Daily Ausaf:
2025-07-29@05:16:03 GMT

ہر کمال کو زوال ہے

اشاعت کی تاریخ: 29th, April 2025 GMT

اللہ رب العزت کا یہ عدل کا نظام ہے کہ ’’ہر کمال کو زوال ہے، ہر بلندی کے بعد پستی کا آنا لازمی ہے۔‘‘ جیسے رات کی تاریکی کے بعد دن کے اجالے کا پھیلنا لازمی ہوتا ہے۔ ایسے ہی ہر بدی اور ہر برائی کے بعد اچھائی اور نیکی کا ہونا بھی لازمی ہوتا ہے۔ اللہ رب العزت نے ہر چیز کا جوڑا پیدا فرمایا ہے۔ اب شاید بدی کی تاریکی چھٹنے اور اجالا پھیلنے کا وقت قریب آنے والا ہے۔ کہتے ہیں کہ جب گیڈر کی موت آتی ہے تو اس کا رخ شہر کی طرف ہو جاتا ہے کچھ ایسا ہی یہاں ہوتا نظر آنے لگا ہے۔ سیاست میں کب کیا کچھ ہو جائے اس کا علم کسی بھی انسان کو نہیں ہوتا پر اللہ رب العزت کو سب ہی علم ہوتا ہے اور سب کچھ اس کی حکمت اور رضا سے ہورہا ہوتا ہے، جو وہ پاک رب چاہتا ہے وہی ہوتا ہے، انسان لاکھ چاہیے پر وہ کچھ بھی اللہ کی مرضی کے بغیر نہیں کرسکتا۔ انسان تو خود اتنا بے بس ہے کہ وہ چاہ کر بھی اپنے لیے کچھ بھی نہیں کرسکتا گر اللہ چاہے تو پھر ہی ممکن ہو پاتا ہے۔ حکمران، ان کو لانے والے اور ان کی حمایت کرنے والے کچھ بھی اپنی مرضی و منشا سے نہیں کرسکتے پر عجب بات یہ ہے کہ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ یہ لوگ چاہ رہے ہیں وہی ہورہا ہے تو اصل میں یہی لوگ غفلت کا شکار اور گمراہی میں مبتلا نظر آرہے ہوتے ہیں کیونکہ اللہ رب العزت نے کچھ عرصہ کے لیے اپنی مرضی سے ان کی رسی کو دراز کر رکھا ہوتا ہے اور ان کو ڈھیل دی ہوئی ہوتی ہے کہ وہ اپنی من مرضی کی کرلے جس میں وہ حقیقتاً خسارہ میں رہتے ہیں۔ اگر ہم وطن عزیز میں دیکھیں ابتدائی شروع کے چند سال چھوڑ کر تو ساری حقیقت ہمارے سامنے روزِ روشن کی طرح عیاں ہوکر کھڑی ہو جائے گی۔ جب بھی وطنِ عزیز کو اللہ رب العزت کی طرف سے کوئی مخلص سربراہ ملا ہے اس کی قدر نہیں کی یا پھر اس سربراہ نے اپنے ہی ہاتھوں سے خود کو تباہ و برباد کرنے کے ساتھ ہی وطن عزیز اور عوام کو بھی بے پناہ نقصان پہنچایا۔ ہماری ملکی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے پھر ہم اس سے کسی بھی قسم کی عبرت حاصل نہیں کر پاتے ہیں اور حکمرانی کے نشہ میں چور سرمستی میں مبتلا واحد اللہ کو بھلا کر خود وقت کے فرعون بن بیٹھتے ہیں یہ سوچے بغیر کہ کل اگر یہ حکمرانی نہیں رہی تو ہمارا انجام کیا ہوگا اور ہم کل اللہ کے سامنے کیسے کھڑے ہو پائیں گے۔
وطنِ عزیز کی تاریخ ہی نہیں بلکہ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جب جب حکمرانِ وقت اقتدار کے نشے میں مد ہوش ہونے لگتے ہیں تو ان کے زوال کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔ وطنِ عزیز کی سیاسی تاریخ ایک شفاف آئینے کی مانند ہمارے سامنے عیاں ہے۔ جب بھی صاحبِ اقتدار حکمران کو یہ گمان ہوتا ہے کہ ’’اس کی کرسی مضبوط ہوگئی ہے اور اسے کوئی نہیں ہلا سکتا‘‘ تب ہی وہ منہ کے بل گر پڑتا ہے۔ جنرل ایوب خان کو جب یہ گمان ہوا کہ انہیں اور اُن کے اقتدار کو کوئی ہلا نہیں سکتا تو انہوں نے من مانی کرنا شروع کردی تھی۔ آئین و قانون کی دھجیاں اڑانا شروع کردی تھیں اور اپنے لاڈلے بیٹے گوہر ایوب کو کھلی چھٹی دے دی تھی کہ وہ جو جی میں آئے کرتا پھرے۔ قانون تمہارے گھر کی لونڈی ہے بالآخر انہیں منہ کی کھانی پڑی اور ذلت و رسوائی کے ساتھ رخصت ہونا پڑا اور یہی حشر جنرل یحییٰ کا ہوا، انہوں نے بھی قانون کو اپنی جوتے کی نوک پر رکھا اور وہی ہوا جو ہوتا آیا تھا انہیں بھی ذلت و رسوائی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا اس کے بعد سونے کی چڑیا ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھ لگی جب تک انہوں نے قانون کو قانون سمجھ کر اس کا احترام ملحوظ خاطر رکھا انہوں نے ملک پر ہی نہیں عوام کے دلوں پر بھی راج کیا اور جب انہیں اقتدار کا نشہ چڑا اور انہیں لگنے لگا تھا کہ اب ان کی کرسی مضبوط ہوگئی ہے اور اسے کوئی ہلا نہیں سکتا اور وہ خود کو قانون سے بالا تر سمجھنے لگے تو انہیں بھی اسی ہی قانون نے اپنے شکنجے میں جکڑا اور ان کی ساری قانون دانی دھری کی دھری رہ گئی تھی۔ کہتے ہیں کہ ’’اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے‘‘ جب چلتی ہے تو وہ کچھ ہو جاتا ہے جس کا تصور تک انسان نہیں کرسکتا۔ جنرل ضیاء الحق نے اقتدار اپنی طاقت اور بندوق کے زور پر حاصل کیا تھا اور تاثر یہی دیا تھا کہ انہوں نے اللہ کی مضبوط رسی کو تھام رکھا ہے، جب انہوں نے اللہ کی رسی کو چھوڑ کر امریکی رسی کو مضبوطی سے تھاما تو ان کا دماغ بھی آسمان سے باتیں کرنے لگا تھا اور وہ سمجھنے لگے تھے کہ وہ خود ہی قانون ہیں اور وہ ہر ’’سیاہ و سفید کے مالک ہیں‘‘ وہ جو چاہیں کریں اللہ کے بجائے انہوں نے اپنے سر پر امریکا کا ہاتھ مضبوط کرتے ہوئے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا پھر اس ہی قانون نے ان کے نیچے سے ہی نہیں بلکہ اوپر ہی اوپر ان کو اقتدار سے محروم کردیا تھا۔ اللہ کی ’’بے آواز لاٹھی‘‘ کام کر گئی تھی ایک مشہور قول ہے کہ ’’جب ظلم حد سے بڑھ جائے تو مٹ جاتا ہے‘‘ بقول شاعر ساحر لدھیانوی
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
جب اللہ رب العزت نے اقتدار میاں نواز شریف کے نصیب میں لکھا تو وہ بھی بالآخر ایک ایسے مقام پر پہنچے جہاں انہیں یہ یقین ہو چلا تھا کہ اب ان کی کرسی مضبوط ہوگئی ہے اور اسے کوئی ہلا نہیں سکتا تو انہوں نے بھی قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کوشش کی تو ان کے ہاتھ بھی جل گئے اور حکمرانی کا تخت ان کے نیچے سے سرک گیا۔ اس کے بعد ایک نیا دور شروع ہوا پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی کو اقتدار نصیب ہوا جب تک وہ قانون اور آئین کی پاسداری کرتی رہیں حکومت کرتی رہیں لیکن جیسے ہی انہیں یہ گمان ہوا کہ ان کی کرسی اور ان کا اقتدار مضبوط ہوگیا ہے اور جب انہوں نے خود کو قانون سے ماورا جانا تب ان کا تختہ بھی الٹ دیا گیا۔ ایک بار پھر سے میاں نواز شریف کی لاٹری لگ گئی اور اقتدار انہیں نصیب ہوا پر انہوں نے اس سارے عرصے میں اپنی بے تختی اور بے توقیری قیدی سے کچھ بھی سبق حاصل نہیں کیا تھا۔ اب ان میں اپنے سر پرست ضیاء الحق کی خود سری اور خود مختاری کی خوبو خوب بس چکی تھی۔ انہوں نے اب زیادہ کھل کر اقتدار کے تخت پر بیٹھتے ہی خود کو ماورائے قانون سمجھ لیا تھا اور جو جی میں آیا، جیسا چاہا کرنا شروع کردیا تھا۔ قانون کو تو ہر حکمران اپنے ’’گھر کی لونڈی‘‘ سمجھتا رہا ہے کیونکہ وہ خود قانون ساز ادارے کا رکن ہونے کے باعث سمجھتا ہے کہ قانون کا کیا ہے یہ تو ہم نے خود ہی بنایا ہے پھر اس سے جیسا چاہے کھیلیں ہمیں روکنے والا کون ہوگا اور ساتھ ہی یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اس قانون کا اطلاق صرف عوام پر ہوتا ہے۔ حکمرانوں، سیاست دانوں، قانون سازوں اور اشرافیہ پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا البتہ حکمرانوں اور ان کی رسی پکڑ کر چلانے والوں کی منشا پر حکومت مخالفین پر جیسا چاہے ویسا استعمال ہوتا نظر آتا ہے۔
(جاری ہے )

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اللہ رب العزت انہوں نے قانون کو کی کرسی ہوتا ہے اللہ کی جاتا ہے کچھ بھی سے کوئی نہیں کر اور وہ ہے اور کے بعد اور ان کی رسی رسی کو ہیں کہ خود کو

پڑھیں:

گائے، بکرے یا گدھے کا گوشت؟ پہچان کیسے کریں؟

پاکستان میں گدھے کے گوشت کی فروخت غیرقانونی ہے، مگر اس کے باوجود وقتاً فوقتاً ایسی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں کہ بعض جگہوں پر گدھے کا گوشت بیچا جا رہا ہے، جس سے عوام میں تشویش اور بے چینی پیدا ہو جاتی ہے کہ کہیں وہ گائے یا بکرے کے گوشت کے نام پر گدھے کا گوشت تو نہیں کھا رہے۔

حال ہی میں اسلام آباد فوڈ اتھارٹی نے ترنول کے علاقے میں کارروائی کرتے ہوئے 50 سے زائد گدھے اور 25 من گوشت برآمد کیا۔ اطلاعات کے مطابق وہاں ایک سلاٹر ہاؤس قائم کیا گیا تھا، جہاں گدھوں کو ذبح کرکے گوشت کولڈ اسٹوریج میں رکھا جاتا تھا۔ اس گوشت کا کچھ حصہ غیر ملکی باشندوں کو پاکستان میں ہی فراہم کیا جا رہا تھا جبکہ کھالیں اور گوشت بیرونِ ملک بھی بھیجے جا رہے تھے۔

مزید یہ بھی انکشاف ہوا کہ گدھوں کو ذبح کرنے کے لیے بیرونِ ملک سے قصائی بلائے گئے تھے، اور سلاٹر ہاؤس چلانے والے دو غیر ملکی افراد کو گرفتار بھی کر لیا گیا ہے۔ کارروائی کے دوران 14 گدھوں کی باقیات اور 45 زندہ گدھے بھی برآمد ہوئے۔ تاہم ابھی تک گدھے کا گوشت مقامی مارکیٹوں میں فروخت ہونے کے ٹھوس شواہد نہیں ملے، لیکن شہریوں میں خدشات بدستور موجود ہیں۔

گدھے کے گوشت کی شناخت کیسے کریں؟
عام افراد کے لیے گدھے کا گوشت پہچاننا آسان نہیں ہوتا، لیکن ماہرین کے مطابق کچھ نمایاں علامات کی مدد سے فرق کیا جا سکتا ہے:

 رنگ: گدھے کا گوشت عموماً گہرے سرخ رنگ کا ہوتا ہے۔
ساخت: یہ باریک ریشے دار اور نسبتاً نرم ہوتا ہے، جبکہ گائے یا بکرے کے گوشت کے ریشے قدرے سخت اور چٹخنے والے ہوتے ہیں۔
چکنائی: گدھے کے گوشت میں چکنائی بہت کم اور سفیدی مائل سرمئی رنگ کی ہوتی ہے۔
بو: اس گوشت میں ایک مخصوص میٹھی سی بو ہوتی ہے، جو پکاتے وقت مزید واضح ہو جاتی ہے۔ بعض اوقات یہ بو ناخوشگوار محسوس ہو سکتی ہے۔
ذائقہ: گدھے کا گوشت چبانے میں سخت اور ذائقے میں تھوڑا میٹھا محسوس ہوتا ہے۔
دیسی طریقہ: کینیا میں گدھے کے گوشت کی پہچان کے لیے لوگ اسے ابالتے ہیں، کیونکہ یہ گوشت ابالتے وقت عام گوشت کے مقابلے میں زیادہ جھاگ پیدا کرتا ہے۔

محفوظ گوشت خریدنے کے لیے احتیاطی تدابیر
ہمیشہ ایسے قصاب سے گوشت خریدیں جو آپ کے سامنے جانور ذبح کرتا ہو۔

صرف سرکاری یا حکومت سے منظور شدہ دکانوں سے مہر لگا ہوا گوشت خریدیں۔

اگر آپ کو شک ہو کہ گوشت مشکوک ہے تو فوری طور پر فوڈ اتھارٹی یا متعلقہ حکام سے رجوع کریں۔

صارفین کو چاہیے کہ وہ گوشت خریدنے میں ہوشیاری سے کام لیں تاکہ کسی بھی غیرقانونی یا غیرمعیاری گوشت کے استعمال سے خود کو اور اپنے خاندان کو محفوظ رکھ سکیں۔

Post Views: 4

متعلقہ مضامین

  • بیگم شائستہ اکرام اللہ
  • بلوچستان میں شہریوں کو مارنے والوں کا حل آپریشن کے سوا کچھ نہیں: رانا ثناء اللہ
  • صحت کی سہولت لگژری نہیں ہر انسان کا بنیادی حق ہے ،مصطفی کمال
  • ترک صدر رجب طیب ایردوان مسلم دنیا کے مضبوط، بااصول اور جرأت مند رہنما ہیں ، انہوں نے ہر فورم پر فلسطینیوں اور امت مسلمہ کے حقوق کیلئے آواز بلند کی، وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ کا ڈاکٹر فرقان حمید کی کتاب کی تقریب رونمائی سے خطاب
  • امریکی یورپی ’’ٹیرف یونین‘‘کا دوسرا رخ: عالمگیریت کے زوال کا خمیازہ کون بھرے گا؟
  • بھارت کا دفاعی نظام زوال پذیر، 62 سال پرانے جنگی جہازوں پر انحصار
  • اربعین زائرین پر حکومتی وار، نامنظور
  • گائے، بکرے یا گدھے کا گوشت؟ پہچان کیسے کریں؟
  • بھارت میں تعلیم، روزگار اور صحت جیسے بنیادی شعبے بدترین زوال کا شکار
  • ملک پر ظلم کا نظام مسلط ہے، آئین تو موجود ہے، اس پر عمل نہیں ہوتا، حافظ نعیم