اصلی نام کیا ہے، اپنے فلمی نام سے خوش کیوں نہیں؛ جگن کاظم نے بتادیا
اشاعت کی تاریخ: 29th, April 2025 GMT
معروف اداکارہ اور میزبان جگن کاظم نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ میرا اصل نام مہربانو ہے البتہ مشہور فلمی نام جگن سے ہوگئی۔
نجی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں بتایا کہ میں، یعنی کہ مہر بانو کاظم جب پہلی بار شوبز انڈسٹری میں آئی، تو مجھے "جگن” کا نام دیا گیا تھا۔
مہربانو کاظم نے بتایا کہ مجھے جگن نام پسند نہیں آیا اور نہ میں اس نام سے شہرت حاصل کرنا چاہتی تھی لیکن پراجیکٹ ایسا تھا۔ میں انکار نہ کرسکی۔
انھوں نے مزید کہا کہ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جگن اس طرح میرے نام کے ساتھ جڑ گیا کہ جو لوگ مہربانو کو جانتے تھے وہ بھی اسے جگن کہنے لگے۔
مہر بانو (جگن) نے مزید کہا کہ بہت سی چیزیں آپ کے ہاتھ میں نہیں ہوتیں۔ میرے نام کی تبدیلی بھی ایسے ہی میرے قابو سے باہر تھی۔
ادکارہ و میزبان جگن کاظم نے شکوہ کیا کہ آج کل لوگ اس قدر بےتکلفی سے بات کرتے ہیں کہ کبھی کبھی چھوٹے بڑے کا فرق سمجھ نہیں آتا۔
انھوں نے کہا کہ میں پرانے خیالات کی مالک ہوں اور سمجھتی ہوں کہ بات کرتے یا مخاطب ہوتے ہوئے احترام کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔
جگن کاظم نے کہا کہ چھوٹی عمر والوں کو مجھے جگن آنٹی یا جگن آپی کہنا چاہیے۔ مجھے اس میں برا نہیں بلکہ اچھا لگے گا۔
TagsShowbiz News Urdu.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: جگن کاظم نے کہا کہ
پڑھیں:
تعوُّذات: تعارف، اہمیت، فوائد
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ذخیزۂ احادیث کو دیکھا جائے تو ہر موقع و محل کے مناسب تعوذ پر رسولؐ کے عملی اہتمام کو دیکھ پڑھ کر قاری، حیرانگی اور تعجب میں پڑجاتا ہے کہ آخر کیا سبب ہے کہ تعوُّذات‘ اس قدر اہمیت کے حامل رہے ہیں کہ جنہیں صبح وشام کے وقت، سونے جاگنے، برا خواب دیکھنے، بیمار کی بیمارپرسی، غیض وغضب سے دو چار ہونے، وساوس کی بندش کو توڑنے، سفر کی روانگی، کسی جگہ پڑاؤ، گھر سے خروج، بازار جانے، کوئی چیز خریدنے، بیماری یا بخار میں مبتلا ہونے، سخت آندھی چلنے کے مواقع کے علاوہ نماز کے دوران اور نماز کے بعد پڑھنے کا خاص حکم ہے۔ اور اسی طرح مصائبِ دنیویہ جیسے: برص، جنون، جذام، ذلت، پریشانی، غم، لاچارگی، قرض، فقر وفاقہ، بڑھاپے اور ہر قسم کی ناگہانی آفات کے ساتھ ساتھ اُخروی مصائب، مثلاً: نفاق، کفر، شرک، گمراہی، برے اعمال، برے ساتھی اور برے پڑوسی سے مخصوص استعاذہ کا وارد ہونا بھی آدمی کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ تعوُّذ کے معنی میں ذرا سا غور کیا جائے اور اس کی حکمتوں کو سوچا جائے، تو ساری حیرانگی، اللہ کی قدرتِ کاملہ کا استحضارکرتے ہوئے اپنی بے بسی، لاچارگی اور کمزوری سے بدل جاتی ہے کہ انسان کسی بھی آفت، حادثے یا دشمن کے مقابلے کی سکت نہیں رکھتا ہے، بلکہ وہ ہرآن، ہرگھڑی، ہر لمحہ اور ہر مصیبت، آفت کے وقت اللہ تعالیٰ کی کامل احتیاج رکھتا ہے، چنانچہ علامہ راغب اصفہانیؒ اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’المفردات‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ:
’’العَوْذ‘‘ دوسرے کی پناہ میں رہنے اور اس کے ساتھ لگے رہنے کو کہتے ہیں اور اسی سے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان لیا گیا ہے: ’’اَعُوْذُ بِاللہِ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْجَاہِلِیْن‘‘۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تعوُّذ کی وضع، اللہ کی طرف التجاء ہے، مگر حافظ ابنِ کثیرؒ نے ایک اور نکتہ تحریر فرمایا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تعوُّذات کا مقصد اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع، اِنابت اور متوجہ ہونے کے ساتھ ساتھ انسان کی لاچارگی، بے بسی اور کمزوری کا اظہار بھی ہے، چنانچہ فرماتے ہیں کہ: کلام عرب میں پناہ کے لیے دو قسم کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں: 1۔الْعَوْذُ، 2۔اللَّوْذُ، مگر ان دونوں کے درمیان ایک باریک فرق ہے، جس سے استعاذہ کا مقصد مزید واضح ہوجاتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ لفظ ’’لوذ‘‘ کسی کی پناہ میں اپنے فائدہ کے تحت آنے کو کہتے ہیں، جبکہ ’’عوذ‘‘ اپنے آپ کو شر سے بچانے کے لیے کسی کی پناہ پکڑنے کو کہتے ہیں۔
حافظ ابن کثیرؒ نے استعاذہ کے لطائف بیان کرتے ہوئے مقصد کو مزید واضح کردیا:
’’استعاذہ میں مشغول رہنے سے زبان ہر قسم کے بیہودہ اور بیکار مشاغل سے دور ہوکر پاکیزہ رہتی ہے اور کلام اللہ کی تلاوت کے لیے تیار رہتی ہے، بلکہ استعاذہ میں اللہ کی مدد مانگنے اور ان کی قدرت ِ کاملہ کا اعتراف کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی لاچارگی اور اپنے اُس کھلم کھلا، آنکھوں سے اوجھل دشمن کے مقابلے سے ناتوانی کا اظہار بھی ہے، جس کے پچھاڑنے کی طاقت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے جس نے اسے پیدا کیا، جس کے یہاں نہ تصنع کا اعتبار ہے اور نہ کاسا لیسی کا‘‘۔ (تفسیر الاستعاذۃ واحکامہا)
البتہ اگر کسی کے ذہن میں یہ آجائے کہ ہر ’’مستعاذ مِنہ‘‘ یعنی ہر وہ چیز جس سے آپؐ نے اپنے رب کی پناہ مانگی ہے، وہ ہر حال میں مصیبت اور وبال ہی ہے، تو اس حوالے سے جان لینا چاہیے کہ ہر مستعاذ منہ مصیبت یا وبال نہیں ہے، بلکہ یہ خیال حقیقت سے کوسوں دور ہے؛ کیونکہ ایک جانب اگر غیرطبعی یا ناگہانی موت سے پناہ مانگی گئی ہے، تو دوسری طرف اسے شہادت بھی کہا گیا ہے، چنانچہ علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے مذکورہ مسئلے کو اپنے اَمالی (العرف الشذی) میں سوال و جواب کی شکل میں بیان کیا:
’’اگر کوئی کہے کہ ابو داؤد شریف میں ناگہانی موت سے پناہ مانگی گئی ہے، جبکہ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ناگہانی موت شہادت ہے، تو ہم کہیں گے کہ شریعت پناہ مانگنے کا حکم دیتی ہے، تاکہ وصیت یا معاملاتِ شرعیہ فوت نہ ہوں، باقی ناگہانی طور پر انتقال کر جائے، تو وہ شہید شمار ہوگا‘‘۔ (ابواب الجنائز)
انسان کے خمیر میں چونکہ یہ بات ہے کہ عموماً مطلب اور فائدے کے بغیر وہ کسی کام کا اقدام نہیں کرتا، اسی لیے ہم اپنے مضمون کے آخر میں استعاذہ کے چند فوائد ذکر کرتے ہیں:
1۔ علامہ ابن قیمؒ نے تعوُّذات اور دیگر اذکار کے فوائد تحریر کرتے ہوئے ایک عمدہ فائدہ بیان کیا ہے کہ دوائیاں تب ہی فائدہ اور سود مند ہیں، جب پہلے سے بیماری نے آکر نقصان سے دوچار کیا ہو، جبکہ تعوُّذ کا کمال اور فائدہ یہ ہے کہ یہ بیماری کے اسباب اور انسان کے درمیان سدِسکندری کی طرح حائل بن جاتی ہے، بہرحال علامہ موصوف کا مطلب یہ ہے کہ تعوُّذات مرض کے خاتمہ، مرض سے پیشگی حفاظت اور صحت کے برقرار رکھنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں ۔
2۔علامہ ابن قیمؒ ہی نے اپنی مشہور شہرہ آفاق کتاب ’’مدارج السالکین‘‘ میں تعوُّذات کی اہمیت و وقعت کو فوائد کی شکل میں تحریر فرمایا کہ اس آدمی پر لازم ہے جو دنیوی اور اُخروی مصائب سے اپنی حفاظت کا خواہاں ہے کہ وہ ہمہ وقت قلعہ بند اور زرہ زیبِ تن رکھے، یعنی وہ تعوُّذات نبویہ کی پاپندی کرے۔
3۔نضرۃ النعیم میں استعاذہ کی مسلسل پابندی کے چودہ فوائد بیان کیے گئے ہیں، جن میں سے چند ہم قارئین کے سامنے پیش کرتے ہیں:
٭استعاذہ نفس کی راحت وسکون کا سبب ہے۔ ٭استعاذہ سے اللہ پر توکل کی صفت پیدا ہوتی ہے۔٭استعاذہ کی دعاؤں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پرہیز علاج سے بہتر ہے۔ ٭استعاذہ شیطان سے بچنے کے لیے ایک مضبوط قلعہ ہے۔ ٭استعاذہ سے انسان اپنے اعضا کے شرور سے محفوظ رہتا ہے۔