اسلام آباد ( ڈیلی پاکستان آن لائن ) مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ امریکہ نے ثالثی کا کردار ادا کرنے کیلئے کوئی رابطہ نہیں کیا۔
نجی ٹی وی دنیا نیوز کے مطابق سینیٹر عرفان صدیقی نے ”دنیا نیوز“سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بڑا انکشاف کیا کہ پاکستان نے بھی امریکہ سے ثالثی سے متعلق کوئی رابطہ نہیں کیا، کہتے ہیں دیگر ممالک ثالثی کیلئے رابطہ کر رہے ہیں، ہم جنگ کی شروعات نہیں کریں گے۔
عرفان صدیقی کا مزید کہنا تھا کہ ہم پر جنگ مسلط کی گئی تو بھرپور جواب دیں گے، بھارت کو اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے، بھارت کے پاس صلاحیت ہی نہیں کہ ہمارا پانی روک سکے۔

اسرائیل کا غزہ پر اتنا شدید حملہ کہ زلزلے جیسے جھٹکے پیدا ہوگئے

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

کلیدی لفظ: عرفان صدیقی

پڑھیں:

بھارت سندھ طاس معاہدہ معطل کرکے ثالثی عدالت کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے، اشتر اوصاف

اسلام آباد:سابق اٹارنی جنرل آف پاکستان اور ماہر قانون دان اشتر اوصاف نے کہا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی بھارت کا وطیرہ ہے، بھارت معاہدہ معطل کرکے عالمی بینک کی ثالثی عدالت کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے، معاہدے کو ختم کرنے سے نقصان سراسر بھارت کا ہوگا، اس کی عالمی ساکھ ختم ہوجائے گی، ثالثی عدالت اس اقدام کو کالعدم کردے گی۔

ماہر قانون دان اور سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے سرکاری ٹی وی سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان اور بھارت نے1951میں اپنےآبپاشی نطام کو درست کرنےکی منصوبہ بندی کی اور دونوں ممالک ورلڈ بینک گئے، ورلڈبینک نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان پانی کی تقسیم پر جھگڑے ختم ہونے تک کوئی مالی، تکنیکی اور اسٹرٹیجک امداد نہیں دی جاسکتی۔

اشتر اوصاف نے مزید کہا کہ 1951 سے لے کر 1960 تک اس معاملے پر بے شمار کام ہوا، دونوں ممالک کے ماہرین بیٹھے، باقاعدہ طریقے سے ناپ طول کے بعد دونوں ممالک کو بتایا گیا کہ کون سی چیز ان کے مفاد میں ہے اور کوئی سی چیز مفاد میں نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ سارا معاملہ 6 دریاؤں کے مابین تھا اور طے یہ ہوا کہ تمام دریا برابر تقسیم کردیے جائیں لہٰذا شواہد، سوچ اور سائنسی نتائج کی بنیاد پر فیصلہ کیا گیا کہ راوی، بیاس اور ستلج بھارت کو دے دیے جائیں جبکہ دریائے سندھ،جہلم اور چناب پاکستان کو دیے جائیں اور دونوں ممالک بلاروک ٹوک اپنے حصے کا پانی استعمال کریں۔

اشتر اوصاف نے کہا کہ یہ معاہدہ انتہائی شفاف، منصفانہ اور عالمی اصولوں کے مطابق تھا، 1960 میں جواہر لال نہرو اور صدر ایوب خان نے کراچی میں اس معاہدے پر دستخط کیے جبکہ عالمی بینک نہ صرف ضامن ہے بلکہ اس معاہدے پر اس کے دستخط بھی موجود ہیں۔

سابق اٹارنی جنرل نے بتایا کہ طے یہ پایا تھا کہ سندھ طاس معاہدہ اس وقت تک کارآمد رہے گا جب تک کہ فریقین آپس میں بیٹھ کر کوئی رد و بدل نہ کریں، اس معاہدے کے معطل ہونے کا کوئی تصور بھی نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ معاہدات معطل نہیں ہوسکتے، انہیں منسوخ کیا جاسکتا ہے یا ان میں ترمیم کی جاسکتی ہے، عالمی قوانین میں معاہدات کو معطل کرنے کا کوئی تصور نہیں ہے۔

اشتر اوصاف نے مزید کہا کہ کئی جنگوں اور چھوٹے تنازعات کے باوجود سندطاس معاہدے میں کوئی تعطل نہیں آیا، یہ معاہدہ دنیا کے ان معاہدوں میں سے ایک ہے جو وقت اور حالات کے امتحانات میں کامیاب رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت کا سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا دعویٰ لغو ہے، اس کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے، اگر کچھ ہے تو وہ سیاسی گیدڑ بھبکی ہے، انہوں نے کہا کہ جس واقعے کو بہانہ بنایا گیا ہے اس کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس واقعے کی ایف آئی آر میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ قرین از قیاس بھی نہیں ہے۔

اشتر اوصاف نے کہا کہ ایف آئی آر میں لکھاگیا ہے کہ ہمیں معتبر ذرائع سے ہمیں پتہ چلا ہے کہ سرحد پار آقاؤں کے ایما پر خود کار ہتھیاروں سے سیاحوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، واقعے کے 10 منٹ بعد ایف آئی آر درج کردی گئی، اس طرح کی تمام ایف آئی آرز فالس فلیگ آپریشن ہوتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس اقدام کا مقصد عالمی بینک کی جانب سندھ طاس معاہدے پر عملدرآمد کے لیے قائم کردہ ثالثی عدالت کو ثبوتاژ کرنا ہے، انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں نقصان بھارت کا ہوگا، کیونکہ معاہدے پر عملدرآمد ایک قانونی پابندی ہے، اور اگر کوئی ملک معاہدے کی پاسداری سے پیچھے ہٹ جائے تو پھر دیگر ممالک اس ملک کے ساتھ معاہدے نہیں کرتے۔

انہوں نے کہاکہ جو ملک اس قسم کے معاہدات کے حوالے سے یکطرفہ اقدام کرتا ہے وہ خود کو پابندیوں کے لیے ایکسپوز کرتا ہے، جو ممالک معاہدات کی خلاف ورزی کرتے رہے ہیں ان پر پابندیاں لگی ہیں اور جن میں اقتصادی اور تجارتی پابندیاں بھی شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا سب سے پہلا آپشن تو یہ ہے کہ جو ثالثی عدالت پہلے سے تشکیل دی جاچکی ہے، اس میں ایک اور ثالثی عدالت کی تشکیل کے لیے درخواست دی جائے اور ثالثی عدالت کو آگاہ کیا جائے کہ بھارت نے کیا کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ ثالثی عدالت بھارتی اقدام کو کالعدم کردے گی کیونکہ اس طرح کی کوئی نظیر نہیں ہے، انہوں نے کہاکہ سندھ طاس معاہدہ پاکستان کا حق ہے، نہ اسے منسوخ کیا جاسکتا ہے، نہ اس میں کوئی ترمیم کی جاسکتی ہے جب تک کہ دونوں فریقین اس پر متفق نہ ہوں۔

اشتر اوصاف نے کہا کہ بھارتی حکومت اپنے سیاسی مفادات کے لیے اپنے لوگوں کے مفادات کو قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کررہی، انہوں نے بھارتی حکومت کو مشورہ دیا کہ ابھی بھی وقت ہے، وہ ہوش کے ناخن لے کیوں کہ اس اقدام سے اس کی ساکھ ایسے مجروح ہوگی کہ جس کا آپ ازالہ نہیں ہوسکے گا، کوئی ملک، کوئی فریق اور کوئی انویسٹر اس پر اعتبار کرنے پر تیار نہیں ہوگا کہ اس کے ساتھ جو معاہدات ہوں گے اس کی کیاحیثیت ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ اگر اس معطلی کو برقرار رکھا گیا تو پاکستان کے پاس تمام آپشن موجود ہوں گے، مجھے یقین ہے کہ ہماری حکومت، ہماری افواج اور ہمارے عوام ایک پیج پر ہوں گے اور سیاسی تقسیم کے باوجود سب ساتھ کھڑے ہوں گے اور بھارت کو مناسب جواب دیں گے۔

Post Views: 1

متعلقہ مضامین

  • وزیراعظم کا یواین سیکرٹری جنرل سے رابطہ، مسئلہ کشمیرکے حل کیلئے کردار ادا کرنےکا مطالبہ
  • سینیٹر عرفان صدیقی کی 2019 میں عمران خان کے بھارت کو دیے گئے جواب کی تعریف
  • پہلگام فالس فلیگ آپریشن کے تمام پہلو مشکوک ہیں، بھارت کا جھوٹ چلنے والا نہیں، عرفان صدیقی
  • سیاسی اختلافات پس پشت ڈال کر بھارت کے خلاف ہم سب متحد ہیں: عرفان صدیقی
  • پاکستان کوئی بابری مسجد نہیں کہ چند بھارتی غنڈے آئیں اور ختم کر دیں،سینیٹر عرفان صدیقی
  • پاکستان کوئی بابری مسجد نہیں کہ چند بھارتی غنڈے آئیں اور ختم کر دیں، عرفان صدیقی
  • پاکستان کوئی بابری مسجد نہیں کہ چند بھارتی غنڈے آئیں اور ختم کر دیں، عرفان صدیقی
  • سیاسی اختلافات پس پشت ڈال کر بھارت کے خلاف ہم سب متحد ہیں، عرفان صدیقی
  • بھارت سندھ طاس معاہدہ معطل کرکے ثالثی عدالت کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے، اشتر اوصاف