Jang News:
2025-09-18@20:43:25 GMT

ہماری حکومت نے بھارت کے سامنے سرنڈر کر دیا ہے، عمر ایوب

اشاعت کی تاریخ: 29th, April 2025 GMT

ہماری حکومت نے بھارت کے سامنے سرنڈر کر دیا ہے، عمر ایوب

عمر ایوب— فالئل فوٹو

اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کا کہنا ہے ہماری حکومت نے بھارت کے سامنے سرنڈر کر دیا ہے، ان میں جواب دینے کی سکت نہیں ہے۔

تحریک انصاف کے رہنما عمر ایوب نے جوڈیشل کمپلیکس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے حکومت پر شدید تنقید کی اور کہا کہ بھارت بار بار حملے کی دھمکیاں دے رہا ہے، وزیراعظم نے کاکول میں تقریر کے دوران ملک پر ضرب لگائی، وزیر اعظم اور ان کی کابینہ نے بھارت کے سامنے سرنڈر کر دیا ہے، ان میں جواب دینے کی سکت نہیں ہے۔

عمر ایوب نے کہا کہ صرف بانی پی ٹی آئی ہی بھارت کو مؤثر جواب دے سکتے ہیں۔

وزیرِاعظم شہباز شریف نے ہمیں دیوار سے لگایا ہوا ہے: عمر ایوب

اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے کہا ہے کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے ہمیں دیوار سے لگایا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ گزشتہ ایک ہفتے سے مسلسل خبردار کر رہے ہیں کہ بھارت حملہ کرنے والا ہے، لیکن حکومت دوستی کی پینگیں بڑھا رہی ہے اور تحقیقات کی پیشکش کر رہی ہے۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ پہلگام حملہ ہندوستان کی ناکامی ہے، پاکستان کا اس سے کوئی تعلق نہیں جبکہ بھارتی دھمکیوں کے مقابلے میں ہمیں تیار اور ردعمل میں واضح ہونا چاہیے تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ جہاں سے حملہ ہوا یا حملے کی کوشش کی گئی، وہاں ہمیں دشمن کو تباہ کرنے کا پیغام دینا چاہیے تھا۔

عمر ایوب نے مزید کہا کہ ایران سے 500 ارب روپے سے زائد کا تیل اسمگل ہو رہا ہے، جبکہ ہماری ریفائنریز بند پڑی ہیں۔

.

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: عمر ایوب نے کہا کہ نے کہا

پڑھیں:

ہمارا خاندان، ہماری ذمے داری

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ہم میں سے ہر شخص کو ان حالات پر بڑی سنجیدگی اور دل سوزی سے غور کرنا چاہیے اور بحیثیت فرد اور من حیث القوم یکسو ہو جانا چاہیے کہ ہماری منزل کیا ہے؟ کسی فرد اور کسی قوم کے لیے اس سے زیادہ تباہی کا راستہ کیا ہوگا کہ بقول غالب اس کا حال یہ ہوجائے کہ
رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے، نہ پا ہے رکاب میں
اگر ہماری منزل اسلام ہے اور یقیناً اسلام ہی ہے، تو پھر دورنگی اور عملی تضاد کو ترک کرنا ہوگا۔ ایمان اور جہل ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ اسلام تو علم کی روشنی میں زندگی گزارنے کا راستہ ہے۔ کتنے تعجب کی بات ہے کہ مسلمان معاشرے کی اکثریت کو دین کی بنیادی تعلیمات سے بھی آگہی نہیں۔ نئی نسلوں کو اسلامی آداب اور شعائر سے آشنا نہیں کیا جا رہا۔ میڈیا بالکل دوسری ہی تہذیب اور ثقافت کا پرچارک ہے، جو ذہنوں کو مسلسل مسموم بنا رہا ہے اور اخلاق اور معاشرت کو انتشار کا شکار کر رہا ہے۔

بااثر افراد کا ایک گروہ بڑے منظم طریقے پر نوجوانوں کو بے راہ روی اور اباحیت پسندی کی طرف لے جا رہا ہے۔ ہمارے علما، دانش ور اور اربابِ سیاست اپنے اپنے ذاتی، گروہی، مسلکی اور سیاسی مفادات کی جنگ میں مصروف ہیں۔ طبقۂ علما اور سیاست دانوں کو فرصت ہی نہیں کہ ان معاشرتی ناسوروں کے علاج کی فکر کریں۔
عدالتیں، اینگلوسیکسن قانونی روایت کی تقلید میں قانون کے الفاظ کو انصاف کے حصول پر فوقیت دے رہی ہیں۔ جن معاملات کو گھر کی چار دیواری اور خاندان کے حصار میں طے ہونا چاہیے ان کو تھانے اور کچہری کی نذر کیا جارہا ہے۔ صحافت اور الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا فواحش کی تشہیر کی خدمات انجام دیتے ہوئے اس گندگی کو ملک کے طول وعرض میں پھیلانے کا کردار ادا کررہے ہیں۔
ان حالات میں ملک کے تمام سوچنے سمجھنے والے عناصر اور جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ ملک و ملّت کے حقیقی مسائل کی طرف توجہ دیں۔ سیاست محض نعروں کی تکرار کا نام نہیں، سیاست تو تدبیرِ منزل سے عبارت ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب ایک گروہ اصلاح کے لیے عملاً میدان میں اُتر آئے۔ خیر و شر میں تمیز کے احساس کو بڑے پیمانے پر بیدار کرنا، وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ بلاشبہ حکومت کی ذمے داری سب سے زیادہ ہے، لیکن اگر حکومت اپنی اس ذمے داری کو ادا نہیں کر رہی، تو کیا حالات کو تباہی کی طرف جانے کے لیے چھوڑا جا سکتا ہے؟ اس کشتی میں تو ہم سب ہی بیٹھے ہیں۔ اس کو بچانے کی ذمے داری بھی ہم سب کی ہے۔ اگر دوسرے اس میں چھید کررہے ہیں، تو ہم ان سب کو ڈبونے کا موقع کیسے دے سکتے ہیں؟ اس سلسلے میں سب سے بڑی ذمے داری اسلامی فکر سے سرشار اور معاشرے کے سوچنے سمجھنے والے قابلِ قدر افراد کی ہے۔

ہماری پہلی ضرورت منزل کے صحیح تعین اور اس کے حصول کے لیے یکسو ہو کر جدوجہد کرنے کی ہے۔ مغربی ثقافت کی نقالی اور تہذیبِ نو کی یلغار کے آگے ہتھیار ڈالنا ہمارے لیے موت کے مترادف ہے۔ جو کش مکش آج برپا ہے اور جس کا ایک ادنیٰ ساعکس ایک خانگی حادثے پر عدالتی فیصلے اور اس کے تحت رو نما ہونے والی بحثوں میں دیکھا جا سکتا ہے، وہ ہمیں دعوتِ غور وفکر ہی نہیں، دعوتِ عمل و جہاد بھی دیتی ہے۔
آئیے، سب سے پہلے اپنی منزل کے بارے میں یکسو ہو جائیں۔ اگر وہ اسلام ہے، اور اسلام کے سوا کوئی دوسرا راستہ زندگی کا راستہ ہو ہی نہیں سکتا، تو پھر بیک وقت دو مختلف سمتوں میں جانے والی کشتیوں میں سواری کرنے کا احمقانہ ہی نہیں بلکہ خطرناک راستہ بھی ہمیں ترک کرنا ہوگا۔ فرد کی ذاتی تربیت سے لے کر خاندان کے نظام کی تشکیل، معاشرے کا سدھار، معیشت کی تنظیم نو، صحافت، سیاست، قانون اور عدالت کے نظام کی اصلاح اس کا لازمی حصہ ہیں۔
وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے اور مہلت بہت کم ہے۔ ہم ملک کے اہلِ نظر کو دعوت دیتے ہیں کہ ان بنیادی مسائل کے بارے میں عوام کی مؤثر رہنمائی کریں۔ ناخوش گوار واقعات پر سے صرف کبیدہ خاطر ہو کر گزر نہ جائیں، بلکہ اصلاح کے لیے منظم طور پر عملی اقدام کریں۔

متعلقہ مضامین

  • ہمارا خاندان، ہماری ذمے داری
  • غزہ میں ہماری آنکھوں کے سامنے نسل کشی ہورہی ہے۔ میئر لندن
  • حکومت! فوج کو عوام کے سامنے نہ کھڑا کرے، حزب‌ الله لبنان
  • پاکستان اور سعودی عرب کے مابین تاریخی دفاعی معاہدہ، بھارت کا ردعمل بھی سامنے آگیا
  • لازوال عشق
  • ہماری پُرزور کوشش کے بعد بھی بانی پی ٹی آئی تک رسائی نہیں مل رہی: عمر ایوب
  • حکومت کا توشہ خانہ میں جمع تحائف کا مکمل ریکارڈ عوام کے سامنے لانے کا فیصلہ
  • ہماری خودمختاری پر حملہ ہوا تو ہر قیمت پر دفاع کریں گے، چاہے کوئی بھی ملک ہو، اسحاق ڈار
  • اسرائیلی حملوں کی محض مذمت کافی نہیں، اب ہمیں واضح لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا: اسحاق ڈار
  • بھارتی حکومت نے سکھ یاتریوں کو بابا گورونانک کی برسی پر آنے سے روک دیا