کرکٹ میچ کے دوران "پاکستان زندہ باد" کا نعرہ لگانے والے شخص کو ہجوم نے مار مار کر ہلاک کردیا
اشاعت کی تاریخ: 29th, April 2025 GMT
ریاستی وزیر نے بتایا کہ ایک نامعلوم شخص کیساتھ ہجومی تشدد کا واقعہ پیش آیا ہے، مجھے بتایا گیا کہ وہ مقامی کرکٹ میچ کے دوران "پاکستان زندہ باد" کے نعرے لگا رہا تھا۔ اسلام ٹائمز۔ بھارت کی جنوبی ریاست کرناٹک کے منگلورو میں اتوار کو مقامی کرکٹ میچ کے دوران مبینہ طور پر "پاکستان زندہ باد" کا نعرہ لگانے پر ایک شخص کو ہجوم نے پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا، جس کے بعد 15 سے زائد افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور مزید تفتیش جاری ہے۔ کرناٹک کے وزیر داخلہ جی پرمیشورا نے واقعہ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ متاثر شخص کی موت موقع واردات پر نہیں ہوئی بلکہ بعد میں علاج کے دوران اس کی موت ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ فی الحال کیس میں تفصیلی رپورٹ کا انتظار ہے اور ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
ریاستی وزیر نے بتایا کہ ایک نامعلوم شخص کے ساتھ ہجومی تشدد کا واقعہ پیش آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے بتایا گیا کہ وہ مقامی کرکٹ میچ کے دوران "پاکستان زندہ باد" کے نعرے لگا رہا تھا، جس کی وجہ سے کچھ لوگوں نے اسے مارا پیٹا، جس کے نتیجے میں وہ ہلاک ہوگیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے ابھی تک مکمل رپورٹ موصول نہیں ہوئی ہے اور 12 افراد کو گرفتار کرنے کے لئے مکمل تفتیش کی جا رہی ہے۔ تفصیلات کے مطابق یہ واقعہ اتوار کو تقریباً 3 بجے ایک کرکٹ ٹورنامنٹ کے دوران پیش آیا۔ اس میں دس ٹیمیں اور 100 سے زائد کھلاڑی شامل تھے۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ متاثرہ اور سچن نامی شخص کے درمیان ہاتھا پائی سے تشدد شروع ہوا جو جلد ہی ہجوم کے حملے میں بدل گیا۔
اس دوران کچھ راہگیروں نے مداخلت کرنے کی کوشش کی، لیکن بھیڑ کے ایک حصے نے اس شخص کو لاٹھیوں سے مارنا اور لاتیں اور گھونسے مارنا جاری رکھا۔ شام 5.
وینلاک ڈسٹرکٹ اسپتال میں کئے گئے پوسٹ مارٹم میں اس بات کی تصدیق ہوئی کہ اس شخص کی موت اندرونی خون بہنے سے ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق متوفی کے اعضاء، کمر اور کولہوں وغیرہ پر چوٹیں تھیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ کیس ایک 33 سالہ مقامی رہائشی دیپک کمار کی شکایت کے بعد درج کیا گیا ہے۔ ایف آئی آر میں 19 افراد کو نامزد کیا گیا ہے اور سی سی ٹی وی فوٹیج اور موبائیل ڈیٹا کے تجزیے سے مزید مشتبہ افراد کی شناخت ہونے کا امکان ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کرکٹ میچ کے دوران پاکستان زندہ باد نے کہا کہ ہے اور گیا ہے کے بعد
پڑھیں:
ایرانی حملے میں ہلاک ہونے والے پاسداران انقلاب کے سربراہ جنرل سلامی کون تھے؟
اسرائیلی حملے میں شہید ہونے والے میجر جنرل حسین سلامی، ایران کی اسلامی انقلابی گارڈ کور (IRGC) کے چیف کمانڈرتھے۔ وہ ایران کے طاقتور ترین فوجی اور سیاسی شخصیات میں شمار ہوتے تھے اور انہیں ایران کے دفاع، خارجہ پالیسی، اور خطے میں عسکری حکمت عملی کی تشکیل میں مرکزی حیثیت حاصل تھی۔
پیدائش و ابتدائی تعلیم:
جنرل حسین سلامی 1960ء میں ایران کے صوبہ ہمدان میں پیدا ہوئے۔ ایران-عراق جنگ (1980–1988) کے دوران انہوں نے ایرانی افواج میں شمولیت اختیار کی اور میدانِ جنگ میں نمایاں کارکردگی دکھائی۔
تعلیم:
انہوں نے ایران کی ایرو اسپیس یونیورسٹی سے انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کی اور بعد ازاں IRGC کی ایرو اسپیس فورس کے کمانڈر بنے۔ ان کے پاس فوجی اسٹریٹیجی، ایوی ایشن، اور میزائل ٹیکنالوجی میں خاص تجربہ تھا۔
عسکری ترقی اور عہدے:
حسین سلامی 1990 کی دہائی میں IRGC کے اعلیٰ کمانڈ میں شامل ہوئے۔ انہوں نے IRGC کی ایرو اسپیس فورس کی کمان سنبھالی، جو ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام کی نگرانی کرتی ہے۔
2009 میں انہیں پاسداران انقلاب کا نائب سربراہ مقرر کیا گیا، اور اپریل 2019 میں انہیں سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے پاسداران انقلاب کا سربراہ مقرر کیا۔
نظریاتی وابستگی:
سلامی ایک سخت گیر نظریاتی شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے۔ وہ امریکا، اسرائیل اور مغربی طاقتوں کے خلاف ایران کی مزاحمتی حکمت عملی کے حامی تھے۔
ان کا ماننا تھا کہ ایران کو ایک ’خود کفیل مزاحمتی طاقت‘ کے طور پر ابھرنا چاہیے، جس کے لیے انہوں نے عسکری طاقت کو مرکزیت دی۔
بین الاقوامی کردار:
جنرل سلامی نے شام، لبنان، عراق اور یمن میں ایران کے عسکری اثر و رسوخ کو بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کا شمار ان رہنماؤں میں ہوتا تھا جو ’محورِ مزاحمت‘ (Axis of Resistance) کو ایک عملی حقیقت میں تبدیل کرنے کے لیے سرگرم تھے۔
امریکی پابندیاں:
2020 میں امریکہ نے انہیں باقاعدہ طور پر سینکشنز (پابندیوں) کی فہرست میں شامل کیا، جس کی وجہ خطے میں ایران کی بڑھتی عسکری سرگرمیاں اور داخلی مظاہروں کے خلاف سخت اقدامات تھے۔
شہادت کا پس منظر:جنرل حسین سلامی جمعہ، 13 جون 2025 کو اسرائیل کے تہران پر کیے گئے ایک بڑے فضائی حملے میں شہید ہو گئے۔ ان کی شہادت کو ایران میں نہ صرف عسکری نقصان بلکہ ایک ’علامتی قومی سانحہ‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
ان کی جگہ ممکنہ طور پر ایک نئی عسکری قیادت ابھرے گی، مگر ان کا خلا پُر کرنا بلاشبہ ایران کے لیے ایک چیلنج ہو گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں