فورسز کی دہشتگردی کو چھپانے کے لیے پاکستان پر الزامات اور حملے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ پوری قوم اس وقت پاک فوج کے شانہ بشانہ بھارت کو دندان شکن جواب دینے کے لیے تیار ہے۔
احتجاجی مظاہرے میں وکلا، سول سوسائٹی، تاجروں اور طلبا سمیت تمام مکتبہ فکر کے لوگوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں : مودی ٹرمپ ملاقات، وائٹ ہاؤس کے سامنے احتجاجی مظاہرہ
مظاہرین کا کہنا تھا کہ اگر اس خطے میں جنگ کی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو پوری دنیا کو مسئلہ ہوگا، انڈیا نے پہلگام میں جو آپریشن کیا اس کی مذمت کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بھارت نے غلط الزام لگا پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی، پاکستان میں انڈین دہشتگردی کا ثبوت کلبھوشن کی صور ت میں موجود ہے۔
شرکا نے کہا کہ انڈیا کسی غلط فہمی میں نہ رہے ہم منہ توڑ جواب دیں گے، تم اگر پانی بند کرو گے تو ہم تہماری سانسیں بند کریں گے، پھر ان دریاؤں میں خون بہے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news احتجاجی مظاہرے آزاد کشمیر بھارت