سونے کی قیمت میں آج پھر بڑا اضافہ ریکارڈ
اشاعت کی تاریخ: 29th, April 2025 GMT
عالمی اور مقامی مارکیٹوں میں سونے کی قیمت میں آج بھی بڑا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی بلین مارکیٹ میں فی اونس سونے کی قیمت 21ڈالر کے اضافے سے 3ہزار 310ڈالر کی سطح پر آگئی
عالمی مارکیٹ میں اضافے کے باعث ملک میں فی تولہ سونے کی قیمت بھی 2ہزار 100روپے کے اضافے سے 3لاکھ 49ہزار 200روپے کی سطح پر آگئی۔
اس کے علاوہ فی دس گرام سونے کی قیمت 1ہزار 800روپے بڑھ کر 2لاکھ 99ہزار روپے 382روپے کی سطح پر پہنچ گئی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سونے کی قیمت
پڑھیں:
بھارت: طلبہ کی خودکشیوں میں اضافے کی وجوہات کیا ہیں؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 28 جولائی 2025ء) بھارت میں جرائم کا اعداد وشمار رکھنے والے حکومتی ادارے نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو (این سی آر بی) کے مطابق بھارت میں ہر سال تقریباً 13,000 طلبہ خودکشی کر لیتے ہیں۔ این سی آر بی کی حالیہ رپورٹ کے مطابق طلبہ ملک میں خودکشی کرنے والوں کا 7.6 فیصد حصہ ہیں۔
یہ اعداد و شمار 2022 کے ڈیٹا پر مبنی ہیں، جبکہ 2023 اور 2024 کے سرکاری اعداد و شمار ابھی جاری نہیں ہوئے ہیں۔
تحقیقات اور سرکاری رپورٹوں کے مطابق تعلیمی اور سماجی دباؤ، ادارہ جاتی معاونت کی کمی اور آگاہی کی کمی جیسے عوامل طلبہ میں خودکشی کے رجحان میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
نیورو سائیکاٹرسٹ انجلی ناگپال نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میں ان اعداد و شمار کو صرف اعداد نہیں بلکہ ان خاموش اذیتوں کی علامت سمجھتی ہوں جو سماجی اصولوں اور توقعات کے نیچے دبی ہوئی ہیں۔
(جاری ہے)
‘‘انہوں نے مزید کہا، ’’میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ بچوں کو ناکامی، مایوسی یا غیر یقینی صورتِ حال سے نمٹنے کا طریقہ نہیں سکھایا جاتا ۔ ہم انہیں امتحانات کے لیے تیار کرتے ہیں، زندگی کے لیے نہیں۔‘‘
انجلی ناگپال کا کہنا ہے’’ذہنی صحت کی تعلیم کو اسکول کی روزمرہ زندگی کا حصہ ہونا چاہیے، نہ کہ اسے صرف الگ تھلگ سیشنز تک محدود رکھا جائے۔
طلبہ کو اظہارِ خیال کا موقع اور توجہ سے سنے جانے کی جگہ ملنی چاہیے۔ اساتذہ کو صرف لیکچر دینے کے بجائے سننے کی تربیت دی جانی چاہیے۔‘‘ ذہنی صحت کی معاونت کے مطالبات میں اضافہپیر کے روز بھارتی وزیر مملکت برائے تعلیم سکانت مجمدار نے پارلیمنٹ میں رپورٹ کے نتائج پیش کیے۔
حکومت نے تسلیم کیا کہ تعلیمی اصلاحات اور ذہنی صحت کے نئے اقدامات کے باوجود، ’’شدید تعلیمی دباؤ‘‘ کمزور طلبہ کو متاثر کرتا رہتا ہے۔
مجمدار نے بتایا کہ حکومت اس مسئلے کے حل کے لیے کثیر الجہتی اقدامات کر رہی ہے، جن میں طلبہ، اساتذہ اور خاندانوں کے لیے نفسیاتی معاونت کے پروگرام شامل ہیں۔
سوسائیڈ پریوینشن انڈیا فاؤنڈیشن کے بانی نیلسن ونود موسیٰ نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا’’زہریلی مسابقت‘‘، سخت گریڈنگ سسٹم اور ذہنی صحت کے ناقص ڈھانچے اس بحران کے بڑے عوامل ہیں۔
انہوں نے کہا،’’ایک خاموش وبا بہت سے نوجوانوں کو ٹوٹنے کے دہانے پر لے جا رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بھارت کے تعلیمی نظام میں اضطراب اور بے اعتمادی کی ایک لہر دوڑ رہی ہے۔‘‘
ان کے مطابق کالجوں کے کونسلرز کو خودکشی کی اسکریننگ، خطرے کی تشخیص، اور متاثرہ طلبہ کی کونسلنگ کی تربیت دی جانی چاہیے۔
نیلسن ونود موسیٰ نے بتایا، ’’ہم یہ نہیں چاہتے کہ نوجوان زندگیاں یوں ضائع ہوں۔
اس لیے کیمپسز میں جذباتی ذہانت، زندگی کی مہارتیں، دباؤ سے نمٹنے اور خودکشی سے بچاؤ کے پروگرام متعارف کرانا ضروری ہے۔ طلبہ اور اساتذہ دونوں کے لیے ’گیٹ کیپر' تربیت اہم ہے۔‘‘گیٹ کیپر تربیت سے مراد خودکشی کو روکنے کے لیے ایک دو روزہ مخصوص ورک شاپ سے ہے۔
کمزور طلبہ کے لیے ’تحفظاتی نظام‘ کی ضرورتسن 2019 میں یونیورسٹی آف میلبورن (آسٹریلیا)، بھارت کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ نیورو سائنسز(نمہانس)، اور دیگر بھارتی میڈیکل کالجز کے محققین کی مشترکہ تحقیق میں کالج طلبہ میں خودکشی کے رحجانات کا مطالعہ کیا گیا۔
اس سروے میں بھارت کی 9 ریاستوں کی 30 یونیورسٹیوں کے 8,500 سے زائد طلبہ شامل تھے۔
تحقیق میں انکشاف ہوا کہ 12 فیصد سے زائد طلبہ نے گزشتہ سال کے دوران خودکشی کے خیالات کا اظہار کیا، جبکہ 6.7 فیصد نے اپنی زندگی میں کبھی نہ کبھی خودکشی کی کوشش کی۔
تحقیق میں اس بڑھتے بحران کے سدباب کے لیے تعلیمی اداروں میں فوری ذہنی صحت کے اقدامات اور معاون نظام کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
بھارتی سپریم کورٹ نے اس صورت حال کو’’خودکشی کی وبا‘‘ قرار دیتے ہوئے مارچ میں 10 رکنی قومی ٹاسک فورس تشکیل دی، جو اس وقت ملک گیر مشاورت، ادارہ جاتی جائزے اور جامع پالیسی کی تیاری میں مصروف ہے۔
کریئرز360 کے بانی اور سی ای او مہیشور پیری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’بدقسمتی سے بعض اوقات طلبہ کو صرف ایک دن کے امتحان کی بنیاد پر پرکھا جاتا ہے، اور وہ اس دباؤ کی وجہ سے اپنی جان لے لیتے ہیں۔
ہمیں ان کے لیے تحفظاتی نظام بنانا ہو گا۔‘‘انہوں نے کہا، ’’زیادہ تر طلبہ تنہا پڑھتے ہیں اور ان کے پاس کوئی معاون نظام نہیں ہوتا۔ طلبہ کی ضروریات کے مطابق ذہنی صحت کی مربوط سہولیات کی فوری ضرورت ہے۔‘‘
کامیابی کی محدود تعریف، مواقع کی کمیدہلی کے ماہر نفسیات آچل بھگت، جنہیں اس شعبے میں 30 سال سے زائد کا تجربہ ہے، نے کہا کہ کامیابی کی محدود تعریف، صنفی تفریق، تشدد اور روزگار کے مواقع کی کمی طلبہ کی ذہنی صحت کے مسائل میں کردار ادا کرتی ہے۔
انہوں نے کہا، ’’یا تو آپ ناکام ہیں یا جینیئس۔ ہمارے معاشرتی اور ادارہ جاتی نظام سخت گیر ہیں، اور نوجوانوں سے مکالمہ نہیں کرتے۔ یہی احساسِ بے بسی اور مایوسی المیہ بن جاتا ہے۔‘‘
ان کے مطابق اس تشویش ناک مسئلے کے حل کے سب سے اہم عناصر میں نوجوانوں کی مستقبل سے متعلق فیصلوں میں ان کی شراکت، رہنمائی، اور کامیابی کی وسیع تر تعریف کے لیے قابلِ رسائی رول ماڈلز کی تیاری شامل ہے۔
ادارت: صلاح الدین زین