Daily Ausaf:
2025-09-19@00:39:16 GMT

ہر کمال کو زوال ہے

اشاعت کی تاریخ: 29th, April 2025 GMT

اللہ رب العزت کا یہ عدل کا نظام ہے کہ ’’ہر کمال کو زوال ہے، ہر بلندی کے بعد پستی کا آنا لازمی ہے۔‘‘ جیسے رات کی تاریکی کے بعد دن کے اجالے کا پھیلنا لازمی ہوتا ہے۔ ایسے ہی ہر بدی اور ہر برائی کے بعد اچھائی اور نیکی کا ہونا بھی لازمی ہوتا ہے۔ اللہ رب العزت نے ہر چیز کا جوڑا پیدا فرمایا ہے۔ اب شاید بدی کی تاریکی چھٹنے اور اجالا پھیلنے کا وقت قریب آنے والا ہے۔ کہتے ہیں کہ جب گیڈر کی موت آتی ہے تو اس کا رخ شہر کی طرف ہو جاتا ہے کچھ ایسا ہی یہاں ہوتا نظر آنے لگا ہے۔ سیاست میں کب کیا کچھ ہو جائے اس کا علم کسی بھی انسان کو نہیں ہوتا پر اللہ رب العزت کو سب ہی علم ہوتا ہے اور سب کچھ اس کی حکمت اور رضا سے ہورہا ہوتا ہے، جو وہ پاک رب چاہتا ہے وہی ہوتا ہے، انسان لاکھ چاہیے پر وہ کچھ بھی اللہ کی مرضی کے بغیر نہیں کرسکتا۔ انسان تو خود اتنا بے بس ہے کہ وہ چاہ کر بھی اپنے لیے کچھ بھی نہیں کرسکتا گر اللہ چاہے تو پھر ہی ممکن ہو پاتا ہے۔ حکمران، ان کو لانے والے اور ان کی حمایت کرنے والے کچھ بھی اپنی مرضی و منشا سے نہیں کرسکتے پر عجب بات یہ ہے کہ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ یہ لوگ چاہ رہے ہیں وہی ہورہا ہے تو اصل میں یہی لوگ غفلت کا شکار اور گمراہی میں مبتلا نظر آرہے ہوتے ہیں کیونکہ اللہ رب العزت نے کچھ عرصہ کے لیے اپنی مرضی سے ان کی رسی کو دراز کر رکھا ہوتا ہے اور ان کو ڈھیل دی ہوئی ہوتی ہے کہ وہ اپنی من مرضی کی کرلے جس میں وہ حقیقتاً خسارہ میں رہتے ہیں۔ اگر ہم وطن عزیز میں دیکھیں ابتدائی شروع کے چند سال چھوڑ کر تو ساری حقیقت ہمارے سامنے روزِ روشن کی طرح عیاں ہوکر کھڑی ہو جائے گی۔ جب بھی وطنِ عزیز کو اللہ رب العزت کی طرف سے کوئی مخلص سربراہ ملا ہے اس کی قدر نہیں کی یا پھر اس سربراہ نے اپنے ہی ہاتھوں سے خود کو تباہ و برباد کرنے کے ساتھ ہی وطن عزیز اور عوام کو بھی بے پناہ نقصان پہنچایا۔ ہماری ملکی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے پھر ہم اس سے کسی بھی قسم کی عبرت حاصل نہیں کر پاتے ہیں اور حکمرانی کے نشہ میں چور سرمستی میں مبتلا واحد اللہ کو بھلا کر خود وقت کے فرعون بن بیٹھتے ہیں یہ سوچے بغیر کہ کل اگر یہ حکمرانی نہیں رہی تو ہمارا انجام کیا ہوگا اور ہم کل اللہ کے سامنے کیسے کھڑے ہو پائیں گے۔
وطنِ عزیز کی تاریخ ہی نہیں بلکہ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جب جب حکمرانِ وقت اقتدار کے نشے میں مد ہوش ہونے لگتے ہیں تو ان کے زوال کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔ وطنِ عزیز کی سیاسی تاریخ ایک شفاف آئینے کی مانند ہمارے سامنے عیاں ہے۔ جب بھی صاحبِ اقتدار حکمران کو یہ گمان ہوتا ہے کہ ’’اس کی کرسی مضبوط ہوگئی ہے اور اسے کوئی نہیں ہلا سکتا‘‘ تب ہی وہ منہ کے بل گر پڑتا ہے۔ جنرل ایوب خان کو جب یہ گمان ہوا کہ انہیں اور اُن کے اقتدار کو کوئی ہلا نہیں سکتا تو انہوں نے من مانی کرنا شروع کردی تھی۔ آئین و قانون کی دھجیاں اڑانا شروع کردی تھیں اور اپنے لاڈلے بیٹے گوہر ایوب کو کھلی چھٹی دے دی تھی کہ وہ جو جی میں آئے کرتا پھرے۔ قانون تمہارے گھر کی لونڈی ہے بالآخر انہیں منہ کی کھانی پڑی اور ذلت و رسوائی کے ساتھ رخصت ہونا پڑا اور یہی حشر جنرل یحییٰ کا ہوا، انہوں نے بھی قانون کو اپنی جوتے کی نوک پر رکھا اور وہی ہوا جو ہوتا آیا تھا انہیں بھی ذلت و رسوائی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا اس کے بعد سونے کی چڑیا ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھ لگی جب تک انہوں نے قانون کو قانون سمجھ کر اس کا احترام ملحوظ خاطر رکھا انہوں نے ملک پر ہی نہیں عوام کے دلوں پر بھی راج کیا اور جب انہیں اقتدار کا نشہ چڑا اور انہیں لگنے لگا تھا کہ اب ان کی کرسی مضبوط ہوگئی ہے اور اسے کوئی ہلا نہیں سکتا اور وہ خود کو قانون سے بالا تر سمجھنے لگے تو انہیں بھی اسی ہی قانون نے اپنے شکنجے میں جکڑا اور ان کی ساری قانون دانی دھری کی دھری رہ گئی تھی۔ کہتے ہیں کہ ’’اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے‘‘ جب چلتی ہے تو وہ کچھ ہو جاتا ہے جس کا تصور تک انسان نہیں کرسکتا۔ جنرل ضیاء الحق نے اقتدار اپنی طاقت اور بندوق کے زور پر حاصل کیا تھا اور تاثر یہی دیا تھا کہ انہوں نے اللہ کی مضبوط رسی کو تھام رکھا ہے، جب انہوں نے اللہ کی رسی کو چھوڑ کر امریکی رسی کو مضبوطی سے تھاما تو ان کا دماغ بھی آسمان سے باتیں کرنے لگا تھا اور وہ سمجھنے لگے تھے کہ وہ خود ہی قانون ہیں اور وہ ہر ’’سیاہ و سفید کے مالک ہیں‘‘ وہ جو چاہیں کریں اللہ کے بجائے انہوں نے اپنے سر پر امریکا کا ہاتھ مضبوط کرتے ہوئے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا پھر اس ہی قانون نے ان کے نیچے سے ہی نہیں بلکہ اوپر ہی اوپر ان کو اقتدار سے محروم کردیا تھا۔ اللہ کی ’’بے آواز لاٹھی‘‘ کام کر گئی تھی ایک مشہور قول ہے کہ ’’جب ظلم حد سے بڑھ جائے تو مٹ جاتا ہے‘‘ بقول شاعر ساحر لدھیانوی
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
جب اللہ رب العزت نے اقتدار میاں نواز شریف کے نصیب میں لکھا تو وہ بھی بالآخر ایک ایسے مقام پر پہنچے جہاں انہیں یہ یقین ہو چلا تھا کہ اب ان کی کرسی مضبوط ہوگئی ہے اور اسے کوئی ہلا نہیں سکتا تو انہوں نے بھی قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کوشش کی تو ان کے ہاتھ بھی جل گئے اور حکمرانی کا تخت ان کے نیچے سے سرک گیا۔ اس کے بعد ایک نیا دور شروع ہوا پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی کو اقتدار نصیب ہوا جب تک وہ قانون اور آئین کی پاسداری کرتی رہیں حکومت کرتی رہیں لیکن جیسے ہی انہیں یہ گمان ہوا کہ ان کی کرسی اور ان کا اقتدار مضبوط ہوگیا ہے اور جب انہوں نے خود کو قانون سے ماورا جانا تب ان کا تختہ بھی الٹ دیا گیا۔ ایک بار پھر سے میاں نواز شریف کی لاٹری لگ گئی اور اقتدار انہیں نصیب ہوا پر انہوں نے اس سارے عرصے میں اپنی بے تختی اور بے توقیری قیدی سے کچھ بھی سبق حاصل نہیں کیا تھا۔ اب ان میں اپنے سر پرست ضیاء الحق کی خود سری اور خود مختاری کی خوبو خوب بس چکی تھی۔ انہوں نے اب زیادہ کھل کر اقتدار کے تخت پر بیٹھتے ہی خود کو ماورائے قانون سمجھ لیا تھا اور جو جی میں آیا، جیسا چاہا کرنا شروع کردیا تھا۔ قانون کو تو ہر حکمران اپنے ’’گھر کی لونڈی‘‘ سمجھتا رہا ہے کیونکہ وہ خود قانون ساز ادارے کا رکن ہونے کے باعث سمجھتا ہے کہ قانون کا کیا ہے یہ تو ہم نے خود ہی بنایا ہے پھر اس سے جیسا چاہے کھیلیں ہمیں روکنے والا کون ہوگا اور ساتھ ہی یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اس قانون کا اطلاق صرف عوام پر ہوتا ہے۔ حکمرانوں، سیاست دانوں، قانون سازوں اور اشرافیہ پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا البتہ حکمرانوں اور ان کی رسی پکڑ کر چلانے والوں کی منشا پر حکومت مخالفین پر جیسا چاہے ویسا استعمال ہوتا نظر آتا ہے۔
(جاری ہے )

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اللہ رب العزت انہوں نے قانون کو کی کرسی ہوتا ہے اللہ کی جاتا ہے کچھ بھی سے کوئی نہیں کر اور وہ ہے اور کے بعد اور ان کی رسی رسی کو ہیں کہ خود کو

پڑھیں:

مفتی منیب کو قانون کی الف ب کا بھی نہیں پتہ

لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 18 ستمبر 2025ء ) "مفتی منیب کو قانون کی الف ب کا بھی نہیں پتہ، ایک جج دوسرے جج کو کام سے روک ہی نہیں سکتا"۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری سے متعلق مفتی منیب کے بیان پر سینئر قانون دان ریاست علی آزاد کا ردعمل سامنے آیا ہے۔ نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر قانون دان نے کہا کہ مفتی منیب الرحمن کیا جسٹس کارنیلیس کے کلاس فیلو تھے جو اتنا بڑا بیان داغا؟ انکو تو قانون کی الف ب کا بھی نہیں پتہ، کوئی جج اپنے برادر جج کو کام سے نہیں روک سکتا، جوڈیشل پاورز نہیں لے سکتا۔

ایسے تو پھر کوئی سول جج بھی آرڈر کرکے جسٹس ڈوگر کو کام سے روک دے۔ ریاست علی آزاد نے الزام عائد کیا کہ جسٹس ڈوگر نے بد دیانتی کی ہے۔

(جاری ہے)

واضح رہے کہ رویت ہلال کمیٹی کے سابق چیئرمین مفتی منیب الرحمان اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری کے معاملے پر رائے دینے پر تنقید کی زد میں آگئے۔ اپنے ایک بیان میں مفتی منیب الرحمان نے کہا کہ پہلے جج صاحبان پر پی سی او کے حلف یافتہ ہونے کی پھبتی کسی جاتی تھی کہ انہوں نے آئین کو پس پشت ڈال کر آمروں کی وفاداری کا حلف اٹھایا، پھر 2007ء میں عدلیہ بحالی تحریک کے بعد چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بحال ہوئے اور عدلیہ کے زوال کا ایک نیا دور شروع ہوا، انہوں نے خود پی سی او حلف یافتہ حج ہونے کے باوجود دوسرے پی سی او حلف یافتہ جج صاحبان کو منصب سے فارغ کردیا، اس کے بعد بیرسٹر اعتزاز احسن کے مطابق متکبر جوں اور متشدد وکلاء کا دور شروع ہوا اور آئین کو آمر کے بجائے اپنی خواہشات اور انا کے تابع کر دیا۔

ان کا کہنا ہے کہ جج صاحبان ثاقب نثار، آصف سعید کھوسہ، گلزار احمد، اعجاز الاحسن، عظمت سعید شیخ، مظاہر نقوی اور منیب اختر وغیرہ نے وہ حشر بپا کیا کہ الامان والحفیظ! مارچ 2009ء میں جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے بعد عدلیہ کے تنزیل و انتشار کا سلسلہ رکنے میں نہیں آرہا، بعض حجج صاحبان نے ایسے فیصلے دیئے جو آئین کو ازسر نو لکھنے کے مترادف ہیں، عدم اعتماد کی بابت پہلے فیصلہ دیا کہ سیاسی جماعت کے سر براہ کے حکم کی پابندی اُس جماعت کے ارکان پر لازم ہوگی پھر جب مصلحت بدل گئی تو فیصلہ دیا کہ سیاسی جماعت کے سر براہ کی نہیں بلکہ پارلیمانی لیڈر کے حکم کی تعمیل لازم ہوگی۔

رویت ہلال کمیٹی کے سابق چیئرمین کہتے ہیں کہ اب جسٹس طارق محمود جہانگیری کی قانون کی ڈگری کے جعلی ہونے کا مسئلہ ہے، آئین پسندی، نیز دینی منصبی اور اخلاقی حمیت کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ اپنے آپ کو رضا کارانہ طور پر محاسبے کے لیے پیش کر دیتے اور خود چیف جسٹس کو لکھتے کہ تحقیقاتی کمیٹی قائم کر کے میرے کیس کا فیصلہ صادر کیجیے اور اپنی ڈگری کی اصلیت کو ثابت کر کے سرخرو ہوتے کیونکہ ” آن را که حساب پاک است از محاسبه چه باک‘ یعنی جس کا حساب درست ہے اُسے خود کو محاسبے کے لیے پیش کرنے میں کس بات کا ڈر ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہچکچاہٹ بتارہی ہے کہ دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ شاید پوری دال ہی کالی ہے، جعل سازی کو حرمت عدالت کے غلاف میں لپیٹا نہیں جاسکتا، نیز اصول پسندی اور آئین پابندی کا تقاضا ہے کہ اس کی بابت اسلام آباد ہائی کورٹ کے اُن کے ہم خیال بقیہ چارج صاحبان کا مؤقف بھی آنا چاہیئے، جوڈیشل کمیشن کا ایسے مسائل کو طویل عرصے تک پس پشت ڈالنا بھی عدل کے منافی ہے، جیسے قومی اسمبلی کے سابق ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کا معاملہ اب تک التوا میں ہے۔

مفتی منیب الرحمان کے اس بیان پر سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے تبصروں کا سلسلہ جاری ہے، اس حوالے سے کورٹ رپورٹر مریم نواز خان نے لکھا کہ چاند نظر نہیں آیا کبھی وقت پر مگر ان کو دال ساری کالی نظر آ رہی ہے، سب بولو سبحان اللہ!

چاند نظر نہیں آیا کبھی وقت پر مگر ان کو دال ساری کالی نظر آ رہی ہے!

سب بولو سبحان اللہ! https://t.co/U41JkKAZL6

— Maryam Nawaz Khan (@maryamnawazkhan) September 17, 2025 اسی حوالے سے صحافی رضوان غلزئی کہتے ہیں کہ مفتی منیب آخری عمر میں منیب فاروق کیوں بن گئے ہیں؟

مفتی منیب آخری عمر میں منیب فاروق کیوں بن گئے ہیں؟

— Rizwan Ghilzai (Remembering Arshad Sharif) (@rizwanghilzai) September 17, 2025 ایک ایکس صارف انس گوندل نے سوال کیا کہ مفتی منیب الرحمان کس کی ترجمانی کر رہے ہیں؟

مفتی منیب الرحمن کس کی ترجمانی کر رہے ہیں؟

— Anas Gondal (@AnasGondal19) September 17, 2025 صحافی طارق متین نے استفسار کیا کہ مفتی منیب الرحمان صاحب کو یہ ثقیل اردو اور فارسی اصطلاحات صرف عمران خان مخالفین کے حق میں ہی کیوں یاد آتی ہیں۔

مفتی منیب الرحمان صاحب کو یہ ثقیل اردو اور فارسی اصطلاحات صرف عمران خان مخالفین کے حق میں ہی کیوں یاد آتی ہیں

— Tariq Mateen (@tariqmateen) September 17, 2025

متعلقہ مضامین

  • مفتی منیب کو قانون کی الف ب کا بھی نہیں پتہ
  • توشہ خانہ ٹو کیس میں اہم پیش رفت: دو گواہان کے حیران کن انکشافات
  • سیلاب کی تباہ کاریاں اور حکمران طبقہ کی نااہلی
  • حکومت صحت کے نظام کو مضبوط بنانے کے لئے پرعزم ہے،سید مصطفی کمال
  • بانی پی ٹی آئی اقتدار کیلئے ملک دشمنوں کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں، حنیف عباسی
  • کشمیر کی باغبانی صنعت پابندیوں کی زد میں کیوں ہے، ممبر پارلیمنٹ آغا سید روح اللہ
  • سچ بولنے والوں پر کالے قانون "پی ایس اے" کیوں عائد کئے جارہے ہیں، آغا سید روح اللہ مہدی
  • ایک شخص نے اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے پی ٹی آئی کو کرش کیا، عدلیہ کو اپنے ساتھ ملالیا، عمران خان
  • 20 سال میں ریلوے کا زوال، ٹرینوں کی تعداد آدھی رہ گئی، سیکرٹری ریلوے کا انکشاف
  • انکم ٹیکس مسلط نہیں کرسکتے تو سپرکیسے کرسکتے ہیں : سپریم کورٹ