پاکستان میں تشیع کی سیاسی جدوجہد اور قیادتیں(2)
اشاعت کی تاریخ: 28th, April 2025 GMT
اسلام ٹائمز: یہ اتنا اہم مسئلہ تھا کہ جس کیلئے اسلام آباد میں ہاکی گرائونڈ میں معروف اجتماع منعقد ہوا، جو ایک طویل داستان ہے۔ بہرحال یہ اجتماع اور مطالبات کی منظوری کیلئے پارلیمنٹ کی طرف مارچ، کفن پوش دستوں کی تشکیل اور امامیہ اسٹوڈنٹس کی اس سارے عرصہ میں خدمات اور کردار ایک الگ داستان ہے، جسے ہم سامنے لانے کی کوشش کریں گے۔ اگلے حصہ میں مفتی جعفر حسین کی کچھ مزید خدمات، ان کی جانگدزا رحلت اور پھر قائد ملت علامہ سید عارف حسین الحسینی شہید کا انتخاب، ملت کی تعمیر ترقی، سربلندی، عروج اور پیش رفت کے نئے دور کا آغاز سامنے لائیں گے۔ تحریر: ارشاد حسین ناصر
ستر کی دہائی کے اواخر میں پاکستان کے سیاسی و سماجی ماحول میں ایک بہت بڑی تبدیلی اس وقت آئی، جب ایک جمہوری حکمران ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار سے معزول کرکے ایک فوجی ڈکٹیٹر شپ نے اقتدار اعلیٰ سنبھال لیا۔ جنرل ضیاء الحق نے (1977ء جولائی) اقتدار سنبھالتے ہی اسلامائزیشن کی بات کی، چونکہ ملک میں اس سے پہلے قومی اتحاد کے پلیٹ فارم سے دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں ایک وسیع اتحاد بنا کر بھٹو صاحب کا مقابلہ کر رہی تھیں اور دھاندلی کا الزام بھی لگایا گیا تھا، جس سے ملکی افق پر سیاسی ابتری کا ماحول جنم لے چکا تھا۔ احتجاج جاری تھا، لہذا جنرل ضیاء الحق نے اسلامی نظام کا نعرہ لگا دیا۔ مرد مومن مرد حق، ضیاء الحق ضیاء الحق کے نعرے لگنے لگے۔ دینی طبقہ کو اپنی جانب کھینچ کر ڈکٹیٹر اپنے مقصد میں کامیاب ہو رہا تھا۔
اسلامی نظام کے نفاذ کے وعدے اور اعلانات پر عام عوام نے تو دھوکہ کھایا ہی، سیاسی و دینی قائدین بھی اس دھوکے میں آگئے، جبکہ اہل تشیع کو فکر لاحق ہوگئی کہ آخر کونسا اسلام نافذ ہوگا۔ انکے حقوق، بالخصوص عزاداری کے مسائل، مجالس و ماتم کی صداءوں کا کیا بنے گا۔ جنرل ضیاء الحق نے زکواۃ و عشر اور قطع ید آرڈیننس کا اعلان کیا، جس کی تمام تفصیلات فقہ حنفی کے مطابق تھیں، اس سے مکتب تشیع اور ان کی قیاددت میں ہیجان پیدا ہوگیا۔ اسی طرح شیعہ نصاب، جو اس سے قبل حکومت سے طے ہوچکا تھا، اس کے ساتھ بھی چھیڑ خانی کا آغاز ہوگیا۔ یہ ساری صورتحال اس وقت شیعہ قائدین اور تنظیمات بالخصوص امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان جو ملک گیر تنظیم بن چکی تھی، اس نے اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا، علماء سے ملاقاتوں میں اس نازک صورتحال پہ مشاورت جاری رکھی۔
مفتی جعفر حسین قبلہ جو گوجرانوالہ شہر سے تعلق رکھتے تھے اور ایک انتہائی علمی و باقتی شخصیت کا تاثر رکھتے تھے، جبکہ حکومتی ادارے اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر بھی تھے۔ علامہ صاحب سے امامیہ برادران کے وفود نے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا، یہ وہ دور تھا، جب حکومتوں کو احتجاجی تار بھیجے جاتے تھے۔ تنظیم اور قوم نے اس وقت صدر مملکت کے نام احتجاجی تار روانہ کیے، تاکہ شیعہ مکتب کی تشویش پہنچ سکے۔ علماء سے ملاقاتوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ مفتی جعفر حسین قبلہ نے لاہور میں فروری 1979ء میں پریس کانفرنس کرکے کہا کہ اگر حکومت نے شیعہ موقف کو درخور اعتنا نا سمجھا تو وہ اسلامی نظریاتی کونسل کی رکنیت سے احتجاجا مستعفی ہو جائیں گے۔
یاد رہے کہ اس وقت تک مفتی جعفر حسین قبلہ قائد ملت جعفریہ منتخب نہیں ہوئے تھے، نا ہی اس وقت تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کی بنیاد پڑی تھی۔ مفتی صاحب قبلہ کے مطالبات کو پوری قوم نے سراہا اور ان کی تائید کی، جبکہ بھکر اجتماع سے قبل گوجرانوالہ جامعہ جعفریہ میں تمام شیعہ تنظیمات کا اہم اجلاس منعقد ہوا، جس میں مطالبات کی تائید کی گئی اور حکومتی اقدامات پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا، جبکہ بھکر میں عظیم قومی اجتماع کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے منصوبہ بندی بھی گئی۔ کیا لوگ تھے، جو قومی مفاد پر قربانی دینے میں ذرا بھی نہیں ہچکچاتے تھے۔ عہدے، منصب، حکومتی ایوانوں میں آمد و رفت، مقام و منصب اور ناموری یہ سب چیزیں اس وقت بھی ہوتی تھیں، مگر وہ تقویٰ الہیٰ سے سرشار تھے، قوم کا مفاد سب سے عزیز تھا اور کسی لالچ، کسی بلیک میلنگ میں آنے والے نہیں تھے۔
مفتی صاحب اتنے سادہ زیست تھے کہ جب امامیہ کا وفد ان سے ملنے ان کے گھر گیا تو دروازہ کھولنے والے وہ خود تھے۔ یہ طریق حقیقت میں ہمارے آئمہ طاہرین (ع) کا ہی تھا، جسے آج پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ بہرحال گوجرانوالہ میں 5، 6 اپریل کو ہونے والے شیعہ تنظیموں کے اجلاس کے بعد بھکر میں 12، 13 اپریل کو عظیم شیعہ اجتماع منعقد ہوا، جس میں شیعہ قوم کو پہلی بار اپنا قائد منتخب کرنے کا موقع ملا۔ مثالی انتظامات تھے، جو الگ داستان و تاریخ ہے۔ اس اجتماع کی روداد کسی دوسرے موقعہ پہ پیش کریں گے۔ بہرحال اس میں مفتی جعفر حسین قبلہ کو قائد ملت منتخب کیا گیا، انہوں نے انتخاب کے بعد 20 اپریل کو گوجرانوالہ میں ایک بیس رکنی سپریم کونسل بنانے کا اعلان کیا، جبکہ پریس کانفرنس کے ذریعے شیعہ مطالبات بالخصوص زکواۃ و عشر جیسے اہم مسئلہ پر روابط کیے۔ حکومت تک اپنا موقف واضح کیا اور الٹی میٹم دیا کہ اگر مطالبات نہیں مانے تو وہ اسلامی نظریاتی کونسل سے مستعفی ہو جائیں گے، تاکہ حکومت کا حصہ نہ ہوں، وہ بھی ایک ایسی حکومت جو شیعہ حقوق غصب کرنے پر تلی ہو
لہذا 30 اپریل کو مفتی جعفر حسین قبلہ نے اسلامی نظریاتی کونسل کی رکنیت سے استعفٰی دے دیا اور احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کر دیا۔ اسی دوران حکومتی حلقوں میں ہلچل مچ گئی۔ صدر مملکت نے شیعہ وفد کو دعوت دی، جس میں ہمیشہ کی طرح حکومت نے سپریم کونسل کے نامزد کردہ انیس افراد کے علاوہ چودہ ایسے افراد بھی بلا لیے، جن کا شمار حکومت کے حامیان میں ہوتا تھا۔ یہ ملاقاتوں کا سلسلہ یونہی چلتا رہا اور قیادت اپنے دست و بازوءوں کو ساتھ ملا کر اپنے مطالبات تسلیم کروانے کیلئے احتجاجی تحریک کی جانب بڑھتی رہی۔ حکومت بالخصوص جنرل ضیاء الحق ٹال مٹول اور زبانی جمع خرچ، بیانات دینے تک محدود رہا، جس پر تحریک کی قیادت کا موقف تھا کہ جو کچھ زبانی یقین دہانی کروائی جا رہی ہے، اسے آرڈیننس کے ذریعے عملی کیا جائے۔
یہ اتنا اہم مسئلہ تھا کہ جس کیلئے اسلام آباد میں ہاکی گرائونڈ میں معروف اجتماع منعقد ہوا، جو ایک طویل داستان ہے۔ بہرحال یہ اجتماع اور مطالبات کی منظوری کیلئے پارلیمنٹ کی طرف مارچ، کفن پوش دستوں کی تشکیل اور امامیہ اسٹوڈنٹس کی اس سارے عرصہ میں خدمات اور کردار ایک الگ داستان ہے، جسے ہم سامنے لانے کی کوشش کریں گے۔ اگلے حصہ میں مفتی جعفر حسین کی کچھ مزید خدمات، ان کی جانگدزا رحلت اور پھر قائد ملت علامہ سید عارف حسین الحسینی شہید کا انتخاب، ملت کی تعمیر ترقی، سربلندی، عروج اور پیش رفت کے نئے دور کا آغاز سامنے لائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسلامی نظریاتی کونسل مفتی جعفر حسین قبلہ جنرل ضیاء الحق داستان ہے منعقد ہوا قائد ملت اپریل کو
پڑھیں:
مساوی اجرت کی جدوجہد، کھیلوں میں خواتین اب بھی پیچھے
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 ستمبر 2025ء) ویمن اسپورٹس یا خواتین کے کھیلوں کے شعبے میں ترقی ہو رہی ہے۔ اس وقت عالمی منظر نامے پر ایک نظر ڈالی جائے تو ایسا ہی لگتا ہے کہ کھیلوں کا شعبہ مساوی تنخواہ کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ یورپی پارلیمان کی ایک رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ 83 فیصد کھیلوں میں اب مساوی انعامی رقم دی جاتی ہے جبکہ فٹ بال، ٹینس اور کرکٹ جیسے بڑے کھیلوں میں خواتین کے میچوں کے لیے اسٹیڈیم بھرے ہونا معمول بن گیا ہے۔
گلوبل آبزرویٹری برائے صنفی مساوات اور اسپورٹس کی عبوری سی ای او لومبے موامبا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جب مساوی تنخواہ اور شرائط کی بات آتی ہے تو کھیل کا شعبہ دیگر شعبوں کے مقابلے میں بدستور پیچھے دکھائی دیتا ہے۔
(جاری ہے)
‘‘
اگرچہ کھیل سے متعلق بہت کم اعداد و شمار موجود ہیں، لیکن یہ اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ صرف 15 سے 25 فیصد ہی نامور خواتین فٹبالرز مرد فٹ بالرز کے مساوی پیسے کماتی ہیں۔
اگرچہ ٹینس جیسا کھیل مستثنٰی ہے، جو تمام ٹورنامنٹس میں مردوں اور عورتوں کے لیے یکساں انعامی رقم کی طرف بڑھ رہا ہے، لیکن زیادہ تر کھیلوں میں ٹاپ کھلاڑیوں کی سطح پر دیکھا جائے تو یہ فرق بہت نمایاں ہے۔اس فرق کی وجوہات میں تاریخی پابندیاں، سرمایہ کاری کی کمی، پیشہ ورانہ مواقع اور زچگی کی سہولیات کا فقدان شامل ہے۔ سب سے بڑی رکاوٹ یہ تاثر ہے کہ کھیل صرف مردوں کا شعبہ ہے۔
سابق فٹبالر الیکس کلون کے مطابق صرف اعلیٰ تنخواہوں کا موازنہ کرنا مساوی تنخواہ کی بحث کو نقصان پہنچاتا ہے کیونکہ یہ تصویر کا صرف ایک محدود اور مسخ شدہ رُخ دکھاتا ہے۔الیکس کلون اب عالمی کھلاڑیوں کی یونین FIFPRO کے لیے کام کرتی ہیں۔ان کا مزید کہنا ہے کہ کھیل میں سب سے زیادہ کمانے والوں کی تنخواہوں کا اس طرح موازنہ کرنا مساوی تنخواہ کی دلیل کو نقصان پہنچاتا ہے۔
تنخواہوں کی حدڈاکٹر کلون کا کہنا ہے کہ خواتین کھلاڑیوں کے لیے کم از کم تنخواہ مقرر ہونی چاہیے، جیسا کہ امریکہ، برطانیہ اور اسپین کی اعلیٰ لیگز میں ہوتا ہے۔ اس سے کھلاڑیوں کو مالی تحفظ ملتا ہے اور ساتھ ہی کلبز کو خواتین کی ٹیموں میں سرمایہ کاری کی ترغیب ملے گی۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ کھیل میں آمدنی بڑھنے سے تنخواہیں بھی خود بخود بڑھیں گی۔
بنیادی سطح پر تبدیلیگلوبل آبزرویٹری فار جینڈر ایکویلیٹی اینڈ اسپورٹس کی عبوری سی ای او لومبے موامبا کہتی ہیں کہ صرف مساوی تنخواہوں کا حصول کافی نہیں۔ خواتین کھیلوں میں اکثر بغیر معاوضے یا کم معاوضے کے کام کرتی ہیں (کوچ، ریفری وغیرہ)، ''اس وجہ سے ان کی ترقی کے مواقع محدود ہو جاتے ہیں۔ کھیل میں برابری کے لیے صرف تنخواہ نہیں بلکہ پورے نظام میں تبدیلی ضروری ہے۔
‘‘ صرف تنخواہ نہیں، حالات بھی اہم ہیںڈاکٹر کلون کہتی ہیں کہ کچھ فیڈریشنز صرف دکھاوے کے لیے مساوی تنخواہ دیتی ہیں اور خواتین اور مرد کھلاڑیوں کے سفر، سہولیات، کھانے پینے کے معیار وغیرہ میں واضح فرق ہوتا ہے۔ ان کے بقول یہ سب عوامل کارکردگی پر اثر انداز ہوتے ہیں، اس لیے صرف میچ فیس برابر ہونا کافی نہیں۔‘‘
خواتین ٹیموں کو ترجیح نہیں دی جاتیجسمینا کووِچ، جو چند خواتین فٹبال ایجنٹس میں سے ایک ہیں، بتاتی ہیں کہ کچھ کلبز خواتین ٹیموں میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں ، لیکن سب نہیں، ''کئی کلب کہتے ہیں کہ مردوں کی ٹیم کو ہمیشہ ترجیح دی جائے گی۔
خواتین تب کھیل سکتی ہیں جب میدان خالی ہو۔‘‘ سیاسی خطرات اور قانون سازیخواتین کے کھیلوں کو ایک بڑا خطرہ کئی ممالک، خاص طور پر امریکہ میں، دائیں بازو کی سیاست کی طرف جھکاؤ سے ہے۔ 1972ء میں متعارف ہونے والے Title IX قانون نے سرکاری فنڈ سے چلنے والے تعلیمی اداروں میں صنفی امتیاز کو ممنوع قرار دیا، جس سے خواتین کی کھیلوں میں شرکت بڑھی۔
یہ قانون امریکہ کی خواتین فٹبال ورلڈ کپ اور اولمپکس میں کامیابی کا ایک اہم سبب سمجھا جاتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا دوسرا دورڈونلڈ ٹرمپ نے دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے چند دن بعد ایک قانون میں تبدیلی کی، جس کے تحت ٹرانس جینڈر کھلاڑیوں پر خواتین کے مقابلوں میں حصہ لینے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ ناقدین کے مطابق یہ اقدام خواتین کے کھیلوں کو کمزور کرنے اور ''تنوع، مساوات اور شمولیت‘‘(DEI) کی پالیسیوں کو ختم کرنے کی ایک کڑی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کی ویمن رائٹس ڈویژن کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر ہیتھر بار کے مطابق، ٹرمپ انتظامیہ کی DEI کے خلاف مہم نے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں پر منفی اثر ڈالا ہے، یہاں تک کہ ''جینڈر‘‘ جیسے الفاظ کو بھی امریکی حکومت ناپسند کرنے لگی ہے۔ادارت: عدنان اسحاق