لینڈ ریفارمز بل پر بلتستان اور دیامر کے تحفظات کو دور کر لیا گیا، امجد ایڈووکیٹ
اشاعت کی تاریخ: 29th, April 2025 GMT
سکردو میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے صوبائی صدر کا کہنا تھا کہ معدنیات سے متعلق قانون سازی کیلئے ضروری ہے کہ اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جائے، مجوزہ قانون میں تین حصہ دار ہو سکتے ہیں، سب سے پہلے نمبر پر عوام دوسرے نمبر حکومت اور تیسرے نمبر پر سرمایہ کار شامل ہونگے۔ ان تینوں میں سے ایک بھی راضی نہ ہوا تو قانون پر عمل درآمد ممکن نہ ہو گا۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان پیپلز پارٹی گلگت بلتستان کے صدر و رکن اسمبلی امجد حسین ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان متنازعہ علاقہ ہے، یہ تنازعہ کشمیر کا حصہ ہے، اس علاقے میں جو بھی قانون سازی کی جائے گی اس سے متعلق یہاں کے عوام کو اعتماد میں لینا ہوگا، ورنہ جو بھی قانون بنے گا اس پر عمل درآمد مشکل ہو جائے گا۔ معدنیات سے متعلق قانون سازی سے قبل یہاں کی کمیونٹی کو اعتماد میں لینا ہو گا ورنہ جو حشر دوسرے قوانین کا ہوا ہے وہی معدنیات کے قانون کا بھی ہو گا۔ سکردو میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے صوبائی صدر کا کہنا تھا کہ معدنیات سے متعلق قانون سازی کیلئے ضروری ہے کہ اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جائے، مجوزہ قانون میں تین حصہ دار ہو سکتے ہیں، سب سے پہلے نمبر پر عوام دوسرے نمبر حکومت اور تیسرے نمبر پر سرمایہ کار شامل ہونگے۔ ان تینوں میں سے ایک بھی راضی نہ ہوا تو قانون پر عمل درآمد ممکن نہ ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ زمینوں کا مسئلہ بہت ہی سنجیدہ مسئلہ ہے، اس کو خوش اسلوبی کے ساتھ حل کیا جا رہا ہے، لینڈ ریفارمز بل پر بلتستان اور دیامر سے آنے والے تحفظات کو دور کر لیا گیا ہے اور سب کیلئے قابل مسودہ تیار کر کے کابینہ سے منظور کرا کر اسمبلی کو بھیجا گیا ہے، اب جب بھی اسمبلی کا اجلاس ہو گا تو بل پیش کر دیا جائے گا اور بل پر بحث ہو گی۔
انہوں نے کہا اس کے بعد اس کو قانونی شکل دیدی جائے گی اور زمینوں کا مسئلہ ہمیشہ کیلئے حل ہو جائے گا۔ ہمارا شروع سے یہ موقف رہا ہے کہ عوام کو حق ملکیت ملنا چاہیئے، زمینوں کے مالک عوام ہیں، معدنیات پر قانون سازی سے قبل عوام کو اعتماد میں لینا ناگزیر ہے، بصورت دیگر مسائل آئیں گے، پہاڑوں اور ان میں چھپے معدنیات سے اب تک یہاں کے عوام کو اب تک کچھ نہیں ملا ہے حالانکہ پہاڑوں اور معدنیات کے اسٹیک ہولڈر جی بی کے بیس لاکھ عوام ہیں، آج قانون سازی کے بعد بھی لوگوں کو کچھ نہیں ملے گا تو عوام کیسے خاموش رہیں گے، اگر ہم عوام کے حقوق کا تحفظ نہ کر سکے تو ہم عوام کے پاس جائیں گے، وہ جو کہیں گے قبول کریں گے، معدنیات کا قانون اسمبلی کو بائی پاس کر کے نہیں بنایا جا سکتا، مرضی کی قانون سازی ہو گی تو نتائج دور رس نہیں نکلیں گے۔ کمیونٹی کو قانون سازی کے بعد فوائد ملنے چاہیں، عوام کو جب تک شیئر نہیں ملے گا تب تک عوام قانون سازی پر عمل درآمد نہیں ہونے دیں گے۔ گلگت بلتستان کو بلوچستان کے طرز پر ٹریٹ کریں گے تو مسائل بڑھیں گے، اس لئے اس خطے کو سندھ کے طرز پر ٹریٹ کیا جائے تاکہ یہاں کے عوام کے اعتماد کو بحال رکھ کر علاقے کی تعمیر و ترقی کیلئے کچھ نہ کچھ کیا جا سکے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: معدنیات سے عوام کو
پڑھیں:
آئی سی سی ٹی20 رینکنگ کا اعلان: کوئی پاکستانی کھلاڑی ٹاپ 10 میں نہیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے تازہ ترین ٹی ٹوئنٹی رینکنگ جاری کر دی ہے، جس میں پاکستان کے کسی کھلاڑی کو ٹاپ 10 میں جگہ نہ مل سکی۔ یہ صورتحال پاکستانی شائقین کرکٹ کے لیے خاصی مایوس کن ثابت ہوئی ہے۔
بیٹنگ رینکنگ میں آسٹریلیا کے ٹریوس ہیڈ پہلے نمبر پر براجمان ہیں جبکہ بھارت کے نوجوان بلے باز ابھیشیک شرما دوسری پوزیشن پر موجود ہیں۔ بھارت ہی کے تلک ورما ایک درجہ ترقی کے ساتھ تیسرے نمبر پر پہنچ گئے ہیں۔ انگلینڈ کے فل سالٹ ایک درجہ تنزلی کے بعد چوتھے نمبر پر آ گئے ہیں، جب کہ جوز بٹلر ایک درجہ بہتری کے بعد پانچویں نمبر پر پہنچے ہیں۔ سوریا کمار یادو کو ایک درجہ تنزلی کا سامنا ہوا ہے اور وہ چھٹے نمبر پر آ گئے ہیں۔
پاکستان کے بابر اعظم اس وقت 12ویں اور محمد رضوان 13ویں نمبر پر موجود ہیں، جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ پاکستانی بیٹرز کی کارکردگی میں تسلسل کی کمی ہے۔
بولنگ رینکنگ میں نیوزی لینڈ کے جیکب ڈفی پہلے نمبر پر موجود ہیں، جبکہ انگلینڈ کے عادل رشید دو درجے بہتری کے بعد دوسرے نمبر پر پہنچ گئے ہیں۔ بھارت کے ورون چکرورتی کی تیسری پوزیشن برقرار ہے۔ اس فہرست میں بھی کوئی پاکستانی بولر ٹاپ ٹین میں جگہ نہیں بنا سکا۔ حارث رؤف اور عباس آفریدی ایک ایک درجہ بہتری کے ساتھ بالترتیب 19ویں اور 20ویں نمبر پر آ گئے ہیں۔
آل راؤنڈرز کی فہرست میں بھارت کے ہاردک پانڈیا پہلی پوزیشن پر براجمان ہیں، اور ان کا نمبر بھی مستحکم ہے۔
رینکنگ میں پاکستانی کھلاڑیوں کی عدم موجودگی ایک لمحہ فکریہ ہے، جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ عالمی سطح پر بہتر کارکردگی کے لیے گرین شرٹس کو مزید محنت، حکمت عملی اور تسلسل کی ضرورت ہے۔