Daily Ausaf:
2025-06-11@19:32:58 GMT

مرنا ہے تو کیوں نہ شان سے مریں

اشاعت کی تاریخ: 27th, April 2025 GMT

اگر تاریخ کا دھارا نوحہ و گریہ یا بے جا تفاخر کرنے سے موڑا جا سکتا تو آج پوری دنیا پر مسلمانوں کی حکومت ہوتی۔ نام کی حد تک دنیا بھر کی مسلم امہ کا مسئلہ یہ ہے کہ ہم المیہ طرز کا ہجوم ہیں یا پھر ماضی میں اپنے آبا ئو اجداد کے کارناموں کے نشے میں مست ہیں۔ لیکن قوموں کی تقدیر کبھی بھی خود بخود نہیں بدلتی اور نہ ہی اس میں قسمت کا کوئی ہاتھ ہوتا ہے۔ تاریخ رقم کرنے کے لئے محنت اور جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ جیسے سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اسی طرح تاریخ کے اوراق بھی دل نام کی چیز سے خالی ہوتے ہیں۔ کوئی مورخ کسی ناکام، پس مردہ یا مغموم کردار کو گلیمرائز کر کے اسے کامیاب قرار دے سکتا ہے اور نہ ہی اس پر ترس کھا کر وہ جھوٹا ہے تو اسے سچا کردار لکھ سکتا ہے۔ کیونکہ کردار اچھے ہوں یا برے ہوں وہ اپنی تاریخ خود لکھتے ہیں۔ لہٰذا تاریخ کی یہ حقیقت اٹل ہے کہ اس کے کردار بے شک تلخ اور غمناک ہی کیوں نہ ہوں وہ اپنے کرداروں کے بارے میں سچ بولتی ہے۔ بالفرض تاریخ نویس جھوٹ بھی لکھیں تو تاریخ کو پڑھنے والے اس کے کرداروں کی کوکھ سے سچ نکال ہی لیتے ہیں۔
برصغیر پاک و ہند کی تاریخ المیہ بھی ہے اور طربیہ بھی ہے۔ لیکن مغلیہ عہد کے بغیر یہ تاریخ ادھوری ہے۔ یہ ظہیر الدین بابر کی دلیری اور بہادری سے شروع ہوتی ہے اور بہادر شاہ ظفر کی عیش عشرت کے المناک انجام پر ختم ہوتی ہے۔ بہادر شاہ ظفر اور شاہی خاندان کا انجام بلاشبہ سبق آموز اور رلا دینے والی داستان ہے۔ حالانکہ مغلیہ سلطنت کا آغاز مہم جوئی کے کارناموں کے بعد بڑی شان و شوکت سے ہوا تھا۔ ظہیر الدین بابر جو برصغیر میں مغلیہ سلطنت کا بانی تھا، ابھی اس کی عمر محض 11برس تھی جب وہ 1494 ء میں اپنے والد عمر شیخ مرزا کی وفات پر فرغانہ کا حکمران بن گیا تھا۔ بابر نے آج سے 500سال پہلے 1526 میں پانی پت کی پہلی جنگ میں ابراہیم لودھی کے لشکر جرار کو شکست دی اور ہندوستان کا تاج و تخت حاصل کر لیا۔ بابر نے یہ ایک ایسی سلطنت قائم کی جس کے قبضے میں اپنے عروج کے زمانے تک دنیا کی ایک چوتھائی سے زیادہ دولت تھی اور جس کا رقبہ تقریبا پورے برصغیر بشمول افغانستان پر محیط تھا۔
ظہیر الدین بابر کا تعلق امیر تیمور کے خاندان سے تھا اور ان کی والدہ قتلغ نگار کا سلسلہ نسب مشہور منگول سردار چنگیز خان سے ملتا تھا۔ اس طرح بابر کی رگوں میں ایشیا کے دو مشہور حکمرانوں کا خون دوڑتا تھا۔ بابر کو منگولوں کی طاقت اور ترکوں کی حکمرانی وراثت میں ملی تھی۔ بابر ترکی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی شیر کے ہیں۔ بابر اپنے نام کی نسبت سے بہت بہادر اور دلیر تھا جس نے شمشیر زنی، تیر اندازی کی مہارت اور جنگی حکمت عملی بچپن ہی میں سیکھ لی تھی۔کہا جاتا ہے کہ جب ظہیر الدین بابر کے بے دست و پا 10ہزار جنگجو سپاہی مرہٹوں اور میواڑ کے حکمران رانا سانگا کی کیل قبضوں سے لیس 80ہزار سے زیادہ فوج کے سامنے کھڑے تھے (بعض تاریخ دان کہتے ہیں کہ بابر کی مخالف فوج میں ایک لاکھ لڑاکا سپاہی شامل تھے) تو بابر نے اپنے سپاہیوں سے مخاطب ہو کر بلند آواز سے کہا تھا کہ، ’’ہم سب کی موت قریب ہے۔‘‘ یہ کہہ کر ظہیر الدین بابر تھوڑی دیر کے لیئے سر جھکا کر رک گیا تھا۔ اس کے بعد اس نے دوبارہ اپنا سر اٹھایا تھا اور پہلے سے زیادہ بلند آواز کے ساتھ گرج کر کہا تھا کہ،’’ہم نے مرنا ہی ہے تو کیوں نہ شان سے مریں۔‘‘
تاریخ میں لکھا ہے کہ اس جنگ میں فتح نے ظہیر الدین بابر کو تقریباً پورے برصغیر کا بلاشرکت غیرے بادشاہ بنا دیا تھا۔ اس کے برعکس اسی سلطنت کے آخری فرمانروا بہادر شاہ ظفر سست اور کاہل حکمران تھے جنہیں رنگ رلیاں منانے اور مشاعرے کروانے کا شوق تھا۔ ان کے درباری شاعروں میں مرزا غالب جیسے بڑے شعرا شامل تھے جن کی محفلیں صبح 5بجے تک جاری رہتی تھیں اور دوپہر دو بجے کے بعد وہ ناشتہ تناول فرماتے تھے۔ مغلیہ خاندان کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر کی اولاد کے بارے بہت سی کہانیاں مشہور ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ ان کے 20بیٹے تھے۔ جب شاہی محل میں انگریز فوج داخل ہوئی تو ان کا ایک بیٹا تخت پر بیٹھا تھا ان کے مخالف کمانڈر نے پوچھا کہ آپ عقبی دروازے سے بھاگے کیوں نہیں ہیں تو اس نے جواب دیا تھا کہ مجھے جوتا پہنانے والا ملازم موجود نہیں تھا۔
آخری مغل تاجدار مرزا ابو ظفر بہادر شاہ کی بیوہ اور ملکہ اپنے دور کی خوبصورت ترین خاتون تھی جن کا نام زینت محل تھا جس کی عمر 34 برس تھی۔ جب شاہ ہندوستان کو جلا وطن کیا گیا۔ ایک جواں سال بیٹے بخت مرزا کو تو انگریزوں نے قتل کر دیا تھا، ننھا پوتا بچ گیا تھا۔ ایک ملازمہ تھی۔ ملکہ کو مشورہ دیا گیا کہ بوڑھے بادشاہ کے ساتھ رنگون (کالا پانی) جانے سے بہتر ہے یہاں رہ جائو۔ ان کا جواب تھا، جینا مرنا بادشاہ حضور کے ساتھ ہے۔ رنگون کے قید خانے میں مغل شاہی خاندان کے ساتھ جو سلوک کیا گیا وہ دنیا کے کسی شاہی خاندان کے ساتھ نہیں ہوا۔ بہادر شاہ ظفر نے 10برس ایک تنگ و تاریک گیراج میں گزارے۔ حسن و جوانی، نام و نسب اور حکمرانی سب ملیا میٹ ہو گئے۔ بہادر شاہ ظفر کے کچھ بیٹوں کو توپوں کے دہانے پر باندھ کر اڑا دیا گیا۔ ملکہ نے اپنے سامنے اپنے پوتے کو دم توڑتے دیکھا۔ انگریز کمشنر ڈیوس نے دوائی تک پہنچنے نہیں دی۔ اپنے بادشاہ حضور کے لئے ملکہ تازہ ہوا کی خاطر سفاک داروغے سے منت سماجت کرتی رہیں۔ 87 برس کی عمر میں بروز جمعہ، 7 نومبر 1862 ء کو صبح 5بجے ہندوستان کے مغلیہ خاندان کے آخری چشم و چراغ کو گمنام قبر میں اتار دیا گیا۔ تب اکیلی ملکہ لاش کے پاس بیٹھی آنسوئوں کے موتی بکھیر رہی تھی۔ انگریز سپاہیوں نے ملکہ کو دھکے دے کر لاش اٹھائی اور جلدی جلدی دفنا کر قبر میں چونا ڈال دیا۔ انگریز کمشنر کے بقول محمڈن رول کی آخری نشانی بھی مٹ گئی۔ فرمان جاری ہوا کہ بادشاہ کا کوئی رشتہ دار وارث ہونے کا دعویدار نہیں ہو گا۔ حالانکہ ورثا زندہ تھے۔ دو مغل شہزادے جان بچانے میں کامیاب رہے تھے۔ بعض شہزادے جیلوں میں ڈالے گئے۔ جو دہلی میں قتل ہونے سے بچ نکلے وہ برما اور ہندوستان کی سرزمین میں روپوش ہو گئے تھے۔بادشاہ کے ساتھ وفا نبھانے کیلئے رنگون میں ہجرت کر کے آنے والے مغل شاہی خاندان کے لوگ اپنی دکھیاری ملکہ کو اپنے پاس لے گئے۔ جو روکھی سوکھی کھاتے، پہلے ملکہ کو پیش کرتے اور اس سے عزت و تکریم سے پیش آتے۔ لیکن غم کیسے کم ہوتا۔ بیوہ ملکہ مرحوم بادشاہ کی حالت کو یاد کرتیں، خود گریہ کرتیں اور شاہی خاندان کی عورتیں بھی آہیں بھرتیں۔ لیکن آہ و بکاہ سے تاریخ تھوڑا بدلتی ہے۔
آج ہم مسلم مغلیہ خاندان پر بڑا فخر کرتے ہیں۔ لیکن خود ہم میں بابر والی ہمت اور مقصد کے حصول کی لگن نہیں بچی ہے۔ اسی عالم حزن میں ملکہ نے 63 برس کی عمر میں وفات پائی۔ برما کے مسلمانوں نے ملکہ کو بھی بادشاہ حضور کے پہلو میں دفنا دیا۔ بعد ازاں چندہ جمع کر کے وہاں درگاہ بنا دی گئی۔مغل ملکہ کے ساتھ یہ سلوک برطانوی ملکہ وکٹوریہ کے دور میں ہوا۔
برصغیر اور مغلیہ خاندان کی اس تاریخ سے یہی سبق ملتا ہے کہ فتح اور شان سے وہی جیتے ہیں جو ہتھیار پھینکنے اور ہمت ہارنے کی بجائے شان سے مرنا جانتے ہیں۔ شان و شوکت اور کامیابی کے ساتھ زندہ رہنے کے لئے بہادر شاہ ظفر کی بجائے ظہیر الدین بابر بننا پڑتا ہے۔ زندگی میں جدوجہد اور محنت سے عاری، ڈرپوک اور سست و کاہل انسانوں پر کامیابی کا کوئی دروازہ نہیں کھلتا ہے۔ دنیا کا کوئی بھی انسان ہو اور زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو اس میں کامیابی کے لئے سخت کوشی ہی کام آتی ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ظہیر الدین بابر بہادر شاہ ظفر مغلیہ خاندان شاہی خاندان خاندان کے کے ساتھ ملکہ کو کا کوئی کیوں نہ کے لئے کی عمر

پڑھیں:

سدھو موسے والا کو کیوں قتل کیا؟ گینگسٹر کا بی بی سی کو انٹرویو

بھارت کے عالمی شہرت یافتہ ہپ ہاپ گلوکار سدھو موسے والا کے بہیمانہ قتل کی ایسی معلومات منظر عام پر آئی ہیں جو اس سے قبل کسی کے علم میں نہ تھیں۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو انٹرویو میں یہ معلومات 2022 میں دن دیہاڑے کیے گئے سفاکانہ قتل کے ماسٹر مائنڈ گینگسٹر گولڈی برار نے دی۔

گولڈی برار کے بارے میں امکان ظاہر کیا جاتا ہے کہ وہ سدھو موسے والا کے قتل کے بعد سے کینیڈا فرار ہوگیا تھا اور تاحال وہیں چھپا ہوا ہوا ہے۔

قتل کو تین سال مکمل ہونے کے بعد بھی اب تک نہ کوئی مقدمہ چلا اور نہ ہی ماسٹر مائنڈ گولڈی برار گرفتار ہو سکا ہے جس نے میڈیا کے ذریعے قتل کی ذمہ داری بھی قبول کی ہے۔

بی بی سی نے طویل جدوجہد کے بعد گینگسٹر گولڈی برار سے رابطہ قائم کیا اور چھ گھنٹوں پر مشتمل وائس نوٹسز کے تبادلے میں انٹرویو مکمل کیا۔

گولڈی برار نے بی بی سی کو بتایا کہ سدھو موسے والا کی اکڑ برداشت سے باہر ہوگئی تھی۔ اس نے ایسی غلطیاں کیں جنہیں معاف نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ یا وہ بچتا یا ہم۔

قتل کی وجہ بتاتے ہوئے گولڈی برار نے مزید کہا کہ سدھو موسے والا اور گینگ لیڈر لارنس بشنوی 2018 سے رابطے میں تھے۔

گولڈی برار کے بقول گلوکار سدھو موسے والا لارنس بشنوئی کو "گڈ مارننگ" اور "گڈ نائٹ" کے میسجیز بھیجتے تھے مگر جب سدھو نے ہمارے مخالف بمبیہا گینگ کے کبڈی ٹورنامنٹ کو سپورٹ کیا تو بشنوی ناراض ہوگئے۔

بعد ازاں لارنس بشنوی کے قریبی ساتھی وکی مدھوکھیڑا کے قتل نے سدھو اور بشنوئی کے تعلقات کو مزید بگاڑ دیا۔

پولیس کی تحقیقات کے مطابق بھی سدھو موسے والا کے قریبی دوست شگنپریت سنگھ کو اس قتل میں سہولت کار قرار دیا گیا تھا۔

قتل کی اس واردات میں اپنے دوست کے ملوث ہونے کی سدھو موسے والا نے ہمیشہ تردید کی لیکن گینگسٹرز نے مان لیا کہ سدھو دشمن گینگ کے ساتھ کھڑا تھا۔

گولڈی برار کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے کئی بار انصاف کی کوشش کی، لیکن جب شنوائی نہیں ہوئی تو خود ہی فیصلہ لینا پڑا۔ جب شرافت کو کوئی نہ سنے تو بندوق کی آواز سنی جاتی ہے۔

جب بی بی سی نے سوال کیا کہ بھارت میں قانون اور انصاف کا نظام موجود ہے تو برار نے جواب دیا کہ یہ سب صرف طاقتور لوگوں کے لیے ہے۔ عام لوگوں کو انصاف نہیں ملتا۔

قتل کی رات کیا ہوا تھا؟

یہ 2022 کی ایک گرم شام تھی جب سدھو موسے والا پنجاب کے ایک گاؤں کے قریب اپنی سیاہ SUV میں گھوم رہے تھے کہ دو گاڑیوں نے ان کا پیچھا کرنا شروع کر دیا۔

ایک تنگ موڑ پر ایک گاڑی نے گلوکار کی SUV کو دیوار سے لگا دیا اور گینگسٹرز نے اندھا دھند فائرنگ کردی۔ سدھو کو 24 گولیاں لگیں اور وہ موقع پر ہی ہلاک ہوگئے تھے۔

 

متعلقہ مضامین

  • سدھو موسے والا کو کیوں قتل کیا؟ گینگسٹر کا بی بی سی کو انٹرویو
  • پنجاب حکومت کا بجٹ کب پیش ہوگا؟ تاریخ تبدیل کر دی گئی
  • یہ بجٹ غریب عوام کا نہیں شریف خاندان کے بزنس ونگ کا بجٹ ہے، بیرسٹر سیف
  • عمران خان اور بشریٰ بی بی کی سزا معطلی کی درخواستوں پر سماعت کی نئی تاریخ سامنے آگئی
  • طاقت اور مقبولیت کا قہر
  • فرحت اللہ بابر نے طلبی پر ایف آئی اے میں تحریری جواب جمع کرا دیا
  • امرتسر سے سری نگر قتل عام کی سیاہ تاریخ
  • اگنی ویر اسکیم کی ناکامی بےنقاب: سکھ سپاہی کی موت پر خاندان کا احتجاج، بھارتی نوجوانوں میں مایوسی
  • اگنی ویر اسکیم ناکام، بھارتی جوانوں میں مایوسی پھیل گئی
  •  "واٹس ایپ پر اگلے ہی دن ذاتی پیشی کا حکم دینا ناانصافی"فرحت اللہ بابر نے طلبی پر ایف آئی اے میں تحریری جواب جمع کرا دیا