ہنزہ کے 342 ہوٹلوں میں غیر ملکی سیاحوں کو ٹھہرانے پر پابندی
اشاعت کی تاریخ: 28th, April 2025 GMT
انتظامیہ کی جانچ کے بعد ہنزہ کے ہوٹلوں کو تین کیٹیگریز میں تقسیم کیا گیا ہے جس کے مطابق (Low risk) کٹیگری میں 45 ہوٹلوں کو شامل کیا گیا ہے۔ ان ہوٹلوں میں غیر ملکی سیاحوں کو ٹھہرنے کی اجازت ہو گی۔ اسلام ٹائمز۔ ضلع ہنزہ میں موجود 342 ہوٹلوں کو خطرناک قرار دیتے ہوئے غیر ملکی سیاحوں کے ٹھہرنے پر پابندی لگا دی گئی۔ ہنزہ انتظامیہ کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق نیکٹا کی جانب سے جاری ایس او پیز کے تحت مقامی انتظامیہ میں ہوٹلوں کے سکیورٹی انتظامات کی جانچ پڑتال کی۔ انتظامیہ کی جانچ کے بعد ہنزہ کے ہوٹلوں کو تین کیٹیگریز میں تقسیم کیا گیا ہے جس کے مطابق (Low risk) کٹیگری میں 45 ہوٹلوں کو شامل کیا گیا ہے۔ ان ہوٹلوں میں غیر ملکی سیاحوں کو ٹھہرنے کی اجازت ہو گی۔ میڈیم رسک (Madium Risk) اور ہائی رسک (High Risk) کٹیگریز میں کل 342 ہوٹلوں کو شامل کیا گیا ہے۔ ان ہوٹلوں میں غیر ملکی سیاحوں کو رکھنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ نوٹیفکیشن کے مطابق ان دونوں کٹیگری میں شامل کسی بھی ہوٹل میں غیر ملکی سیاحوں کو رکھنے کی صورت میں فوری طور پر وہ ہوٹل سیل ہو گا۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کیا گیا ہے کے مطابق
پڑھیں:
دو سالہ امریکی بچی کو ہنڈراس بے دخل کردیا گیا، امریکی جج
LOUISIANA:امریکی ریاست لوسیانا کے وفاقی جج نے کہا کہ حکومت نے دو سالہ امریکی شہری بچی کو ماں کے ساتھ ہنڈراس بے دخل کردیا جبکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کا اصرار ہے کہ بچی والدہ نے انہیں ساتھ بھیجنے کا مطالبہ کیا تھا۔
خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق امریکی شہری دو سالہ بچی کو بے دخل کرنے کا مقدمہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سخت گیر امیگریشن پالیسیوں اور امریکی عدلیہ کے درمیان جاری کش مکش کی تازہ ترین مثال ہے کیونکہ انتظامیہ امریکا سے غیر دستاویزی تارکین وطن کی بڑے پیمانے پر ملک بدری کے لیے کوشاں ہے۔
وفاقی ضلعی جج ٹیری ڈوٹی نے مقدمے کی سماعت کے لیے 16 مئی کی تاریخ مقرر کی ہے تاکہ عدالت کے حکم کے مطابق ان شکوک کو دور کیا جا سکے کہ حکومت نے کسی امریکی شہری کو بغیر مناسب قانونی کارروائی کے ملک بدر کر دیا ہے۔
جج ڈوٹی نے فیصلے میں لکھا کہ حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ سب اس لیے درست ہے کیونکہ والدہ چاہتی تھیں کہ ان کی بچی بھی ان کے ساتھ چلی جائے لیکن عدالت کو اس بات کا علم نہیں ہے۔
انہوں نے یاد دلایا کہ کسی امریکی شہری کو ملک بدر کرنا غیر قانونی ہے جبکہ بچی کی شناخت صرف ابتدائی حروف وی ایم ایل سے ظاہر کی گئی ہے۔
ملک بدر ہونے والی بچی کے والد کے وکلا نے فوری عبوری حکم کے لیے درخواست دائر کی ہے، تاکہ بچی کی واپسی ممکن بنائی جا سکے۔
خیال رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کا وفاقی ججوں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور ڈیموکریٹس سے کئی مواقع پر تصادم ہوا ہے کیونکہ ان کا مؤقف ہے کہ صدر نے تارکین وطن کو ملک بدر کرنے میں آئینی حقوق کو پامال کیا یا نظر انداز کیا اور مختلف کیسز میں متاثرین کو سماعت کا موقع بھی نہیں دیا گیا۔
اسی طرح امریکی حکومت کے ایجنٹوں نے وسکونسن میں ایک جج اس الزام پر گرفتار کیا کہ انہوں نے ایک غیر دستاویزی تارک وطن کو تحفظ دیا ہے۔
وائٹ ہاؤس نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو بھی نظر انداز کر دیا ہے جس میں انتظامیہ کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ میری لینڈ کے رہائشی کلمار آبریگو گارشیا کی واپسی کو ممکن بنائے، جسے ایل سلواڈور کی ایک ہائی سیکیورٹی جیل میں ملک بدر کر دیا گیا تھا۔