سکردو میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے صوبائی صدر کا کہنا تھا کہ معدنیات سے متعلق قانون سازی کیلئے ضروری ہے کہ اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جائے، مجوزہ قانون میں تین حصہ دار ہو سکتے ہیں، سب سے پہلے نمبر پر عوام دوسرے نمبر حکومت اور تیسرے نمبر پر سرمایہ کار شامل ہونگے۔ ان تینوں میں سے ایک بھی راضی نہ ہوا تو قانون پر عمل درآمد ممکن نہ ہو گا۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان پیپلز پارٹی گلگت بلتستان کے صدر و رکن اسمبلی امجد حسین ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان متنازعہ علاقہ ہے، یہ تنازعہ کشمیر کا حصہ ہے، اس علاقے میں جو بھی قانون سازی کی جائے گی اس سے متعلق یہاں کے عوام کو اعتماد میں لینا ہوگا، ورنہ جو بھی قانون بنے گا اس پر عمل درآمد مشکل ہو جائے گا۔ معدنیات سے متعلق قانون سازی سے قبل یہاں کی کمیونٹی کو اعتماد میں لینا ہو گا ورنہ جو حشر دوسرے قوانین کا ہوا ہے وہی معدنیات کے قانون کا بھی ہو گا۔ سکردو میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے صوبائی صدر کا کہنا تھا کہ معدنیات سے متعلق قانون سازی کیلئے ضروری ہے کہ اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جائے، مجوزہ قانون میں تین حصہ دار ہو سکتے ہیں، سب سے پہلے نمبر پر عوام دوسرے نمبر حکومت اور تیسرے نمبر پر سرمایہ کار شامل ہونگے۔ ان تینوں میں سے ایک بھی راضی نہ ہوا تو قانون پر عمل درآمد ممکن نہ ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ زمینوں کا مسئلہ بہت ہی سنجیدہ مسئلہ ہے، اس کو خوش اسلوبی کے ساتھ حل کیا جا رہا ہے، لینڈ ریفارمز بل پر بلتستان اور دیامر سے آنے والے تحفظات کو دور کر لیا گیا ہے اور سب کیلئے قابل مسودہ تیار کر کے کابینہ سے منظور کرا کر اسمبلی کو بھیجا گیا ہے، اب جب بھی اسمبلی کا اجلاس ہو گا تو بل پیش کر دیا جائے گا اور بل پر بحث ہو گی۔

انہوں نے کہا اس کے بعد اس کو قانونی شکل دیدی جائے گی اور زمینوں کا مسئلہ ہمیشہ کیلئے حل ہو جائے گا۔ ہمارا شروع سے یہ موقف رہا ہے کہ عوام کو حق ملکیت ملنا چاہیئے، زمینوں کے مالک عوام ہیں، معدنیات پر قانون سازی سے قبل عوام کو اعتماد میں لینا ناگزیر ہے، بصورت دیگر مسائل آئیں گے، پہاڑوں اور ان میں چھپے معدنیات سے اب تک یہاں کے عوام کو اب تک کچھ نہیں ملا ہے حالانکہ پہاڑوں اور معدنیات کے اسٹیک ہولڈر جی بی کے بیس لاکھ عوام ہیں، آج قانون سازی کے بعد بھی لوگوں کو کچھ نہیں ملے گا تو عوام کیسے خاموش رہیں گے، اگر ہم عوام کے حقوق کا تحفظ نہ کر سکے تو ہم عوام کے پاس جائیں گے، وہ جو کہیں گے قبول کریں گے، معدنیات کا قانون اسمبلی کو بائی پاس کر کے نہیں بنایا جا سکتا، مرضی کی قانون سازی ہو گی تو نتائج دور رس نہیں نکلیں گے۔ کمیونٹی کو قانون سازی کے بعد فوائد ملنے چاہیں، عوام کو جب تک شیئر نہیں ملے گا تب تک عوام قانون سازی پر عمل درآمد نہیں ہونے دیں گے۔ گلگت بلتستان کو بلوچستان کے طرز پر ٹریٹ کریں گے تو مسائل بڑھیں گے، اس لئے اس خطے کو سندھ کے طرز پر ٹریٹ کیا جائے تاکہ یہاں کے عوام کے اعتماد کو بحال رکھ کر علاقے کی تعمیر و ترقی کیلئے کچھ نہ کچھ کیا جا سکے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: معدنیات سے عوام کو

پڑھیں:

قائمہ کمیٹی کا جنگلات کی کٹائی کا جائزہ،سیٹلائٹ نگرانی کی سفارش

اسلام آباد(خبرنگار)قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی رابطہ نے خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر میں جنگلات کی کٹائی کا جائزہ لیتے ہوئے سیٹلائٹ کے ذریعے تصدیق اور مؤثر نگرانی کی سفارش کی ہے قائمہ کمیٹی کا اجلاس پیر کو چیئرپرسن رکن قومی اسمبلی منزہ حسن کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں منعقد ہوا کمیٹی نے اپنی سابقہ سفارشات پر عملدرآمد بالخصوص خیبر پختونخواآزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان میں ٹمبر مافیا کے ذریعے جنگلات کی کٹائی کی تحقیقات کے حوالے سے جائزہ لیاسیکرٹری ماحولیات خیبر پختونخوا نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ صوبے میں جنگلات کا رقبہ بہتر ہوا ہے جس کی تصدیق تھرڈ پارٹی نے بھی کی ہے انہوں نے قانونی کٹائی کی نگرانی 23لاکھ کیوبک فٹ ٹمبر کی ضبطگی اور 360سے زائد گاڑیوں و دیگر سامان کی ضبطگی کی تفصیلات فراہم کیں تاہم اراکین نے اس حوالے سے سوال اٹھائے اور آگ سے تحفظ کے نظام کی غیر موجودگی اور ٹمبر مافیا کی غیر قانونی سرگرمیوں کے تسلسل پر تشویش ظاہر کی۔چیئرپرسن نے اس امر کو سراہا کہ بالآخر ماحولیات کے مسائل سے نمٹنے کے لئے ایک منصوبہ وضع کیا گیا ہے گلگت بلتستان کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ اگرچہ جنگلاتی زمین بڑی حد تک محفوظ ہے تاہم 1980کی دہائی میں فرقہ وارانہ تنازعات اور امن و امان کی صورتحال بگڑنے کے باعث شدید نقصان ہوا تھاانہوں نے جنگلات کے تحفظ کیلئے آئینی ضمانتوں اور وفاقی سطح پر تکنیکی معاونت، بالخصوص ڈیجیٹل مانیٹرنگ کا مطالبہ کیا۔ سیکرٹری وزارت موسمیاتی تبدیلی نے یقین دہانی کرائی کہ جنگلات کے لئے نیشنل جی آئی ایس سسٹم جلد قائم کیا جائے گاکمیٹی نے عطا آباد جھیل پر قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہوٹلوں کی تعمیر پر تشویش کا اظہار کیا۔ گلگت بلتستان حکام نے آگاہ کیا کہ ایسے ہوٹل بند کئے جا رہے ہیں اور نئی تعمیرات پر پابندی عائد ہے آزاد جموں و کشمیر کے محکمہ جنگلات نے بتایا کہ تمام کمرشل لکڑی کاٹنے پر پابندی ہے اور آئی یو سی این کی رپورٹ کے مطابق جنگلات میں 10 فیصد اضافہ ہوا ہے تاہم اراکین نے مشاہدہ کیا کہ لکڑی کی سمگلنگ خاص طور پر دیودار اور فر کی اب بھی بڑے پیمانے پر جاری ہے جس سے پہاڑ خالی ہو رہے ہیں تفصیلی غور و فکر کے بعد کمیٹی نے سفارش کی کہ صوبائی حکومتوں کے دعووں کی تصدیق اور نگرانی کیلئے سپارکو کی سیٹلائٹ تصاویر فراہم کی جائیں۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں اراکین قومی اسمبلی میر خان محمد جمالی، شائستہ خان، سیدہ شہلا رضا، مسرت رفیق مہیسر، رانا انصار، عائشہ نذیر (آن لائن) اور شاہدہ رحمانی شریک ہوئیں جبکہ خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان، آزاد جموں و کشمیر اور وزارت موسمیاتی تبدیلی و ماحولیاتی رابطہ کے اعلی حکام بھی اس موقع پر موجود تھے۔

متعلقہ مضامین

  • پارلیمنٹ میں قرآن و سنت کے منافی قانون سازی عذاب الٰہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے، حافظ نصراللہ چنا
  • ایڈووکیٹ ایمان مزار ی کے خلاف لائسنس منسوخی کا ریفرنس دائر کردیا گیا
  • وقف ترمیمی قانون پر عبوری ریلیف بنیادی مسائل کا حل نہیں ہے، علماء
  • عمرہ زائرین کو جعل سازی سے بچانے کے لیے 113 مصدقہ عمرہ کمپنیوں کی فہرست جاری
  • ایڈووکیٹ ایمان مزاری کے لائسنس منسوخی کیلئے اسلام آباد بار کونسل میں ریفرنس دائر
  • ایڈووکیٹ ایمان مزاری کے لائسنس منسوخی کے لیے ریفرنس دائر
  • امارات میں عوام کو شدید گرمی سے بچانے کیلئے نئی منصوبہ بندی کرلی گئی
  • قائمہ کمیٹی کا جنگلات کی کٹائی کا جائزہ،سیٹلائٹ نگرانی کی سفارش
  •  روانڈا اورکانگو معدنیات کے شعبے میں امریکی ثالثی پر متفق 
  • سیلاب کی تباہ کاریاں‘ کاشتکاروں کو مالی امداد فراہم کی جائے‘سلیم میمن